اولیاء کے نام پر جانور ذبح کرنے کی شرعی حیثیت
تحریر: ابوعبداللہ صارم حفظ اللہ
بت پرستی اصل میں اولیاء پرستی ہی تھی۔ مشرکین مکہ کے بت اولیاء اللہ کے نام اور ان کی صورتوں پر ہی مشتمل تھے۔ قرآنِ کریم نے صاف طور پر اس کا ردّ کیا اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی بت پرستی کو مٹانے کے لیے تشریف لائے۔ اسلام کی اساس بت پرستی کے قلع قمع ہی پر قائم ہوئی، لیکن بدقسمتی سے اسی بت پرستی کو بعد کے بعض مسلمانوں نے عقیدت و محبت اولیاء کا نام دے کر اپنے دین کا حصہ بنا لیا۔ آج اسلام کے نام لیواؤں نے مشرکین مکہ سے بہت سے مشرکانہ افعال مستعار لے لیے ہیں۔
اولیاء اللہ کے نام پر جانور ذبح کرنا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جس طرح مشرکین مکہ اپنے بزرگوں کے ناموں اور مورتیوں پر مبنی بتوں کے نام پر جانور چھوڑ دیتے تھے، ان کی تقلید میں آج کے بعض مسلمان بھی بزرگوں سے منسوب کر کے جانورچھوڑتے ہیں۔ یہ نامزد جانور عام جانوروں کی طرح نہیں ہوتے، بلکہ ان لوگوں کے نزدیک وہ بڑی ’’ حرمت “ والے ہوتے ہیں۔ وہ جس کھیت میں گھس جائیں، اس کے مالک کے خیال میں اس کے ’’ وارے نیارے “ ہو جاتے ہیں۔ وہ جدھر چاہیں جائیں، کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی۔ ان سے کوئی کام بھی نہیں لیا جاتا اور ان کی اپنی ایک پہچان ہوتی ہے۔ لوگ جانتے ہوتے ہیں کہ یہ فلاں درگاہ یا فلاں مزار کا جانور ہے۔
کیا فرق ہے کہ کسی جانور کو اساف، نائلہ، منات وغیرہ سے موسوم کر دیا جائے اور اسے بحیرہ، سائبہ، وصیلہ، حام کا نام دے دیا جائے یا یہ کہہ دیا جائے کہ یہ اونٹ اور گائے اجمیر کی ’’ چھٹی شریف “ کے لیے مختص ہے، یا کہہ دیا جائے کہ یہ گیارہویں کا بکرا ہے یا یہ فلاں کی منت اور نیاز ہے ؟ قدیم زمانے میں بھی یہ بزرگوں کی خوشنودی اور ان کا تقرب حاصل کرنے کے لیے کیا جاتا تھا اور آج بھی یہ سب کچھ اولیاء کی تعظیم اور ان کے تقرب کے حصول کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس لیے کہ ان اولیاء کو خدائی طاقتوں کا مظہر سمجھ لیا گیا اور کہہ دیا گیاکہ میرا یہ کام ہو گیا تو میں فلاں مزار پر کالا بکرا ذبح کروں گا یا کالے مرغ کی منت اور چڑھاوا چڑھاؤں گا۔
غیراللہ کے نام سے منسوب کرنا اور ان کے نام پر ذبح کرنا شرک و کفر ہے۔ ایسے
جانوروں اور ایسی اشیاء کو کھانا حرام ہے۔ یہ جانور اور یہ روپیہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا واجب حق ہے کہ یہ چیزیں اسی کے نذرانے اور شکرانے میں صرف ہوں۔
✿ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے :
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ ٭ لَا شَرِيْكَ لَهٗ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ٭ [الأنعام 6 : 163,162]
’’ (اے نبی !) کہہ دیجیے کہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لیے ہے جو جہانوں کا پروردگار ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھے یہی حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے مطیع ہونے والا ہوں۔ “
↰ ان آیات ِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلان کروایا کہ میں نماز، جو کہ دین کا ستون اور رکن ہے، قلبی عبادات، جیسے خشوع اور توجہ الی اللہ، قولی عبادات، جیسے تکبیر و تحمید، قرآنِ کریم کی تلاوت، وغیرہ، عملی عبادات، جیسے قیام، رکوع، سجدہ، جلوس وغیرہ، خالص اللہ رب العالمین کے لیے ادا کرتا ہوں۔ میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے جانور ذبح کرتا ہوں، مشرکین کی طرح انصاب و اصنام کے لیے نہیں۔ میں ساری زندگی اپنے اللہ کی بندگی اور نیاز مندی میں گزاروں گا اور اسی پر مر جاؤں گا۔ میں اقراری ہوں کہ عبادات کی تمام انواع و اقسام میں اللہ رب العالمین کا کوئی شریک وسہیم نہیں۔
◈ اس آیت ِ کریمہ کی تفسیر میں حافظ، ابوالفداء، اسماعیل بن عمر، ابن کثیر رحمہ اللہ (774-700ھ ) نے کیا خوب لکھا ہے :
يأمره تعالٰي أن يخبر المشركين، الذين يعبدون غير الله ويذبحون لغير اسمه، أنه مخالف لهم فى ذٰلك، فإن صلاته لله، ونسكه على اسمه، وحده لا شريك له، وهٰذا كقوله تعالٰي : ﴿فصل لربك وانحر﴾ [الكوثر 108 : 2] ، أى : أخلص له صلاتك وذبيحتك، فإن المشركين كانوا يعبدون ال۔أصنام ويذبحون لها، فأمره الله تعالٰي بمخالفتهم، والانحراف عما هم فيه، والإقبال بالقصد والنية والعزم على الإخلاص للٰه تعالٰي .
’’ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرما رہے ہیں کہ وہ غیراللہ کی عبادت کرنے والے اور اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر جانور ذبح کرنے والے مشرکوں کو بتا دیں کہ آپ ان کاموں میں اُن کے مخالف ہیں۔ مشرکین مکہ بتوں کی عبادت کرتے تھے۔ اور ان کے لیے جانوربھی ذبح کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا کہ آپ ان کی مخالفت کریں، ان کی اس رَوَش سے باز رہیں اور اپنی نیت و قصد اور عزم کے ساتھ اس بات پر قائم رہیں کہ ہر کام خالص اللہ تعالیٰ کے لیے کرناہے۔ “ [تفسير القرآن العظيم : 128/3 ]
↰ عبادات کی تمام انواع جیسے دعا و پکار اور التجا، محبت، خوف، امید و رجا، توکل و بھروسہ، رغبت و رہب، خشوع و خضوع، رجوع و انابت، استعانت و استغاثہ، ذبح اور نذر و نیاز خالص اللہ کے لیے بجا لانی چاہئیں۔ ان میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے واجب حق ہیں، جو اسی کے لیے پورے کیے جانے ضروری ہیں۔ تاحیات ان پر ڈٹے رہنا اور تازیست ان کی دعوت دینا ہر مسلمان کا فریضہ ہے۔
❀ خلیفہ چہارم، سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لعن الله من ذبح لغير الله
’’ جو شخص اللہ کے سوا کسی اور کے لیے کچھ ذبح کرتا ہے، اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے۔ “ [صحيح مسلم : 1978 ]
غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کرنا باعث ِ لعنت کام ہے۔ یہ مشرکوں اور کافروں کا شعار ہے۔ اللہ کے علاوہ کسی کی تعظیم و تقرب کے لیے کچھ ذبح کرنا شرک ہے اور ایسا ذبیحہ حرام، یعنی اس کا گوشت کھانا ممنوع ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حرام چیزوں کا بیان کرتے ہوئے فرمایا :
وَمَا اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ [البقرة 2 : 173]
’’ اور جو کچھ، پکارا جائے اوپر اس کے واسطے غیراللہ کے۔ “ (ترجمہ شاہ رفیع الدین )
اس آیت ِ کریمہ سے معلوم ہوا کہ :
➊ کسی جانور یا کسی اور چیز کو غیراللہ کے لیے نامزد کیا جائے، خواہ ذبح کے وقت اللہ کا نام ہی کیوں نہ پکاراجائے، تب بھی حرام ہے۔
➋ ذبح کے وقت غیراللہ کا نام پکارا جائے، تب بھی حرام ہے۔
➌ بِسْمِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ أَكْبَرُ کہہ کر ذبح کیا جائے اور ساتھ یہ بھی کہہ دیا جائے کہ اے اللہ ! فلاں ولی یا بزرگ کے تقرب کے لیے یہ جانور ذبح کیا گیا ہے، تب بھی حرام ہے۔
➍ اللہ کے لیے ذبح کیا جائے اور بوقت ذبح نام غیر اللہ کا پکاراجائے، تب بھی حرام ہے۔
➎ ذبح اللہ کے لیے کیا جائے، لیکن اللہ تعالیٰ کے مبارک نام کے ساتھ غیراللہ کا نام شامل کر دیا جائے، تب بھی حرام ہے۔
◈ فقہ حنفی بھی یہی کہتی ہے۔ حنفی مذہب کی مستند و معتبر کتابوں میں لکھا ہوا ہے :
يقول : بسم الله، واسم فلان، أو يقول : بسم الله وفلان، أو بسم الله ومحمد رسول الله، فتحرم الذبيحة، لأنه أهل به لغير الله .
’’ اگر کوئی بندہ بوقت ِ ذبح کہے : بِسْمِ اللّٰهِ، وَاسْمِ فُلَانٍ اللہ کے نام کے ساتھ اور فلاں کے نام کے ساتھ، یا بِسْمِ اللّٰهِ، وَفُلَانٍ اللہ اور فلاں کے نام کے ساتھ، یا بِسْمِ اللّٰهِ وَمُحَمَّدِ رَّسُولِ اللّٰهِ اللہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے ساتھ، تو ذبیحہ حرام ہو جاتا ہے، کیونکہ اس پر غیر اللہ کا نام پکار دیا گیا ہے۔ “ [بدائع الصنائع للكاساني : 48/5، الهداية للمرغيناني : 435/2 ]
شبہات اور ان کا ازالہ
اس مسئلے میں بریلوی مکتب ِ فکر کا موقف ہے کہ اگر کسی جانور کو اولیاء کے نام سے منسوب کر دیا جائے اور وقت ِ ذبح اللہ کا نام لے لیا جائے تو وہ حلال ہے۔ اس لیے وہ آیت ِ کریمہ وَمَا اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ کی تفسیر و تاویل یہ کرتے ہیں کہ وہ جانور حرام ہے، جس پر ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام پکارا جائے، حالانکہ اس آیت ِ کریمہ کو وقت ِ ذبح کے ساتھ خاص کرنے کی کوئی دلیل نہیں۔ اس آیت ِ کریمہ کے مطابق کسی جانور پر کسی بھی وقت غیراللہ کا نام پکارنے سے وہ حرام ہو جاتا ہے۔ وقت ِ ذبح بھی اسی حرمت کا ایک موقع اور محل ہے۔
➊ وقت ِذبح کی قید نہیں :
إِهْلَال كے معنيٰ رَفْعُ الصَّوْتِ یعني آواز بلند کرنا ہے، یعنی ذبح کے وقت یا ذبح سے پہلے، کسی بھی وقت اس پر غیراللہ کا نام پکارا جائے تو جانور حرام ہو جاتا ہے۔ اگرچہ مفسرین نے ذبح کے وقت نام پکارنے کو إِهْلَال کہا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ عام اوقات میں جانور کو غیراللہ کے نام منسوب کیا جا سکتا ہے۔ چونکہ مشرکین کی عام عادت یہ تھی کہ جو جانور انہوں نے غیراللہ، یعنی بزرگوں کے بتوں کے تقرب و تعظیم میں چھوڑے ہوتے تھے، ذبح کے وقت ان پر ان ہی کا نام پکارتے تھے۔ لہٰذا اگر کسی جانور پر بغرضِ تعظیم و تقرب کسی کا نام پکارا جائے اور وقت ِ ذبح اللہ کا نام لے کر ذبح کر دیا جائے تو بھی وہ حرام ہی ہو گا۔
اس لیے مفتی احمد یار خان نعیمی بریلوی صاحب (م : 1391ھ) کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ : ’’ پکارنے سے مراد وقت ِ ذبح پکارنا ہے۔ “ [ ’’جاء الحق‘‘ : 359/1]
یہی نظریہ ملا جیون، ماتریدی، حنفی (م : 1130ھ) کا ہے، وہ لکھتے ہیں :
ومن هٰهنا علم أن البقرة المنذورة لل۔أولياء، كما هو الرسم فى زماننا، حلال طيب، لأنه لم يذكر اسم غير الله عليها وقت الذبح، وإن كانوا ينذرونها له .
’’ اس سے معلوم ہوا کہ وہ گائے جسے اولیاءکے لیے نذر مانا گیا ہے، جیسا کہ ہمارے زمانے میں رواج ہے، وہ حلال اور پاکیزہ ہے، کیونکہ بوقت ِ ذبح اس پر غیراللہ کا نام نہیں لیا گیا، اگرچہ اسے غیراللہ کی نذر کیا گیا ہے۔ “ [ التفسيرات الأحمديّة، ص : 45 ]
اس شبہ کے ردّ و جواب میں عالم اسلام کے عظیم سکالر، ممتاز اہل حدیث عالم، علامہ، ڈاکٹرشمس الدین، سلفی، افغانی (م :1420ھ/1997ء) فرماتے ہیں :
لقد أجاب علمائ الحنفية عن هٰذه الشبهة، أن العبرة فى النذر لغير الله تعالٰي للنية، لا لذكر اسم غير الله عند ذبح المنذور، فمن نذر بقرة لميت، مثلا، فقد أشرك بمجرد نذره إياه له، سوائ ذكر اسم الله عند ذبحها، أو ذكر اسم ذٰلك الميت، فإن العبرة لنية هٰذا الناذر، المتقرب إلٰي ذٰلك الميت، الطالب بنذره له كشف المعضلات، وجلب الخيرات منه، لقوله تعالٰي :﴿وما اهل به لغير الله﴾ [البقرة 2 : 173] ، وقوله تعالٰي : ﴿وما اهل لغير الله به﴾ [المائدة 5 : 3، والنحل 16 : 115] ، وقوله تعالٰي : ﴿او فسقا اهل لغير الله به﴾ [الأنعام 6 : 145] ، فما أهل به لغير الله أعم من المذبوح باسم غير الله، فإن ما أهل به لغير الله قد يكون من قبيل المشروبات، أو الملبوسات، أو المشمومات، بل قد يكون من المعادن، كالذهب، والفضة، والياقوت، والمرجان، ونحوها، وقد يكون من المطعومات التى لا تحتاج إلى الذبح، كالسمك، والزيت، والسمن، والعسل، ونحوها، لأن (الإهلال) هو رفع الصوت بالشيئ، وليس معناه الذبح، فمن زعم أن معنٰي قوله : ﴿وما اهل به لغير الله﴾ ، ما ذبح باسم غير الله، بأن يذكر اسمه عليه وقت الذبح، فقد غلط غلطا مبينا، وقيد مطلق الكتاب، وخصص عامه بدون دليل مسوغ، وتقول على اللغة العربية ما لا يعرفه العرب، فإن الإهلال لم يعرف عند العرب بمعني الذبح، وأما ما ذكره بعض المفسرين فى تفسير هٰذه الآية : وما ذبح لل۔أصنام والطواغيت، ونحو ذٰلك، فليس هٰذا معناها اللغوي الكامل، بل قصدهم بيان فرد من أفراد ﴿وما اهل به لغير الله﴾ ، فإن المشركين السابقين كانوا عادة إذا نذروا شيئا من ال۔أنعام لآلهتهم ذبحوه بأسمائها، بخلاف القبورية فى هٰذه ال۔أمة، فإنهم إذا نذروا بقرة، مثلا، لأوليائهم ال۔أموات، مثلا، ذبحوها باسم الله تعالٰي لسانا وظاهرا، حيلة منهم، ولٰكن هٰذا المنذور المذبوح يكون مذبوحا فى الحقيقة باسم ذٰلك الولي الميت، فهم، وإن لم يذكروا اسم هٰذا الولي المن۔ذور له ظاهرا علٰي ألسنتهم عند ذبح ذٰلك الحيوان المنذور، لٰكنهم يذكرون اسم وليهم باطنا فى قلوبهم قبل ذبحه، وعند ذبحه، وبعد ذبحه، دل علٰي ذٰلك نذرهم له، ونيتهم، وتقربهم إليه، واستعطافهم إياه لدفع الملمات، وجلب الخيرات، إذا لا تأثير لذكر اسم الله تعالٰي عليه عند الذبح، ما دام المنذور لغير الله تعالٰي، فذبحهم باسم الله تعالٰي ليس إلا حيلة قبورية، لا تنجيهم من الشرك والتحريم، لأن العبرة للنية، لا لذكر اسم الله تعالٰي على اللسان، فهٰذا الناذر مشرك، وهٰذا المنذور حرام، وإن ذكر اسم الله عليه وقت الذبح .
’’ علمائے احناف نے اس شبہے کا جواب یہ دیا ہے کہ غیراللہ کی نذر ماننے میں اعتبار نیت کا ہو گا، نہ کہ نذر کیے گئے جانور کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام ذکر کرنے کا۔ جس شخص نے کسی میت کے لیے کوئی گائے نذر مانی تو وہ محض نذر کرنے ہی سے مشرک ہو جائے گا، خواہ وہ اسے ذبح کرتے وقت اس میت کا نام لے یا نہ لے۔ اعتبار تو اس نذر ماننے والے کی نیت کا ہے جو اس میت کا تقرب حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس نذر کے ذریعے میت سے مشکلات کو دُور کرنے اور بھلائیوں کو قریب کرنے کا طالب ہے، کیونکہ وما اهل به لغير الله [البقرة 2 : 173] ”اور جس کو غیراللہ کے لیے پکارا جائے“، و وما اهل لغير الله به [المائدة 5 : 3، والنحل 16 : 115] ”اور جس کو غیراللہ کے لیے پکارا جائے“، او فسقا اهل لغير الله به [الأنعام 6 : 145] یا وہ فسق ہو کہ اس پر اللہ کے علاوہ کسی اور کا نام پکارا گیاہو۔ ان سب فرامین باری تعالیٰ میں غیراللہ کے لیے پکارا جانا عام ہے، خواہ اسے غیراللہ کا نام لے کر ذبح کیا جائے یا نہ کیا جائے۔ جس چیز پر غیراللہ کا نام پکارا جائے، وہ بسا اوقات مشروبات یا ملبوسات یا عطریات سے تعلق رکھتی ہوتی ہے، بلکہ بسا اوقات معدنیات، مثلاً سونا، چاندی، یاقوت و مرجان وغیرہ کی ہوتی ہے اور کبھی تو کھانے کی ایسی چیز ہوتی ہے، جسے ذبح کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی، جیسا کہ مچھلی، تیل، گھی اور شہد وغیرہ (تو کیا غیراللہ کی ایسی نذر جائز ہو جائے گی ؟)۔ اِ هلال کا معنی آواز بلند کرنا ہے، ذبح کرنا نہیں۔ جس نے یہ دعویٰ کیا کہ فرمانِ باری تعالیٰ : وما اهل به لغير الله [البقرة 2 : 173] سے مراد وہ جانور ہے جس پر بوقت ِ ذبح غیراللہ کا نام لیا جائے، اس نے بڑی فحش غلطی کی ہے اور قرآنِ کریم کی ایک مطلق آیت کو بغیر کسی دلیل کے مقید اور ایک عام آیت کو بغیر دلیل کے خاص کر دیا ہے، اس نے عربی زبان میں ایسی بات شامل کرنے کی کوشش کی ہے، جسے عرب لوگ جانتے تک نہیں۔ اہل عرب کے ہاں اهلال ذبح کے معنی میں نہیں ہوتا۔ بعض مفسرین کرام نے اس آیت کی تفسیر میں جو اس طرح کی بات کہی ہے کہ ایساجانور جو بتوں اور طاغوتوں کے لیے ذبح کیا جائے۔۔۔، تو انہوں نے اس لفظ کا پورا لغوی معنی نہیں کیا، بلکہ ان کا مقصود اس آیت ِ کریمہ میں مراد لی گئی چیزوں میں سے ایک چیز کو بیان کرنا تھا، کیونکہ پہلی امتوں کے مشرکین جب کسی جانور کو اپنے معبودوں کے لیے نذر کرتے تھے تو عموماً اسے انہی معبودوں کا نام لے کر ذبح کرتے تھے۔ اس امت کے قبر پرست اپنی قبر پرستی کے لیے حیلہ کرتے ہوئے اولیاء کی نذر کیے گئے جانور کو ظاہری طور پر اللہ کے نام پر ذبح کر دیتے ہیں، لیکن درحقیقت یہ جانور اسی مردہ ولی کے نام پر ذبح ہوتا ہے۔ یہ لوگ اگرچہ ظاہری طور پر اپنی زبان سے اس ولی کا نام نہیں لیتے، لیکن ان کے دلوں میں اس جانور کو ذبح کرنے سے پہلے، ذبح کرتے وقت اور ذبح کرنے کے بعد اسی کا ذکر ہوتا ہے۔ ان کا اس جانور کو میت کی نذر کرنا، دل میں جانور کو اس میت سے منسوب کرنا، جانور کا نذرانہ پیش کر کے اس ولی کے تقرب کے حصول کی کوشش اور اس سے مصائب کو دُور کرنے اور آسائشوں کو قریب لانے کی فریاد کرنا، یہ سب چیزیں اس بات کی واضح دلیل ہیں۔ معلوم ہوا کہ جب جانور کو غیر اللہ کی نذر کیا گیا ہو، اس وقت زبانی طور پر اللہ تعالیٰ کا نام ذکر کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اللہ کا نام لے کر ذبح کرنا تو قبر پرستی کا ایک حیلہ ہے، جو انہیں شرک کرنے اور حرام کھانے سے بری نہیں کر سکتا، کیونکہ اعتبار تو نیت کا ہے نہ کہ زبانی طور پر اللہ کا نام لے کر ذبح کرنے کا۔ ایسی نذر ماننے والا مشرک ہے اور ایسا نذر کیا گیا جانور حرام ہے، اگرچہ ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام ذکر کیا جاتارہے۔ “ [جهود علماء الحنفيّة فى إبطال عقائد القبوريّة : 1561/3، 1562]
◈ شیخ الاسلام، ابوالعباس، احمد بن عبدالحلیم، ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728-661ھ ) فرماتے ہیں :
فإن قوله تعالٰي : ﴿وما اهل لغير الله به﴾ [المائدة 5 : 3] ظاهره أنه ما ذبح لغير الله، مثل أن يقال : هٰذا ذبيحة لكذا، وإذا كان هٰذا هو المقصود، فسوائ لفظ به أو لم يلفظ، وتحريم هٰذا أظهر من تحريم ما ذبحه للحم، وقال فيه : باسم المسيح، ونحوه، …، فإذا حرم ما قيل فيه : باسم المسيح، أو الزهرة، فل۔أن يحرم ما قيل فيه : لأجل المسيح والزهرة، أو قصد به ذٰلك، أولٰي، وهٰذا يبين لك ضعف قول من حرم ما ذبح باسم غير الله، ولم يحرم ما ذبح لغير الله، …، وعلٰي هٰذا، فلو ذبح لغير الله متقربا به إليه لحرم، وإن قال فيه : بسم الله، كما يفعله طائفة من منافقي هٰذه ال۔أمة، الذين يتقربون إلى ال۔أوليائ والكواكب، بالذبح، والبخور، ونحو ذٰلك .
’’ فرمانِ باری تعالیٰ وما اهل لغير الله به [المائدة 5 : 3] اور جو غیراللہ کے لیے ذبح کیا جائے، مثلاً کہا یہ جانور فلاں کے لیے ذبح کیا گیا ہے۔ جب مقصد یہ ہو تو زبان سے ادا کرنے یا نہ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کی حرمت اس جانور کی حرمت سے زیادہ واضح ہے جسے گوشت کھانے کی نیت سے ذبح کیا جائے، لیکن ذبح کرتے وقت اس پر مسیح کا نام لیا جائے۔۔۔ جب مسیح یا کسی ستارے کا نام لے کر ذبح کیا گیا جانور حرام ہے تو وہ جانور بالاولیٰ حرام ہے جس کے بارے میں کہہ دیاجائے کہ یہ مسیح یا کسی ستارے کے لیے ہے یا ایسی نیت کر لی جائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی بات کمزور ہے جو کہتے ہیں کہ غیراللہ کے نام لے کر ذبح کیا گیاجانور تو حرام ہے، لیکن غیراللہ کے لیے ذبح کیا گیا جانور حرام نہیں۔۔۔ اس لیے جو جانور کسی غیراللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے ذبح کیا جائے، وہ حرام ہے، اگرچہ اسے ذبح کرتے وقت اللہ ہی کا نام لیا جائے۔ جیسا کہ اس امت کے منافقوں کا ایک گروہ کرتا ہے، یہ لوگ اولیاء اللہ یا ستاروں کا تقرب حاصل کرنے کے لیے جانور ذبح کرتے ہیں اور عطریات وغیرہ کے ذریعے ان کی نذریں مانتے ہیں۔ “ [اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم : 64/2 ]
◈ شارحِ صحیح بخاری، حافظ، احمد بن علی، ابن حجر رحمہ اللہ ( 852-773ھ) فرماتے ہیں :
﴿وما اهل به لغير الله﴾ ، أى ما ذبح لغيره، وأصله رفع الذابح صوته بذكره من ذبح له .
’’ اس فرمانِ باری تعالیٰ سے مراد وہ جانور ہے جو اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے ذبح کیا جائے۔ اہلال کا اصل معنی یہ ہے کہ ذبح کرنے والا اس ہستی کا بلند آواز سے ذکر کرے، جس کے لیے جانور ذبح کیا جا رہا ہو۔ “ [هُدي الساري مقدّمة فتح الباري، ص : 202]
◈ حنفی مذہب کی معتبر کتابوں میں لکھا ہوا ہے :
ذبح لقدوم ال۔أمير، ونحوه، كواحد من العظمائ، يحرم، ل۔أنه أهل به لغير الله، ولو ذكر اسم الله تعالٰي .
’’ امیر یا اس طرح کے کسی بڑے کی آمد پر جانور ذبح کرنا حرام ہے، کیونکہ اس پر غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہے، اگرچہ اس پر (بوقت ِ ذبح ) اللہ تعالیٰ کا نام ذکر کیا گیا ہو۔ “ [الدر المختار للحصكفي : 320/2، الدر المختار مع رد المحتار لابن عابدين : 195/6، وفي نسخة : 309/6، مجموعة الفتاوي لعبد الحئ اللكنوي الحنفي : 306/2، 223/3]
◈ معلوم ہوا کہ غیراللہ کا تقرب مقصود ہو تو ذبح کیا گیا جانورحرام ہوتا ہے، خواہ ذبح کے وقت غیراللہ کا نام نہ پکارا جائے، بلکہ اسے اللہ کا نام لے کر ذبح کیا جائے۔
ان عبارتوں سے اہلال کا معنی واضح ہو جاتا ہے، یعنی وہ جانور حرام ہے جس کے متعلق غیراللہ کی تعظیم کی نیت ہو، وقت ذبح کی کوئی قید نہیں۔
◈ شاہ عبدالعزیزدہلوی حنفی بن شاہ ولی اللہ دہلوی حنفی (1239-1159ھ) لکھتے ہیں :
’’ اگر یہ نیت ہو کہ غیراللہ کا تقرب حاصل ہو تو اگرچہ ذبح کے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لے کر ذبح کریں، تب بھی وہ ذبیحہ حرام ہو گا۔ “ [فتاوي عزيزيه : 47/1]
◈ جناب احمد سرہندی، الملقب بہ ’’ مجدد الف ثانی “ (م : 1034ھ) فرماتے ہیں :
’’ بزرگوں کے لیے جو نذریں حیوانات کی مانتے ہیں اور ان کو قبروں پر لے جا کر ذبح کرتے ہیں، فقہی روایات نے اس عمل کو شرک میں داخل کیا ہے۔ “ [مكتوبات امام رباني، ص : 73، مكتوب نمبر 41، دفتر : 3 ]
علامہ، محمد بن علی، شوکانی، یمنی رحمہ اللہ (1250-1173ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
والمراد هنا ما ذكر عليه اسم غير الله، كاللات، والعزٰي، إذا كان الذباح وثنيا، والنار، إذا كان الذابح مجوسيا، ولا خلاف فى تحريم هٰذا وأمثاله، ومثله ما يقع من المعتقدين لل۔أموات، من الذبح علٰي قبورهم، فإنه مما أهل به لغير الله، ولا فرق بينه وبين الذبح للوثن .
’’ اس آیت ِ کریمہ میں وہ جانور مراد ہے جس پر غیراللہ کا نام لیا جائے، جیسا کہ اگر ذبح کرنے والا بت پرست ہو تو وہ لات و عزی کا نام لے گا اور اگر وہ مجوسی ہو تو آگ کا۔ اس طرح کے جانوروں کی حرمت میں کوئی اختلاف نہیں۔ مردہ پرستوں کی طرف سے قبروں پر جو جانور ذبح کیے جاتے ہیں، وہ بھی اسی طرح حرام ہیں، کیونکہ ان پر بھی غیراللہ کا نام پکارا گیا ہوتا ہے۔ قبروں پر اور بتوں کے استہانوں پر جانور ذبح کرنے میں کوئی فرق نہیں۔ “ [فتح القدير الجامع بين فنّي الرواية والدراية من علم التفسير : 196/1]
↰ معلوم ہوا کہ جو جانور بتوں، دیویوں، دیوتاؤں، آستانوں، قبروں اور اولیاء اللہ کے لیے نامزد ہو گیا، اسے بسم اللہ پڑھ کر بھی ذبح کیا جائے تو وہ حرام ہی رہتا ہے، کیونکہ اس کو غیر اللہ کے لیے مقرر کرنے والے کا مقصد گوشت نہ تھا، بلکہ غیراللہ کا تقرب تھا۔
’’ مفتی “ احمد یار خان نعیمی بریلوی صاحب ایک اشکال ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ اگر کسی نے جانور میت کے نام پر پالا، بعد میں اس سے تائب ہو گیا اور خالص نیت سے اس کو ذبح کیا تو یہ بالاتفاق حلال ہے، حالانکہأُهِلَّ میں تو یہ بھی داخل ہو گیا۔ اگر ایک بار بھی غیراللہ کا نام اس پر بول دیا مَا أُهِلَّ کی حد میں آ گیا۔ اب ماننا پڑا کہ وقت ذبح اللہ کا نام پکارنا معتبر ہے، نہ کہ قبل کا۔ [’’جاء الحق‘‘ : 364-363/1]
جس وجہ سے اس حلال جانور کا کھانا حرام ہوا تھا، جب وہ وجہ ہی ختم ہو گئی تو اس کا کھانا جائز ہو گیا۔ جب ایک شخص نے اپنے دل سے غیراللہ کی نذر و نیاز کی نیت ہی ختم کر دی تو وہ جانور غیراللہ سے منسوب رہا ہی نہیں۔ اس سے وقت ِ ذبح کی قید کیسے ثابت ہو گئی ؟
➋ نذر و نیاز والی نسبت شرک ہے :
کسی چیز کو اگر اولیاء اللہ کی طرف منسوب کیا جائے تو یہ نسبت نذر و نیاز کی ہو گی، جو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کے لیے کرنا شرک، حرام اور ناجائز ہے۔ اس کے برعکس کوئی جانور اپنے مالک کی طرف منسوب ہو تو یہ نسبت نذر و نیاز کی نہیں بلکہ ملکیتی ہے، اسی طرح اگر اسے کسی موقع کے ساتھ منسوب کر دیاجائے، مثلاً عید کا بکرا، تو یہ نسبت اللہ تعالیٰ کے لیے نذر و نیاز کی ہے، جو کہ عین عبادت ہے اور ولیمے کی گائے، وغیرہ، یہ نسبت غیراللہ کے لیے نذر و نیاز کی نہیں۔ اتنی سی بات بعض لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی۔
◈ جناب ’’ مفتی “ احمد یار خان نعیمی بریلوی لکھتے ہیں :
’’ جب أُهِلَّ کے لغوی معنی مراد ہوئے، یعنی جانور پر اس کی زندگی میں یا بوقت ِ ذبح غیراللہ کا نام پکارنا جانور کو حرام کر دیتا ہے تو لازم آیا کہ جانور کے سوا دوسری اشیاء بھی غیراللہ کی طرف نسبت کرنے سے حرام ہو جاویں، کیونکہ قرآن میں آتا ہے : وَمَا اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ
”ہر وہ چیز جو کہ غیراللہ کے نام پر پکاری جائے۔“ ما میں جانور کی قید نہیں۔ پھر
خواہ تقرب کی نیت سے پکارا یا کسی اور نیت سے بہرحال حرمت آنی چاہیے، تو زید کا بکرا، عمرو کی بھینس، زید کے آم، بکر کے پھل، فلاں کی بیوی۔۔۔ “ [’’جاء الحق‘‘ : 363/1]
ان لوگوں کو کوئی پوچھے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا ہے کہ غیراللہ کے لیے جانور ذبح کرنا شرک ہے، اس کا مصداق بھی کوئی ہے یا نہیں ؟ ظاہر ہے کہ جو جانور غیراللہ کے لیے نذر نیاز کی نیت سے منسوب کر کے ذبح کیا جائے گا، وہی حرام ہو گا اور یہی نسبت شرک ہو گی، اس کے علاوہ باقی ساری نسبتیں جائز ہوں گی۔
صاف ظاہر ہے کہ جو جانور یا چیزیں اصحاب ِ قبور اور اولیاءاللہ کی طرف منسوب ہوتی ہیں، وہ ان کی نذر و نیاز ہونے کی بنا پر ہی منسوب ہوتی ہیں۔ اگر کوئی کہے کہ یہ غوث پاک کی گائے ہے یا یہ شیخ سدو کا بکرا ہے تو یہ غیراللہ کے لیے نذر و نیاز ہی تو ہے۔
’’ مفتی “ صاحب کی ایک تعجب خیز بات ملاحظہ فرمائیں، وہ لکھتے ہیں :
’’ گیارہویں کا بکرا یا غوث پاک کی گائے وغیرہ، یہ شرعاً حلال ہے، جیسا کہ ولیمہ کا جانور۔ “ [’’جاء الحق‘‘ : 359,358/1]
حلت و حرمت کا اختیار اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، کسی انسان کو اسے اپنے ہاتھ میں کرنے کی اجازت نہیں، لیکن ’’ مفتی “ صاحب شاید حلت و حرمت کو اپنی اجارہ داری سمجھ رہے ہیں !
ہمارا سوال ہے کہ ولیمہ کے جانور کی نسبت تو شریعت سے ثابت ہے، لہٰذا ولیمے کا جانور شرعاً حلال ہوا، لیکن گیارہویں کا بکرا یا غوث پاک کی گائے والی نسبت کس شریعت سے ثابت ہے ؟ ظاہر ہے کہ یہ نسبت شریعت ِ اسلامیہ سے ثابت ہو گی تو ہی ایسا جانور شرعاً حلال ہو گا۔
بتائیں کہ کس صحابی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی گائے چھوڑی یا ذبح کی ؟
کہاں غیراللہ کی نذر و نیاز کے لیے ان سے جانور منسوب کرنے کا شرکیہ عمل اور کہاں ولیمہ جیسے مسنون عمل کے لیے منسوب جانور۔ جب دامن دلائل سے خالی ہو جائے تو ایسی ہی بے ربط باتیں کی جاتی ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ’’ مفتی “ صاحب غیراللہ کے نام پر ذبح کرنے کے ثبوت کے لیے غیراللہ کے نام کی نذر و نیاز ثابت کرتے، لیکن انہوں نے جاہل عوام کو دھوکا دینے کے لیے اس طرح کی الٹی سیدھی باتیں شروع کر دی ہیں۔
➌ گوشت کھانا یا نہ کھانا مؤثر نہیں :
غیراللہ کے لیے جو جانور ذبح کیا جائے، اس کا گوشت کھانے کا ارادہ ہو یا نہ ہو، اسے کھایا جائے یا نہ کھایا جائے، وہ حرام ہی ہوتا ہے۔
’’ مفتی “ صاحب فقہ حنفی کی کچھ عبارات کی مراد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ غیر خدا کو راضی کرنے کے لیے صرف خون بہانے کی نیت سے ذبح کرنا کہ اس میں
گوشت مقصود نہ ہو، جیسے کہ ہندو لوگ بتوں یا دیوی کی بھینٹ چڑھاتے ہیں کہ اس سے
صرف خون دے کر بتوں کو راضی کرنا مقصود ہے۔ یہ جانور اگر بسم اللہ کہہ کر بھی ذبح کیا
جاوے، جب بھی حرام ہے، بشرطیکہ ذبح کرنے والے کی نیت بھینٹ کی ہو، نہ کہ ذبح کرانے والے کی۔ ان فقہی عبارات سے یہ ہی مراد ہے۔ “ [’’جاء الحق‘‘ : 365,364/1]
کیا بریلوی حضرات بزرگوں کے نام پر جانور ذبح کرتے ہیں تو ان کا مقصود گوشت کھانا ہوتا ہے ؟ کیا قبروں پر جانور ذبح کرنے والے گوشت کھانے کے لیے ایساکرتے ہیں ؟
ہم ’’ مفتی “ صاحب کی اس عبارت پر کوئی تبصرہ کرنے کی بجائے، اسی عبارت کوحسب ِ
حال ہندو کی جگہ بریلوی اور بتوں کی جگہ قبروں وغیرہ کے الفاظ لگا کر لکھ رہے ہیں اور
فیصلہ اربابِ فکر و نظر پر چھوڑتے ہیں کہ وہ خود ہی انصاف کر دیں، ملاحظہ فرمائیں :
’’ غیر خدا کو راضی کرنے کے لیے صرف خون بہانے کی نیت سے ذبح کرنا کہ اس میں گوشت مقصود نہ ہو، جیسے کہ بریلوی لوگ قبروں، آستانوں اور اولیاءاللہ کی بھینٹ چڑھاتے ہیں کہ اس سے صرف خون دے کر اصحاب ِ قبور کو راضی کرنا مقصود ہے۔ یہ جانور اگر بسم اللہ پڑھ کر بھی ذبح کیا جاوے، جب بھی حرام ہے۔ “
رہا ’’ مفتی “ صاحب کا یہ شرط ذکر کرنا : ’’ بشرطیکہ ذبح کرنے والے کی نیت بھینٹ کی ہو، نہ کہ ذبح کروانے والے کی۔ “ تو یہ شرط فقہائے احناف کی گھڑنتل ہے۔ قرآن و حدیث اور آثارِ صحابہ و تابعین میں اس کا کہیں ذکر نہیں۔ سلف صالحین اور ائمہ ھدیٰ میں سے کوئی بھی ان کا ہم خیال نہیں۔
احناف کی فقہی موشگافیاں :
حنفی مذہب کی کتابوں میں تو یہاں تک لکھا ہے :
مسلم ذبح شاة المجوس، لبيت نارهم، أو الكافر، لآلهتهم، تؤكل، لأنه سمي الله تعالٰي، ويكره للمسلم .
’’ مسلمان نے مجوسی کی وہ بکری، جو ان کے آتش کدہ کے لیے تھی، یا کافر کی، ان کے
معبودوں کے لیے تھی، ذبح کی، وہ حلال ہے، کیونکہ اس مسلمان نے اللہ کا نام لیا ہے، مگر یہ کام مسلمان کے لیے مکروہ (ناپسندیدہ ) ہے۔ “ [فتاويٰ عالمگيري : 115/3]
یہ سب اپنی شکم پروری کے طریقے ہیں۔ کافروں کا حرام مال اپنے لیے حلال کرنے کی خاطر یہ حیلہ تراش لیا گیا۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے ؟
آئیے ذبح سے متعلق اس ’’ فقہ شریف “ کا ایک اور مسئلہ ملاحظہ فرمائیں :
وفي فتاوٰي أهل سمرقند : إذا ذبح كلبه، وباع لحمه جاز، وكذا إذا ذبح حماره، وباع لحمه، وهٰذا فصل اختلف فيه المشايخ فيه، بنائ على اختلافهم فى طهارة هٰذا اللحم بعد الذبح، واختيار الصدر الشهيد علٰي طهارته .
’’ اہل سمرقند کے فتاوی میں ہے کہ جب (کوئی حنفی ) اپنے کتے کو ذبح کرے اور اس کا گوشت فروخت کرے تو جائز ہے۔ اسی طرح جب وہ اپنے گدھے کو ذبح کرے اور اس کا گوشت فروخت کرے (تو جائز ہے )۔ اس مسئلے میں ہمارے مشایخ کا اختلاف ہے اور اس کی وجہ ذبح ہونے کے بعد اس گوشت کے پاک ہونے میں اختلاف ہے۔ صدر شہید نے اس گوشت کے پاک ہونے کو ہی اختیار کیا ہے۔ “ [فتاويٰ عالمگيري : 115/3]
اس طرح کے فتووں کا وقوع کسی انسان سے اسی وقت ہوتا ہے، جب اس کا دل تقویٰ سے خالی ہو جاتا ہے، ورنہ اللہ سے ڈرنے والے کبھی ایسی باتیں نہیں کر سکتے۔
آئیے اب آتے ہیں کلیساؤں اور آتش کدوں پر جانور ذبح کرنے کی طرف۔ فقہ حنفی نے اس حوالے سے بھی اپنے پیروکاروں کو محروم نہیں رکھا۔ فقہ حنفی کی ایک معتبر کتاب میں لکھا ہے :
وإن أوصي الذمي للبيعة أو للكنيسة، أن ينفق عليها فى إصلاحها، أو أوصٰي أن يبنٰي بماله بيعة، أو كنيسة، أو بيت نار، أو أوصٰي بأن يذبح لعيدهم، أو للبيعة، أو لبيت نارهم ذبيحة، جاز فى قول أبي حنيفة، ولم يجز شيئ منه فى قول أبي يوسف ومحمد .
’’ اگر ذمی شخص یہ وصیت کرے کہ کلیسے یا گرجے کی مرمت کے لیے مال خرچ کیا جائے، یا وہ وصیت کر دے کہ اس کے مال سے کلیسہ، گرجہ یا آتش کدہ بنایا جائے، یا وہ وصیت کرے کہ ذمیوں کی عید کے موقع پر یا ان کے کلیسہ کے لیے یا ان کے آتش کدے کے لیے جانور ذبح کیا جائے تو امام ابوحنیفہ کے قول کے مطابق یہ کام جائز ہے، جبکہ (قاضی ) ابویوسف محمد ( بن حسن شیبانی ) نے اس میں سے کسی کام کو بھی جائز قرار نہیں دیا۔ “ [المبسوط للسرخسي : 94/28]
ایک طرف احناف کی یہ فقہ شریف کلیساؤں، گرجا گھروں اور آتش کدوں کی مرمت و تعمیر اور آگ جیسے باطل معبودوں کے لیے جانور ذبح کرنے کو بھی سندِ جواز دے رہی ہے، جبکہ دوسری طرف اس فقہ کے بعض پیروکار اہل حدیثوں کی مساجد کو منہدم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ کیسا ایمان اور کیسا اسلام ہے ؟
حنفی فقہاء کی مذکورہ عبارات کو بنیاد بنا کر ’’ مفتی “ صاحب لکھتے ہیں :
’’ دیکھیے جانور پالنے والا کافر ہے اور ذبح بھی کراتا ہے بت یا آگ کی عبادت کی نیت سے، گویا مالک کا پالنا اور ذبح کرانا دونوں فاسد، مگر چونکہ بوقت ِ ذبح مسلمان نے بسم اللہ کہہ کر ذبح کیا ہے، لہٰذا جانور حلال ہے۔ کہیے گیارہویں یا میلاد کا بکرا اس بت پرست کے بکرے سے بھی گیا گزرا ہے کہ وہ تو حلال مگر یہ حرام ؟ والحمدللہ ! بخوبی ثابت ہوا کہ یہ گیارہویں وغیرہ کا جانورحلال ہے اور یہ فعل باعث ِ ثواب۔ “ [’’جاء الحق‘‘ : 361/1]
یہ محض سینہ زوری ہے۔ حنفی فقہاءکے یہ حوالے حنفی تقلیدیوں کو ہی پیش کیے جائیں۔ انہی کے نزدیک بت پرستوں کی عبادت گاہوں اور معبودوں کے لیے ذبح کیاجانے والا جانور حلال ہو گا اور انہی کے نزدیک اس سے گیارہویں کا بکرا حلال ہو گا۔ ہمارے نزدیک نہیں۔ بت یا آگ کی عبادت کی نیت سے جانور ذبح کیا جائے یا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کے لیے نذر و نیاز کی نیت سے، دونوں حرام ہیں، خواہ انہیں مسلمان اللہ کا نام لے کر ذبح کرے، کیونکہ یہ دونوں جانور غیراللہ کی نذر و نیاز کے لیے ذبح کیے گئے ہیں۔ نذر و نیاز عبادت ہے، جیسے نماز و روزہ عبادت ہے۔ کوئی کسی بت کے لیے نماز پڑھے یا کسی نیک ولی کے لیے، دونوں صورتوں میں شرک اور حرام ہے۔
جو لوگ مجوسیوں کے آتش کدوں اور آگ کے لیے وقف بکروں کو حلال کر لیتے ہیں، ان کے لیے گیارہویں کے بکرے کو حلال قرار دینا کوئی مشکل نہیں۔ البتہ جو لوگ قرآن و حدیث، سلف صالحین اور ائمہ دین کی پیروی کرتے ہیں، ان کے لیے ایسا کرنا ناممکن ہے۔
دارالعلوم دیوبند کے ’’ شیخ الحدیث “ جناب انور شاہ کشمیری دیوبندی کہتے ہیں :
واعلم أن الإهلال لغير الله تعالٰي، وإن كان فعلا حراما، لٰكن الحيوان المهل حلال، إن ذكاه بشرائطه، وكذا الحلوان التى يتقرب بها لل۔أوثان أيضا، جائزة على ال۔أصل .
’’ جان لو کہ غیراللہ کے لیے ذبح کرنا اگرچہ حرام کام ہے، لیکن اگر اس جانور کوشرائط کے مطابق ذبح کیا جائے تو وہ حلال ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ مٹھائی جو بتوں کے تقرب کے لیے رکھی جاتی ہے، وہ بھی اصل کی بنا پر جائز ہے۔ “ [فيض الباري : 180/4]
ہم بھی حیران تھے کہ دیوبندی حضرات حرام سمجھتے ہوئے بھی مزارات کی نذر و نیاز اور گیارہویں کے حلوے کیوں ڈکار جاتے ہیں۔ اب یہ عقدہ کھلا ہے کہ اس مسئلے میں بریلوی اور دیوبندی حضرات متفق ہیں۔ شاید یہ بھی دارالعلوم دیوبندکی برکات میں سے ہے۔
یہاں کشمیری صاحب کا ایک اور کارنامہ بھی ملاحظہ فرماتے جائیں، لکھتے ہیں :
قال أبو المنذر : وقد بلغنا أن النبى صلى الله عليه وسلم ذكرها يوما، فقال : لقد اهتديت للعزٰي شاة عفرائ، وأنا علٰي دين قومي .
’’ ابومنذر نے کہا کہ ہمیں یہ بات پہنچی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن بتوں کا ذکر کیا اور فرمایا : میں نے عزی کے لیے ایک مٹیالے رنگ کی بکری کا چڑھاوا چڑھایا۔ اس وقت میں اپنی قوم (قریش ) کے دین پرتھا۔ “ [فيض الباري : 238/4]
استغفراللہ ! ان لوگوں کی جرأت اور بے باکی ملاحظہ فرمائیں کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی گمراہ اور مجہول شخص کی بیان کردہ انتہائی جھوٹی بات منسوب کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی دور میں مشرک بھی رہے تھے ؟ ؟ العياذبالله
فقہ حنفی اور غیر اللہ کی نذر و نیاز :
گیارہویں والے ہمارے بھائیوں کو اپنی فقہ کا یہ قول بھی ضرور یاد رکھنا چاہیے :
والنذر للمخلوق لا يجوز، لأنه عبادة، والعبادة لا تكون للمخلوق .
’’ مخلوق کے لیے نذر و نیاز جائز نہیں، کیونکہ یہ عبادت ہے اور عبادت مخلوق کے لیے نہیں ہو سکتی۔ “ [فتاوٰي شامي : 439/2 ]
جانوروں کی غیر اللّٰہ کی طرف نسبت اور قرآن :
اللہ تعالیٰ نے حرام چیزوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :
وَمَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ [المائدة 5 : 3]
’’ اور جو جانور آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو۔ “
یعنی قبروں اور مزاروں پر ذبح کیا گیا جانور حرام ہے، اگرچہ اس پر بوقت ِ ذبح اللہ کا نام پکار دیا جائے، اس کو کھانے سے روک دیا گیا ہے۔
نیز ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَيَجْعَلُوْنَ لِمَا لَا يَعْلَمُوْنَ نَصِيبًا مِّمَّا رَزَقْنَاهُمْ تَاللّٰهِ لَتُسْأَلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَفْتَرُونَ [النحل 16 : 56]
’’ اور وہ اللہ کے دئیے گئے رزق سے ان (معبودانِ باطلہ ) کا حصہ مقرر کرتے ہیں، جن کو یہ جانتے تک نہیں۔ اللہ کی قسم ! تم سے تمہارے جھوٹوں کے بارے میں ضرور باز پرس ہو گی۔ “
◈ امام اہل سنت، حافظ، اسماعیل بن عمر، ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
يخبر تعالٰي عن قبائح المشركين الذين عبدوا مع الله غيره من ال۔أصنام، وال۔أوثان، وال۔أنداد، وجعلوا لها نصيبا مما رزقهم الله، فقالوا : ﴿هٰذا للٰه بزعمهم وهٰذا لشركائنا فما كان لشركائهم فلا يصل الي الله﴾ ، بغير علم، ﴿وما كان للٰه فهو يصل الٰي شركائهم﴾ [الأنعام 6 : 136] ، أى جعلوا لآلهتهم نصيبا مع الله، وفضلوهم أيضا علٰي جانبه، فأقسم الله تعالٰي بنفسه الكريمة، ليسألنهم عن ذٰلك الذى افتروه، وائتفكوه، وليقابلنهم عليه، وليجازينهم أوفر الجزائ فى نار جهنم، فقال : ﴿تالله لتسالن عما كنتم تفترون﴾ [النحل 16 : 56]
’’ اللہ تعالیٰ مشرکین کی بدکاریوں کے بارے میں خبر دے رہے ہیں جنہوں نے اس کے سوا اور معبودوں کی عبادت شروع کر رکھی تھی اور انہوں نے اللہ کے دئیے ہوئے رزق میں سے ان معبودوں کے لیے حصہ مقرر کیا ہوا تھا۔ وہ اپنے خیال کے مطابق کہتے تھے کہ یہ حصہ اللہ تعالیٰ کا ہے اور یہ ہمارے شریکوں کا۔ وہ لاعلمی میں یہ کہتے تھے کہ جو حصہ ان کے شریکوں کا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کو نہیں پہنچتا، جبکہ اللہ تعالیٰ کا حصہ ان کے شریکوں کو پہنچتا ہے۔ یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں اپنے معبودوں کا حصہ مقرر کر رکھا تھا اور انہیں اللہ تعالیٰ کے حق پر حاوی بھی کیا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات مبارکہ کی قسم اٹھائی اور فرمایا کہ انہوں نے جو افترا پردازیاں کی ہیں اور جھوٹ باندھے ہیں، ان کے بارے میں وہ ضرور ان سے پوچھے گا اور انہیں ضرور اس جرم کی سزا اور جہنم میں اس کا پورا پورا بدلہ دے گا۔ فرمانِ کی باری تعالیٰ ہے : تَاللّٰهِ لَتُسْاَلُنَّ عَمَّا كُنْتُمْ تَفْتَرُوْنَ [النحل 16 : 56] ”اللہ کی قسم! تم جو جھوٹ باندھتے تھے،اس کے بارے میں تم سے ضرور پوچھا جائے گا۔ “ [تفسير القرآن العظيم : 45/4، بتحقيق عبد الرزّاق المهدي ]
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنْ بَحِيرَةٍ وَّلَا سَائِبَةٍ وَّلَا وَصِيلَةٍ وَّلَا حَامٍ وَّلٰكِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوْا يَفْتَرُوْنَ عَلَي اللّٰهِ الْكَذِبَ وَاَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ [المائدة 5 : 103]
’’ اللہ تعالیٰ نے کوئی بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام مقرر نہیں کیے، بلکہ کافر لوگ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتے ہیں اور ان میں سے اکثر عقل نہیں رکھتے۔ “
اس آیت ِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے غیراللہ کے نام منسوب کیے ہوئے جانوروں کی شرعی حیثیت کی نفی کی ہے۔ کفار یہ کہتے تھے کہ یہ جانور اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ طریقے کے مطابق منسوب کیے جاتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ غیراللہ کے نام پر جانور چھوڑنا کفار کا طرز عمل تھا۔
یاد رہے کہ اس آیت میں صرف اس تاثر کی نفی کی گئی ہے کہ غیراللہ کے نام پر جانور چھوڑنا جائز ہے، یہاں ان جانوروں کی حلت و حرمت کا کوئی تذکرہ نہیں۔
’’ مفتی “ صاحب اس پر بھی طبع آزمائی کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ یہ چار جانور، بحیرہ وغیرہ وہ تھے، جن کو کفارِ عرب بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے اور
ان کو حرام سمجھتے تھے۔ قرآن نے اس کو حرام سمجھنے کی تردید فرما دی، حالانکہ ان پر زندگی میں بتوں کا نام پکارا گیا تھا اور ان کے کھانے کا حکم دیا کہ فرمایا : كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ [الأنعام 6 : 142]
کھاؤ اس کو جو تمہیں اللہ نے دیا اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو۔ “ [’’جاء الحق‘‘ : 362/1 ]
بحیرہ والی آیت میں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ یہ جانور اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ نہیں، بلکہ اس بارے میں مشرکین نے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھا ہے۔ ان جانوروں کی حلت و حرمت کا اس آیت میں کوئی ذکر نہیں کیا گیا، جبکہ وَمَا اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ والی آیت سے معلوم ہو گیا کہ یہ جانور حرام ہیں۔ ’’ مفتی “ صاحب نے جو آیت ِ کریمہ ذکر کی ہے، اس میں بحیرہ وسائبہ وغیرہ کی حلت کا کوئی ذکر نہیں۔ اس آیت میں تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے رزق کو کسی کے نام منسوب کر کے حرام کرنا کفار کا کام ہے، تم ایسا نہ کرنا، اگر تم کفار کی تقلید میں ایسے جانور مقرر کرو گے تو شیطان کی پیروی کرو گے۔
کسی بھی مفسر نے اس آیت ِ کریمہ کی رُو سے بحیرہ وغیرہ کو حلال قرار نہیں دیا اور یہ نہیں کہا کہ اس آیت میں بحیرہ وغیرہ کو کھانے کا حکم دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو بحیرہ وغیرہ کفار نے مقرر کیے تھے، وہ انہی کی ملکیت تھے اور انہوں نے اپنے بتوں کے نام کیے ہوئے تھے، مسلمانوں کو کیسے حکم دیا جا سکتا تھا کہ وہ ان کو کھائیں ؟ یہ قرآنِ کریم کی معنوی تحریف ہے اور اس سے ’’ مفتی “ صاحب کی علمی حالت عیاں ہو جاتی ہے۔
رہا ’’ مفتی “ صاحب کا اپنی تائید میں حافظ نووی رحمہ اللہ کا ایک قول ذکر کرنا تو یہ قول قرآن و سنت اور فہم سلف کے خلاف ہونے کی بنا پر ناقابل التفات ہے۔ سلف صالحین اور ائمہ دین و محدثین میں سے کوئی بھی ان کا ہمنوا نہیں۔
آخر میں ہمارا بریلوی بھائیوں سے سوال ہے کہ کیا صحابہ کرام، تابعین عظام اور ائمہ دین بشمول امام ابوحنیفہ سے غیراللہ کے لیے جانور چھوڑنا اور بزرگوں کی نذر کر کے انہیں ذبح کرنا ثابت ہے ؟ کیا کسی صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر کوئی جانورچھوڑا تھا ؟ کسی تابعی نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سمیت کسی صحابی کے نام پر کوئی جانور چھوڑا ہو ! کسی تبع تابعی نے کسی تابعی کے نام پر یا امام ابوحنیفہ نے کسی صحابی و تابعی کے نام سے کوئی جانور منسوب کیا ہو ! اگر یہ جائز ہوتا، بلکہ بریلوی بھائیوں کے نزدیک نیکی کا کام ہے، تو صحابہ کرام سے بڑھ کر کون نیکیوں کا متلاشی تھا ؟ کیا صحابہ کرام کو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی بھی محبت نہیں تھی، جتنی بعد کے قبر پرست لوگوں کو اپنے بزرگوں اور پیروں سے ہے ؟ صحابہ و تابعین اور ائمہ دین اس ’’ کارِ خیر “ سے کیونکرمحروم رہے ؟
ہم یہاں پر بریلوی بھائیوں سے یہ بھی پوچھیں گے کہ جب غیراللہ، مثلا مردوں اور غائب پیروں کو پکارنے کی نفی کی جاتی ہے اور اس سلسلے میں آیات ِ قرآنیہ پیش کی جاتی ہیں تو ان کا جواب کچھ یوں ہوتا ہے : ’’ یہ آیات تو بتوں کے لیے ہیں، جو آپ اولیاء اللہ پرفٹ کر رہے ہیں۔ اولیاء اللہ بھلا غیراللہ ہوتے ہیں ؟ وہ غیراللہ نہیں، بلکہ اللہ کے دوست ہیں “
وغیرہ۔ لیکن یہاں پر ان کا طرز عمل مختلف ہے۔ جب غیراللہ کے نام کے ذبیحے کی بات آتی ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ ذبح کرتے وقت اللہ کے علاوہ کسی کا نام لیاجائے تو وہ حرام ہو جاتا ہے۔ اس موقع پر انہیں شاید یہ یاد نہیں رہتا کہ ان کے نزدیک اولیاء اللہ غیراللہ نہیں ہوتے۔ انہیں چاہیے کہ وہ ذبح کرتے وقت بھی اولیاء اللہ کا نام لینا جائز قرار دے دیں، ورنہ پکار کے حوالے سے بھی اپنے غیراللہ کے نظریے پر نظرثانی کر لیں۔
دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ عقیدۂ توحید کو سمجھنے، اسی کے مطابق زندگی بسر کرنے اور اسی پر مرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
عرس ،میلے ، غیر اللہ کی نذر ،اور مزارات پر مرد وزن کے مخلوط اجتماعات