عبداللہ حیدر
محفلین
میری عمر اس وقت پانچ چھے سال ہو گی جب ہمارے محلے میں مسجد کا ڈھانچہ کھڑا کیا گیا۔مجھے یاد ہے کہ مغرب اور عشاء کی نمازیں اس وقت زیر تعمیر برآمدے میں ادا کی جاتی تھیں۔ آج 23 سال گزرنے کے بعد دو منزلہ مسجد ہمارے سامنے ہے۔ سپلٹ اے سی، دیواروں پر منقش ٹائلیں، فرش پر دبیز قالین اور اس قسم کی دوسری چیزیں بہترین حالت میں موجود ہیں۔ لیکن کوئی سال نہیں گزرتا جب ایک نئی تعمیر شروع نہ کی جاتی ہو۔ یہ ایک مسجد کی کہانی نہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں عمومًا یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ بیس بیس سال گزرنے کے بعد بھی مولوی صاحب ثواب دارین کے حصول کے لیے چندہ مانگتے نظر آتے ہیں۔ اور لوگ بھی اپنے اردگرد بسنے والے غریب مسلمانوں کا حق مار کر دیواروں کو سجاتے اور فرشوں کو آراستہ کرتے ہیں۔ بعض اوقات مسجد کو ڈیکوریٹ کرنے اور فانوس لٹکانے کے لیے اتنا پیسہ خرچ کر دیا جاتا ہے جس سے ایک غریب خاندان کے سال بھر کے اخراجات پورے ہو سکتے ہیں یا کسی بے روزگار کے روزگار کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مسجد کیسی تھی۔ امام بخاری اپنی صحیح میں بیان کرتے ہیں:
كَانَ سَقْفُ الْمَسْجِدِ مِنْ جَرِيدِ النَّخْلِ
"مسجد (نبوی) کی چھت کھجور کی شاخوں سے بنائی گئی تھی"
کہنے والے کہتے ہیں کہ اس وقت مسلمانوں کی مالی حالت خراب تھی، مدینہ منورہ کی معیشت مہاجرین کی آمد اور جہاد کے اخراجات کی وجہ سے دباؤ میں تھی اس لیے مسجد کی سجاوٹ پر خرچ نہیں کیا گیا لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں جب مسجد دوبارہ تعمیر کی گئی تو اسلام دنیا میں سربلند تھا، مال غنیمت کی کثرت تھی۔ بیت المال بھرا ہوا تھا۔ لیکن امیر المومنین رضی اللہ عنہ خوب جانتے تھے کہ اللہ نے یہ مال دیواروں کو سجانے اور میناروں پر سونا چڑھانے کے لیے نہیں بلکہ اسلام کی خدمت اور مسلمانوں کی فلاح کے لیے دیا ہے۔ چنانچہ معماروں سے مخاطب ہو کر فرمایا:
أَكِنَّ النَّاسَ مِنْ الْمَطَرِ وَإِيَّاكَ أَنْ تُحَمِّرَ أَوْ تُصَفِّرَ فَتَفْتِنَ النَّاسَ
"(اس تعمیر سے تمہارا مقصد صرف یہ ہو کہ) لوگوں کو بارش سے بچاؤ، اور خبردار (مسجد میں ) زردی یا سرخی کا استعمال نہ کرنا کہ لوگ (اس کی وجہ سے نماز کی بجائے نقش و نگار کی طرف متوجہ ہوں اور) فتنے میں پڑ جائیں"
ابن عباس رضی اللہ عنہ جیسے مفسر قرآن صحابی فرماتے تھے:
لَتُزَخْرِفُنَّهَا كَمَا زَخْرَفَتْ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى
"یقینًا تم لوگ مساجد کو اسی طرح آراستہ کرو گے جس طرح یہودی اور نصرانیوں نے اپنی عبادت گاہوں کو آراستہ کیا"
صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب بنیان المساجد)
نہ صرف یہ بلکہ مساجد کی خوبصورتی کی وجہ سے ایک دوسرے پر فخر کرنے کو قیامت کی نشانیوں میں ایک نشانی قرار دیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَتَبَاهَى النَّاسُ فِي الْمَسَاجِدِ
سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فی بناء المساجد، صحیح سنن ابی داؤد 449)
"قیامت قائم نہ ہوگی جب تک کہ لوگ (ایک دوسرے کے سامنے) مسجدوں پر فخر نہ کریں گے۔ "
اور فرمایا
مَا أُمِرْتُ بِتَشْيِيدِ الْمَسَاجِدِ
سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فی بناء المساجد، صحیح سنن ابی داؤد 448
"مجھے اونچی اونچی مسجدیں بنا نے کا حکم نہیں دیا گیا "
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری اصلاح کر دے۔ اور ہمارے علماء اور ائمہ کو صحیح دین بیان کرنے اور سمجھانے کی توفیق دے۔
والسلام علیکم
آئیے دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مسجد کیسی تھی۔ امام بخاری اپنی صحیح میں بیان کرتے ہیں:
كَانَ سَقْفُ الْمَسْجِدِ مِنْ جَرِيدِ النَّخْلِ
"مسجد (نبوی) کی چھت کھجور کی شاخوں سے بنائی گئی تھی"
کہنے والے کہتے ہیں کہ اس وقت مسلمانوں کی مالی حالت خراب تھی، مدینہ منورہ کی معیشت مہاجرین کی آمد اور جہاد کے اخراجات کی وجہ سے دباؤ میں تھی اس لیے مسجد کی سجاوٹ پر خرچ نہیں کیا گیا لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں جب مسجد دوبارہ تعمیر کی گئی تو اسلام دنیا میں سربلند تھا، مال غنیمت کی کثرت تھی۔ بیت المال بھرا ہوا تھا۔ لیکن امیر المومنین رضی اللہ عنہ خوب جانتے تھے کہ اللہ نے یہ مال دیواروں کو سجانے اور میناروں پر سونا چڑھانے کے لیے نہیں بلکہ اسلام کی خدمت اور مسلمانوں کی فلاح کے لیے دیا ہے۔ چنانچہ معماروں سے مخاطب ہو کر فرمایا:
أَكِنَّ النَّاسَ مِنْ الْمَطَرِ وَإِيَّاكَ أَنْ تُحَمِّرَ أَوْ تُصَفِّرَ فَتَفْتِنَ النَّاسَ
"(اس تعمیر سے تمہارا مقصد صرف یہ ہو کہ) لوگوں کو بارش سے بچاؤ، اور خبردار (مسجد میں ) زردی یا سرخی کا استعمال نہ کرنا کہ لوگ (اس کی وجہ سے نماز کی بجائے نقش و نگار کی طرف متوجہ ہوں اور) فتنے میں پڑ جائیں"
ابن عباس رضی اللہ عنہ جیسے مفسر قرآن صحابی فرماتے تھے:
لَتُزَخْرِفُنَّهَا كَمَا زَخْرَفَتْ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى
"یقینًا تم لوگ مساجد کو اسی طرح آراستہ کرو گے جس طرح یہودی اور نصرانیوں نے اپنی عبادت گاہوں کو آراستہ کیا"
صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب بنیان المساجد)
نہ صرف یہ بلکہ مساجد کی خوبصورتی کی وجہ سے ایک دوسرے پر فخر کرنے کو قیامت کی نشانیوں میں ایک نشانی قرار دیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَتَبَاهَى النَّاسُ فِي الْمَسَاجِدِ
سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فی بناء المساجد، صحیح سنن ابی داؤد 449)
"قیامت قائم نہ ہوگی جب تک کہ لوگ (ایک دوسرے کے سامنے) مسجدوں پر فخر نہ کریں گے۔ "
اور فرمایا
مَا أُمِرْتُ بِتَشْيِيدِ الْمَسَاجِدِ
سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فی بناء المساجد، صحیح سنن ابی داؤد 448
"مجھے اونچی اونچی مسجدیں بنا نے کا حکم نہیں دیا گیا "
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری اصلاح کر دے۔ اور ہمارے علماء اور ائمہ کو صحیح دین بیان کرنے اور سمجھانے کی توفیق دے۔
والسلام علیکم