مسئلہ غلامی - تبصرے و مباحث

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

قیصرانی

لائبریرین
شئیرنگ کا بہت شکریہ

ایک سوال میرے ذہن میں‌ آ رہا ہے

جنگ میں عورتوں کو قیدی بنانے کی کیا صورت پیش آ‌ سکتی ہے؟ جب وہ جنگ میں براہ راست شریک ہوں۔ لیکن اگر ایک خاتون یا ڈھیر ساری خواتین جو جنگ میں کسی بھی طرح سے شریک نہیں لیکن وہ اس ملک سے تعلق رکھتی ہیں جو جنگ میں شریک ہوا، کیا مخالف کی فتح کی صورت میں ان سب کو بھی لونڈیاں بننا پڑے گا؟
 

خاور بلال

محفلین
شئیرنگ کا بہت شکریہ

ایک سوال میرے ذہن میں‌ آ رہا ہے

جنگ میں عورتوں کو قیدی بنانے کی کیا صورت پیش آ‌ سکتی ہے؟ جب وہ جنگ میں براہ راست شریک ہوں۔ لیکن اگر ایک خاتون یا ڈھیر ساری خواتین جو جنگ میں کسی بھی طرح سے شریک نہیں لیکن وہ اس ملک سے تعلق رکھتی ہیں جو جنگ میں شریک ہوا، کیا مخالف کی فتح کی صورت میں ان سب کو بھی لونڈیاں بننا پڑے گا؟

نہیں۔ ایسی صورت میں مفتوح قوم رعایا کا درجہ پائے گی شاید ذمی رعایا۔ اسلام میں ذمیوں کے بہت حقوق ہیں۔ بہر حال میرا علم اس حوالے سے نہ ہونے کے برابر ہے۔ کوئ صاحبِ علم ہی بتاسکتا ہے یا پھر اس حوالے سے کتب کا مطالعہ مفید ہوگا۔
 
خاور بہت شکریہ اس آرٹیکل کو پیش کرنے کا۔ یہ جناب مودودی صاحب کے اپنے خیالات ہیں۔ ان کی گئی پیش تفہیم سے بیشتر جگہ میں اتفاق پاتا ہوں۔ جہاں تنقید یا سوالات جنم لیتے ہیں، میں‌ وقت ملنے پر اس بارے میں اپنا خیال عرض کروں‌ گا۔ میرے خیال کا بنیادی مرکز ہر قوم کے ساتھ انصاف ہے، جو قرآن کا بنیادی مقصد ہے۔ میں قرآن کو کہیں بھی اس مقدس مقصد سے دور نہیں‌پاتا۔ لہذا اگر مسلمان فتح کرنے کے بعد عمل کا ایک اصول قرآن سے اخذ کرتے ہیں تو ان کو ذہن میں یہ بھی رکھنا چاہئیے کہ اگر یہ اصول لے کر وہ دنیا کی قوموں کے سامنے - جیسے اقوام متحدہ میں‌ - جائیں گے تو مسلمانوں کی شکست کی صورت میں ان کو اس اصول پر عمل کرنے والی قوم پر اعتراض کا موقع نہیں‌ ملے گا۔ چونکہ اللہ تعالی سب کا رب ہے اور سب سے مساوی انصاف چاہتا ہے تاکہ انسانوں کو ایک ہی قسم کے اصول ماننے کے مرکز پر جمع کیا جائے لہذا اصول کا سب قوموں پر مساوی اطلاق ہونا ضروری ہے۔

میں یہ دیکھ کر خوش ہوا کہ آزاد انسان کو غلام بنانے کو برا قرار دینے کی بات آپ نے، مودودی صاحب نے ، رسول اکرم نے اور اللہ تعالی نے مساوی طور پر کی ہے۔ اس کی مثال میں نے آپ کو تاحیاٹ معاوضہ کی مثال دے کر دی تھی۔ گویا کسی طور ایک آزاد شخص کی شخصی آزادی صلب نہیں کی جاسکتی ۔

اس پر اپنا خیال ظاہر کیجئے تو ہم آگے بڑھتے ہیں کہ جنگی قیدی کو غلام بنانے کے بارے میں۔ اور پھر ان سے تمتع کے بارے میں کیا صورتحال قرآن سے سامنے آتی ہے۔

ایک بار پھر ایک اچھے مباحثہ اور قابل افزودگی ء علم نکات اور مضمون پیش کرنے کا شکریہ ۔

والسلام۔
 

خاور بلال

محفلین
میری یہی خواہش ہے کہ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد جو سوالات جنم لیں ان کو ضرور ڈسکس کیا جائے۔ موجودہ دور میں غلامی کے کیا امکانات ہیں یہ بھی زیرِ بحث آنا چاہیے۔ لیکن یہ بحث صحت مند انداز میں ہونی چاہیے، یعنی مرحلہ بہ مرحلہ اور ترتیب وار، سوالات اور تنقید پوائنٹس کی صورت میں ہوں، بے جا اور طویل نہ ہوں، مبہم اور غیر واضح‌ نہ ہوں، بہت سارے موضوعات ایک ساتھ نہ چھیڑے جائیں اور جب تک ایک پوائنٹ پر سیر حاصل گفتگو نہ ہوجائے تب تک مزید بات نہ بڑھائ جائے۔ مجھے یقین ہے کہ اس محفل پر بہت سے اہل علم افراد ہیں جو اس موضوع پر کلام کرسکتے ہیں لیکن یہ یاد رہے کہ کسی بھی قسم کے اعتراض اور اظہار خیال سے پہلے اس مضمون کا مطالعہ ضرور کرلیں ورنہ بات بکھر جائے گی اور پھر سے خیالی قلعے قائم ہوں گے اور تیر تکے چلنے لگیں‌گے۔

السلام علیکم
فاروق صاحب اظہار خیال کا بہت شکریہ، اگر آپ کے سوال کو ایک پوائنٹ کی صورت میں لکھنا چاہوں تو وہ شاید ایسا ہو:
“موجودہ دور میں مسلمان کسی جنگ میں شکست سے دوچار ہوتے ہیں تو اصولی طور پر فاتح قوم مسلمانوں کے قیدیوں کو غلام بنانے کی مجاز ہوگی اور اس پر مسلمان کوئ اعتراض نہ کرسکیں گے کیونکہ فتح کی صورت میں مسلمان بھی دشمن کے قیدیوں کو غلام بناتے۔“

آپ کا سوال مبہم تھا جسے واضح بنانے کے لیے میں نے آسان کردیا ہے، اس سے پہلے کہ اس پوائنٹ پر گفتگو کی جائے آپ واضح کردیں کہ آپ کا سوال یہی ہے جو میں نے تحریر کیا ہے یا کچھ اور۔ اگر کچھ اور ہے تو اسے اسی طرح ایک پوائنٹ کی صورت میں واضح طور پر تحریر فرمائیں تاکہ اس پر بات کی جاسکے۔ مجھے آپ کی طرف سے انتظار ہے۔ والسلام
 
خاور، شکریہ،

1۔ میرا سوال آپ سے یہ ہے اور تھا کہ " ایک آزاد انسان کو غلام بنانے کو برا سب نے کہا ہے"‌ کیا آپ اس نکتے سے متفق ہیں؟
2۔ اپ کے بیان کردہ نکتہ میںسب سے اہم بات موجود نہیں ہے۔ وہ ہے اللہ تعالی کا سب کے لئے انصاف، جس کے لئے میں نے ایک وجہ بتائی اور اشارہ دیا کہ

اللہ تعالی ہر قوم سے انصاف کرنا چاہتا ہے ، قران اس لئے اتارا گیا کہ اس پر سب (‌تمام لوگ، جو ایمان لا چکے ہیں اور جن کو لانا ہے )‌ ایمان لائیں اور اس کے اصول سب کے لئے قابل قبول ہوں، جو لوگ ایمان لائے یا نہیں لائے، اللہ کے اصول سب کے لئے یکساں ہیں۔ جو ایمان نہیں لائے ان کا حساب اللہ کے پاس ہوگا، اب جو ایمان لے آئے ہیں وہ مسلمان ہوئے کہ تسلیم کیا کہ یہ اللہ کا پیغام ہے۔ ( اس میں کیا مبہم ہے؟) قرآن کسی طور غلامی کی حوصلہ افزائی نہیں‌کرتا۔ (‌یہ ہے میرا نکتہ نظر، قرآن سے میں یہ سمجھتا ہوں اور اس پر ہی دلائل دوں گا)

درج زیل میرا نکتہ نہیں ہے۔ یہ میں نے ایک وجہ اور مثال دی ہے کہ کیا وجہ ہے کہ قرآن کے ایسے ممکنہ معانی کو غلامی کی حوصلہ شکنی کی طرف لیا جائے گا۔
" کسی بھی دور میں مسلمان کسی جنگ میں شکست سے دوچار ہوتے ہیں تو مسلمانوں کے مجوزہ اصول ( یہ قرآن کا مجوزہ اصول نہیں ہے ، قرآن کا مجوزہ اصول ہے مساوات، جزا و سزا) کے حساب سے فاتح قوم مسلمانوں کے قیدیوں کو غلام بنانے کی مجاز ہوگی اور اس پر مسلمان کوئی اعتراض نہ کرسکیں گے کیونکہ فتح کی صورت میں مسلمان بھی دشمن کے قیدیوں کو غلام بناتے۔ "

یہ مثال کسی اصول کے لئے موزوں نہیں ہے، اس مثال سے ایک اصول بنانے سے غلامی کو دوطرفہ فروغ‌ ملتا ہے کہ تم جیتو تو ہماری مرد و عورت تمہاری ملکیت اور ہم جیتیں تو تمہارے مرد و عورت ہماری ملکیت۔ یہ اصول میری رائے میں قرآن نہیں قائم کرتا - میں اس پر دلائل عرض‌کروں گا۔

میری آپ سے عرض ہے کہ مودودی صاحب ایک معلم تھے اپنا کام کرگئے اور آگے گئے۔ ان کی کوئی بات حرف آخر نہیں۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو ممکن ہے کہ مناسب نشاندہی کرنے پر ان کے کسی خیال میں کوئی تبدیلی آتی۔ لہذا آپ اپنا نکتہ نظر بیان کیجئے، قرآن سے اصول لیجئے اور رسول اللہ صلعم کی زندگی ، سیرت و سنت سے نکات پیش کیجئے۔ بس عرض‌یہ ہے کہ کسی غیر موجود یا مرحوم شخص ( رسولوں کےعلاوہ ) کے الفاظ کو حتمی یا حرف آخر نہ سمجھئے۔

میری تجویز یہ ہے کہ بجائے مودودی صاحب کی رائے کو ڈسکس اور اس کی تقطیع کرنے کے بجائے یہ دیکھا جائے کہ قرآن ہم کو اور آپ کو کیا سکھاتا ہے کہ ہدایت دینے والی ذات صرف اللہ تعالی کی ہے۔ مودودی صاحب کی کسی رائے سے اختلاف ، تائید و تنقید جب ہی ممکن تھا کہ وہ موجود ہوتے۔

والسلام
 

الف عین

لائبریرین
بحث و مباحثے سے قطع نظر، اس مضمون کو ایک مختصر ای بک بنانے کا میرا خیال ہے۔ کیا کاپی اور پیسٹ کرنا ہوگا یا خاور یا شمشاد کے پاس مکمل فائل ہے۔ ہو تو بھیج دیں۔
 

خاور بلال

محفلین
فاروق صاحب آپ کے پیغام میں اکثر باتیں مبہم ہیں اور سمجھ نہیں آرہا کہ یہ تبصرہ ہ ہے، تنقید ہے یا سوالات۔ اس ناسمجھی میں یقینا میری ہی کوتاہی ہے کہ میں پیغام کا مفہوم سمجھنے کے لیے چھٹی حس کا استعمال نہیں کرتا۔ بہر حال آپ سے اب بھی درخواست ہے کہ اگر بات ٹودی پوائنٹ ہوتو میں اپنی کم فہمی کے باوجود آپ کی بات سمجھ سکوں گا۔ آپ نے جو گفتگو فرمائ ہے اس کی کوئ گنجائش یہاں نہیں بنتی۔ میں نے ایک مضمون پیش کیا ہے جس میں مسئلہ غلامی سے متعلق بحث کی گئی ہے اور قرآن و سنت سے استنباط کیا گیا ہے، اگر آپ کو اس مضمون کی کسی بات سے اعتراض ہے تو اس کے حوالے سے بات کریں۔ غیر ضروری سوالات اور بحث سے اجتناب اس لیے ضروری ہے کہ کہیں یہ گفتگو محض “بحث برائے بحث“ کا ایک اور نمونہ نہ بن جائے۔ بہرحال میں پھر بھی آپ کے اس پیغام کا جواب دے رہا ہوں اس امید کے ساتھ کہ اگر واقعی آپ کے پاس اس تحقیق کو رد کرنے کے لیے کوئ معقول دلائل ہیں تو واضح طور پر پیش کریں گے۔

1۔ میرا سوال آپ سے یہ ہے اور تھا کہ " ایک آزاد انسان کو غلام بنانے کو برا سب نے کہا ہے"‌ کیا آپ اس نکتے سے متفق ہیں؟

ایک آزاد انسان کو غلام بنانے کو برا سب نے کہا ہو نہ کہا ہو لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ اسلام کے نزدیک غلامی سخت ناپسندیدہ فعل ہے۔ اسلام انسان کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر خدا کی غلامی میں دینے کے لیے آیا ہے۔ جنگی قیدیوں کی واپسی کے لیے اگر دشمن کسی معقول تجویز پر رضامند نہ ہوتو ایسی صورت میں ان قیدیوں کو غلام بنانا اسلام کے لیے اس لیے ناگزیر ہوجاتا تھا کہ نہ تو ان قیدیوں کو قتل کیا جانا جائز تھا اور نہ ہی انہیں آزاد کیا جانا مناسب تھا۔ کسی چیز کو محض برا کہہ دینے سے اس کا خاتمہ نہیں ہوجاتا اس کے لیے عملی طور طریقے اختیار کرنے پڑتے ہیں جو کہ اسلام نے کیے۔ غلاموں کے لیے جو مراعات اسلام نے فراہم کیں دنیا کی کوئ اور تہذیب اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ اپنی لونڈیوں کی اچھی تربیت کرنا، انہیں اچھا ادب اور لکھنا پڑھنا سکھانا، ان سے نکاح کرنا، ان سے احسان کا سلوک کرنا اور نیکیاں سمیٹنے کے لیے انہیں رہا کرنا، بھلا دنیا کی کوئ اور تہذیب ہے جو اپنے دشمن قیدیوں سے ایسا سلوک کرے؟ ظاہر ہے اگر اسلام کے نزدیک غلامی ایک برا فعل نہ ہوتا تو وہ غلاموں سے متعلق یہ اقدامات کیوں کرتا؟

2۔ اپ کے بیان کردہ نکتہ میںسب سے اہم بات موجود نہیں ہے۔ وہ ہے اللہ تعالی کا سب کے لئے انصاف، جس کے لئے میں نے ایک وجہ بتائی اور اشارہ دیا کہ
اللہ تعالی ہر قوم سے انصاف کرنا چاہتا ہے ، قران اس لئے اتارا گیا کہ اس پر سب (‌تمام لوگ، جو ایمان لا چکے ہیں اور جن کو لانا ہے )‌ ایمان لائیں اور اس کے اصول سب کے لئے قابل قبول ہوں، جو لوگ ایمان لائے یا نہیں لائے، اللہ کے اصول سب کے لئے یکساں ہیں۔ جو ایمان نہیں لائے ان کا حساب اللہ کے پاس ہوگا، اب جو ایمان لے آئے ہیں وہ مسلمان ہوئے کہ تسلیم کیا کہ یہ اللہ کا پیغام ہے۔ ( اس میں کیا مبہم ہے؟) قرآن کسی طور غلامی کی حوصلہ افزائی نہیں‌کرتا۔ (‌یہ ہے میرا نکتہ نظر، قرآن سے میں یہ سمجھتا ہوں اور اس پر ہی دلائل دوں گا)

اللہ سے بڑا کوئ منصف کون ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ دنیا خدا کا کارخانہ ہے اور انصاف کی مصلحت خدا ہی جانتا ہے۔ انصاف کی انسانی تعریف آئے روز بدلتی رہتی ہے عموما ایک فعل جو کسی ایک قوم، فرد یا گروہ کے لیے انصاف ہوتا ہے وہ دوسرے کے نزدیک بے انصافی ٹھہرتی ہے۔ تو میرا یقین یہ ہے کہ جو ضابطہ خدا کا مقرر کیا ہوا ہے وہی عین انصاف ہے۔

" کسی بھی دور میں مسلمان کسی جنگ میں شکست سے دوچار ہوتے ہیں تو مسلمانوں کے مجوزہ اصول ( یہ قرآن کا مجوزہ اصول نہیں ہے ، قرآن کا مجوزہ اصول ہے مساوات، جزا و سزا) کے حساب سے فاتح قوم مسلمانوں کے قیدیوں کو غلام بنانے کی مجاز ہوگی اور اس پر مسلمان کوئی اعتراض نہ کرسکیں گے کیونکہ فتح کی صورت میں مسلمان بھی دشمن کے قیدیوں کو غلام بناتے۔ "
یہ مثال کسی اصول کے لئے موزوں نہیں ہے، اس مثال سے ایک اصول بنانے سے غلامی کو دوطرفہ فروغ‌ ملتا ہے کہ تم جیتو تو ہماری مرد و عورت تمہاری ملکیت اور ہم جیتیں تو تمہارے مرد و عورت ہماری ملکیت۔ یہ اصول میری رائے میں قرآن نہیں قائم کرتا - میں اس پر دلائل عرض‌کروں گا۔

اگر آپ ٹھیک طرح سے اس مضمون کا مطالعہ کرلیتے تو یہ سوال کرنے کی زحمت نہ کرنی پڑتی۔ اسلام کا پہلا اصول ہی یہ ہے کہ جنگی قیدیوں کو غلام نہ بنانا پڑے۔ جبھی مسلمانوں کو حکم ہے کہ وہ جنگی قیدیوں کی واپسی کی ہر ممکن کوشش کریں۔ یعنی دشمن سے قیدیوں کا تبادلہ کرلیا جائے یا کوئ معقول زرِ فدیہ طے کرکے دشمن کے قیدی لوٹا دیے جائیں یا کسی اور قسم کا معاہدہ کرکے قیدیوں کی واپسی کی کوئ صورت نکال لی جائے بہرحال کسی بھی شرط پر قیدیوں کی واپسی ممکن ہوسکتی ہے اگر دشمن چاہے۔ اب یہ تو فریقِ مخالف پر منحصر ہے کہ وہ اسلام کی اس روشن خیالی سے کیا فائدہ اٹھا تا ہے۔ ان قیدیوں کو غلام بنانے کا دروازہ اس وقت کھلے گا جب دشمن اپنے قیدیوں کو خود ہی نہ لینا چاہے گا۔

میری آپ سے عرض ہے کہ مودودی صاحب ایک معلم تھے اپنا کام کرگئے اور آگے گئے۔ ان کی کوئی بات حرف آخر نہیں۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو ممکن ہے کہ مناسب نشاندہی کرنے پر ان کے کسی خیال میں کوئی تبدیلی آتی۔ لہذا آپ اپنا نکتہ نظر بیان کیجئے، قرآن سے اصول لیجئے اور رسول اللہ صلعم کی زندگی ، سیرت و سنت سے نکات پیش کیجئے۔ بس عرض‌یہ ہے کہ کسی غیر موجود یا مرحوم شخص ( رسولوں کےعلاوہ ) کے الفاظ کو حتمی یا حرف آخر نہ سمجھئے۔میری تجویز یہ ہے کہ بجائے مودودی صاحب کی رائے کو ڈسکس اور اس کی تقطیع کرنے کے بجائے یہ دیکھا جائے کہ قرآن ہم کو اور آپ کو کیا سکھاتا ہے کہ ہدایت دینے والی ذات صرف اللہ تعالی کی ہے۔ مودودی صاحب کی کسی رائے سے اختلاف ، تائید و تنقید جب ہی ممکن تھا کہ وہ موجود ہوتے۔

میں خدا اور اس کے رسول کے سوال کسی کی بات کو بھی حرف آخر نہیں سمجھتا۔ یہ تحقیق بھی اسی لیے پیش کی کہ اس میں قرآن و سنت سے استنباط کیا گیا ہے اگر یہ سید مودودی کی ذاتی رائے ہوتی تو میں کبھی دلیل کے طور پر اسے پیش نہ کرتا۔ اگر آپ کو میری کسی بات سے اندازہ ہوا ہوکہ میں سید مودودی کی کسی بات کو حرف آخر سمجھتا ہوں تو ضرور نشاندہی کریں تاکہ میں اللہ کے حضور توبہ کرسکوں۔ کسی معلم کی کوئ تحقیق اس لیے نہیں پیش کی جاتی کہ ہمیں اس معلم سے اتفاق ہے بلکہ اس لیے پیش کی جاتی ہے کہ وہ جس علم پر دسترس رکھتا ہے اور جن باریکیوں کو سمجھتا ہے وہ ہم سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ سید مودودی کی تحقیق پر تنقید ان کی زندگی میں بھی کی جاسکتی تھی اور ان کے بعد بھی کی جاسکتی ہے کیونکہ وہ قرآن و سنت نہیں ہے۔ لیکن کسی کی تحقیق پر تنقید کرنے کے لیے اس کا مطالعہ ضرور کرلینا چاہیے ورنہ تنقید کم ہوتی ہے اور گفتگو دہرانے کی مشق زیادہ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
کسی معلم کی کوئ تحقیق اس لیے نہیں پیش کی جاتی کہ ہمیں اس معلم سے اتفاق ہے بلکہ اس لیے پیش کی جاتی ہے کہ وہ جس علم پر دسترس رکھتا ہے اور جن باریکیوں کو سمجھتا ہے وہ ہم سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ سید مودودی کی تحقیق پر تنقید ان کی زندگی میں بھی کی جاسکتی تھی اور ان کے بعد بھی کی جاسکتی ہے کیونکہ وہ قرآن و سنت نہیں ہے۔
یہ نکتہ بہت اہم ہے
 
بنیادی طور پر جو کچھ میں نے غلامی کی مد میں لکھا ہے آپ نے اس سے اتفاق کیا ہے۔ تو اس میں ابہام کیسا؟ اگر میرے کسی نکتہ پر آپ کا اختلاف ہے تو فرمائیے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top