ضیاء حیدری
محفلین
مستعصم باللہ اور ابن علقمی
مستعصم کا پورا نام ابواحمد المستعصم بااللہ عبداللہ بن منصور المستنصر تھا۔ وہ 37 ویں اور آخری عباسی خلیفہ تھے، سنہ 1213 میں پیدا ہوئے اور 1244 میں خلیفہ بنے۔ ابن علقمی ان کا وزیر خاص تھا تاہم خلیفہ کے بیٹے کے ساتھ رنجش کی وجہ سے وہ اندر سے اس خلافت کے خلاف تھا جب اسے چین اور روس کے وسطی علاقے منگولیا سے اٹھنے والے اس نوجوان کے بارے میں معلوم ہوا جو آئے روز ملکوں پر ملک فتح کیے جا رہا تھا تو اسے پیغام بھجوایا کہ اگر وہ بغداد پر حملہ کرے تو مدد کی جائے گی اور قبضہ کرنے میں زیادہ دقت نہیں ہو گی۔جب ہلاکو خان کو ابن علقمی کا پیغام ملا تو اسے بغداد میں دلچسپی پیدا ہوئی اور دو لاکھ کی فوج کے ساتھ نکل پڑا، جو منجنیقوں اور بارودی مواد سے لیس تھی۔ ابن علقمی کو علم ہوا تو اس نے خلیفہ سے کہا کہ ہمیں اتنی بڑی فوج ایسے ہی بے کار بیٹھی تنخواہیں لے رہی ہے۔ ان کو دوسرے علاقوں کے سرداروں کے پاس بھیج کر کسی پیداواری کام پر لگائیں جس پر زیادہ تر فوج دوسرے علاقوں میں بھیج دی گئی۔ہلاکو خان لشکر سمیت 29 جنوری 1258 کو بغداد پہنچا اور شہر کا محاصرہ کر لیا،
خلیفہ مستعصم متفکر تھے کہ کیا کیا جائے۔ ایسے میں ابن علقمی نے مشورہ دیا کہ اگر وہ خود ہلاکو خان کا استقبال کرنے چلے جائیں تو شاید بات بن جائے کیونکہ اسے مال ودولت سے غرض ہے جو خلیفہ کے پاس بے تحاشا ہے، وہ لے کر چلا جائے گا۔ خلیفہ نے اس تجویز پر غور شروع کر دیا۔ا
10 فروری 1258 کو خلیفہ چند فوجی افسران اور درباریوں کے ساتھ نکل کر ہلاکو خان کے خیمے کی طرف بڑھے تو ان کے ساتھ آنے والے تمام لوگوں کو خیمے کے باہر ہی روک لیا گیا اور خلیفہ کے اندر جاتے ہی سب کو قتل کر دیا گیا۔ خلیفہ کو وہیں سے پکڑ کر قید خانے میں ڈال دیا گیا۔ انہیں کئی روز تک بھوکا پیاسا رکھا گیا جب وہ بھوک سے نڈھال ہو گئے تو نکال کر ہلاکو کے سامنے پیش کیا گیا۔ہلاکو خان نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس طرح سے مارو کہ خون زمین پر نہ گرے۔ خلیفہ کو قالین میں لپیٹ کر پہلے فوجیوں نے لاتھوں گھونسوں کا نشانہ بنایا اور پھر اس پر اس وقت تک گھوڑے دوڑائے جب تک موت واقع نہ ہو گئی۔
ہلاکو کی فوجوں نے بغداد میں اس حد تک قتل و غارت کی کہ دریائے دجلہ کا پانی کئی روز تک سرخ رہا، تقریبا پانچ سے دس لاکھ افراد کو قتل کیا گیا۔ ابن علقمی نے ہلاکو خان کو بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لیے امادہ کیا وہ منگولوں کی مدد سے حکمران بننا چاہتا تھا مگر سوائے رسوائی کے کچھ نہ ملا اور رسوائی کی موت مرا۔ اسے بغداد کی تباہی کا محرک سمجھا جاتا ہے، آج پاکستان کے اقتدار کے ایوانوں میں کئی ابن علقمی مل جائیں گے، یہ لوگ اسلام کے نام پر بنے اس ملک کو کھوکھلا کرنے میں مصروف عمل ہیں تاہم وہ یہ بھول گئے ہیں کہ غداروں کا کوئی ملک نہیں ہوتا۔ اُن کا انجام بھی ابن علقمی، میر جعفر اور میر صادق جیسا ہی ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں دفاع پاکستان کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے میں کوئی دقیقہ گروگزاشت نہ کیا جائے،وہاں پاکستان میں موجود” ابن علقمیوں “ کاسراغ لگا کر ان کا بر وقت سد باب بھی کیا جائے۔