مسئلہ کشمیر: ہمارے حکمران خواب خرگوش میں۔۔۔۔۔۔؟؟؟

مسئلہ کشمیر پر مبصر گروپ کو دہلی آفس خالی کرنیکی ہدایت
نئی دہلی: ہندوستان نے مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کے فوجی مبصر گروپ کے نمائندوں کو نئی دہلی میں حکومت کی جانب سے فراہم کردہ بنگلہ خالی کرنے کا حکم دیا ہے۔
ہندوستانی وزارت خارجہ نے منگل کو بتایا کہ حکومت نے پاکستان اور ہندوستان کے لیے اقوام متحدہ کے فوجی مبصر گروپ کو دہلی کے نواح میں فراہم کردہ رہائش گاہ خالی کرنے کا حکم دیا ہے۔
اس جگہ سے گزشتہ چار دہائیوں سے ایک دفتر چلایا جا رہا تھا جبکہ اقوام متحدہ کا مرکزی دفتر ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت سری نگر میں ہے جہاں عملہ کم تعداد میں تعینات ہے، اس کے علاوہ ایک دفتر پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں بھی موجود ہے تاکہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قرارداد کے مطابق سیز فائر برقرار رکھا جا سکے۔
نئی دہلی متنازع کشمیر کو اپنے ملک کا لازمی جز تصور کرتا ہے اور اس معاملے پر اقوام متحدہ کے مبصر گروپ سمیت کسی بھی قسم کی بیرونی مداخلت پر شدید مخالفت کرتا رہا ہے۔
اس مبصر گروپ کا قیام دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والی پہلی جنگ کے بعد 1949 کے کراچی معاہدے کے تحت عمل میں آیا تھا۔
اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادیں جموں کشمیر کو اس وقت تک ایک متنازع حصہ تصور کرتی ہے جب تک جموں کشمیر کے لوگ اقوام متحدہ کی زیر سرپرستی رائے شماری میں اپنی مرضی ظاہر نہ کردیں۔
تاہم ہندوستان کی جانب سے آج تک اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد نہیں کیا گیا جبکہ پاکستان ایک تیسرے فریق کی مداخلت کے ساتھ اس مسئلے کے پائیدار حل پر زور دیتا رہا ہے۔
انڈین ایکسپریس پر اقوام متحدہ کے مبصر گروپ کو نئی دہلی چھوڑنے کا نوٹس ملنے کی خبر نشر کیے جانے کے بعد ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان سید اکبر الدین نے کہا کہ اقوام متحدہ کا مبصر گروپ معاملے کے حوالے سے اپنی موجودگی کا جواز کھو چکا ہے اور ہم اس سے قبل بھی کئی مواقع پر یہ موقف پیش کر چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے فوجی مبصر گروپ کا کہنا ہے کہ انہیں درخواست مئی میں ایک ایسے موقع پر موصول ہوئی تھی جب ہندوستان میں عام انتخابات جاری تھے جن میں نریندرا مودی کی زیر قیادت بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جی پی) نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی۔
دہلی آفس کے انچارج میجر نکولس ڈیاز کے مطابق ہمیں دفتر خالی کرنے کے لیے کسی قسم کی وجوہات نہیں بتائی گئیں۔
انہوں نے کہا کہ مبصر گروپ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق اپنا کام جاری رکھے گا اور ہم کوئی متبادل جگہ ڈھونڈ رہے ہیں۔
پاکستانی فوجی حکام اقوام متحدہ کے مبصر گروپ سے کئی بار کشمیر میں ہندوستان کی جانب سے سیز فائر کی خلاف ورزی کی شکایات کر چکے ہیں۔
دوسری جانب ہندوستانی فوجی حکام نے جنوری 1972 سے کسی قسم کی شکایت درج نہیں کرائی اور لائن آف کنٹرول پر ہندوستان کی جانب اقوام متحدہ کے گروپ کو کام سے بھی روک دیا گیا تھا۔
تاہم اس کے باوجود وہ مبصر گروپ کو رہائش، ٹرانسپورٹ اور دیگر سہولیات فراہم کرتے رہے ہیں۔ (بشکریہ ڈان اردو)
 
پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کئی سالوں سے مسئلہ کشمیر کو اب زیادہ اہمیت نہیں دے رہی پہلے کی طرح اس کا ثبوت اس وقت سامنے آیا جب مشرف (بطور صدر) نے اعلانیہ طور پر کہا تھا مذہبی بنیادوں پر کشمیر کی تقسیم ممکن نہیں ہے۔ اور چودھری شجاعت نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں (جوابدہ ۔ جیو پر افتخار احمد کو) کہا کہ ہم نے سری نگر نہیں لینا۔
 
پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کئی سالوں سے مسئلہ کشمیر کو اب زیادہ اہمیت نہیں دے رہی پہلے کی طرح اس کا ثبوت اس وقت سامنے آیا جب مشرف (بطور صدر) نے اعلانیہ طور پر کہا تھا مذہبی بنیادوں پر کشمیر کی تقسیم ممکن نہیں ہے۔ اور چودھری شجاعت نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں (جوابدہ ۔ جیو پر افتخار احمد کو) کہا کہ ہم نے سری نگر نہیں لینا۔
 
پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کئی سالوں سے مسئلہ کشمیر کو اب زیادہ اہمیت نہیں دے رہی پہلے کی طرح اس کا ثبوت اس وقت سامنے آیا جب مشرف (بطور صدر) نے اعلانیہ طور پر کہا تھا مذہبی بنیادوں پر کشمیر کی تقسیم ممکن نہیں ہے۔ اور چودھری شجاعت نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں (جوابدہ ۔ جیو پر افتخار احمد کو) کہا کہ ہم نے سری نگر نہیں لینا۔
سارے لیڈران کا یہی حال ہے الیکشن سے پہلے کچھ اور بعد میں کچھ اور۔۔۔ نواز شریف نے مودی کی تقریب حلف برداری میں بجائے مسئلہ کشمیر پر بات کرنے کے پھر وہی بات دہرائی کہ ہمارا کلچر ایک ہے ہمارے درمیان صرف کنٹرول لائن ہے۔
 
اگر یہ مسئلہ حل کرنے لگ جائیں تو سریہ، ٹماٹر اور پیاز کون بیچے، بی بی کے قاتل کون ڈھونڈے، لال مسجد، اور اکبر بگٹی کے پیچھے کون بھاگے۔
 
اگر یہ مسئلہ حل کرنے لگ جائیں تو سریہ، ٹماٹر اور پیاز کون بیچے، بی بی کے قاتل کون ڈھونڈے، لال مسجد، اور اکبر بگٹی کے پیچھے کون بھاگے۔
اگر بات پیاز ٹماٹر تک ہوتی تو پھر بھی تھا یہاں تو شوگر ملز سے بھی آگے تک معاملہ پہنچ چکا ہے
 
سارے لیڈران کا یہی حال ہے الیکشن سے پہلے کچھ اور بعد میں کچھ اور۔۔۔ نواز شریف نے مودی کی تقریب حلف برداری میں بجائے مسئلہ کشمیر پر بات کرنے کے پھر وہی بات دہرائی کہ ہمارا کلچر ایک ہے ہمارے درمیان صرف کنٹرول لائن ہے۔
میں نے اسٹبلشمنٹ کی بات کی تھی۔ مشرف سے پہلے ایک مرتبہ اشارۃً نواز نے بھی تھرڈ آپشن کی بات کی تھی۔ لیکن مشرف نے کھل کر بات کی۔
 
یہ مشرف کی خصوصیت ہے کہ وہ اکثر سیدھی بات کہہ دیتا ہے نواز شریف اور باقی سیاستدان زیادہ تر منافقت سے کام لیتے ہیں۔ یعنی قوم کے سامنے کوئی اور بات کرتے ہیں انڈیا میں جا کے ان سے کوئی اور بات کرتے ہیں۔
 
یہ مشرف کی خصوصیت ہے کہ وہ اکثر سیدھی بات کہہ دیتا ہے نواز شریف اور باقی سیاستدان زیادہ تر منافقت سے کام لیتے ہیں۔ یعنی قوم کے سامنے کوئی اور بات کرتے ہیں انڈیا میں جا کے ان سے کوئی اور بات کرتے ہیں۔
ویسے منافقت کے حمام میں تو سارے ہی ننگے ہیں۔ :) کسی کی تخصیص نہیں ۔
 
Top