Rashid Ashraf
محفلین
جن لوگوں کو اسٹیج پر مزاحیہ ڈرامے دیکھنے کا اتفاق ہوا ہو، وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ ان ڈراموں کا آغاز اچھے انداز سے ہوتا ہے، لیکن مزاح کا معیار ی تسلسل برقرار رکھنا خالہ جی کا گھر نہیں، درمیان میں ’بھرتی کی کامیڈی‘ کی مدد سے اسے طول دیا جاتا ہے،جہاں ناظرین کی اکتاہٹ کو محسوس کیا، وہاں ایک صحت مند قسم کی رقاصہ کو میدان میں اتارا جاتا ہے کہ ناظرین جمے بیٹھے رہیں۔ لکھ رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ‘ میں بھی یہی انداز اپنایا گیا ہے۔ مصنف اپنے قارئین کی خوشی کی خاطر ایسے واقعات کو بیان کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے جہاں ’ عاشقی میں عزت سادات ‘کے جانے کا خدشہ لاحق ہوتا نظر آتا ہے۔ وہ جملے بازی کے شوق میں اپنے دوست کی بیگمات کو بھی نہیں بخشتے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے یہ جملے پڑھ کر شاید اس کتاب کے کاتب کو بھی ہنسی نہ آئی ہو، قاری تو دور کی بات ہے۔ ہاں ، یہ بھی ممکن ہے کہ اس کتاب کی کتابت بھی مصنف نے خود ہی کی ہو، اس صورت میں ہمیں اپنے الفاظ واپس لینے پڑیں گے۔ مصنف اپنے ایک دوست کے گھر کھانے پر مدعو تھے، گپ شپ کا سلسلہ چل رہا تھا، فون کی گھنٹی بجی اور خاتون فون سننے گئیں، واپسی پر مصنف اور وہاں بیٹھے ایک دوسرے دوست کے سامنے گلہ کرنے لگیں کہ ان کی خریدی ہوئی نئی استری خراب ہوگئی، وہ کل اسے واپس کرنے جائیں گی، پیسے تو دکاندار دے گا نہیں البتہ جو ملے گا لے آئیں گی۔
’’ بھاگتے بھوت کی لنگوٹی ہی سہی‘‘ خاتون نے اپنی بات کے آخر میں کہا
اس بات پر ہمارے ممدوح رواں ہوگئے: ’’ کسی کی بھی لنگوٹی کو ہتھیانے کی کوشش ، خواہ وہ بھوت ہی کیوں نہ ہو، انتہائی غیر شریفانہ حرکت ہے، خصوصا ایک خاتون کے لیے، شریف بہو بیٹیوں کو اس قسم کے محاورے استعمال کرنے سے بھی گریز کرنا چاہیے ‘‘
ساتھ بیٹھے دوست نے مصنف کو ٹوکا: ’’ بولے چلے جا رہے ہو، یہ نہیں دیکھ رہے ہو کہ وہ تمہیں کچا کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی ہیں‘‘
مصنف نے جواب دیا ’ یہ دوسری غلط حرکت ہوگی، کیونکہ نامحرم کو اس طرح دیکھنا بہت ہی نامناسب بات ہے‘
’’ میں حرام چیزیں نہیں کھاتی‘‘ خاتون نے تنک کر کہا
’’ میں خود کو حلال کروانے پر راضی ہوں‘‘ ۔ مصنف نے جواب دیا
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ شریف بہو بیٹیوں ‘کے گھر پر بیٹھ کر اس قسم کی باتیں کرنا کہاں تک درست ہے ؟ نیز یہ کہ اس دوران خاتون کے شوہر (مصنف کے عزیز دوست) کہاں تھے؟ ہمارے معاشرے میں عموما دوست کی بیوی کو بھابی کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے اور یہ رشتہ ایک قابل اعتماد اور پرخلوص رشتہ سمجھا جاتا ہے۔ مصنف کی خود کو اپنے ہی دوست کی بیوی پر حلال کروانے کی برملا خواہش کا کیا نتیجہ نکلا، کتاب میں اس کا کوئی بیان نہیں ملتا۔
ایک دوسرے واقعے میں، جس کو مصنف نے ایک علاحدہ صفحے پر پانچ جملوں میں چھیڑ چھاڑ کے عنوان کے ساتھ اہتمام سے لکھا ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ’’شادی کی تقریب میں ایک پرانے دوست کی بیگم نظر آئیں، ان کے پاس جاکر میں نے مذاقا کچھ کہا، وہ بولیں چھیڑ چھاڑ کی عادت نہیں گئی ، کچھ تو اپنی عمر کا لحاظ کریں۔میں بولا عمر ہی کا تو لحاظ ہے ورنہ ادھر (قریب بیٹھی لڑکیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے) نہ جاتا۔ وہ بہت محظوظ ہوئیں۔‘‘
مشتاق احمد یوسفی نے ایک جگہ لکھا تھا کہ بارش کے بعد بیر بہوٹیاں اور بہو بیٹیاں، دونوں باہر نکل آتی ہیں۔ گمان ہے کہ جعفری صاحب کے بیان کردہ ان واقعات میں موجود فرضی (بظاہر) خواتین اسی قبیل کی رہی ہوں گی۔ استاد لاغر مراد آبادی نے یہ واقعہ سن کر فہمائشی انداز میں ارشاد فرمایا ، میاں ، جیسی روح ویسے فرشتے، تم کیوں ہلکان ہوتے ہو!
ایک اور جگہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دن ترنگ میں آکر ایک ہمجولی کو بیٹی کہہ دیا۔ وہ اٹھلا کر بولیں اب میں اتنی کم عمر نہیں ہوں۔‘‘۔
مصنف کی طبیعت میں رنگین مزاجی کا عنصر اوائل عمری ہی سے رہا۔ عشق کے باب میں ایک جگہ اپنے بارے میں لکھتے ہیں ’ میں نے بے شمار عشق کیے، میرے عشق عمر، مذہب، قومیت کی پابندیوں سے آزاد رہے۔ میرے عشق کی مدت چند منٹ، چند گھنٹوں، دنوں ہفتوں اور مہینوں تک محدود رہی۔‘ ۔نصف سے زیادہ کتاب میں اسی قسم کے روح پرور واقعات لکھ لینے کے بعد مصنف کو خیال آیا کہ موت کو بھی یاد کرلیا جائے لیکن اس بیان میں بھی انہوں نے مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی۔چشم تصور میں اپنے انتقال اور اس کے بعد اہل خانہ پر اس کے اثرات کو دیکھا اور اس میں قاری کو بھی زبردستی شریک کرلیا۔ مصنف کو یونہی خیال آیا کہ ان کے مرنے کا دعوت نامہ اگر ہوتا تو کچھ اس قسم کا ہوتا:
میرا انتقال
بتاریخ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔، بروز ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہونا قرار پایا ہے۔پروگرام حسب ذیل ہے
روانگی جلوس: ایک بجے دوپہر
نماز: ڈیڑھ بجے دوپہربمقام سلطان مسجد
تدفین: ڈھائی بجے
طعام: تین بجے
بتاریخ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔، بروز ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہونا قرار پایا ہے۔پروگرام حسب ذیل ہے
روانگی جلوس: ایک بجے دوپہر
نماز: ڈیڑھ بجے دوپہربمقام سلطان مسجد
تدفین: ڈھائی بجے
طعام: تین بجے
پروگرام کی آخری پیشکش سب سے زیادہ پر کشش ہے اور گمان غالب ہے کہ شرکاء اسی میں سب سے زیادہ دلچسپی لیں گے ماسوائے ’لکھ رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ‘ کے قارئین کو چھوڑ کر کہ وہ تو کتاب کے مطالعے کے بعد حلق تک ُپر ہو چکے ہوں گے۔
ذہنی پراگندی کی اس تشویشناک حالت کو مصنف نے ایک جگہ خود ان الفاظ میں بیان کردیا ہے ، ہماری نظر میں تو یہ ان کا اعترافی بیان سمجھا جانا چاہیے:
’’ راتوں کو سوتے سوتے نہ جانے کیوں آنکھ کھلتی ہے تو فیض کے قطعے ’رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی‘ کا ورد ہورہا ہوتا ہے ۔ پریشانی اس بات کی ہے کہ یہ ’تری’ کون ہیں جن کی کھوئی ہوئی یاد نہیں آپارہی،آخر یہ چکر کیا ہے ؟ کہیں سٹھیانے کے اثرات تو نہیں ؟
آئیے اب کتاب میں موجود مصنف کے پر بہار قلم سے نکلے یک سطری جواہر پاروں پر بھی ایک نظر ڈال لیں جن کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی :
َ۔ خدا گنجے کو ناخن نہیں دیتا لیکن میں نے لاتعداد گنجوں کے ناخن دیکھے ہیں بلکہ اپنا سر کھجاتے ہوئے پایا
۔ جب ہر طرح کی آزادی ہے تو سوال یہ ہے کہ ڈکیتی کی آزادی کیوں نہ ہو
۔ میں نے آج تک کسی کتے، بلی، گدھے، گھوڑے کو گنجا نہیں پایا
۔ لیکن یہ آپ کے پلے(اس لفظ کے پ پر زبر دے کر پڑھیں، زبر نیجے گر کر زیر ہوگیا تو مفہوم بدل جائے گا) نہیں پڑے گا
۔ میں تشدد کے ہمیشہ خلاف تھا، فٹ بال نسبتا امن پسند کھیل لگا سو اسے اپنا لیا۔
۔میں اپنی شادی کا کارڈ دینے گیا تو ہونے والی سالی کے سامنے ایک (اجنبی) بچہ آیا اور ابو کہہ کر مجھ سے لپٹ گیا۔
۔میں پیدائشی بزرگ واقع ہوا ہوں، یعنی میں جب اس سیارے پر جسے لوگ دنیا بھی کہتے ہیں،وارد ہوا تو یہاں پر پہلے ہی سے بہت سے لوگ موجود تھے جن کا میں رشتہ میں ماموں یا چچا تھا۔
۔بڑھاپا بھی ایک حقیقت ہے جس سے ہر شخص کسی نہ کسی مرحلے پر دوچار ہونا پڑتا ہے بشرطیکہ وہ اس مرحلے پر پہنچنے سے پہلے گزر نہ گیاہو۔
۔مجھے دوسروں کی تمام بیویاں پسند نہیں آتیں، صرف وہ بیویاں پسندآتی ہیں جو واقعی پسندیدہ ہوں۔
اسٹیفن لیکاک نے مزاح کی تعریف کچھ اس طرح کی ہے: ’’ یہ زندگی کی ناہمواریوں کے اس ہمدردانہ شعور کا نام ہے جس کا فنکارانہ اظہار ہوجائے۔‘‘
ہمیں تو ’لکھ رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ‘ کے مصنف جناب ایس ایچ جعفری کے صنف نازک میں حد درجے بڑھے ہوئے لگاؤ اور اس کے جا بجا اور جا بیجا اظہار کو مد نظر رکھتے ہوئے اسٹیفن لیکاک کی مزاح کی تعریف کو کچھ اس طرح بیان کرنا مناسب لگ رہا ہے:
یہ زندگی کی ناہمواریوں کے اس ’مردانہ ‘شعور کا نام ہے جس کا معاندانہ (قاری کے لیے) اظہار ہوجائے۔
ہمارے قارئین یقیننا یہ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم تو جناب ایس ایچ جعفری کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں تو ایسے تمام احباب کی خدمت میں عرض ہے کہ پہلے وہ زیر موضوع کتاب اپنی حق حلال کی کمائی سے خریدیں اور اس کے مطالعے کے بعد ہی کسی نتیجے پر پہنچیں۔یہ مضمون ہم جناب مصنف کو بھی ارسال کریں گے، ظاہر ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد ان کی رائے ہمارے حق میں بہتر تو نہ ہوگی البتہ اگر وہ ہماری کچھ اشک شوئی چاہتے ہیں تو ان سے درخواست ہے کہ پہلے وہ اردو بازار کراچی کے کتب فروشوں کے پاس موجود اس کتاب کے تمام نسخوں کو واپس منگوائیں، اب تک کے فروخت ہوئے نسخوں کی آمدنی علی گڑھ ایسوسی ایشن کے بجائے کسی خیراتی ادارے کے حوالے کریں، نئے سرے سے خالصتا اپنی خودنوشت آپ بیتی لکھیں اور اس کا نام زیر موضوع کتاب کے عنوان میں رد و بدل کے ساتھ استعمال کیے گئے غالب کے اصل شعر کے دوسرے مصرعے پر رکھیں۔
مضمون کا اختتام بھی خامہ بگوش ہی کے ایک اقتباس سے کرنا مناسب نظر آرہا ہے
ہمارے قارئین یقیننا یہ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم تو جناب ایس ایچ جعفری کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں تو ایسے تمام احباب کی خدمت میں عرض ہے کہ پہلے وہ زیر موضوع کتاب اپنی حق حلال کی کمائی سے خریدیں اور اس کے مطالعے کے بعد ہی کسی نتیجے پر پہنچیں۔یہ مضمون ہم جناب مصنف کو بھی ارسال کریں گے، ظاہر ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد ان کی رائے ہمارے حق میں بہتر تو نہ ہوگی البتہ اگر وہ ہماری کچھ اشک شوئی چاہتے ہیں تو ان سے درخواست ہے کہ پہلے وہ اردو بازار کراچی کے کتب فروشوں کے پاس موجود اس کتاب کے تمام نسخوں کو واپس منگوائیں، اب تک کے فروخت ہوئے نسخوں کی آمدنی علی گڑھ ایسوسی ایشن کے بجائے کسی خیراتی ادارے کے حوالے کریں، نئے سرے سے خالصتا اپنی خودنوشت آپ بیتی لکھیں اور اس کا نام زیر موضوع کتاب کے عنوان میں رد و بدل کے ساتھ استعمال کیے گئے غالب کے اصل شعر کے دوسرے مصرعے پر رکھیں۔
مضمون کا اختتام بھی خامہ بگوش ہی کے ایک اقتباس سے کرنا مناسب نظر آرہا ہے
’’ہمارے ننانوے فیصد ادیب اپنے حسن عمل کا نتیجہ اسی دنیا میں دیکھ لیتے ہیں ۔ ان کی کتابیں کوئی نہیں پڑھتا۔ جب کوئی پڑھتا نہیں تو کتابوں کے فروخت ہونے کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا۔ بس شرمندگی کی دولت ہاتھ لگتی ہے اور یہی دولت بیدار کتاب لکھنے والے کا خالص منافع ہوتی ہے۔‘‘