مزارات صحابہ کی منتقلی

الف نظامی

لائبریرین
منتقلی مزارت کا واقعہ

جرمن ڈاکٹر کا متاثر ہوکر اسلام قبول کرنا:
1932 میں شاہ عراق ملک فیصل اول کو خواب میں حضرت حذیفہ الیمانی رضی اللہ عنہ ، جلیل القدر صحابی نے فرمایا حضرت جابر بن عبداللہ اور مجھے موجودہ مزارات سے منتقل کرکے دریائے دجلہ سے کچھ فاصلے پر دفن کردو کیونکہ میرے مزار میں پانی اور حضرت جابر کے مزار میں نمی ہے۔ شاہ فیصل نے یہ خواب مسلسل دیکھا ،لیکن بوجہ مصروفیت امورِ مملکت کوئی خاص توجہ نہ دی ۔ تیسری شب حضرت موصوف نے مفتی اعظم عراق کو ہدایت فرمائی، ہم شاہ عراق سے دو مرتبہ کہہ چکے ہیں ہمارے مزارات یہاں سے منتقل کردو لیکن شاہ نے توجہ نہ دی، تم شاہ کو تاکید کردو وہ منتقلی مزارات کا انتظام کردے۔

صبح کو مفتی اعظم نوری السعید وزیراعظم عراق کے پاس تشریف گئے اور خواب بیان کیا۔ وزیراعظم مرحوم اور مفتی اعظم عراق دونوں شاہ کی خدمت میں باریاب ہوئے اور درخواست بیان کی ۔ شاہ نے بھی اس خواب کی تائید کی۔ باہمی مشورہ اور غور و فکر کے بعد طے پایا کہ مفتی اعظم مزارات کی منتقلی کا فتوی دیں اور فتوے کے ساتھ شاہی فرمان منسلک کرکے اخبارات میں اشاعت کے لیے وزیراعظم کو دے دیں۔

چناچہ اس پر فورا عمل کیا ۔اعلان تھا دس ذوالحجہ کے بعد نماز ظہر دونوں اصحاب رسول رضی اللہ عنھم کے مزارات کھول کر دونوں حضرات کو کسی مناسب جگہ دفن کیا جائے گا۔ اس اعلان کی اشاعت کے بعد تمام عالم اسلامی میں یہ خبر نہایت دلچسپی کے ساتھ پڑھی گئی۔ چونکہ حج کا زمانہ قریب تھا دنیا کے مسلمان حرمین الشریفین میں جمع تھے۔ سب نے بذریعہ تار شاہ عراق سے درخواست کی کہ مزارات ، حج کے بعد کسی قریبی تاریخ میں منتقل کیے جائیں تاکہ ہم بھی شرکت کی سعادت حاصل کرسکیں۔ اسی طرح اطرافِ عالم ہندوستان ، ترکی ، مصر ، افریقہ ، ایران ، شام اور بلغاریہ وغیرہ سے تاروں کی یلغار شروع ہوگئی اور تاریخ میں توسیع کی درخواست کی گئی۔

مسلمانانِ عالم کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے دوسرا شاہی فرمان جاری کیا گیا کہ اب یہ مبارک کام حج کے دس یوم کے بعد کیا جائے گا۔

بغداد سےتقریبا 40 میل دور ایک تاریخی مقام مدائن ہے جس کو اب سلمان پاک کہتے ہیں۔ یہاں مشہور صحابی حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا مزار بھی ہے۔

اطرافِ عالم سے مسلمانان اور غیرمسلم کثیر تعداد میں بغداد پہنچ گئے۔ تمام دنیا کے اخباری نمائندے ، فوٹوگرافر ، سفیر اور مشہور سیاح، مورخ، شاہ عراق اور وزیراعظم ، مفتی اعظم ، امراء ، صلحاء اور عمائدینِ عراق دوشنبہ کو دوپہر کے وقت یہاں جمع ہوچکے تھے۔

پہلے حضرت حذیفہ الیمانی رضی اللہ عنہ کے جسدِ مبارک کو کرین کے ذریعے زمین سے اس طرح اٹھایا گیا کہ کرین پر لگے اسٹریچر پر جسدِ مبارک خودبخود آگیا۔ اس کے بعد کرین سے اسٹریچر الگ کرکے شاہ فیصل ، مفتی اعظم ، وزراء ترکی ، ولی عہد مصر شہزادہ فاروق نے کاندھوں پر اسٹریچر رکھ کر تابوت تک لائے جو شیشہ کا بنا ہوا پہلے سے تیار تھا۔ تابوت میں جسد مبارک رکھ دیا گیا۔ اسی طرح حضرت جابر بن عبداللہ کے جسدِ مبارک کو بھی مزار سے نکال کر باالاحترام بلوری تابوت میں رکھ دیا گیا۔

دونوں حضرات کے جسم بالکل تروتازہ تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا یہ حضرات ابھی زندہ ہیں۔ آنکھیں کھلی ہوئی تھیں جن سے نوری شعاعیں نکل کر دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ کررہی تھیں۔ کفن بھی بالکل تازہ تھے۔

یہ کرشمہ قدرت دیکھ کر بڑے بڑے ڈاکٹر ، سائنس دان ، انگشت بدنداں تھے۔ بین الاقوامی شہرت کا مالک ایک جرمن ماہر چشم اس کاروائی میں بڑی دلچسپی لے رہا تھا ، وہ اس قدر متاثر ہوا کہ فورا مفتی اعظم عراق کے پاس آیا اور ہاتھ پکڑ کر کہا، اسلام کی حقانیت کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہوسکتا ہے۔ میں کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوتا ہوں آپ مجھے تلقین کریں۔

لاکھوں انسانوں کے سامنے یہ ڈاکٹر مسلمان ہوگیا۔ اس کے بعد ہزاروں نصرانیوں ، یہودیوں نے جوق در جوق بغداد آکر مع اپنے خاندانی افراد اسلام قبول کیا۔

سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم۔ صل اللہ علی حبیبہ محمد وعلی اٰلہ و اصحابہ اجمعین۔

اقتباس از ہم اللہ کو کیوں مانیں از محمد عبدالحفیظ شاہ
 

شاکرالقادری

لائبریرین
سبحان اللہ

آج سے کئی سال پہلے میں نے بھی اس سلسلہ میں ایک رپورٹ پڑھی تھی اس رپورٹ کے مطابق دجلہ کے کنارے سے صحابہ کے اجساد کو سلمان پارک تک منتقلی میں کے دوران مخلوق خدا کے ہجوم کو کنترول کرنے کے لیے متعلقہ راستے سے دور بہت سے مختلف مقامات پر سکرینین نصب کر کے منتقلی کے عمل کو براہ راست دکھایا جاتا رہا تاکہ لوگون کا ہجوم متعین راستے کی طرف نہ جائے سلمان پرک کے مقام پر صحابہ کو بے شمار توپوں کی سلامی دی گئی اور عراق کی تیریخ کے سب سے بڑے پروٹوکول کے ساتھ ان اجساد مبارکہ کو سپرد خاک کیا گیا
اس وقت سے اب تک میں اس جستجو میں ہوں کہ اگر فوٹو گرافی کی گئی اور منظر کو براہ راست فلمایا گیا تو وہ تصاویر اور فلمیں کسی نہ کسی کے ریکارڈ میں تو ہونگی
اس سلسلہ میں میں نے وزارت شئون الدینیہ عراق کو لکھا بھی تھا لیک جواب ندارد
کیا کوئی اللہ کا بندہ اس سلسلہ میں ہمت کر کے تلاش کر سکتا ہے
ایسے ایمان افروز مناظر کے لیے آنکھیین ترستی ہیں
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم

جزاک اللہ
سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم
ہمارا مقصد ہی یہی ہے کہ ہمارا مسلم امہ کی سٹیٹک انرجی (کانیٹک) کو ڈائنمک میں کنورٹ کیسے کیا جائے رب کعبہ کی قسم میرا یہ سویا ہوا مسلمان جاگ جائے تو پھر کیا ہی بات
اللہ اکبر کبیرہ
 

الف نظامی

لائبریرین
شاکرالقادری نے کہا:
اس وقت سے اب تک میں اس جستجو میں ہوں کہ اگر فوٹو گرافی کی گئی اور منظر کو براہ راست فلمایا گیا تو وہ تصاویر اور فلمیں کسی نہ کسی کے ریکارڈ میں تو ہونگی اس سلسلہ میں میں نے وزارت شئون الدینیہ عراق کو لکھا بھی تھا لیک جواب ندارد
کیا کوئی اللہ کا بندہ اس سلسلہ میں ہمت کر کے تلاش کر سکتا ہے
ایسے ایمان افروز مناظر کے لیے آنکھیں ترستی ہیں
یہی خواہش میری بھی ہے ، کسی سے سنا ہے کہ بی بی سی والوں نے اس کی ویڈیو بنائی تھی،
 

الشفاء

لائبریرین
سبحان اللہ
آج سے کئی سال پہلے میں نے بھی اس سلسلہ میں ایک رپورٹ پڑھی تھی اس رپورٹ کے مطابق دجلہ کے کنارے سے صحابہ کے اجساد کو سلمان پارک تک منتقلی میں کے دوران مخلوق خدا کے ہجوم کو کنترول کرنے کے لیے متعلقہ راستے سے دور بہت سے مختلف مقامات پر سکرینین نصب کر کے منتقلی کے عمل کو براہ راست دکھایا جاتا رہا تاکہ لوگون کا ہجوم متعین راستے کی طرف نہ جائے سلمان پرک کے مقام پر صحابہ کو بے شمار توپوں کی سلامی دی گئی اور عراق کی تیریخ کے سب سے بڑے پروٹوکول کے ساتھ ان اجساد مبارکہ کو سپرد خاک کیا گیا
اس وقت سے اب تک میں اس جستجو میں ہوں کہ اگر فوٹو گرافی کی گئی اور منظر کو براہ راست فلمایا گیا تو وہ تصاویر اور فلمیں کسی نہ کسی کے ریکارڈ میں تو ہونگی
اس سلسلہ میں میں نے وزارت شئون الدینیہ عراق کو لکھا بھی تھا لیک جواب ندارد
کیا کوئی اللہ کا بندہ اس سلسلہ میں ہمت کر کے تلاش کر سکتا ہے
ایسے ایمان افروز مناظر کے لیے آنکھیین ترستی ہیں
یہی خواہش میری بھی ہے ، کسی سے سنا ہے کہ بی بی سی والوں نے اس کی ویڈیو بنائی تھی،
جناب کوئی تو پتہ کرے اس فلم یا تصاویر کے بارے میں

فی الوقت یہ تصاویر دستیاب ہو پائی ہیں نیٹ سے۔۔۔

372313d1354163811-148755_10151112389956114_1703897640_n.jpg




TwoSahabaRA.jpg




maxresdefault.jpg

 

حسیب

محفلین
سبحان اللہ

آج سے کئی سال پہلے میں نے بھی اس سلسلہ میں ایک رپورٹ پڑھی تھی اس رپورٹ کے مطابق دجلہ کے کنارے سے صحابہ کے اجساد کو سلمان پارک تک منتقلی میں کے دوران مخلوق خدا کے ہجوم کو کنترول کرنے کے لیے متعلقہ راستے سے دور بہت سے مختلف مقامات پر سکرینین نصب کر کے منتقلی کے عمل کو براہ راست دکھایا جاتا رہا تاکہ لوگون کا ہجوم متعین راستے کی طرف نہ جائے سلمان پرک کے مقام پر صحابہ کو بے شمار توپوں کی سلامی دی گئی اور عراق کی تیریخ کے سب سے بڑے پروٹوکول کے ساتھ ان اجساد مبارکہ کو سپرد خاک کیا گیا
اس وقت سے اب تک میں اس جستجو میں ہوں کہ اگر فوٹو گرافی کی گئی اور منظر کو براہ راست فلمایا گیا تو وہ تصاویر اور فلمیں کسی نہ کسی کے ریکارڈ میں تو ہونگی
اس سلسلہ میں میں نے وزارت شئون الدینیہ عراق کو لکھا بھی تھا لیک جواب ندارد
کیا کوئی اللہ کا بندہ اس سلسلہ میں ہمت کر کے تلاش کر سکتا ہے
ایسے ایمان افروز مناظر کے لیے آنکھیین ترستی ہیں
کیا 1932 میں براہ راست براڈکاسٹنگ کی جاتی تھی؟؟
 
Top