Safia kausar
محفلین
"زمیندار بس"
ٹھسا ٹھس مسافر بھرے جا رہے ہیں
ہُوا کیا جو گُھٹ کر مرے جارہے ہیں
تجوری میں پیسے کھرے جا رہے ہیں
یہ سروس زراہِ ہوس چل رہی ہے
زمیندار بستی کی بس چل رہی ہے
نہ بیٹھا نہ ڈھب سے کھڑا ہے مسافر ہے
مسافر کے اوپر پڑا ہے مسافر
بہت جی ہی جی میں لڑا ہے مسافر
کشا کش نفس درنفس چل رہی ہے
زمیندار بستی کی بس چل رہی ہے
سہے وقت کی کوئی توہین کب تک
مسافر رہیں گے گھڑی بین کب تک
یہ بولا چلے گی یہ بے دین کب تک
وہ بولا کہ اگلے برس چل رہی ہے
زمیندار بستی کی بس چل رہی ہے
اگر روٹ پرمٹ اسے راس ہوتا
ٹکٹ کوئی ہوتا کوئی پاس ہوتا
عبث دیر کرنے کا احساس ہوتا
سوا سات چلنی تھی دس چل رہی ہے
زمیندار بستی کی بس چل رہی ہے
چلی ہے تو ہر پیچ نوحہ کناں ہے
فغاں خیز انجن دھواں ہی دھواں ہے
رواں ہارن ایسا سرِکارواں ہے
کہ میلوں صدائے جرس چل رہی ہے
زمیندار بستی کی بس چل رہی ہے
کوئی میل بھر میں یہ سو بار ٹھہری
سڑک اس کے رستے میں دیوار ٹھہری
اجی یوں تو یہ برق رفتار ٹھہری
کچھ اڑیل کلوں میں اُڑس چل رہی ہے
زمیندار بستی کی بس چل رہی ہے
عجب موڑ موڑی عجب جھوک لی ہے
کہ بمپر میں چھکڑے کی دُم ٹھوک لی ہے
پولیس کے جواں نے جو اب روک لی ہے
نہ بس چل رہاہے نہ بس چل رہی ہے
زمیندار بستی کی بس چل رہی ہے
جھکولوں سے جب کارواں جھولتا ہے
مسافر مسافر کا منہ چومتا ہے
پھنسا پیر سوتا ہے سر گھومتا ہے
دبی نبض ساکت ہے نس چل رہی ہے
زمیندار بستی کی بس چل رہی ہے
جہاں قید ہے اک زنانی سواری
وہاں ایک حضرت پہ ہے وجد طاری
ذرا ٹانگ دیکھو کدھر ہے پساری
یہ جوتے سے جوتی کی مَس چل رہی ہے
زمیندار بستی کی بس چل رہی ہے
ڈریور بھی نکلا ہے مجنوں کہیں کا
تعاقب ہے لیلائے موٹر نشیں کا
ٹرک پشت پر خان چیں بر جبیں کا
قضا الغرض پیش و پس چل رہی ہے
زمیندار بستی کی بس چل رہی ہے
مقابل جہاں کوئی لاری ہوئی ہے
عجب کیفیت سب پہ طاری ہوئی ہے
زباں پر رواں حمدِ باری ہوئی ہے
مناجاتِ فریاد رس چل رہی ہے
زمیندار بستی کی بس چل رہی ہے
میّسر ہو کیا چیز تشنہ وہاں کو
کبھی تیل چاٹو کبھی دھول پھانکو
ادھر جب بھی کھڑکی سے منزل کو جھانکو
وہی وادی خار و خس چل رہی ہے
زمیندار بستی کی بس چل رہی ہے
کہاں دھول کھا کھا کے سیری ہوئی ہے
میسر جہاں بھی گنڈیری ہوئی ہے
گنڈیری نہ تیری نہ میری ہوئی ہے
جھپٹ چھین کیسی لُٹس چل رہی ہے
زمیندار بستی کی بس چل رہی ہے
شکارِحوادث کیے جا رہے ہیں
مگر جینے والے جیے جا رہے ہیں
دھواں دھار سگرٹ پیے جا رہے ہیں
مَدک اڑ رہی ہے چرس چل رہی ہے
زمیندار بستی کی بس چل رہی ہے
بیاباں میں انجن ہوا فیل آخر
مشقت کی خاطر کھلی جیل آخر
دھکا پیل ثابت ہوئی کھیل آخر
نہ ٹُھس چل رہی ہے نہ ٹَھس چل رہی ہے
زمیندار بستی کی بس چل رہی ہے
کلام : نزیر احمد شیخ
مآخذ : "حرف بشاش"
ٹھسا ٹھس مسافر بھرے جا رہے ہیں
ہُوا کیا جو گُھٹ کر مرے جارہے ہیں
تجوری میں پیسے کھرے جا رہے ہیں
یہ سروس زراہِ ہوس چل رہی ہے
زمیندار بستی کی بس چل رہی ہے
نہ بیٹھا نہ ڈھب سے کھڑا ہے مسافر ہے
مسافر کے اوپر پڑا ہے مسافر
بہت جی ہی جی میں لڑا ہے مسافر
کشا کش نفس درنفس چل رہی ہے
زمیندار بستی کی بس چل رہی ہے
سہے وقت کی کوئی توہین کب تک
مسافر رہیں گے گھڑی بین کب تک
یہ بولا چلے گی یہ بے دین کب تک
وہ بولا کہ اگلے برس چل رہی ہے
زمیندار بستی کی بس چل رہی ہے
اگر روٹ پرمٹ اسے راس ہوتا
ٹکٹ کوئی ہوتا کوئی پاس ہوتا
عبث دیر کرنے کا احساس ہوتا
سوا سات چلنی تھی دس چل رہی ہے
زمیندار بستی کی بس چل رہی ہے
چلی ہے تو ہر پیچ نوحہ کناں ہے
فغاں خیز انجن دھواں ہی دھواں ہے
رواں ہارن ایسا سرِکارواں ہے
کہ میلوں صدائے جرس چل رہی ہے
زمیندار بستی کی بس چل رہی ہے
کوئی میل بھر میں یہ سو بار ٹھہری
سڑک اس کے رستے میں دیوار ٹھہری
اجی یوں تو یہ برق رفتار ٹھہری
کچھ اڑیل کلوں میں اُڑس چل رہی ہے
زمیندار بستی کی بس چل رہی ہے
عجب موڑ موڑی عجب جھوک لی ہے
کہ بمپر میں چھکڑے کی دُم ٹھوک لی ہے
پولیس کے جواں نے جو اب روک لی ہے
نہ بس چل رہاہے نہ بس چل رہی ہے
زمیندار بستی کی بس چل رہی ہے
جھکولوں سے جب کارواں جھولتا ہے
مسافر مسافر کا منہ چومتا ہے
پھنسا پیر سوتا ہے سر گھومتا ہے
دبی نبض ساکت ہے نس چل رہی ہے
زمیندار بستی کی بس چل رہی ہے
جہاں قید ہے اک زنانی سواری
وہاں ایک حضرت پہ ہے وجد طاری
ذرا ٹانگ دیکھو کدھر ہے پساری
یہ جوتے سے جوتی کی مَس چل رہی ہے
زمیندار بستی کی بس چل رہی ہے
ڈریور بھی نکلا ہے مجنوں کہیں کا
تعاقب ہے لیلائے موٹر نشیں کا
ٹرک پشت پر خان چیں بر جبیں کا
قضا الغرض پیش و پس چل رہی ہے
زمیندار بستی کی بس چل رہی ہے
مقابل جہاں کوئی لاری ہوئی ہے
عجب کیفیت سب پہ طاری ہوئی ہے
زباں پر رواں حمدِ باری ہوئی ہے
مناجاتِ فریاد رس چل رہی ہے
زمیندار بستی کی بس چل رہی ہے
میّسر ہو کیا چیز تشنہ وہاں کو
کبھی تیل چاٹو کبھی دھول پھانکو
ادھر جب بھی کھڑکی سے منزل کو جھانکو
وہی وادی خار و خس چل رہی ہے
زمیندار بستی کی بس چل رہی ہے
کہاں دھول کھا کھا کے سیری ہوئی ہے
میسر جہاں بھی گنڈیری ہوئی ہے
گنڈیری نہ تیری نہ میری ہوئی ہے
جھپٹ چھین کیسی لُٹس چل رہی ہے
زمیندار بستی کی بس چل رہی ہے
شکارِحوادث کیے جا رہے ہیں
مگر جینے والے جیے جا رہے ہیں
دھواں دھار سگرٹ پیے جا رہے ہیں
مَدک اڑ رہی ہے چرس چل رہی ہے
زمیندار بستی کی بس چل رہی ہے
بیاباں میں انجن ہوا فیل آخر
مشقت کی خاطر کھلی جیل آخر
دھکا پیل ثابت ہوئی کھیل آخر
نہ ٹُھس چل رہی ہے نہ ٹَھس چل رہی ہے
زمیندار بستی کی بس چل رہی ہے
کلام : نزیر احمد شیخ
مآخذ : "حرف بشاش"