ابن جمال
محفلین
مسئلہ تذکیر وتانیث
از: نصرت ظہیر
انگریزی زبان میں اور چاہے کتنی بھی خامیاں ہوں، لیکن یہ بات بڑی اچھی ہے کہ اس میں تذکیرو تانیث کا مسئلہ اتنا شدید نہیں جتنا اردو میں ہے۔ مسئلہ تو خیر یہ ہندی زبان میں بھی ہے، لیکن وہ چونکہ راشٹر بھاشا ہے اس لئے سات خون معاف ہیں۔ چنانچہ کوئی کچھ نہیں بولتا، جس کے جو جی میں آتا ہے کہتا رہتا ہے۔ جبکہ اردو والے اتنے ذکی الحس واقع ہوئے ہیں کہ اگر کوئی کسی لفظ کی تذکیر یا تانیث میں ایک مرتبہ گڑ بڑ کر دے تو ناراض اور دوسری یا تیسری مرتبہ کردے تو بے ہوش ہو جاتے ہیں یا بے ہوش کر دیتے ہیں۔
انگریزی کا معاملہ خوب ہے، فری اسٹائل زبان ہے جو جس طرح چاہے بول اور لکھ پڑھ سکتا ہے۔ شیڈول(Schedule)کو آپ آرام سے اسکیڈول بولیں کوئی کچھ نہیں کہے گا اور اگر کہے تو پورے رعب سے کہہ دیجئے یہ امریکن انگلش ہے۔ مجال ہے جو کوئی چوں بھی کر جائے۔پھر کسی اور محفل میں اسی لفظ کو اسچیڈول بول جائیے۔ وہاں بھی کوئی زبان کھولے تو ڈانٹ دیجئے کہ ’’چپ! خبردار، یہ جرمن انگلش ہے۔‘‘ پھر دیکھئے کس طرح سب ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔ عربی میں یہی لفظ مزے سے جدول بولا جاتا ہے،مگر خیر۔۔۔ انہیں کون کچھ کہہ سکتا ہے؟ وہ تو اسے اپنی زبان کا ہی لفظ مانتے ہیں۔ ویسے بھی ان کا اصول ہے کہ سب کچھ اپنے حساب سے اور مزاج سے بولتے ہیں۔۔۔ اور نہیں بھی بولتے ہیں۔
مثلاً: عربی میں ’گاف‘(گ) نہیں ہے پھربھی بولتے ہیں۔ اور ’جیم‘(ج) ہے پھر بھی نہیں بولتے،بلکہ جیم کی جگہ بھی گاف بولتے رہتے ہیں۔ اس مثال کی ایک مثال یہ ہے کہ جمال عبدالناصر کو عرب والوں نے ہمیشہ گمال عبدالناصر کہا۔
تاہم الفاظ، املا اور تلفظ کی ہیرا پھیری میں انگریزی تمام زبانوں سے آگے ہے۔ انگریزی ڈکشنریاں اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ یہاں کا لفظ وہاں اور وہاں کا لفظ نہ جانے کہاں ملے گا۔نائف یعنی چاقو ک یعنی kکے تحت ملے گاتو نمونیہ کو ن یعنی nکے تحت نہیں پ کے باب میں پائیں گے۔ اسی طرح سائیکالوجی ہونی چاہیے س یا S کی تختی میں، مگر وہ ملے گی پP کے ماتحت جب کہ اسی باب میں سائیکل ڈھونڈیں تو کہیں نہیں ملے گی! وہ ملے گی اس حرف کے تحت جو پکارا تو ’سی ‘ کے نام سے جاتا ہے، مگر آواز دیتا ہے کبھی ’ک ‘ کی تو کبھی ’چ‘ کی اور کبھی ’س‘ کی۔ چنانچہ آپ کو سائیکل کے علاوہ کیٹ یعنی بلی بھی اسی میں ملے گی اور ’چارٹ‘ یعنی نقشہ بھی وہیں نظر آئے گا۔یہاں تک کہ شراڈ(charade)یعنی چیستاں بھی اسی میں مل جائے گا۔ یہی وجہ تھی کہ ایک مشہور لطیفے میں کیمسٹری کو چیمسٹری بولنے والے لیکچرر چوپڑا جی کو ایک انگریز نے جل بھن کر مسٹر کھوپڑا کہنا شروع کیا تو مسٹر چوپڑا اس کا کچھ بھی نہ کر سکے۔
یہی حال جیGکا بھی ہے، اس حرف کا کوئی ٹھکانہ نہیں کہ کب کیا آواز نکال دے۔ کسی لفظ کے شروع میں آئے گا تو عام طور سے ’گ‘ کی آواز دے گا، لیکن جغرافیہ اور جبرائیل بھی اسی کے تحت مل جائیں گے۔ یہی ’جی ‘بیچ میں آجائے تو الجبرا کی ’ج‘ بن جائے گی اور میگنٹ (مقناطیس) میں ’گ‘ کی آواز دے گی، لیکن یہی ’جی‘ہ یاH کے ساتھ مل جائے توکبھی ’ف‘ بن جائے گی (جیسے رفrough) اور کبھی بالکل ہی غائب ہو جائے گی ، جیسے ’ہائی‘high۔مرزا غالب نے غالباًاسی سے پریشان ہو کر کہا تھا:کوئی میرے جی سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو وغیرہ وغیرہ ۔غالباً اسی لئے انہوں نے انگریزی کی تعلیم حاصل نہیں کی۔
لیکن اس تمام گڑ بڑ گھوٹالے کے باوجود انگریزی میں تذکیرو تانیث کے معاملے میں کوئی ایسی خاص پیچیدگی نہیں ہے۔ سیدھا سادا حساب ہے۔ ہیheمذکر ہوتی ہے اور شیsheمونث ہو تا ہے۔ اسی طرح جان داروں میں نر مذکر ہے مادہ مونث۔ بے جان چیزیں نہ مذکر ہوتی ہیں نہ مونث۔ بس ’دس‘ اور ’دیٹ‘ کے دائرے میں گھومتی رہتی ہیں۔ البتہ بحری جہاز اور ملکوں کے لئے جنس مقرر کر دی ہے اور ان کے لئے ’شی‘ اور ’ہر‘ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ جہاز دخانی ہو یا ملک افغانی ، انگریزی میں دونوں مونث ہی رہیں گے۔
مگر ایک لطف کی بات ہے کہ جانداروں کے لئے اگرچہ انگریزی میں تذکیرو تانیث کا پورا خیال رکھا جاتا ہے، تاہم خود اپنی جنس انگریز حضرات کبھی نہیں کھولتے۔ حالانکہ جنسی معاملات میں انہیں خاصا آزاد خیال تصورکیا جاتاہے۔ انگریز اور انگریزی داں جب بھی فرسٹ پرسن(صیغہ واحد متکلم) میں بات کرتے ہیں تو اپنی جنس پر ایسا پردہ ڈال دیتے ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا وہ بول رہا ہے یا بول رہی ہے۔ ’میں آیا ہوں‘ اور ’میں آئی ہوں‘ دونوں کی انگریزی، انگریزی زبان میں ایک ہے۔’آئی ہیو کم!‘I have come
یہی وجہ ہے کہ راقم انگریزی کے ان ادبی افسانوں اور ناولوں کا مطالعہ عموماً نہیں کرتا جو صیغہ واحد متکلم میں لکھے گئے ہوں۔ کیونکہ ان میں مسئلہ یہ رہتا ہے کہ میں آدھی کہانی(اور کبھی کبھی تو پوری کہانی) پڑھ کر بھی یہ نہیں سمجھ پاتا کہ بیان کرنے والامذکر ہے یا مونث، تاوقتیکہ کہانی میں اس کے شوہر یا بیوی کا ذکر نہ آ جائے۔
فرسٹ پرسن ہی نہیں ، سیکنڈ پرسن اور کبھی کبھی تھرڈ پرسن کی جنس بھی واضح نہیں ہو پاتی۔ چنانچہ تم آئے ہو، یا تم آئی ہو، اور وہ آئے ہیں یا وہ آئی ہیں کو بھی ایک ہی طرح سے بولا اور لکھا جاتا ہے۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ انگریزی میں بیشتر اشخاص کی جنس غیر واضح رہتی ہے اور اس کاصرف دوسری علامتوں سے ہی ٹھیک ٹھیک پتہ چل پاتا ہے۔
بچپن میں غلطی سے ایک مرتبہ کلاس میں ماسٹر صاحب سے پوچھ لیا تھاکہ ’’ماصّاب ، طوطا مذکر ہے یا مونث؟ ‘‘اس کی سزا یہ ملی کہ ماسٹر صاحب نے زور سے گھور کر دیکھا اور بنچ پر کھڑا کردیا۔ جب پیریڈ ختم ہوا تو پاس آئے اور میرا کان مسلتے ہوئے بولے:’’بر خوردار،طوطا اگر بول رہا ہو تو مذکر ہے اور بول رہی ہو تو مونث! سمجھے؟ اب بیٹھ جاؤ اور گرامر یاد کرو۔‘‘
جیساکہ عرض کیا جا چکا ہے، اردو میں تذکیروتانیث کا مسئلہ بڑا ٹیڑھا، نازک اور پیچیدہ ہے۔ ہمارے ہاں انگریزی کے برعکس جانداروں کے علاوہ بے جان چیزوں کے لئے بھی تذکیرو تانیث طے کرنی پڑتی ہے اور وہ بھی کسی طے شدہ اصول کے بغیر! موٹے طور پر بے جان چیزوں کے لئے تذکیرو تانیث اسی اصول کے تحت طے کی جاتی ہے، جس طرح ہمارے مردانہ سماج نے مرد اور عورت کی طے کی ہے۔ یعنی جو چیز دیکھنے میں بڑی اور طاقت ور ہو وہ مذکر اور جو چھوٹی اور کمزور ہو وہ مونث۔ مثلاً لوٹا مذکر ہے تو لٹیا مونث۔ اسی طرح پراٹھا مذکر ہے تو روٹی مونث اور چپاتی اور بھی زیادہ مونث۔اور بھی سیکڑوں چیزیں ہیں جیسے پہاڑ اور پہاڑی، دریا اور ندی، شہر اور بستی، محل اور جھونپڑی وغیرہ وغیرہ، لیکن یہاں بھی ایک قباحت ہے۔ پہاڑی پہاڑ سے چھوٹی ہوتی ہے، لیکن ٹیلہ پہاڑی سے چھوٹا ہوتا ہے پھر بھی مذکر کہلاتا ہے۔ اسی طرح ندی کے مقابلے میں نالہ، بستی کے آگے محلّہ اور جھونپڑی کے سامنے گھونسلہ چھوٹا ہونے پر بھی مذکر بن جاتا ہے۔کچھ اور مثالیں ہیں:
ٹرک، کار اور ٹمپو۔کوٹ قمیص اور بنیان۔تہمد، پتلون اور نیکر۔ قالین، دری اور غالیچہ۔تربوز ، نارنگی اور آلو بخارا۔
ان سب میں بڑی چیز مذکر ہے، اس سے چھوٹی مونث اور مونث سے چھوٹی اور کمزور پھر مذکر بن گئی ہے۔پھر کئی معاملوں میں بڑے اور چھوٹے کی بھی تمیز نہیں ہے۔ مثلاًدہلی کی شاہجہانی جامع مسجد اتنی بڑی ہونے پر بھی مونث ہے، مگر اس کے قریب جین بھائیوں کا چھوٹا سا لال مندر مذکر کہلاتا ہے۔ کرسی اور اسٹول، کتاب اور کتابچہ، رضائی اور کمبل، اور دہلی و ہونولولو کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے کہ مونث بڑی ہے مذکر چھوٹا۔
لیکن ایسا نہیں کہ مسئلہ صرف بے جان چیزوں کی تذکیرو تانیث تک ہی محدود ہے۔کئی بار جان دار مخلوق کی جنس میں بھی شبہ ہو جاتا ہے۔ مثلاً مکھی، مچھر، تتیّا، تتلی، چیتاوغیرہ ایسی ہی چیزیں جن کی مخالف جنس کے لئے الگ سے کوئی لفظ اردو میں نہیں پایا جاتا۔ایک مرتبہ کسی نے پوچھا گینڈے کی مونث کو کیا کہیں گے۔ جواب دینے والے نے کہا کہ یوں تو اسے آپ گینڈی کہہ سکتے ہیں، لیکن یہ لفظ چونکہ سننے میں گینڈے سے زیادہ مکروہ ہے، اس لئے بہتر ہوگا اسے مادہ گینڈا کہہ لیا جائے۔ اس پر اردو کے ایک پڑھے لکھے پروفیسر نے(جو آج کل بہت کم پائے جاتے ہیں)فوراً مداخلت کی اور کہا: ’’لاحول ولا قوۃ۔ یعنی آپ فوری طور پراردو کا بیڑا غرق کر دینا چاہتے ہیں۔ خدا نہ کرے یہ فارمولہ رواج پاگیا تو جانتے ہیں کیا ہوگا؟‘‘
’’کیا ہوگا؟‘‘ ان صاحب نے تھر تھر کانپتے ہوئے سہمی ہوئی آواز میں پوچھا۔
’’ہو گا یہ کہ لوگ مرغی کو مادہ مرغ، اونٹنی کو مادہ اونٹ، عورت کو مادہ مرد اور بیوی کو مادہ شوہر کہنے لگیں گے۔ اسی طرح بکرے کو نر بکری، ہاتھی کو نر ہتھنی اور پلنگ کو نر چارپائی کہنے میں بھی لوگ مضائقہ نہیں سمجھیں گے۔صرف ایک چیز بچے گی جو ازل سے مذکر ہے اور ہمیشہ مذکر رہے گی کہ نہ اس کی مادہ ایجاد ہوئی ہے نہ کبھی ہوگی۔جانتے ہو وہ کیا ہے؟‘‘
’’کیا؟‘‘ سب نے بیک آواز پوچھا۔
’’حقہ!‘‘اردوپروفیسر نے جواب دیا اور زور سے سگریٹ کے کش لینے لگا۔
اب آپ ہی بتائیے کہ ان حالات میں تذکیرو تانیث طے کرنے کا کوئی سیدھا اور واضح اصول کیسے بن سکتا ہے۔ پر ایک جھگڑا یہ ہے کہ لوگوں نے خود بھی اپنی اپنی تذکیرو تانیث طے کر رکھی ہے۔ مثال کے طور پر دہلی میں جو یوپی والے ہیں وہ دہلی انتظامیہ کو مذکر مانتے ہیں جب کہ بہار کی طرف کے لوگ اسے مونث کہتے ہیں۔ اور جو لوگ نہ یہاں کے ہیں نہ وہاں کے وہ سرے سے ہی اس کے وجود کو نہیں مانتے۔ اکثر ایک دوسرے سے پوچھتے رہتے ہیں، کدھر ہے دہلی انتظامیہ ، کہاں ہے میونسپل کارپوریشن؟
ویسے مشرقی یوپی اور بہار کی طرف کے اردو دانوں کی بات ہی الگ ہے۔ یہ لوگ اردو کے معاملے میں پورے انگریز ہیں اور اسے اپنی مرضی سے، جس طرح چاہتے ہیں استعمال کرتے رہتے ہیں۔ تذکیرو تانیث کی تو بات ہی جانے دیں۔ واحد اور جمع کے صیغوں کی بھی پروا نہیں کرتے۔ ایک صاحب ہیں، غالباً بہار کی طرف کے، جو ریڈیو پر کرکٹ کی کمنٹری دیا کرتے تھے ۔ کھیل کا حساب وہ بالعموم اس طرح بتایا کرتے تھے:
’’...سری کانت نے 85رن بنایا ہے اور روی شاستری کے صرف ایک رن بنے ہیں۔مظفر نگر نے...معاف کیجئے مدثر نذر نے چھ اوور گیند پھینکا ہے اور وسیم اکرم کے ابھی ایک اوور پورے ہوئے ہیں۔ اس وقت دوپہر کا سوا بارہ بجا ہے اور امید کرنی چاہیے کہ جب ایک بجیں گے اور لنچ کے بعد کی کھیل شروع ہوگی تب تک وکٹ اور دھیما کھیلنے لگے گی۔ تو آئیے تب تک میں آپ کو اسٹوڈیو واپس لئے چلتی ہوں...معاف کیجئے چلتا ہوں!‘‘
تذکیر اور تانیث کا کوئی واضح اصول نہ ہونے کی ہی وجہ ہے کہ اردو کے ہزاروں ادیب اور شاعر لاکھ سر مارنے پر بھی آج تک بلبل جیسے حقیر و فقیر پرندے کی جنس طے نہیں کرپائے ہیں۔: بلبل کی جنس پر اب تک اتنے ادبی جھگڑے اور فساد برپا ہو چکے ہیں کہ کچھ مت پوچھئے۔ شاعروں نے اپنی اپنی ضرورت ،ذوق اورذائقے کی مناسبت سے اسے مذکر اور مونث دونوں طرح باندھا ہے ۔ کسی شاعر کے جی میں آیا تو اس نے یہ لکھ کر گوا دیا:
دھیرے دھیرے آرے بادل دھیرے دھیرے آ
میرا بلبل سو رہا ہے شور و غل نہ مچا
کسی اور شاعر کے جی میں آئی تو اس نے لکھ دیا:
ایک تھا گل اور ایک تھی بلبل دونوں چمن میں رہتے تھے
پھر یہ خیال کرکے کہ بات بالکل پکّی ہو جائے اس سلسلے میں اپنے ایک بزرگ کا حوالہ دیتے ہوئے تذکیرو تانث کی تصدیق کے لئے یہ مصرع لگا دیاکہ:
ہے یہ کہانی بالکل سچّی میرے نانا کہتے تھے:
ایک مرتبہ میں نے مسئلۂ بلبل کے سلسلے میں میاں عبدالقدوس سے رجوع کیا تو انہوں نے فرمایا:
’’تذکیرو تانیث مزاج اور اور ذوق کا معاملہ ہے میاں اور آپ کی حسِ جمالیات کا بھی۔ جہاں تک بلبل کی جنس کا تعلق ہے تو اپنے موقف کی تائید میں ایک مرتبہ میں نے ایک شعر فی البدیہہ کہا تھا۔ تم بھی سن لو:
ان کا جو صیغہ ہو وہ اہلِ گرامر جانیں
میرا بلبل تو مونث ہے جہاں تک پہنچے!
امید ہے اس سے میرا موقف واضح ہو گیا ہو گا۔‘‘
’’لیکن آپ نے مونث بلبل کو بھی میرا کہہ دیا ہے۔ اس سے بات پھر الجھ گئی ہے۔‘‘
’’الجھ نہیں گئی الجھائی گئی ہے اور اسی کو استادی کہتے ہیں۔ بہرکیف بلبل کے مسئلے کا حل میرے نزدیک یہ ہے کہ اسے مونث مان لیا جائے۔‘‘
’’تو پھر مذکر بلبل کو کیا کہیں گے؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’بلبلہ!‘‘ انہوں نے نہایت اطمینان سے کہا۔
از: نصرت ظہیر
انگریزی زبان میں اور چاہے کتنی بھی خامیاں ہوں، لیکن یہ بات بڑی اچھی ہے کہ اس میں تذکیرو تانیث کا مسئلہ اتنا شدید نہیں جتنا اردو میں ہے۔ مسئلہ تو خیر یہ ہندی زبان میں بھی ہے، لیکن وہ چونکہ راشٹر بھاشا ہے اس لئے سات خون معاف ہیں۔ چنانچہ کوئی کچھ نہیں بولتا، جس کے جو جی میں آتا ہے کہتا رہتا ہے۔ جبکہ اردو والے اتنے ذکی الحس واقع ہوئے ہیں کہ اگر کوئی کسی لفظ کی تذکیر یا تانیث میں ایک مرتبہ گڑ بڑ کر دے تو ناراض اور دوسری یا تیسری مرتبہ کردے تو بے ہوش ہو جاتے ہیں یا بے ہوش کر دیتے ہیں۔
انگریزی کا معاملہ خوب ہے، فری اسٹائل زبان ہے جو جس طرح چاہے بول اور لکھ پڑھ سکتا ہے۔ شیڈول(Schedule)کو آپ آرام سے اسکیڈول بولیں کوئی کچھ نہیں کہے گا اور اگر کہے تو پورے رعب سے کہہ دیجئے یہ امریکن انگلش ہے۔ مجال ہے جو کوئی چوں بھی کر جائے۔پھر کسی اور محفل میں اسی لفظ کو اسچیڈول بول جائیے۔ وہاں بھی کوئی زبان کھولے تو ڈانٹ دیجئے کہ ’’چپ! خبردار، یہ جرمن انگلش ہے۔‘‘ پھر دیکھئے کس طرح سب ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔ عربی میں یہی لفظ مزے سے جدول بولا جاتا ہے،مگر خیر۔۔۔ انہیں کون کچھ کہہ سکتا ہے؟ وہ تو اسے اپنی زبان کا ہی لفظ مانتے ہیں۔ ویسے بھی ان کا اصول ہے کہ سب کچھ اپنے حساب سے اور مزاج سے بولتے ہیں۔۔۔ اور نہیں بھی بولتے ہیں۔
مثلاً: عربی میں ’گاف‘(گ) نہیں ہے پھربھی بولتے ہیں۔ اور ’جیم‘(ج) ہے پھر بھی نہیں بولتے،بلکہ جیم کی جگہ بھی گاف بولتے رہتے ہیں۔ اس مثال کی ایک مثال یہ ہے کہ جمال عبدالناصر کو عرب والوں نے ہمیشہ گمال عبدالناصر کہا۔
تاہم الفاظ، املا اور تلفظ کی ہیرا پھیری میں انگریزی تمام زبانوں سے آگے ہے۔ انگریزی ڈکشنریاں اٹھا کر دیکھ لیجئے۔ یہاں کا لفظ وہاں اور وہاں کا لفظ نہ جانے کہاں ملے گا۔نائف یعنی چاقو ک یعنی kکے تحت ملے گاتو نمونیہ کو ن یعنی nکے تحت نہیں پ کے باب میں پائیں گے۔ اسی طرح سائیکالوجی ہونی چاہیے س یا S کی تختی میں، مگر وہ ملے گی پP کے ماتحت جب کہ اسی باب میں سائیکل ڈھونڈیں تو کہیں نہیں ملے گی! وہ ملے گی اس حرف کے تحت جو پکارا تو ’سی ‘ کے نام سے جاتا ہے، مگر آواز دیتا ہے کبھی ’ک ‘ کی تو کبھی ’چ‘ کی اور کبھی ’س‘ کی۔ چنانچہ آپ کو سائیکل کے علاوہ کیٹ یعنی بلی بھی اسی میں ملے گی اور ’چارٹ‘ یعنی نقشہ بھی وہیں نظر آئے گا۔یہاں تک کہ شراڈ(charade)یعنی چیستاں بھی اسی میں مل جائے گا۔ یہی وجہ تھی کہ ایک مشہور لطیفے میں کیمسٹری کو چیمسٹری بولنے والے لیکچرر چوپڑا جی کو ایک انگریز نے جل بھن کر مسٹر کھوپڑا کہنا شروع کیا تو مسٹر چوپڑا اس کا کچھ بھی نہ کر سکے۔
یہی حال جیGکا بھی ہے، اس حرف کا کوئی ٹھکانہ نہیں کہ کب کیا آواز نکال دے۔ کسی لفظ کے شروع میں آئے گا تو عام طور سے ’گ‘ کی آواز دے گا، لیکن جغرافیہ اور جبرائیل بھی اسی کے تحت مل جائیں گے۔ یہی ’جی ‘بیچ میں آجائے تو الجبرا کی ’ج‘ بن جائے گی اور میگنٹ (مقناطیس) میں ’گ‘ کی آواز دے گی، لیکن یہی ’جی‘ہ یاH کے ساتھ مل جائے توکبھی ’ف‘ بن جائے گی (جیسے رفrough) اور کبھی بالکل ہی غائب ہو جائے گی ، جیسے ’ہائی‘high۔مرزا غالب نے غالباًاسی سے پریشان ہو کر کہا تھا:کوئی میرے جی سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو وغیرہ وغیرہ ۔غالباً اسی لئے انہوں نے انگریزی کی تعلیم حاصل نہیں کی۔
لیکن اس تمام گڑ بڑ گھوٹالے کے باوجود انگریزی میں تذکیرو تانیث کے معاملے میں کوئی ایسی خاص پیچیدگی نہیں ہے۔ سیدھا سادا حساب ہے۔ ہیheمذکر ہوتی ہے اور شیsheمونث ہو تا ہے۔ اسی طرح جان داروں میں نر مذکر ہے مادہ مونث۔ بے جان چیزیں نہ مذکر ہوتی ہیں نہ مونث۔ بس ’دس‘ اور ’دیٹ‘ کے دائرے میں گھومتی رہتی ہیں۔ البتہ بحری جہاز اور ملکوں کے لئے جنس مقرر کر دی ہے اور ان کے لئے ’شی‘ اور ’ہر‘ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ جہاز دخانی ہو یا ملک افغانی ، انگریزی میں دونوں مونث ہی رہیں گے۔
مگر ایک لطف کی بات ہے کہ جانداروں کے لئے اگرچہ انگریزی میں تذکیرو تانیث کا پورا خیال رکھا جاتا ہے، تاہم خود اپنی جنس انگریز حضرات کبھی نہیں کھولتے۔ حالانکہ جنسی معاملات میں انہیں خاصا آزاد خیال تصورکیا جاتاہے۔ انگریز اور انگریزی داں جب بھی فرسٹ پرسن(صیغہ واحد متکلم) میں بات کرتے ہیں تو اپنی جنس پر ایسا پردہ ڈال دیتے ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا وہ بول رہا ہے یا بول رہی ہے۔ ’میں آیا ہوں‘ اور ’میں آئی ہوں‘ دونوں کی انگریزی، انگریزی زبان میں ایک ہے۔’آئی ہیو کم!‘I have come
یہی وجہ ہے کہ راقم انگریزی کے ان ادبی افسانوں اور ناولوں کا مطالعہ عموماً نہیں کرتا جو صیغہ واحد متکلم میں لکھے گئے ہوں۔ کیونکہ ان میں مسئلہ یہ رہتا ہے کہ میں آدھی کہانی(اور کبھی کبھی تو پوری کہانی) پڑھ کر بھی یہ نہیں سمجھ پاتا کہ بیان کرنے والامذکر ہے یا مونث، تاوقتیکہ کہانی میں اس کے شوہر یا بیوی کا ذکر نہ آ جائے۔
فرسٹ پرسن ہی نہیں ، سیکنڈ پرسن اور کبھی کبھی تھرڈ پرسن کی جنس بھی واضح نہیں ہو پاتی۔ چنانچہ تم آئے ہو، یا تم آئی ہو، اور وہ آئے ہیں یا وہ آئی ہیں کو بھی ایک ہی طرح سے بولا اور لکھا جاتا ہے۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ انگریزی میں بیشتر اشخاص کی جنس غیر واضح رہتی ہے اور اس کاصرف دوسری علامتوں سے ہی ٹھیک ٹھیک پتہ چل پاتا ہے۔
بچپن میں غلطی سے ایک مرتبہ کلاس میں ماسٹر صاحب سے پوچھ لیا تھاکہ ’’ماصّاب ، طوطا مذکر ہے یا مونث؟ ‘‘اس کی سزا یہ ملی کہ ماسٹر صاحب نے زور سے گھور کر دیکھا اور بنچ پر کھڑا کردیا۔ جب پیریڈ ختم ہوا تو پاس آئے اور میرا کان مسلتے ہوئے بولے:’’بر خوردار،طوطا اگر بول رہا ہو تو مذکر ہے اور بول رہی ہو تو مونث! سمجھے؟ اب بیٹھ جاؤ اور گرامر یاد کرو۔‘‘
جیساکہ عرض کیا جا چکا ہے، اردو میں تذکیروتانیث کا مسئلہ بڑا ٹیڑھا، نازک اور پیچیدہ ہے۔ ہمارے ہاں انگریزی کے برعکس جانداروں کے علاوہ بے جان چیزوں کے لئے بھی تذکیرو تانیث طے کرنی پڑتی ہے اور وہ بھی کسی طے شدہ اصول کے بغیر! موٹے طور پر بے جان چیزوں کے لئے تذکیرو تانیث اسی اصول کے تحت طے کی جاتی ہے، جس طرح ہمارے مردانہ سماج نے مرد اور عورت کی طے کی ہے۔ یعنی جو چیز دیکھنے میں بڑی اور طاقت ور ہو وہ مذکر اور جو چھوٹی اور کمزور ہو وہ مونث۔ مثلاً لوٹا مذکر ہے تو لٹیا مونث۔ اسی طرح پراٹھا مذکر ہے تو روٹی مونث اور چپاتی اور بھی زیادہ مونث۔اور بھی سیکڑوں چیزیں ہیں جیسے پہاڑ اور پہاڑی، دریا اور ندی، شہر اور بستی، محل اور جھونپڑی وغیرہ وغیرہ، لیکن یہاں بھی ایک قباحت ہے۔ پہاڑی پہاڑ سے چھوٹی ہوتی ہے، لیکن ٹیلہ پہاڑی سے چھوٹا ہوتا ہے پھر بھی مذکر کہلاتا ہے۔ اسی طرح ندی کے مقابلے میں نالہ، بستی کے آگے محلّہ اور جھونپڑی کے سامنے گھونسلہ چھوٹا ہونے پر بھی مذکر بن جاتا ہے۔کچھ اور مثالیں ہیں:
ٹرک، کار اور ٹمپو۔کوٹ قمیص اور بنیان۔تہمد، پتلون اور نیکر۔ قالین، دری اور غالیچہ۔تربوز ، نارنگی اور آلو بخارا۔
ان سب میں بڑی چیز مذکر ہے، اس سے چھوٹی مونث اور مونث سے چھوٹی اور کمزور پھر مذکر بن گئی ہے۔پھر کئی معاملوں میں بڑے اور چھوٹے کی بھی تمیز نہیں ہے۔ مثلاًدہلی کی شاہجہانی جامع مسجد اتنی بڑی ہونے پر بھی مونث ہے، مگر اس کے قریب جین بھائیوں کا چھوٹا سا لال مندر مذکر کہلاتا ہے۔ کرسی اور اسٹول، کتاب اور کتابچہ، رضائی اور کمبل، اور دہلی و ہونولولو کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے کہ مونث بڑی ہے مذکر چھوٹا۔
لیکن ایسا نہیں کہ مسئلہ صرف بے جان چیزوں کی تذکیرو تانیث تک ہی محدود ہے۔کئی بار جان دار مخلوق کی جنس میں بھی شبہ ہو جاتا ہے۔ مثلاً مکھی، مچھر، تتیّا، تتلی، چیتاوغیرہ ایسی ہی چیزیں جن کی مخالف جنس کے لئے الگ سے کوئی لفظ اردو میں نہیں پایا جاتا۔ایک مرتبہ کسی نے پوچھا گینڈے کی مونث کو کیا کہیں گے۔ جواب دینے والے نے کہا کہ یوں تو اسے آپ گینڈی کہہ سکتے ہیں، لیکن یہ لفظ چونکہ سننے میں گینڈے سے زیادہ مکروہ ہے، اس لئے بہتر ہوگا اسے مادہ گینڈا کہہ لیا جائے۔ اس پر اردو کے ایک پڑھے لکھے پروفیسر نے(جو آج کل بہت کم پائے جاتے ہیں)فوراً مداخلت کی اور کہا: ’’لاحول ولا قوۃ۔ یعنی آپ فوری طور پراردو کا بیڑا غرق کر دینا چاہتے ہیں۔ خدا نہ کرے یہ فارمولہ رواج پاگیا تو جانتے ہیں کیا ہوگا؟‘‘
’’کیا ہوگا؟‘‘ ان صاحب نے تھر تھر کانپتے ہوئے سہمی ہوئی آواز میں پوچھا۔
’’ہو گا یہ کہ لوگ مرغی کو مادہ مرغ، اونٹنی کو مادہ اونٹ، عورت کو مادہ مرد اور بیوی کو مادہ شوہر کہنے لگیں گے۔ اسی طرح بکرے کو نر بکری، ہاتھی کو نر ہتھنی اور پلنگ کو نر چارپائی کہنے میں بھی لوگ مضائقہ نہیں سمجھیں گے۔صرف ایک چیز بچے گی جو ازل سے مذکر ہے اور ہمیشہ مذکر رہے گی کہ نہ اس کی مادہ ایجاد ہوئی ہے نہ کبھی ہوگی۔جانتے ہو وہ کیا ہے؟‘‘
’’کیا؟‘‘ سب نے بیک آواز پوچھا۔
’’حقہ!‘‘اردوپروفیسر نے جواب دیا اور زور سے سگریٹ کے کش لینے لگا۔
اب آپ ہی بتائیے کہ ان حالات میں تذکیرو تانیث طے کرنے کا کوئی سیدھا اور واضح اصول کیسے بن سکتا ہے۔ پر ایک جھگڑا یہ ہے کہ لوگوں نے خود بھی اپنی اپنی تذکیرو تانیث طے کر رکھی ہے۔ مثال کے طور پر دہلی میں جو یوپی والے ہیں وہ دہلی انتظامیہ کو مذکر مانتے ہیں جب کہ بہار کی طرف کے لوگ اسے مونث کہتے ہیں۔ اور جو لوگ نہ یہاں کے ہیں نہ وہاں کے وہ سرے سے ہی اس کے وجود کو نہیں مانتے۔ اکثر ایک دوسرے سے پوچھتے رہتے ہیں، کدھر ہے دہلی انتظامیہ ، کہاں ہے میونسپل کارپوریشن؟
ویسے مشرقی یوپی اور بہار کی طرف کے اردو دانوں کی بات ہی الگ ہے۔ یہ لوگ اردو کے معاملے میں پورے انگریز ہیں اور اسے اپنی مرضی سے، جس طرح چاہتے ہیں استعمال کرتے رہتے ہیں۔ تذکیرو تانیث کی تو بات ہی جانے دیں۔ واحد اور جمع کے صیغوں کی بھی پروا نہیں کرتے۔ ایک صاحب ہیں، غالباً بہار کی طرف کے، جو ریڈیو پر کرکٹ کی کمنٹری دیا کرتے تھے ۔ کھیل کا حساب وہ بالعموم اس طرح بتایا کرتے تھے:
’’...سری کانت نے 85رن بنایا ہے اور روی شاستری کے صرف ایک رن بنے ہیں۔مظفر نگر نے...معاف کیجئے مدثر نذر نے چھ اوور گیند پھینکا ہے اور وسیم اکرم کے ابھی ایک اوور پورے ہوئے ہیں۔ اس وقت دوپہر کا سوا بارہ بجا ہے اور امید کرنی چاہیے کہ جب ایک بجیں گے اور لنچ کے بعد کی کھیل شروع ہوگی تب تک وکٹ اور دھیما کھیلنے لگے گی۔ تو آئیے تب تک میں آپ کو اسٹوڈیو واپس لئے چلتی ہوں...معاف کیجئے چلتا ہوں!‘‘
تذکیر اور تانیث کا کوئی واضح اصول نہ ہونے کی ہی وجہ ہے کہ اردو کے ہزاروں ادیب اور شاعر لاکھ سر مارنے پر بھی آج تک بلبل جیسے حقیر و فقیر پرندے کی جنس طے نہیں کرپائے ہیں۔: بلبل کی جنس پر اب تک اتنے ادبی جھگڑے اور فساد برپا ہو چکے ہیں کہ کچھ مت پوچھئے۔ شاعروں نے اپنی اپنی ضرورت ،ذوق اورذائقے کی مناسبت سے اسے مذکر اور مونث دونوں طرح باندھا ہے ۔ کسی شاعر کے جی میں آیا تو اس نے یہ لکھ کر گوا دیا:
دھیرے دھیرے آرے بادل دھیرے دھیرے آ
میرا بلبل سو رہا ہے شور و غل نہ مچا
کسی اور شاعر کے جی میں آئی تو اس نے لکھ دیا:
ایک تھا گل اور ایک تھی بلبل دونوں چمن میں رہتے تھے
پھر یہ خیال کرکے کہ بات بالکل پکّی ہو جائے اس سلسلے میں اپنے ایک بزرگ کا حوالہ دیتے ہوئے تذکیرو تانث کی تصدیق کے لئے یہ مصرع لگا دیاکہ:
ہے یہ کہانی بالکل سچّی میرے نانا کہتے تھے:
ایک مرتبہ میں نے مسئلۂ بلبل کے سلسلے میں میاں عبدالقدوس سے رجوع کیا تو انہوں نے فرمایا:
’’تذکیرو تانیث مزاج اور اور ذوق کا معاملہ ہے میاں اور آپ کی حسِ جمالیات کا بھی۔ جہاں تک بلبل کی جنس کا تعلق ہے تو اپنے موقف کی تائید میں ایک مرتبہ میں نے ایک شعر فی البدیہہ کہا تھا۔ تم بھی سن لو:
ان کا جو صیغہ ہو وہ اہلِ گرامر جانیں
میرا بلبل تو مونث ہے جہاں تک پہنچے!
امید ہے اس سے میرا موقف واضح ہو گیا ہو گا۔‘‘
’’لیکن آپ نے مونث بلبل کو بھی میرا کہہ دیا ہے۔ اس سے بات پھر الجھ گئی ہے۔‘‘
’’الجھ نہیں گئی الجھائی گئی ہے اور اسی کو استادی کہتے ہیں۔ بہرکیف بلبل کے مسئلے کا حل میرے نزدیک یہ ہے کہ اسے مونث مان لیا جائے۔‘‘
’’تو پھر مذکر بلبل کو کیا کہیں گے؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’بلبلہ!‘‘ انہوں نے نہایت اطمینان سے کہا۔