مسئلے کی جڑ

مسئلے کی جڑ
x9668_13032930.jpg.pagespeed.ic.vMxwFmH0az.jpg
 
مفتی اعظم پاکستان نے مسئلے کی تفصیل سے وضاحت کردی ہے۔ میرے لئے تو یہ بات صاف ہوگئی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان دراصل باغیوں کا گروہ ہے اور ان کے خلاف لڑنا اور اطاعت پر مجبور کرنا حکومت کا فرض ہے۔ اور جو ان باغیوں کی حمایت کرے اسے بھی باغی سمجھا جائے ۔ جب تک یہ تمام باغی اپنی اصلاح اور شرپسندی سے باز نا آجائیں۔
 
مفتی صاحب نہایت شاندار لکھتے ہیں۔
مختلف مسالک کے علماء کو آپس میں مل بیٹھ کر اس پر ایک متفقہ لائحہ عمل دینا ہو گا، اب یہ جنگ پاکستان کی ہی جنگ ہے۔
مولوی عبدالعزیز کے بارے پیرے میں مفتی صاحب نے تصویر کا وہ رخ دیکھا دیا جس پر ہم سب اپنے ترکش خالی کرتے رہے اور اصل مدعا سائیڈ لائین ہو گیا۔
 
سارے فساد کی جڑ ابہام اور لاعلمی ہے۔ جن لوگوں کے منصب کا تقاضا یہ ہونا چاہئیے تھا کہ وہ لوگون کو ہدایت کی راہ دکھائیں وہ لوگوں کو کنٹرول کرنے کا خواب دیکھنے لگے۔ وہ خودچند موضوعات پر ابہام کا شکار ہوئے اور غلط مفہوم سمجھا، اور وہی غلط مفہوم اپنے اپنے مدارس کے پلیٹ فارم سے نوجوان نسل تک منتقل کیا۔۔۔:
 
آخری تدوین:

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

يہ بات باعث حيرت ہے کہ کچھ تجزيہ نگار اور رائے دہندگان اب بھی افغانستان ميں متحرک مسلح گروہوں کے مقاصد اور ارادوں کے حوالے سے اپنی سوچ اور نظريات ميں ابہام اور تذبذب کا شکار ہيں اور تمام تر شواہد کے باوجود بظاہر حالت انکارميں ہيں۔ ان مجرموں کی اصل فطرت کے حوالے سے شک وشہبے کی کيا گنجائش رہ جاتی ہے جبکہ وہ افغانستان ميں بھی وہی خونی مہم جوئ کر رہے ہيں جو پاکستان ميں بھی جاری ہے۔

عظمت اور جرات جيسے الفاظ دہشت گردوں کے ان مجرمانہ افعال کے ضمن ميں استعمال نہيں کيے جا سکتے ہيں جن کی تمام تر حکمت عملی اس امر پر مرکوز ہوتی ہے کہ انتہائ بزدلانہ طريقے سے زيادہ سے زيادہ بے گناہ افراد کو ہلاک کيا جائے، اس بات سے قطع نظر کہ اپنے جرائم کی توجيہہ کے ليے وہ کوئ مقدس تاويل يہ تحريک کے حوالے کيوں نا پيش کريں۔

يہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ افغانستان ميں دہشت گرد تنظيميں اور ان کی حمايت کرنے والے بغير کسی منطق کے بدستور افغانستان کو ايک ايسی سرزمين قرار ديتے ہيں جس پر بيرونی قوتوں نے قبضہ کر رکھا ہے، باوجود اس کے کہ اس وقت افغانستان ميں افغانيوں ہی کے زير قيادت ايک فعال حکومت ملک کا نظام اور نظم ونسق چلا رہی ہے۔ تمام تر حکومتی مشينری، وسائل، طرز حکومت اور رياست سے متعلق اہم فيصلہ سازی کے اختيارات افغانستان کے منتخب نمايندوں کے ہاتھوں ميں ہيں۔ امريکہ سميت کوئ بھی بيرونی قوت افغانستان کے علاقوں پر قابض نہيں ہے۔

امريکی اور نيٹو افواج کی موجودگی محض مقامی افغان فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معاونت کے ليے ہے جو دہشت گردی کے ان ٹھکانوں کے قلع قمع کی کاوش ميں لگے ہوئے ہيں جو افغانستان ميں جاری عدم استحکام اور افراتفری کے ذمہ دار ہيں۔

ستم ظريفی ديکھيں کہ ملا عمر اور افغانستان ميں عسکری تنظيموں کے ديگر ترجمان اور قائدين بدستور خطے ميں شہری اموات کے بارے ميں تشويش اور تحفظات کا اظہار کرتے ہيں۔ مگر چاہے وہ بچوں کو خودکش حملہ آور بنا کر انھيں بطور ہتھيار استعمال کرنے کے کا معاملہ ہو يا خود ساختہ بمبوں کا بے دريخ استعمال، ان کے طريقہ واردات سے يہ واضح ہے کہ ان کا واحد مقصد بلاتفريق زيادہ سے زيادہ بے گناہ شہريوں کو ہلاک کرنا ہے تا کہ حملے کی "افاديت" کو بڑھايا جا سکے۔

سرحد کے دونوں جانب متحرک مختلف مسلح گروہوں ميں تفريق کرنے کے ليے مختلف تبصرہ نگاروں اور سکالرز نے جو بھی تاويليں اور دلائل گھڑ رکھے ہيں ان سے قطع نظر دانستہ بے گناہ شہريوں کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی ايک ايسا ناقابل ترديد ثبوت ہے جو نا صرف يہ کہ ان گروہوں کے باہمی تعلقات اور فکری ہم آہنگی کو سب پر آشکار کر ديتی ہے بلکہ دہشت اور بربريت پر بنی مہم کے ذريعے سياسی وقعت اور اثرورسوخ کے حصول کی خواہش بھی سب پر عياں ہو چکی ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
جن لوگوں کے ہاتھ بلکہ پورا جسم بے گناہ شہریوں کے خون سے رنگا ہے وہ پاکستان اور افغانستان کے بے گناہوں کی موت کی مذمت کر رہے ہیں ۔ کیا بات ہے!
 
Top