مسئلہ نزول مسیح اور مرزائیت (قادیانیت)

طالوت

محفلین
حقیقت مسئلہ مسیح
(صفحہ نمبر 34 تا 35)
ادارہ ابلاغ القران


مسئلہ نزول مسیح اور مرزائیت:

وہ عقائد جو اسلام میں غیر اسلامی مراکز سے داخل ہوئے ان میں مسئلہ مسیح نزول مسیح خاص اہمیت کا حامل ہے۔ جس نے مسلمانوں کو اس وقت لا انتہا نقصان پہنچایا جب ان کے ہاتھ سے برصغیر کی ریاست نکل گئی اور سمندر پار سے آنے والے انگریز اپنے عیسائی مذہب کے ساتھ حکومت پر متمکن ہو گئے۔ انھیں ایک ایسے آدمی کی ضرورت تھی جو مسلمانوں میں سے الہامی طور پر جذبہ جہاد کو خارج کردے۔ انگریز نے اس مقصد کے لیے مسلمانوں کے عقیدہ نزول مسیح کو خوب خوب استعمال کیا۔ چناچہ مرزائیت کا پودا خود انگریزوں نے لگایا اور تحریک مرزائیت کی خود معاونت کی۔ چناچہ مرزا صاحب نے انھیں نہ صرف حرمت جہاد بذریعہ الہام کا کام دیا ، بلکہ انگریزی حکومت کی وفاداری کو بھی الہام کے ذریعے ہی فرض قرار دےدیا۔
مرزا غلام احمد نے مسلمانوں کے نزول مسیح عقیدہ سے تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ فائدہ اٹھایا۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ

(1) مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ مسیح نے دوبارہ دنیا میں آنا ہے۔ لیکن چونکہ وہ وفات پا چکے ہیں اسلیے ان کا آسمان پر زندہ ہونا اور واپس آنا غلط ہے۔

(2) لہذا آنے والا خود مسیح ابن مریم نہیں بلکہ مثل مسیح ہو گا۔

(3) وہ آنے والا نبی ہو گا مگر صاحب شریعت نہیں بلکہ شریعت محمدی کے تابع ہو گا۔

(4) وہ مثیل مسیح یا مسیح موعود (یعنی وہ مسیح جس کا احادیث میں وعدہ دیا گیا ہے) وہ میں ہوں۔ میرا دعوٰی یہ ہے کہ میں وہ مسیح موعود ہوں جس کے بارے میں تم اللہ کی تمام پاک کتابوں میں پیشنگوئیاں موجود ہیں کہ وہ آخری زمانہ میں ہو گا۔ (تحفہ گولڑویہ ص 194 مطبوعہ دسمبر 1932)

(خصوصی نوٹ: یاد رکھیے کہ اوپر دئیے گئے ضمنی نوٹ نمبر 1 تا 6 آگے آ رہے ہیں۔ انھیں اپنے مقام پر بغور ملاحظہ فرمائیں)

دیکھا آپ نے کہ: نزول مسیح کے غیر قرانی عقیدہ پر مرزا صاحب کا صغٰری کبریٰ کس طرح فٹ بیٹھتا ہے ۔ مروجہ عقیدہ میں صرف اتنی تبدیلی کی گئی ہے کہ مسیح زندہ آسمان پر موجود نہیں ۔ وہ تو سب نبیوں کی طرح فوت ہو چکے ہیں۔ یہ دلیل قران کریم اور عالمی شہادت کے عین مطابق تھی۔ اسلیے جب اسے عقیدہ نزول مسیح کے ساتھ چسپاں کیا گیا تو اس کا فطری نتیجہ یہ نکلا کہ آنے والا آسمان سے نزل نہیں ہو گا ۔ عام طریقے سے پیدا ہو گااور عام عقیدہ کے مطابق صاحب شریعے نبی نہیں بلکہ شریعت محمدی کے تابع ہو گا۔ چناچہ جو لوگ عقیدہ نزول مسیح کے قائل تھے مگر سرسید کے اثر سے حیات مسیح کے قائل نہیں تھے ، ان میں سے بعض کو مرزا صاحب کی معجون مرکب پسند آئی اور مرزائیت قبول کر لی۔ اس پر جب مولوی صاحبان نے بحثیں شروع کیں تو لوگوں نے دیکھا کہ ہر مناظرہ میں فضائی اثرات مرزا صاحب کے حق میں جاتے تھے۔ اس طرح کہ

(1) مولوی صاحب خود مانتے تھے کہ مسیح نے آنا ہے لہذا اس ضمن میں وہ خود مرزا صاحب سے متفق تھے

(2) مولوی صاحبان مانتے تھے کہ مسیح نبی تو ہونگے مگر صاحب شریعت نہیں ہونگے بلکہ شریعت محمدیہ کے تابع ہونگے اور اس طرح ان کے آنے سے عقیدہ ختم نبوت پر کوئی زد نہیں پڑے گی ۔ یہی دعوٰی مرزا صاحب کا تھا کہ میں نبی ہوں ، لیکن شریعت نہیں رکھتا ۔ شریعت محمدیہ کے تابع ہوں ۔

(3) اب لے دے کر متنازعہ مسئلہ یہ رہ جاتا کہ مولوی صاحبان آنے والے کو اصلی مسیح ابن مریم بتاتے۔ مگر مرزا صاحب کہتے کہ وہ فوت ہو چکے ہیں ، لہذا آنے والا مسیح نہیں مثل مسیح ہو گا۔ بنا بریں ساری بحث مسئلہ حیات و ممات مسیح پر مرتکز ہو کر رہ جاتی اور چونکہ وفات مسیح کا تصور قران کریم کے مطابق ہے ۔ اسلیے بحث کا نتیجہ مرزا صاحب کے حق میں جاتا اور جو شخص وفات مسیح کو مان لیتا وہ مسیح کی بجائے آمد مثیل مسیح کا خود بخود قائل ہو جاتا

(4) مرزا صاحب آمد مسیح کے عقیدے کو حدیث سے ثابت کرتے اور وفات مسیح قران سے۔ لیکن جب فریق مقابل حیات مسیح کو حدیثوں سے ثابت کرنے لگتا آپ کہہ دیتے کہ جو چیز قران سے ثابت ہو ، اگر حدیث اس میں معارض ہوں تو انھیں یا تو غلط قرار دینا چاہیے یا ان کی قران کے مطابق تاویل کرنی چاہیے۔ اس پر مولوی صاحب لاجواب ہو جاتے اور بہت سے لوگ مرزائیت کی گود میں چلے جاتے۔ تصریحات بالا کے مطابق غور فرمائیں کہ مرزائیت کا سارا مسئلہ نزول مسیح کے غیر قرانی مسئلہ کے گرد گھومتا ہے۔ اور ساتھ ہی یہ سوچئے کہ جب تک نزول مسیح کا غیر قرانی عقیدہ موجود ہے ۔ کیا اس وقت تک مرزائیت یا ایسی اور تحریکوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے ؟ یہی وجہ ہے کہ مولوی صاحبان پون صدی ان بحثوں میں الجھے رہے ۔ تاآنکہ قومی اسمبلی نے اس مسئلہ کو پاکستان میں آئینی طور پر حل کر دیا۔

مرزائیت کی اساس قران اور روایات کی معجون مرکب پر قائم ہے۔ لیکن حقیقت کی رو سے دین کا انحصار فقط کتاب اللہ پر ہے۔ جو عقیدہ ، جو نظریہ ، جو روایت ، جو حدیث اس کے مطابق ہو وہ صحیح ہے اور جو اس کے خلاف ہو وہ بلا تامل قول رسول نہیں ۔
-----------------------

وسلام
 

arifkarim

معطل
انگریز نے اس مقصد کے لیے مسلمانوں کے عقیدہ نزول مسیح کو خوب خوب استعمال کیا۔ چناچہ مرزائیت کا پودا خود انگریزوں نے لگایا اور تحریک مرزائیت کی خود معاونت کی۔


یہ اعتراض میں نے اکثر فارمز پر گردش کرتے دیکھا ہے اور اس پر واہ واہ بھی ہوئی ہے۔
حالانکہ یہ اٹل حقیقت ہے کہ مرزا قادیانی نے نہ صرف ہندوستان کے عیسائی پادریوں بلکہ امریکہ کے بڑے عیسائی پادریوں سے بذریعہ خطوط بڑی نوعیت کے مباحلے کئے ہیں۔ اگر بالفرض یہ تصور کیا جائے کہ مرزئیت انگریز کا خود کاشتہ پودا ہے تو پھر تو مرزا صاحب کو عیسائیت کی تعلیم کے عین مطابق چلنا چاہیے تھا۔ جبکہ انکی اپنی تحاریر میں رد عقید ہ تثلیث اور نزول عیسیٰ ابن مریم کے خلاف لمبے لمبے دلائل موجود ہے۔ اسلئے میری گزارش ہے کہ ایسے موضوعات پر لمبی ریسرچ کی ضرورت ہوتی ہے۔ تصویر کا صرف ایک رُخ دکھا کر انفارمیشن فراہم نہیں کی جا سکتی۔ جان الیگزانڈر ڈوئی اور مرزا قادیانی کا مباحلہ:
http://en.wikipedia.org/wiki/John_Alexander_Dowie
http://www.alislam.org/urdu/library/1463/page8.html
 

الف نظامی

لائبریرین
تاج ختم رسالت پہ لاکھوں سلام
طالوت بڑا مفیدتھریڈ ہے۔ اس موضوع پر پیر سید مہرعلی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب سیف چشتائی ملاحظہ کیجیے۔
مرزا کادیانی نے جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا اور یہ اس کا بدنما رخ ہے۔
آئین پاکستان کی رو سے قادیانی ٍ غیر مسلم ہیں۔
 

طالوت

محفلین
میرا کسی قسم کا اعتراض نہیں اصل بات جو مجھے بھائی اس میں وہ مرزا کا ملاؤں کو گھیرنا ہے ۔۔
شاید یہی وہ گھیراؤ ہے جس کا ذکر آپ اکثر کرتے ہیں ۔۔
وسلام
 

ظفری

لائبریرین
میں اکثر قادنیوں اور دیگر منحرفین کے خلاف درجنوں مقالات پڑھتا رہتا ہوں ۔ جس میں تشدد اور انتہائی سطح پر جا کر ان کے خلاف اقدامات کی بے شمار اشاعت کی جاتی ہے ۔ مگر بحیثت انسان اور مسلمان میرے دل میں دنیا کے ہر انسان کے لیئے ایک نرم گوشہ موجود ہے ۔ کیونکہ اللہ تعالی نے ہمیں جو تعلیم دی ہے اس کے مطابق کسی کی غلطی کو غلطی ضرور قرار دیا جائے مگر اس سے نفرت نہیں کی جانی چاہیئے ۔ مجھے احمدیوں سے اختلاف ہے کہ انہوں‌ نے ایک غلط دعویٰ پر مبنی نبوت کو مان لیا ہے ۔ اور اس اختلاف کا میں پہلے بھی اسی فورم پر تذکرہ کرتا رہا ہوں اور اس ضمن میں‌ جو استدال میں نے اپنایا ہے کہ میرا کام یہ ہے کہ میں اختلاف کیساتھ اصلاح و تلقین کا کام کروں یہ نہیں کہ میں‌ نفرت کروں اور پھر اس کو کسی انتہا پر لے جاکر تشدد یا نفرت کی کوئی اور شکل سے تعبیر کروں ۔

میں ‌یہ سمجھتا ہوں کہ احمدیوں کو اپنے جیسا انسان سمجھ کر ہمیں ان کو دین کی طرف بلانا چاہیئے ۔ اگر ہم غلط رویے اختیار نہیں‌ کرتے تو ان کی آئندہ اور موجودہ نسلیں آج دین کے دامن میں آچکیں ہوتیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے غلط اور تشددمندانہ بلکہ ایک حد تک پراسکیوشن تک پہنچے ہوئے رویوں نے ان کی نسلوں‌کو اپنے مذہب پر محکم کا موقع فراہم کیا ہے ۔ پھر ہم نے ان کو ملک سے نکالنے کا جو طریقہ اختیار کیا ۔ اس سے ان کو موقع ملا کہ وہ اس ہجرت سے فائدہ اٹھائیں اور اسی نتیجےمیں وہ‌ لندن میں جاکر اپنا ایک بڑا مرکز بنانے بھی کامیاب ہوئے ۔ جہاں سے ان کے چینلز ، سیٹلائیٹ کے ذریعے پوری دنیا میں دکھائے جا رہے ہیں‌۔ یہ ہمارا وہ طرزِ عمل تھا جس کی بناء پر ان کو یہ فوائد حاصل ہوئے ۔ ہمیں داعی بن کر ان کی اصلاح کرنی تھی ۔ مگر ہم نے جذبات اور تشدد کے ذریعے ان کی دین میں واپسی تقریباَ ناممکن بنادی ۔ اور ان کو غلط نبوت کے دعوے پر مضبوط اور مستحکم کردیا ۔

دین سے تو وہ خارج کیئے ہی جاچکے تھے ۔ یعنی ہم نے ایک قانون پاس کیا اور دائرہ ِ اسلام سے انہیں باہر نکال کیا ۔ مگر اس کے بعد ہم نے ا ن کی اصلاح یا دین کے دعوت دینے کے بجائے ان کو مارنا شروع کردیا ۔ہم نے ان کے عقائد کی بناء پر ان کو اسلام سے خارج کیا ہے ۔ مگر ہمیں تاریخ کا بھی جائزہ لینا چاہیئے کہ یہ عقائد پہلے بھی مخلتف فرقوں میں رہے ہیں‌ ۔ شعیوں کے بہت عقائد کو دیکھیئے ، سنیوں کے بہت سے عقائد کو دیکھیئے ، صوفیوں کے بہت سے عقائد کو دیکھیئے ۔ اسماعیلوں کے بہت سے عقائد کو دیکھئے ۔ اسلام میں پہلے بھی ہم اسی طرح کی غلطیوں کی نشان دہی کرکے اصلاح ، دعوت و تلقین کا کام کیا کرتے تھے ۔ اسلام میں کسی کو داخل و خارج کرنے کا کام کبھی نہیں‌ کیا ۔اس سے فائدہ یہ ہوتا تھا کہ اس طرح کے رویوں اور قانونی فیصلوں کے غلط نتائج نہیں نکلتے تھے ۔ آپ دیکھیں کہ اسماعیلیوں کا سربراہ جب ہمارے ملک میں آتا ہے تو سارے ملک کے اعلی عہدداران اس کے سامنے بچھ جاتے ہیں ۔ یہ کتنا دورخی رویہ ہے ۔ دراصل اس قسم کے رویئے جب ہمارے علماء کرام پیدا کردیتے ہیں‌ تو دین کی طرف لوٹ آنے کا راستہ بند ہوجاتا ہے ۔

پاکستانی قانون کے مطابق احمدی غیر مسلم ہیں ۔ مگر ہمارا فرض یہ بنتا ہے ہم اسلام کے داعی بنیں جو کہ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے ۔ ہم ان کو دین کی دوبارہ بلائیں ۔ ان کی اصلاح ممکن بنائیں ۔ ہدایت و تلقین کا طریقہ اختیار کریں ۔ ان کے قریب آکر ان کو بتائیں کہ ان کو نبوت کے دعوے کے بارے میں ‌کتنی زبردست غلطی ہوئی ہے ۔ اگر ہم یہ سلسلہ شروع کریں تو بہت ممکن ہے اللہ ان کے دلوں ‌سے مہر ہٹا دے ، ان کا سینہ کھول دے ۔ قیامت کے دن ہم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ " تم نے ان کو غیر مسلم سمجھا تھا کہ نہیں سمجھا تھا ۔ " بلکہ یہ ضرور پوچھا جائے گا کہ تم نے ان کو دین کی دعوت پہنچائی تھی کہ نہیں ‌پہنچائی تھی ۔ صحیح بات ان پر واضع کی تھی کہ نہیں کی تھی ۔
یعنی جس کام پر اللہ نےہم کو مکلف نہیں کیا‌ وہ تو ہم پورے زور و شور ، جذبات اور طاقت سے انجام دے رہے ہیں ۔ اور جس کام کے لیئے اللہ تعالی نے مکلف کیا ہے اس کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ اس استدلال کے نتیجے میں میرا حال تو اب یہ ہے کہ میں رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی نبوت ، کسی الہام ، کسی کشف ، کسی انقاء کا قائل نہیں ہوں‌ ۔ میرے ہاں تو اس طرح کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے ۔ ہر چیز ختم ہوگئی ہے ۔ جبکہ لوگ تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کہے بناء ہی بہت سے گنجائشیں پیدا کرلیتے ہیں‌۔ ہمیں اللہ نے صحیح بات بتانے اور کہنے کے لیئے مکلف کیا ہے ۔ ا سلیئے مکلف نہیں‌ کیا ہے کہ ہم لوگوں سے نفرت کریں ۔ کیونکہ جو رویہ ہم نے اس سلسلے میں اپنایا ہوا ہے ۔ اس سے اسلام کو کتنا نقصان پہنچا اور ان لوگوں‌ کو کتنا فائدہ پہنچا ہے ۔ اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے ۔
 
Top