سوال:
"کیا نظام شریعت میں جنگ کے قیدیوں کو غلام اور لونڈی بنانے کی اجازت ہوگی؟ کیا ان غلاموں اور لونڈیوں کو فروخت کرنے کا بھی حق حاصل ہوگا؟ کیا ان غلاموں اور لونڈیو سے بیویوں کے علاوہ تمتع جائز ہوگا اور اس پر تعداد کی کوئ قید نہ ہوگی؟"
جواب:
نظام شریعت میں جنگی قیدیوں کو لونڈی غلام بنانے کی اجازت ایسی حالت میں دی گئی ہے جب کہ وہ قوم جس سے ہماری جنگ ہو نہ قیدیوں کے تبادلے پر راضی ہو، نہ فدیہ لیکر ہمارے قیدی چھوڑے اور نہ فدیہ دے کر اپنے قیدی چھڑائے۔ آپ خود غور کریں تو سمجھ سکتے ہیں کہ ااس صورت میں جو قیدی کسی حکومت کے پاس رہ جائیں وہ یا تو انہیں قتل کرے گی یا انہیں عمر بھر اس قسم کے انسانی باڑوں میں رکھے گی جنہیں آج کل (Concentration Camp) کہا جاتا ہے اور کسی قسم کے انسانی حقوق دیے بغیر ان سے جبری محنت لیتی رہے گی۔ ظاہر ہےکہ یہ صورت بے رحمانہ بھی ہے اور خود اس ملک کے لیے کچھ بہت مفید نہیں ہے جس میں اس طرح کے قیدیوں کی ایک بڑی تعداد ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک خارجی عنصر کی حیثیت سے موجود رہے۔ اسلام نے ایسے حالات کے لیے جوشکل اختیار کی ہے وہ یہ ہے کہ ان قیدیوں کو فرداً فرداً مسلمانوں میں تقسیم کردیا جائے اور ان کی ایک قانونی حیثیت مشخص کردی جائے۔ اس طرح جو انفرادی رابطہ ایک ایک قیدی کو ایک ایک مسلم خاندان سے پیدا ہوگا اس میں اس امر کا امکان زیادہ ہے کہ ان سے انسانیت اور شرافت کا برتاؤ ہو اور ان کا ایک اچھا خاصا حصہ بتدریج مسلمانوں کی سوسائٹی میں جذب ہوجائے۔
جن مسلمانوں کو ایسے اسیران جنگ پر حقوق ملکیت حاصل ہوتے ہیں ان کے لیے شریعت نے یہ ضابطہ مقرر کیا ہے کہ اگر کوئ لونڈی یا غلام اپنے مالک سے درخواست کرے کہ میں محنت مزدوری کرکے اپنے فدیہ کی رقم فراہم کرنا چاہتا ہوں تو مالک اس کی درخواست کو رد کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ اسے ازروئے قانون ایک خاص مدت تک کے لیے اس کو مہلت دینی ہوگی اور اس مدت میں اگر وہ فدیہ کی رقم ادا کرے تو اسے آزاد کردینا پڑے گا۔ کوئ غلام یا لونڈی اپنی آزادی کے لیے اپنے آقا کو ایک معاوضہ اداکرنے کی پیشکش کرے اور جب آقا اسے قبول کرلے تو دونوں کے درمیان ایک طرح سے معاہدہ طے پاگیا۔ اسلام میں غلاموں کی آزادی کے لیے جو صورتیں رکھی گئی ہیں یہ ان میں سے ایک ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ معاوضہ مال ہی کی شکل میں ہو۔ آقا کے لیے کوئ خاص خدمت انجام دینا بھی معاوضہ بن سکتا ہے۔ بشرطیکہ فریقین اس پر راضی ہوجائیں۔ معاہدہ ہوجانے کے بعد آقا کو یہ حق نہیں رہتا کہ غلام کی آزادی میں بیجا رکاوٹیں ڈالے وہ اس کو معاہدے کی رو سے معاوضہ ادا کرنے کے لیے کام کرنے کا موقع دے گا اور مدت مقررہ کے اندر جب بھی غلام اپنے ذمے کی رقم یا خدمت انجام دے دے وہ اس کو آزاد کردے گا۔ حضرت عمر کے زمانے کا واقعہ ہے کہ ایک غلام نے اپنی مالکہ سے معاہدہ کیا اور مدتِ مقررہ سے پہلے ہی طے کی گئی رقم فراہم کرکے اس کے پاس لے گیا۔ مالکہ نہ کہا کہ میں تو یک مشت نہ لوں گی بلکہ سال بسال اور ماہ بماہ قسطوں کی صورت میں لوں گی۔ غلام نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے شکایت کی۔ انہوں نے فرمایا یہ رقم بیت المال میں داخل کردے اور جا تو آزاد ہے۔ پھر مالکہ کو کہلا بھیجا کہ تیری رقم یہاں جمع ہوچکی ہے اب تو چاہے یک مشت لے لے ورنہ ہم تجھے سال بسال اور ماہ بماہ دیتے رہیں گے (دار قُطنی بروایت ابو سعید مقبری)
اس قسم کے لونڈی غلاموں کو بیچنے کی اجازت دراصل اس معنی میں ہے کہ ایک شخص کو ان سے فدیہ وصول کرنے اور فدیہ وصول نہ ہونے تک ان سے خدمت لینے کا جو حق حاصل ہے اس کو وہ معاوضہ لے کر دوسرے شخص کی طرف منتقل کردیتا ہے۔ قانون میں یہ گنجائش جس مصلحت سے رکھی گئی ہے اس کو آپ پوری طرح اسی صورت میں سمجھ سکتے ہیں جبکہ دشمن فوج کے کسی سپاہی کو بطور قیدی رکھنے کا آپ کو اتفاق ہوا ہو۔ فوجی سپاہیوں سے خدمت لینا کوئ آسان کام نہیں ہے اور اسی طرح دشمن قوم کی کسی عورت کو گھر میں رکھنا بھی کوئ کھیل نہیں ہے، اگر کسی شخص کے لیے یہ گنجائش نہ چھوڑی جاتی کہ جس قیدی مرد یا عورت سے وہ عہدہ برا نہ ہوسکے اس کے حقوق ملکیت کسی دوسرے کی طرف منتقل کردے تو یہ لوگ جس کے بھی حوالے کیے جاتے اس کے حق میں بلائے جان بن جاتے۔
جنگ میں گرفتار ہونے والی عورتوں کے لیے (جبکہ نہ ان کا تبادلہ ہو اور نہ فدیہ کا معاملہ ہی طے ہوسکے) اس سے بہتر حل اور کیا ہوسکتا ہے کہ جو عورت حکومت کی طرف سے جس شخص کی ملکیت میں دی جائے اس کے ساتھ اس شخص کو جنسی تعلقات قائم کرنے کا قانونی حق دے دیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو یہ عورتیں ملک میں بد اخلاقی پھیلنے کا ایک مستقل ذریعہ بن جاتیں۔ قانونی حیثیت سے ملکِ یمین اور عقدِ نکاح میں کوئ خاص فرق نہیں ہے بلکہ اس صورت میں تو خود حکومت باقاعدہ طریقہ سے ایک عورت کو ایک مرد کے حوالے کرتی ہے۔ پھر جو معاشرتی حیثیت ان عورتوں کو شریعت میں دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ کسی شخص کی ملکِ یمین میں جانے کے بعد اس عورت کے ساتھ کسی دوسرے شخص کو جنسی تعلق رکھنے کا حق نہیں ہوتا۔ جو اولاد اس سے ہو اس کا نسب اسی شخص سے ثابت ہوتا ہے اور وہ اپنے باپ کی اسی طرح جائز وارث ہوتی ہے جس طرح کسی آزاد بیوی کی اولاد۔ جس لونڈی سے اولاد ہوجائے اسے بیچنے کا مالک کو حق نہیں رہتا اور مالک کے مرنے کے بعد وہ خود بخود آزاد ہوجاتی ہے۔
لونڈیوں سے تمتع کے لیے تعداد کی قید اس لیے نہیں لگائ گئی کہ ان عورتوں کو تعداد کا کوئ تعین ممکن نہیں ہے جو کسی جنگ میں گرفتار ہوکر آسکتی ہیں۔ بالفرض اگر ایسی عورتوں کی بہت بڑی تعداد جمع ہوجائے تو سوسائٹی میں انہیں کھپانے کی کیا تدبیر ہرسکتی ہے جب کہ لونڈیوں سے تمتع کے لیے تعداد کا تعین پہلے ہی کردیا گیا ہو؟
بعد کے زمانوں میں امراء و رؤسا نے اس قانونی گنجائش کو جس طرح عیاشی کا حیلہ بنا لیا وہ ظاہر ہے کہ شریعت کے منشاء کے بالکل خلاف تھا۔ کوئ رئیس اگر عیاشی کرنا چاہے اور قانون کے منشاء کے خلاف قانون کی گنجائشوں سے فائدہ اٹھانے پر اتر آئے تو نکاح کا ضابطہ ہی کب اس کے لیے رکاوٹ بن سکتا ہے۔ وہ روز ایک نئی عورت سے نکاح کرسکتا ہے اور دوسرے دن اسے طلاق دے سکتا ہے۔
اختتام