حسان خان
لائبریرین
مسافرانِ مصیبت وطن میں آتے ہیں
سفر سے آتے ہیں سوغات نذر لاتے ہیں
جو پیشوائی کو آتا ہے منہ چھپاتے ہیں
سوئے مدینہ یہ رو رو کے غل مچاتے ہیں
لٹا کے آئے ہیں زہرا کے ہم گھرانے کو
نہ کر قبول تو ہم بے کسوں کے آنے کو
مدینہ یاد تو ہو گا تجھے وہ جاہ و حشم
گئے تھے کیسے تجمل سے کربلا کو ہم
وہ خیمہ اور وہ سپہ اور فوج اور وہ علم
اور اب سیاہ کفنی اور حسین کا ماتم
پسند آمدِ ذریتِ رسول نہ کر
مدینہ ایسے حقیروں کو تو قبول نہ کر
مدینہ ہم ترے والی کو آئے ہیں کھو کر
مدینہ گردنِ شپیر پر چلا خنجر
مدینہ کوفے میں سر ننگے ہم پھرے در در
مدینہ داغِ رسن ہیں ہمارے شانوں پر
نہ راہ دے ہمیں، زہرا کا نورِ عین نہیں
مدینہ اکبر و قاسم نہیں، حسین نہیں
ہلی زمین مدینے کی اُس گھڑی پیہم
کیا بشیر کو سجاد نے طلب اُس دم
گلے میں ڈال دی شالِ عزا بدیدۂ نم
اور اس کے ہاتھ میں رو کر دیا سیاہ علم
کہا کہ جا نہیں گو اپنے منہ دکھانے کی
مگر وطن میں خبر کر دے میرے آنے کی
چلا بشیر یہ دیتا ہوا خبر ہر جا
مگر محلۂ ہاشم میں دیکھتا ہے کیا
کہ اک مریضہ سرِ راہ ہے کھڑی تنہا
کہا بشیر نے کیا نام، بولی وہ صغرا
وہ بولا راستے میں کیوں تو شور و شین میں ہے
کہا یہ حال مرا فرقتِ حسین میں ہے
کھڑی ہوں منتظر اکبر کی، دیکھوں کب آئے
میں گھر سے نکلی ہوں شاید کہ قاصد آ جائے
خدا کہیں مرے بچھڑوں کو خیر سے لائے
کہ یہ مریضہ لبِ گور ہے، شفا پائے
کوئی پدر کی خبر لائے، پاؤں پڑتی ہوں
جدا مسیح سے ہوں، ایڑیاں رگڑتی ہوں
بشیر سمجھا یہ بنتِ حسین ہے صغرا
خموش رہ گیا صغرا کے منہ پہ کچھ نہ کہا
پکاری فاطمہ گردن میں دیکھ شالِ عزا
؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
وہ بولا قاصدِ بیمارِ کربلا ہوں میں
سُنانی قبرِ پیمبر پہ لے چلا ہوں میں
وہ رو کے بولی کہ بھائی یہ کیا سناتا ہے
وہ کون ہے جسے بیمار تو بتاتا ہے
سنانی کس کی ہے مجکو یہ ہول آتا ہے
کہ مصطفیٰ کی لحد پر تو کہنے جاتا ہے
عمامہ پھینک کر اُس نے کہا دہائی ہے
ترے حسین کی صغرا سنانی آئی ہے
گری زمین پہ صغرا کہ اُس پہ چرخ گرا
خبر یہ پھیلی تو ماتم ہر ایک گھر میں ہوا
نکل نکل پڑیں سب عورتیں برہنہ پا
نبی کی قبر پہ جا کر بشیر نے یہ کہا
سفر سے پھر کے ادھر بھوکی پیاسیاں آئیں
اٹھو رسول تمہاری نواسیاں آئیں
بشیر کہتا ہے واللہ روضہ کانپ گیا
لحد سے نالہ ہوا وا حسین کا پیدا
ادھر پڑی تھی جو رستے میں فاطمہ صغرا
زنانِ ہاشمیہ نے وہاں ہجوم کیا
ہلایا شانہ کہ سلطانِ مشرقین آئے
اٹھو حسین کی عاشق اٹھو حسین آئے
وہ آنکھیں کھول کے بولی کدھر گئے بابا
کہ آیا قافلۂ کربلا بھی ننگے پا
بہن حسین کی رو رو کے دیتی تھی یہ ندا
حسین جب سے موئے میں نے سر نہیں ڈھانپا
نہ مردہ اور نہ تابوت اخی کا لائی ہوں
مدینے والو میں بھائی کو کھو کے آئی ہوں
مدینے والو کہو اُس بہن کی کیا تقدیر
جو دیکھے اپنے برادر کے حلق پر شمشیر
عزیزو اس کی سزا کیا ہے کچھ کرو تقریر
لہو میں غرق جو دیکھے حسین کی تصویر
بتاؤ کہتے ہیں سب کیا اس اماں جائی کو
جو اربعین تلک دے کفن نہ بھائی کو
مرے حضور تھا حلقِ حسین پر خنجر
شہید ہو گیا ہم شکلِ مصطفیٰ اکبر
کفن نہ دے سکی بھائی کو ہوں میں وہ خواہر
مگر خدا کی قسم ہے نہ سر پہ تھی چادر
زمینِ گرم پہ بھائی کی لاش تنہا تھی
حسین جانتے ہیں میں اسیرِ اعدا تھی
پدر کے لانے کا صغرا سے تھا کیا اقرار
کہا تھا اماں نے زینب حسین سے ہشیار
یہ کوئی پوچھے تو صغرا سے میں تمہارے نثار
کہ تیرے باپ کو کھو آئی ہے یہ سینہ فگار
وطن میں آنے دیں زینب کو یا نہ آنے دیں
نبی کی قبر پہ جانے دیں یا نہ جانے دیں
یہ ایک سمت سے پیدا ہوئی صدا ناگاہ
پدر نے چھوڑ دیا تم بھی چھوڑتی ہو آہ
پکاری وہ کہ یہ صغرا کی ہے صدا واللہ
کہاں ہے میری بھتیجی اخی کی نورِ نگاہ
ندا یہ آئی کہ اٹھتی ہوں اور گرتی ہوں
پھوپھی کدھر ہو تمہیں ڈھونڈتی میں پھرتی ہوں
بڑھی جو چند قدم زینبِ خجستہ صفات
تو دیکھا دور سے صغرا کو اس طرح ہیہات
دیے ہوئے ہیں کئی لڑکیاں بغل میں ہات
گئی نہ سامنے صغرا کے زینبِ خوش ذات
کبھی تو قافلے کے پیچھے جا کے چھپتی ہے
کبھی رسول کے روضے میں آ کے چھپتی ہے
نبی کی قبر پہ صغرا نے پایا زینب کو
گلے لپٹ کے پکاری پدر کا پرسا دو
وہ بولی سارے عزیزوں کا اپنے پرسا لو
سبھی شہید ہوئے فدیۂ شہِ خوش خو
تو جانتی تھی کہ بابا فقط موا صغرا
شہید تیر سے اصغر تلک ہوا صغرا
ابھی یہ کہتی تھی زینب بنالۂ جاں کاہ
کہ ایک شیشہ لیے آئی امِ سلمہ آہ
بھرا ہوا تھا وہ شیشہ لہو سے سب واللہ
حرم نے منہ پہ مَلا وہ لہو بحالِ تباہ
بٹھا کے بیچ میں صغرا کو گرد رونے لگے
حسین امام کے نالے بلند ہونے لگے
فغاں تھی فاطمہ صغرا کی آہ بابا آہ
پکارتی تھی یہ زینب دہائی یا جدّاہ
نبی کی قبر سے پیدا ہوئی صدا ناگاہ
کہ بس کرو ہے تزلزل میں یادگاہِ الٰہ
یہ کربلا سے خبر جبرئیل لایا ہے
شہید روتے ہیں شپیر کو غش آیا ہے
ندا یہ سن کے ہوئے قبر سے وداع حرم
میانِ حجرۂ زہرا بہت کیا ماتم
دبیر بس کہ ہے بے انتہا حسین کا غم
زیادہ چل نہیں سکتی ہے اب زبانِ قلم
بیانِ حادثۂ اہلِ بیت آساں نیست
حکایتیست کہ آں را بشرح پایاں نیست
(مرزا سلامت علی دبیر)