بظاہر سادہ سا شعر ہے۔ شاعر خود کو ایک پھول تصور کرتا ہےاور اس کی خوشبو اس کے محبوب کے دم سے ہے۔ اندیشہ یہی ہے کہ اگر کہیں خوشبو رخصت ہو جائے گی تو پھول کی مہک بھی جاتی رہے گی اور اس بے خوشبو پھول کی کوئی خاص وقعت نہ رہ جائے گی، بس زیبِ نگاہ ہی بنا رہ جائے گا۔ میرے خیال میں، اس کیفیت کی عکاسی اس شعر میں کی گئی ہے۔وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا
پروین شاکر کا مشہور شعر ۔ لیکن اس شعر کا مطلب کیا بنتا ہے ؟
بھائی! مزید گہرائی میں جانا میرے لیے ممکن نہیں۔میرے خیال میں یہ ایک فلسفیانہ شعر ہے ۔ ذرا گہرائی سے سوچیں۔
ابو ہاشم بھائی! میرے ذہن میں یہ بات آئی تھی مگر پہلے مصرع سے توجہ خواہ مخواہ ہی ٰمحبوب صاحب ٰ کی طرف چلی جاتی ہے۔چلیں میں اپنے خیال کا اظہار کر دیتا ہوں
میرے خیال میں یہاں روح اور بدن کی بات کی گئی ہے
خوشبو اور مہک میں کیا فرق ہے؟بظاہر سادہ سا شعر ہے۔ شاعر خود کو ایک پھول تصور کرتا ہےاور اس کی خوشبو اس کے محبوب کے دم سے ہے۔ اندیشہ یہی ہے کہ اگر کہیں خوشبو رخصت ہو جائے گی تو پھول کی مہک بھی جاتی رہے گی اور اس بے خوشبو پھول کی کوئی خاص وقعت نہ رہ جائے گی، بس زیبِ نگاہ ہی بنا رہ جائے گا۔ میرے خیال میں، اس کیفیت کی عکاسی اس شعر میں کی گئی ہے۔
شعر کی عبارت جہاں تک ساتھ دے، اس کے معنی اور مفاہیم مختلف بھی ہو سکتے ہیں۔ بعض اوقات دو ایک دوسرے سے مختلف بلکہ متضاد مفاہیم بھی نکالے جا سکتے ہیں۔پروین شاکر کا شعر ہے اور اس نے زیادہ تر عورت کے بلکہ اپنے جذبات کی ہی ترجمانی کی ہے۔ لہٰذا اس شعر کو ایک عورت کی نگاہ و جذبات سے ہی دیکھنا چاہیے۔ خواہ مخواہ کی فلسفیانہ موشگافیوں کی میرے خیال میں کوئی ضرورت نہیں۔
شعر کی عبارت جہاں تک ساتھ دے، اس کے معنی اور مفاہیم مختلف بھی ہو سکتے ہیں۔ بعض اوقات دو ایک دوسرے سے مختلف بلکہ متضاد مفاہیم بھی نکالے جا سکتے ہیں۔
اور اگر محض شاعر کے تخیل کو ہی کھوجنا لازم ہو تو پھر شاعر کی زندگی کو سامنے رکھا جا سکتا ہے۔
فرخ بھائی، آپ سے بات کرنا یعنی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے 😜آپ تو مجھے جہالت کے اندھریروں سے کھینچ کر علم کی روشنیوں میں لے آئے۔
فرخ بھائی، آپ سے بات کرنا یعنی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے 😜
آپ تو گنڈاسوں سے بات کرتے ہیں۔ 🙈
شاید کوئی فرق ہو، مگر اس شعر کے تناظر میں پھول کی خوشبو ہو یا مہک ہو، اس میں مجھے کو ئی خاص فرق محسوس نہیں ہوتا۔ کہا جاتا ہے کہ ایسی خوشبو ہوتی ہے جس میں مہک نہ ہو تاہم میری نظر میں شعری تناظر میں یہ ہم معنی الفاظ ہی ہیں۔خوشبو اور مہک میں کیا فرق ہے؟
بظاہر سادہ سا شعر ہے۔ شاعر خود کو ایک پھول تصور کرتا ہےاور اس کی خوشبو اس کے محبوب کے دم سے ہے۔ اندیشہ یہی ہے کہ اگر کہیں خوشبو رخصت ہو جائے گی تو پھول کی مہک بھی جاتی رہے گی اور اس بے خوشبو پھول کی کوئی خاص وقعت نہ رہ جائے گی، بس زیبِ نگاہ ہی بنا رہ جائے گا۔ میرے خیال میں، اس کیفیت کی عکاسی اس شعر میں کی گئی ہے۔
اگر درج بالا دونوں خیالوں کو ملا دیا جائے تو یہ خیال بنتا ہے جو کہ میرا بھی خیال ہےچلیں میں اپنے خیال کا اظہار کر دیتا ہوں
میرے خیال میں یہاں روح اور بدن کی بات کی گئی ہے
ساری شاعری پر ایک ہی حکم لگا دینا ،میرے خیال میں ، شاعر کے ساتھ زیادتی ہے ۔ اس زاویے سے ہٹ کر بھی دیکھنا چاہیےپروین شاکر کا شعر ہے اور اس نے زیادہ تر عورت کے بلکہ اپنے جذبات کی ہی ترجمانی کی ہے۔ لہٰذا اس شعر کو ایک عورت کی نگاہ و جذبات سے ہی دیکھنا چاہیے۔ خواہ مخواہ کی فلسفیانہ موشگافیوں کی میرے خیال میں کوئی ضرورت نہیں۔
'شاعر فرماتی ہیں ' کہنا چاہیے 'شاعرہ 'خواہ مخواہ صنف کو ظاہر کرتا ہےشاعرہ فرماتی ہیں
اس پر لگنا ہے یا'شاعر فرماتی ہیں ' کہنا چاہیے 'شاعرہ 'خواہ مخواہ صنف کو ظاہر کرتا ہے
ابو ہاشم صاحب، "فرماتی" بھی تو صنف کو ظاہر کرنے کے لیے ہے۔ اور شاعر کے ساتھ فرماتی تو اٹ پٹا سا لفظ بن جائے گا۔ اگر شاعر ہی کہنا ہے تو پھر کہنا پڑے گا کہ "شاعر کا یہ فرمانا ہے"'شاعر فرماتی ہیں ' کہنا چاہیے 'شاعرہ 'خواہ مخواہ صنف کو ظاہر کرتا ہے
اس میں شاعرہ نے وہ کو جو خوشبو کی طرح ہوا میں بکھر جانے کا کہا ہے۔ تو اس سے مراد یہ ہے کہ اس میں وفا نہیں ۔ ہوا کے ساتھ ادھر سے اُدھر بکھرتا جائے گا۔ شاید یہ سن رکھا ہو گا کہوہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا
پروین شاکر کا مشہور شعر ۔ لیکن اس شعر کا مطلب کیا بنتا ہے ؟