نوشی گیلانی :::مزاروں پر محبت جاودانی سن رہے تھے:::

مزاروں پر محبت جاودانی سن رہے تھے
کبوتر کہہ رہے تھے ہم کہانی سن رہے تھے
میری گڑیا تیرے جگنو ہماری ماؤں کے غم
ہم اک دوجے سے بچپن کی کہانی سن رہے تھے
کبھی صحرا کے سینے پر بکھرتا ہے تو کیسے
سنہرے گیت گاتا ہے یہ پانی سن رہے تھے
گزرتی عمر کے ہر ایک لمحے کی زبانی
محبت رائیگانی رائیگانی سن رہے تھے
مزاج یار سے اتنی شناسائی غضب تھی
ہم اس کی گفتگو میں بے دھیانی سن رہے تھے
وفا کے شہر میں اک شام تھی خاموش بیٹھی
ہم اس میں بھی کمال خوش بیانی سن رہے تھے
دعائے آخری شب آسماں کو چھو رہی تھی
نوید روشنی اس کی زبانی سن رہے تھے
ہتھیلی پر رکھے پھولوں پہ جو آنسو گرے تھے
انہی سے کوئی اذن حکمرانی سن رہے تھے
 
Top