F@rzana
محفلین
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اگلے پچاس سالوں میں انسانوں کے خدوخال کیسے ہونگے؟ لندن کے سائنس میوزیم میں جمعے سے شروع ہونے والی ایک نمائش کے مطابق ہو سکتا ہے اس سوال کا جواب ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں ہو۔
جب ہالی وڈ کی فلم فیس آف میں اداکاروں نکولیس کیج اور جان ٹراوولٹا کے چہرے ایک دوسرے سے بدل گئے تھے تو اکثر دیکھنے والوں نے سوچا تھا کہ ایسا صرف فلمی دنیا میں ممکن ہے۔
لیکن اب امریکی سائنسدانوں نے طبّی تحقیق کے لیے مختص لاشوں کے چہروں کے کامیاب ٹرانسپلانٹ کر لیے ہیں اور وہ اس انتظار میں ہیں کہ حکومت انہیں اجازت دے کہ وہ اس ٹیکنالوجی کو عام افراد پر استعمال کر سکیں جن کے چہرے کسی وجہ سے خراب ہیں۔
’فیوچر فیس‘ یعنی مستقبل کا چہرہ نامی اس نمائش میں انسانی سوسائٹی پر اس ٹیکنالوجی کے اثرات کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
اس وقت بھی دنیا بھر میں لوگ اربوں روپے کاسمیٹک سرجری پر خرچ کرتے ہیں۔
یونیورسٹی کالج لندن نے تھری ڈی سکیننگ کی ایک ایسی مشین ایجاد کی ہے جس سے سرجن اپنے زیر علاج مریض کے چہرے کو ہاتھ لگانے سے پہلے ہی اس پر تجربات کر سکتے ہیں اور اس طرح بغیر نقصان کے یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس قسم کا چہرہ ان کے مریض پر سب سے بہتر لگے گا۔
اس کے علاوہ DNA انجینئیرنگ میں ہونے والی تحقیق سے بھی ممکن ہے ایک وقت ایسا آئے جب لوگ اپنی جینز کے ذریعے ہی اپنی پسند کا چہرہ پروگرام کروا لیں۔
فیوچر فیس کی کیوریٹر کا کہنا ہے کہ : ’ہم پر ڈیجیٹل چہروں کے اتنے اثرات مرتب ہو رہے ہیں کہ اب رفتہ رفتہ ہم ایسے چہرے کی طرف جا رہے ہیں جو کسی انسان کا پیدائشی چہرہ نہیں ہو سکتا۔‘
خواتین کے لیے یہ نیا چہرہ بہت ملائم ہو گا اور اس کا جبڑا پتلا ہو گا، ہونٹ بڑے اور آنکھیں جیسے مینگا جاپانی قسم کی۔
لیکن ڈر ہے کہ اس قسم کی تبدیلیوں سے انسانوں کے چہرے اپنی انفرادیت کھو بیٹھیں گے۔
جب ہالی وڈ کی فلم فیس آف میں اداکاروں نکولیس کیج اور جان ٹراوولٹا کے چہرے ایک دوسرے سے بدل گئے تھے تو اکثر دیکھنے والوں نے سوچا تھا کہ ایسا صرف فلمی دنیا میں ممکن ہے۔
لیکن اب امریکی سائنسدانوں نے طبّی تحقیق کے لیے مختص لاشوں کے چہروں کے کامیاب ٹرانسپلانٹ کر لیے ہیں اور وہ اس انتظار میں ہیں کہ حکومت انہیں اجازت دے کہ وہ اس ٹیکنالوجی کو عام افراد پر استعمال کر سکیں جن کے چہرے کسی وجہ سے خراب ہیں۔
’فیوچر فیس‘ یعنی مستقبل کا چہرہ نامی اس نمائش میں انسانی سوسائٹی پر اس ٹیکنالوجی کے اثرات کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
اس وقت بھی دنیا بھر میں لوگ اربوں روپے کاسمیٹک سرجری پر خرچ کرتے ہیں۔
یونیورسٹی کالج لندن نے تھری ڈی سکیننگ کی ایک ایسی مشین ایجاد کی ہے جس سے سرجن اپنے زیر علاج مریض کے چہرے کو ہاتھ لگانے سے پہلے ہی اس پر تجربات کر سکتے ہیں اور اس طرح بغیر نقصان کے یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس قسم کا چہرہ ان کے مریض پر سب سے بہتر لگے گا۔
اس کے علاوہ DNA انجینئیرنگ میں ہونے والی تحقیق سے بھی ممکن ہے ایک وقت ایسا آئے جب لوگ اپنی جینز کے ذریعے ہی اپنی پسند کا چہرہ پروگرام کروا لیں۔
فیوچر فیس کی کیوریٹر کا کہنا ہے کہ : ’ہم پر ڈیجیٹل چہروں کے اتنے اثرات مرتب ہو رہے ہیں کہ اب رفتہ رفتہ ہم ایسے چہرے کی طرف جا رہے ہیں جو کسی انسان کا پیدائشی چہرہ نہیں ہو سکتا۔‘
خواتین کے لیے یہ نیا چہرہ بہت ملائم ہو گا اور اس کا جبڑا پتلا ہو گا، ہونٹ بڑے اور آنکھیں جیسے مینگا جاپانی قسم کی۔
لیکن ڈر ہے کہ اس قسم کی تبدیلیوں سے انسانوں کے چہرے اپنی انفرادیت کھو بیٹھیں گے۔