مسائل کا حل

نیلم

محفلین
کہتے ہیں کہ ایک بار چین کے کسی حاکم نے ایک بڑی گزرگاہ کے بیچوں بیچ ایک چٹانی پتھر ایسے رکھوا دیا کہ گزرگاہ بند ہو کر رہ گئی۔ اپنے ایک پہریدار کو نزدیک ہی ایک درخت کے پیچھےچھپا کر بٹھا دیا تاکہ وہ آتے جاتے لوگوں کے ردِ عمل سُنے اور اُسے آگاہ کرے۔
اتفاق سے جس پہلے شخص کا وہاں سے گزر ہوا وہ شہر کا مشہور تاجر تھا جس نے بہت ہی نفرت اور حقارت سے سڑک کے بیچوں بیچ رکھی اس چٹان کو دیکھا، یہ جانے بغیر کہ یہ چٹان تو حاکم وقت نے ہی رکھوائی تھی اُس نے ہر اُس شخص کو بے نقط اور بے حساب باتیں سنائیں جو اس حرکت کا ذمہ دار ہو سکتا تھا۔ چٹان کے ارد گرد ایک دو چکر لگائے اور چیختے ڈھاڑتے ہوئے کہا کہ وہ ابھی جا کر اعلیٰ حکام سے اس حرکت کی شکایت کرے گا اور جو کوئی بھی اس حرکت کا ذمہ دار ہوگا اُسے سزا دلوائے بغیر آرام سے نہیں بیٹھے گا۔
اس کے بعد وہاں سے تعمیراتی کام کرنے والے ایک ٹھیکیدار کا گزر ہوا ۔ اُس کا ردِ عمل بھی اُس سے پہلے گزرنے والے تاجر سے مختلف تو نہیں تھا مگر اُس کی باتوں میں ویسی شدت اور گھن گرج نہیں تھی جیسی پہلے والا تاجر دکھا کر گیا تھا۔ آخر ان دونوں کی حیثیت اور مرتبے میں نمایاں فرق بھی توتھا!
اس کے بعد وہاں سے تین ایسے دوستوں کا گزر ہوا جو ابھی تک زندگی میں اپنی ذاتی پہچان نہیں بنا پائے تھے اور کام کاج کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے۔ انہوں نے چٹان کے پاس رک کر سڑک کے بیچوں بیچ ایسی حرکت کرنے والے کو جاہل، بیہودہ اور گھٹیا انسان سے تشبیہ دی، قہقہے لگاتے اور ہنستے ہوئے اپنے گھروں کو چل دیئے۔
اس چٹان کو سڑک پر رکھے دو دن گزر گئے تھے کہ وہاں سے ایک مفلوک الحال اور غریب کسان کا گزر ہوا۔ کوئی شکوہ کیئے بغیر جو بات اُس کے دل میں آئی وہ وہاں سے گزرنے ولوں کی تکلیف کا احساس تھا اور وہ یہ چاہتا تھا کہ کسی طرح یہ پتھر وہاں سے ہٹا دیا جائے۔ اُس نے وہاں سے گزرنے والے راہگیروں کو دوسرے لوگوں کی مشکلات سے آگاہ کیا اور انہیں جمع ہو کر وہاں سے پتھر ہٹوانے کیلئے مدد کی درخواست کی۔ اور بہت سے لوگوں نے مل کر زور لگاکرچٹان نما پتھر وہاں سے ہٹا دیا۔
اور جیسے ہی یہ چٹان وہاں سے ہٹی تو نیچے سے ایک چھوٹا سا گڑھا کھود کر اُس میں رکھی ہوئی ایک صندوقچی نظر آئی جسے کسان نے کھول کر دیکھا تو اُس میں سونے کا ایک ٹکڑا اور خط رکھا تھا جس میں لکھا ہوا تھا کہ: حاکم وقت کی طرف سے اس چٹان کو سڑک کے درمیان سے ہٹانے والے شخص کے نام۔ جس کی مثبت اور عملی سوچ نے مسائل پر شکایت کرنے کی بجائے اُس کا حل نکالنا زیادہ بہتر جانا۔
آپ بھی اپنے گردو نواح میں نظر دوڑا کر دیکھ لیں۔ کتنے ایسے مسائل ہیں جن کے حل ہم آسانی سے پیدا کر سکتے ہیں!
 

زبیر مرزا

محفلین
آج ہمارا المیہ ہی منفی سوچ ہے جو عمل کی راہ میں روکاوٹ بنی ہوئی - مجھے اپنا کام کرنا
اپنے فرائض کی بجاآوری میری اولین ترجیح ہو تو شکایت اور تنقید کی نا ضرورت ہوگی نا فرصت
مثبت سوچ تو چراغ راہ ہے اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی
 

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
بہت ہی حساس پہلو کی طرف نشاندہی کی ہے آپ نے
آج ہم صرف بحث مباحثے کرکے اپنی گھروں کی راہ لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں فرض ادا ہوگیا۔۔
جو زمہ داری بحیثیت اک فرد کے ہم پر عائد ہوتی ہے اس سے پہلو تہی کرتے ہیں تبھی آج ہم بہت پیچھے کھڑے ہیں
بہت خوب تحریر!
 
ملّا کی شریعت میں فقط مستیِ گفتار
صوفی کی طریقت میں فقط مستیِ احوال
وہ مردِ مجاہد نظر آتا نہیں مجھ کو
ہو جسکے رگ و پئے میں فقط مستیِ کردار
 

نیلم

محفلین
بہت ہی حساس پہلو کی طرف نشاندہی کی ہے آپ نے
آج ہم صرف بحث مباحثے کرکے اپنی گھروں کی راہ لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں فرض ادا ہوگیا۔۔
جو زمہ داری بحیثیت اک فرد کے ہم پر عائد ہوتی ہے اس سے پہلو تہی کرتے ہیں تبھی آج ہم بہت پیچھے کھڑے ہیں
بہت خوب تحریر!
بہت شکریہ سس
 

نیلم

محفلین
آج ہمارا المیہ ہی منفی سوچ ہے جو عمل کی راہ میں روکاوٹ بنی ہوئی - مجھے اپنا کام کرنا
اپنے فرائض کی بجاآوری میری اولین ترجیح ہو تو شکایت اور تنقید کی نا ضرورت ہوگی نا فرصت
مثبت سوچ تو چراغ راہ ہے اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی
جی بلکل درست کہا آپ نے..عمل سے ہی بنتی ہے دُنیا جنت بھی جہنم بھی.بہت شکریہ آپ کا
 

نیلم

محفلین
ہروقت خدا کے احسانات یاد کر۔۔غور کر کہ ہر سانس خدا کی عنایت ہے یوں دل میں شکر گزاری پیدا ہوگی۔۔ پھر تو بے بسی محسوس کرے گا کہ اتنے احسانات کا شکر کیسے ادا کیا جاسکتا ہے۔۔ وہ بے بسی تیرے دل میں محبت پیدا کرے گی۔۔ تو سوچے گا کہ مالک نے بغیر کسی غرض کے تجھے نوازا، تجھ سے محبت کی۔۔ تو غور کر کہ اتنی بڑی دنیا میں تو کتنا حقیر ہے ۔ سینکڑوں کے مجمع میں بھی تیری کوئی پہچان نہیں ہے۔۔ کوئی تجھ پر دوسری نظرب
ھی نہیں ڈالے گا۔۔کسی کو پروا نہیں ہوگی کہ الہٰی بخش بھی ہے۔۔

لیکن تیرا رب کروڑوں انسانوں کے بیچ بھی تجھے یاد رکھتا ہے۔۔ تیری ضروریات پوری کرتا ہے۔۔ تیری بہتری سوچتا ہے تجھے اہمیت دیتا ہے۔۔ ان سب باتوں پر غور کرتا رہے گا تو تیرے دل میں خدا کی محبت پیدا ہوگی۔۔ اس محبت کے ساتھ بھی یہ سوچتا رہے گا تو محبت میں گہرائی پیدا ہوگی۔۔ اور پھر تجھے خدا سے عشق ہو جائے گا۔۔

عشق کا عین از علیم الحق حقی۔
 
Top