حسان خان
لائبریرین
مژدہ اے دل! کہ نیا اب سر و ساماں ہوگا
جس کو دشوار سمجھتا ہے وہ آساں ہوگا
ایک بار اور صبا لائے گی پیغامِ وصال
ایک بار اور علاجِ غمِ ہجراں ہوگا
ایک مبہم سا نشاں ہوگا نشانِ آلام
ایک بھولا سا فسانہ غمِ دوراں ہوگا
سنگریزہ کہ سرِ خاک پڑا ہے خاموش
کاوشِ مہر سے کل لعلِ بدخشاں ہوگا
رُوکشِ دشت و جبل قصرِ سلاطیں ہوں گے
ہمسرِ بامِ فلک کلبۂ دہقاں ہوگا
قدمِ فقر پہ جھک جائے گی شاہی کی جبیں
دستِ افلاس میں دولت کا گریباں ہوگا
خوفِ صیاد سے جو بھول چکا ہے پرواز
کل وہی مرغِ قفس مرغِ سلیماں ہوگا
پک رہا ہے جو بیاباں کی کڑی دھوپ میں آج
کل اُسی سر کے لیے تاجِ گُل افشاں ہوگا
آج جو دُوب کا اک ریشہ ہے، اور کچھ بھی نہیں
کل وہ تلوار کی صورت میں نمایاں ہوگا
آج جس بزم پہ طاری ہے جلالِ فرعون
کل وہیں دبدبۂ موسئِ عمراں ہوگا
آج جس رعب سے ہے روئے امارت پہ شکوہ
کل وہ مزدور کے چہرے سے نمایاں ہوگا
حکمِ ساقی سے ہے جو حلقۂ بیرونِ در آج
کل وہی بزم میں رقصان و غزلخواں ہوگا
"نفسِ بادِ صبا مشک فشاں خواہد شُد
عالمِ پیر دگر بارہ جواں خواہد شُد"
(جوش ملیح آبادی)
۱۹۲۹ء