فاروق صاحب آپ کے پیغام میں اکثر باتیں مبہم ہیں اور سمجھ نہیں آرہا کہ یہ تبصرہ ہ ہے، تنقید ہے یا سوالات۔ اس ناسمجھی میں یقینا میری ہی کوتاہی ہے کہ میں پیغام کا مفہوم سمجھنے کے لیے چھٹی حس کا استعمال نہیں کرتا۔ بہر حال آپ سے اب بھی درخواست ہے کہ اگر بات ٹودی پوائنٹ ہوتو میں اپنی کم فہمی کے باوجود آپ کی بات سمجھ سکوں گا۔ آپ نے جو گفتگو فرمائ ہے اس کی کوئ گنجائش یہاں نہیں بنتی۔ میں نے ایک مضمون پیش کیا ہے جس میں مسئلہ غلامی سے متعلق بحث کی گئی ہے اور قرآن و سنت سے استنباط کیا گیا ہے، اگر آپ کو اس مضمون کی کسی بات سے اعتراض ہے تو اس کے حوالے سے بات کریں۔ غیر ضروری سوالات اور بحث سے اجتناب اس لیے ضروری ہے کہ کہیں یہ گفتگو محض “بحث برائے بحث“ کا ایک اور نمونہ نہ بن جائے۔ بہرحال میں پھر بھی آپ کے اس پیغام کا جواب دے رہا ہوں اس امید کے ساتھ کہ اگر واقعی آپ کے پاس اس تحقیق کو رد کرنے کے لیے کوئ معقول دلائل ہیں تو واضح طور پر پیش کریں گے۔
1۔ میرا سوال آپ سے یہ ہے اور تھا کہ " ایک آزاد انسان کو غلام بنانے کو برا سب نے کہا ہے" کیا آپ اس نکتے سے متفق ہیں؟
ایک آزاد انسان کو غلام بنانے کو برا سب نے کہا ہو نہ کہا ہو لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ اسلام کے نزدیک غلامی سخت ناپسندیدہ فعل ہے۔ اسلام انسان کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر خدا کی غلامی میں دینے کے لیے آیا ہے۔ جنگی قیدیوں کی واپسی کے لیے اگر دشمن کسی معقول تجویز پر رضامند نہ ہوتو ایسی صورت میں ان قیدیوں کو غلام بنانا اسلام کے لیے اس لیے ناگزیر ہوجاتا تھا کہ نہ تو ان قیدیوں کو قتل کیا جانا جائز تھا اور نہ ہی انہیں آزاد کیا جانا مناسب تھا۔ کسی چیز کو محض برا کہہ دینے سے اس کا خاتمہ نہیں ہوجاتا اس کے لیے عملی طور طریقے اختیار کرنے پڑتے ہیں جو کہ اسلام نے کیے۔ غلاموں کے لیے جو مراعات اسلام نے فراہم کیں دنیا کی کوئ اور تہذیب اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ اپنی لونڈیوں کی اچھی تربیت کرنا، انہیں اچھا ادب اور لکھنا پڑھنا سکھانا، ان سے نکاح کرنا، ان سے احسان کا سلوک کرنا اور نیکیاں سمیٹنے کے لیے انہیں رہا کرنا، بھلا دنیا کی کوئ اور تہذیب ہے جو اپنے دشمن قیدیوں سے ایسا سلوک کرے؟ ظاہر ہے اگر اسلام کے نزدیک غلامی ایک برا فعل نہ ہوتا تو وہ غلاموں سے متعلق یہ اقدامات کیوں کرتا؟
2۔ اپ کے بیان کردہ نکتہ میںسب سے اہم بات موجود نہیں ہے۔ وہ ہے اللہ تعالی کا سب کے لئے انصاف، جس کے لئے میں نے ایک وجہ بتائی اور اشارہ دیا کہ
اللہ تعالی ہر قوم سے انصاف کرنا چاہتا ہے ، قران اس لئے اتارا گیا کہ اس پر سب (تمام لوگ، جو ایمان لا چکے ہیں اور جن کو لانا ہے ) ایمان لائیں اور اس کے اصول سب کے لئے قابل قبول ہوں، جو لوگ ایمان لائے یا نہیں لائے، اللہ کے اصول سب کے لئے یکساں ہیں۔ جو ایمان نہیں لائے ان کا حساب اللہ کے پاس ہوگا، اب جو ایمان لے آئے ہیں وہ مسلمان ہوئے کہ تسلیم کیا کہ یہ اللہ کا پیغام ہے۔ ( اس میں کیا مبہم ہے؟) قرآن کسی طور غلامی کی حوصلہ افزائی نہیںکرتا۔ (یہ ہے میرا نکتہ نظر، قرآن سے میں یہ سمجھتا ہوں اور اس پر ہی دلائل دوں گا)
اللہ سے بڑا کوئ منصف کون ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ دنیا خدا کا کارخانہ ہے اور انصاف کی مصلحت خدا ہی جانتا ہے۔ انصاف کی انسانی تعریف آئے روز بدلتی رہتی ہے عموما ایک فعل جو کسی ایک قوم، فرد یا گروہ کے لیے انصاف ہوتا ہے وہ دوسرے کے نزدیک بے انصافی ٹھہرتی ہے۔ تو میرا یقین یہ ہے کہ جو ضابطہ خدا کا مقرر کیا ہوا ہے وہی عین انصاف ہے۔
" کسی بھی دور میں مسلمان کسی جنگ میں شکست سے دوچار ہوتے ہیں تو مسلمانوں کے مجوزہ اصول ( یہ قرآن کا مجوزہ اصول نہیں ہے ، قرآن کا مجوزہ اصول ہے مساوات، جزا و سزا) کے حساب سے فاتح قوم مسلمانوں کے قیدیوں کو غلام بنانے کی مجاز ہوگی اور اس پر مسلمان کوئی اعتراض نہ کرسکیں گے کیونکہ فتح کی صورت میں مسلمان بھی دشمن کے قیدیوں کو غلام بناتے۔ "
یہ مثال کسی اصول کے لئے موزوں نہیں ہے، اس مثال سے ایک اصول بنانے سے غلامی کو دوطرفہ فروغ ملتا ہے کہ تم جیتو تو ہماری مرد و عورت تمہاری ملکیت اور ہم جیتیں تو تمہارے مرد و عورت ہماری ملکیت۔ یہ اصول میری رائے میں قرآن نہیں قائم کرتا - میں اس پر دلائل عرضکروں گا۔
اگر آپ ٹھیک طرح سے اس مضمون کا مطالعہ کرلیتے تو یہ سوال کرنے کی زحمت نہ کرنی پڑتی۔ اسلام کا پہلا اصول ہی یہ ہے کہ جنگی قیدیوں کو غلام نہ بنانا پڑے۔ جبھی مسلمانوں کو حکم ہے کہ وہ جنگی قیدیوں کی واپسی کی ہر ممکن کوشش کریں۔ یعنی دشمن سے قیدیوں کا تبادلہ کرلیا جائے یا کوئ معقول زرِ فدیہ طے کرکے دشمن کے قیدی لوٹا دیے جائیں یا کسی اور قسم کا معاہدہ کرکے قیدیوں کی واپسی کی کوئ صورت نکال لی جائے بہرحال کسی بھی شرط پر قیدیوں کی واپسی ممکن ہوسکتی ہے اگر دشمن چاہے۔ اب یہ تو فریقِ مخالف پر منحصر ہے کہ وہ اسلام کی اس روشن خیالی سے کیا فائدہ اٹھا تا ہے۔ ان قیدیوں کو غلام بنانے کا دروازہ اس وقت کھلے گا جب دشمن اپنے قیدیوں کو خود ہی نہ لینا چاہے گا۔
میری آپ سے عرض ہے کہ مودودی صاحب ایک معلم تھے اپنا کام کرگئے اور آگے گئے۔ ان کی کوئی بات حرف آخر نہیں۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو ممکن ہے کہ مناسب نشاندہی کرنے پر ان کے کسی خیال میں کوئی تبدیلی آتی۔ لہذا آپ اپنا نکتہ نظر بیان کیجئے، قرآن سے اصول لیجئے اور رسول اللہ صلعم کی زندگی ، سیرت و سنت سے نکات پیش کیجئے۔ بس عرضیہ ہے کہ کسی غیر موجود یا مرحوم شخص ( رسولوں کےعلاوہ ) کے الفاظ کو حتمی یا حرف آخر نہ سمجھئے۔میری تجویز یہ ہے کہ بجائے مودودی صاحب کی رائے کو ڈسکس اور اس کی تقطیع کرنے کے بجائے یہ دیکھا جائے کہ قرآن ہم کو اور آپ کو کیا سکھاتا ہے کہ ہدایت دینے والی ذات صرف اللہ تعالی کی ہے۔ مودودی صاحب کی کسی رائے سے اختلاف ، تائید و تنقید جب ہی ممکن تھا کہ وہ موجود ہوتے۔
میں خدا اور اس کے رسول کے سوال کسی کی بات کو بھی حرف آخر نہیں سمجھتا۔ یہ تحقیق بھی اسی لیے پیش کی کہ اس میں قرآن و سنت سے استنباط کیا گیا ہے اگر یہ سید مودودی کی ذاتی رائے ہوتی تو میں کبھی دلیل کے طور پر اسے پیش نہ کرتا۔ اگر آپ کو میری کسی بات سے اندازہ ہوا ہوکہ میں سید مودودی کی کسی بات کو حرف آخر سمجھتا ہوں تو ضرور نشاندہی کریں تاکہ میں اللہ کے حضور توبہ کرسکوں۔ کسی معلم کی کوئ تحقیق اس لیے نہیں پیش کی جاتی کہ ہمیں اس معلم سے اتفاق ہے بلکہ اس لیے پیش کی جاتی ہے کہ وہ جس علم پر دسترس رکھتا ہے اور جن باریکیوں کو سمجھتا ہے وہ ہم سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ سید مودودی کی تحقیق پر تنقید ان کی زندگی میں بھی کی جاسکتی تھی اور ان کے بعد بھی کی جاسکتی ہے کیونکہ وہ قرآن و سنت نہیں ہے۔ لیکن کسی کی تحقیق پر تنقید کرنے کے لیے اس کا مطالعہ ضرور کرلینا چاہیے ورنہ تنقید کم ہوتی ہے اور گفتگو دہرانے کی مشق زیادہ۔