فراز مسافرت میں بھی تصویر گھر کی دیکھتے ہیں۔ احمد فراز

فرحت کیانی

لائبریرین
مسافرت میں بھی تصویر گھر کی دیکھتے ہیں
کوئی بھی خواب ہو تعبیر گھر کی دیکھتے ہیں

وطن سے دور بھی آزادیاں نصیب کسے
قدم کہیں بھی ہوں تصویر گھر کی دیکھتے ہیں

اگرچہ جسم کی دیوار گرنے والی ہے
یہ سادہ لوح کہ تعمیر گھر کی دیکھتے ہیں

کوئی تو زخم اسے بھولنے نہیں دیتا
کوئی تو یاد عناں گیر، گھر کی دیکھتے ہیں

ہم ایسے خانہ بر انداز، کنجٍ غربت میں
جو گھر نہیں تو تصاویر گھر کی دیکھتے ہیں

بنائے دل ہے کسی خوابگاہٍ زلزلہ پر
سو اپنی آنکھوں سے تقدیر گھر کی دیکھتے ہیں

فراز جب کوئی نامہ وطن سے آتا ہے
تو حرف حرف میں تصویر گھر کی دیکھتے ہیں


احمد فراز
 

سارہ خان

محفلین
اگرچہ جسم کی دیوار گرنے والی ہے
یہ سادہ لوح کہ تعمیر گھر کی دیکھتے ہیں


بہت خوب ۔۔ بہت اچھی غزل ہے ۔۔۔
 

خرد اعوان

محفلین
مسافرت میں تصویر گھر کی دیکھتے ہیں،احمد فراز

مسافرت میں تصویر گھر کی دیکھتے ہیں
کوئی بھی خواب ہو تعبیر گھر کی دیکھتے ہیں

وطن سے دور بھی آزادیاں نصیب کسے
قدم کہیں بھی ہوں زنجیر گھر کی دیکھتے ہیں

اگرچہ جسم کی دیوار گرنے والی ہے
یہ سادہ لوح کے تعمیر گھر کی دیکھتے ہیں

کوئی تو زخم اسے بھولنے نہیں دیتا
کوئی تو یاد عناں گیر ، گھر دیکھتے ہیں

ہم ایسے خانہ بر انداز ، کنج غربت میں
جو گھر نہیں تو تصاویر گھر کی دیکھتے ہیں

بنائے دل ہے کسی خواب گاہ زلزلہ پر
سو اپنی آنکھوں سے تقدیر گھر کی دیکھتے ہیں

فراز جب کوئی نامہ وطن سے آتا ہے
تو حرف حرف میں تصویر گھر کی دیکھتے ہیں
 
ہم ایسے خانہ بر انداز ، کنج غربت میں
جو گھر نہیں تو تصاویر گھر کی دیکھتے ہیں

وطن سے دور غریبوں کی ترجمانی کی ہے، مرحوم نے۔

بہت خوب، شکریہ جناب
 

جیا راؤ

محفلین
ہم ایسے خانہ بر انداز، کنجٍ غربت میں
جو گھر نہیں تو تصاویر گھر کی دیکھتے ہیں

بہت ہی خوب۔۔۔ !
 
Top