محمد اجمل خان
محفلین
مساجد اللہ کیلئے
زبیدہ خلیفہ ہارون الرشید کی ملکہ تھی جو اسے جان سے بھی زیادہ عزیز تھی لیکن شیطان نے ایک مرتبہ ان دونوں کے درمیان کسی بات پر اختلاف پیدا کرا دیا۔ جب تکرار طول پکڑا تو ہارون نے غصہ میں زبیدہ سے کہہ دیا کہ ’’ آنے والی رات تم میری سلطنت سے باہر گزارو، ورنہ تمہیں طلاق‘‘۔
جب غصہ تھنڈا ہوا تو دونوں بہت پریشان ہوئے کیونکہ ہارون اور زبیدہ دونوں ہی دین کا علم رکھتے تھے اور یہ بات جانتے تھے یہ ایک قسم ہے اور اگر قسم پوری نہ کی جائے تو ’’شرع میں اس طرح طلاق واقع ہو جاتی ہے‘‘۔
لہذا اب آنے والا رات زبیدہ کو خلیفہ ہارون الرشید کی سلطنت سے باہر گزارنا ہے ورنہ طلاق واقع ہو جائے گی اور سلطنت سے باہر رات گزارنا ناممکن ہے کیونکہ ہارون کی حدودِ سلطلنت اس قدر وسیع و عریض ہے کہ مشرق میں چین سے لے کر مغرب میں فرانس تک پھیلی ہوئی ہے۔
وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ ہارون الرشید اپنی زبان سے نکلی ہوئی بات کی وجہ کر پشیمان اور شرمندہ ہے۔ زبیدہ بھی پریشان اور خوف زدہ ہیں۔
بالآخر خلیفہ ہارون الرشید نے علما کی کانفرنس طلب کی اور ان کے سامنے اپنا مسٔلہ رکھا۔
ان علما میں ایک قاضی ابو یوسف ہیں جو ایک بڑے عالم ہیں جن کی ذہانت و فطانت کے سب معترف ہیں۔
انہوں نے مسکرا کر خلیفہ کی طرف دیکھا اور فرمایا: ’’آپ کی قسم ایک صورت میں واقع ہونے سے بچ سکتی ہے‘‘۔
خلیفہ نے استفسار کیا: ’’وہ کونسی صورت ہے؟‘‘
قاضی ابو یوسف نے کہا کہ ’’آپ اپنی اہلیہ سے کہیں کہ آج رات کسی بھی مسجد میں گزار لیں، اس لئے کہ مسجد آپ کی ملکیت میں نہیں ہے، وہ آپ کی سلطنت سے باہر ہے‘‘۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّ۔هِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّ۔هِ أَحَدًا (1 سورة الجن
’’اور یہ کہ مساجد اللہ کیلئے خاص ہیں، پس اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو‘‘۔(1 سورة الجن
آج خلیفہ ہارون الرشید جیسی حکومت کسی کی بھی نہیں ہے۔
لیکن آج کے نام نہاد بادشاہ مساجد کو بھی اپنی ملکیت سمجھ بیٹھے ہیں۔
اور
اللہ کے گھر میں لوگوں کو جانے سے روک رہے ہیں۔
فرمان الٰہی ہے:
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّ۔هِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا ۚ أُولَ۔ٰئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ (114) سورۃ البقرۃ
’’اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی مسجدوں میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کئے جانے کو روکے اور ان کی بربادی کی کوشش کرے، ایسے لوگوں کو خوف کھاتے ہوئے اس میں جانا چاہیئے، ان کے لئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی بڑا عذاب ہے‘‘
إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّ۔هِ مَنْ آمَنَ بِاللَّ۔هِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّ۔هَ ۖ فَعَسَىٰ أُولَ۔ٰئِكَ أَن يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ (1 سورة التوبة
’’اللہ کی مسجدوں کو تو وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ پر اور روز قیامت پر ایمان لاتے ہیں اور نماز پڑھتے اور زکواة دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ یہی لوگ امید ہے کہ ہدایت یافتہ لوگوں میں (داخل) ہوں‘‘ (1 سورة التوبة
۔
تحریر: محمد اجمل خان
۔
زبیدہ خلیفہ ہارون الرشید کی ملکہ تھی جو اسے جان سے بھی زیادہ عزیز تھی لیکن شیطان نے ایک مرتبہ ان دونوں کے درمیان کسی بات پر اختلاف پیدا کرا دیا۔ جب تکرار طول پکڑا تو ہارون نے غصہ میں زبیدہ سے کہہ دیا کہ ’’ آنے والی رات تم میری سلطنت سے باہر گزارو، ورنہ تمہیں طلاق‘‘۔
جب غصہ تھنڈا ہوا تو دونوں بہت پریشان ہوئے کیونکہ ہارون اور زبیدہ دونوں ہی دین کا علم رکھتے تھے اور یہ بات جانتے تھے یہ ایک قسم ہے اور اگر قسم پوری نہ کی جائے تو ’’شرع میں اس طرح طلاق واقع ہو جاتی ہے‘‘۔
لہذا اب آنے والا رات زبیدہ کو خلیفہ ہارون الرشید کی سلطنت سے باہر گزارنا ہے ورنہ طلاق واقع ہو جائے گی اور سلطنت سے باہر رات گزارنا ناممکن ہے کیونکہ ہارون کی حدودِ سلطلنت اس قدر وسیع و عریض ہے کہ مشرق میں چین سے لے کر مغرب میں فرانس تک پھیلی ہوئی ہے۔
وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ ہارون الرشید اپنی زبان سے نکلی ہوئی بات کی وجہ کر پشیمان اور شرمندہ ہے۔ زبیدہ بھی پریشان اور خوف زدہ ہیں۔
بالآخر خلیفہ ہارون الرشید نے علما کی کانفرنس طلب کی اور ان کے سامنے اپنا مسٔلہ رکھا۔
ان علما میں ایک قاضی ابو یوسف ہیں جو ایک بڑے عالم ہیں جن کی ذہانت و فطانت کے سب معترف ہیں۔
انہوں نے مسکرا کر خلیفہ کی طرف دیکھا اور فرمایا: ’’آپ کی قسم ایک صورت میں واقع ہونے سے بچ سکتی ہے‘‘۔
خلیفہ نے استفسار کیا: ’’وہ کونسی صورت ہے؟‘‘
قاضی ابو یوسف نے کہا کہ ’’آپ اپنی اہلیہ سے کہیں کہ آج رات کسی بھی مسجد میں گزار لیں، اس لئے کہ مسجد آپ کی ملکیت میں نہیں ہے، وہ آپ کی سلطنت سے باہر ہے‘‘۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّ۔هِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّ۔هِ أَحَدًا (1 سورة الجن
’’اور یہ کہ مساجد اللہ کیلئے خاص ہیں، پس اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو‘‘۔(1 سورة الجن
آج خلیفہ ہارون الرشید جیسی حکومت کسی کی بھی نہیں ہے۔
لیکن آج کے نام نہاد بادشاہ مساجد کو بھی اپنی ملکیت سمجھ بیٹھے ہیں۔
اور
اللہ کے گھر میں لوگوں کو جانے سے روک رہے ہیں۔
فرمان الٰہی ہے:
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّ۔هِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا ۚ أُولَ۔ٰئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ (114) سورۃ البقرۃ
’’اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی مسجدوں میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کئے جانے کو روکے اور ان کی بربادی کی کوشش کرے، ایسے لوگوں کو خوف کھاتے ہوئے اس میں جانا چاہیئے، ان کے لئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی بڑا عذاب ہے‘‘
إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّ۔هِ مَنْ آمَنَ بِاللَّ۔هِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّ۔هَ ۖ فَعَسَىٰ أُولَ۔ٰئِكَ أَن يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ (1 سورة التوبة
’’اللہ کی مسجدوں کو تو وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ پر اور روز قیامت پر ایمان لاتے ہیں اور نماز پڑھتے اور زکواة دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ یہی لوگ امید ہے کہ ہدایت یافتہ لوگوں میں (داخل) ہوں‘‘ (1 سورة التوبة
۔
تحریر: محمد اجمل خان
۔