سید عمران
محفلین
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ کسی کام سے متاثر ہوکر جوش میں آجاتے ہیں،ان میں جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کام کو کیا جائے۔وقتی جوش و خروش کے باعث اس کام کا آغاز بھی ہوجاتا ہے لیکن رفتہ رفتہ اس میں کمی واقعی ہونا شروع ہوجاتی ہے اور پہلے جیسا شوق باقی نہیں رہتا حتی کہ ایک دن ایسا آتا ہے کہ وہ کام جو بہت جوش و خروش سے شروع کیا گیا تھا سرد مہری کی نظر ہونا شروع ہوجاتا ہے اور رفتہ رفتہ اس پر لاپرواہی کی گرد جمنے لگتی ہے، یہاں تک کہ اس کا انجام بجز خسارے کے اور کچھ نہیں نکلتا۔
مستقل مزاجی انسان کو منزل تک پہنچاتی ہے۔ جو لوگ مستقل مزاج نہیں وہ منزل نہیں پاسکتے ۔ ان کے ارادے بدلتے رہتے ہیں وہ کبھی بھی اپنے کیے پر خوش نہیں رہتے۔ ہوم اکنامکس پڑھنے والے زمیں دار ہیں اور زراعت پڑھنے والے ہوٹلوں میں باورچی، اسلامیات پڑھنے والے بنک میں کام کرتے ہیں اور کامرس پڑھے لوگ اسلامیات پڑھاتے ہیں۔ کوئی سیاسیات میں ایم اے کرنے کے بعد مسجد کا امام ہے تو کوئی حافظ قرآن اور ایم اسلامیات کے بعد سیاست میں ہے۔ کچھ لوگ جنرل اسٹور کھولتے ہیں مگر تھوڑے ہی عرصے کے بعد فروٹ کا کاروبار شروع کردیتے ہیں، پھر کھاد کی دکان کھولتے ہیں،اگر اس میں بھی دل نہیں لگتا تو مال مویشیوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، پھر کاروبار ختم کر کے ملازمت اختیار کرلیتے ہیں۔
بہت سے طالب علم اپنی تعلیم کے لیے ضروری سامان اکھٹا کرتے ہیں، چند دن شوق سے پڑھتے ہیں پھر اکتا کر کسی اور وادی میں اترنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کے برعکس بعض طلباء ایسے ہوتے ہیں جنہیں تعلیم کا زیادہ شوق نہیں ہوتا لیکن ان کی محنت میں تسلسل ہوتا ہے، وہ پورا سال پڑھتے ہیں چنانچہ کامیابی ان کے قدم چومتی ہے۔ ثابت ہوا کہ کامیابی کا راز ہمت اور شوق کے علاوہ ایسی محنت میں پوشیدہ ہے جس میں تسلسل پایا جائے۔اکثر تعمیری کام مطلوبہ نتائج اس لیے نہیں حاصل کرتے کیوں کہ شوق اور ہمت کے ساتھ ایک اور ضروری چیز تسلسل کے ساتھ محنت کرنے کا فقدان ہوتا ہے۔کسی کام کو تسلسل سے کرتے رہنا ایک دن منزل تک پہنچا دیتا ہے۔
ہوانگ دافا نامی چینی شہری نے دیہاتیوں کی مدد سے مسلسل چھتیس برس تک محنت کرکے تین پہاڑوں سے سو میٹر لمبی سرنگ کھودی اور پانی کی ایک نہر اپنے گاؤں تک لایا۔ اس کے گاؤں میں آج سے تقریباً تیس سال قبل تک پانی کی شدید قلت تھی۔ ہوانگ نے ۱۹۵۹ ء میں سرنگ کھودنے کا آغاز کیا تھا۔نہر کو گاؤں تک لانے کے لیے ہوانگ نے یونیورسٹی میں پانی کے بہاؤ اور ندیوں کی تعمیر کا علم حاصل کیا اور اسے آزمایا۔نہر کا پانی آنے سے گاؤں میں کھیتی باڑی کا آغاز ہوا جس کے ساتھ ہی خوشحالی کا دور شروع ہوگیا۔ اب یہاں موجود بارہ سو افراد اس نہر کے پانی سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔
بھارتی ریاست بہار کے پچاس سالہ شخص رام چندر داس نے مسلسل پندرہ برس کی سخت محنت سے پہاڑ کاٹ کر دس کلو میٹر لمبی اور چار میٹر چوڑی سڑک بنالی ۔ یہ راستہ بن جانے سے اس کے دیہات کا باقی علاقوں سے فاصلہ سات کلومیٹر سے کم ہوکر دو سے ڈھائی کلومیٹر رہ گیا۔ آج اس کی بنائی ہوئی سڑک سبھی استعمال کررہے ہیں۔
چین کے مشہور فلسفی اور ماہرِ تعلیم ژُن زی کا کہنا ہے کہ ”اگر ایک باہمت جنگی گھوڑا ایک بار چھلانگ لگائے تو وہ دس قدم سے زیادہ کا فاصلہ طے نہیں کرسکتا، لیکن اگر ایک ادنیٰ گھوڑا دس دن چلتا رہے تو وہ اپنی مستقل مزاجی کی بدولت ایک لمبا راستہ طے کرلیتا ہے۔ اگر ایک مجسمہ ساز آدھے راستے میں کام چھوڑ دے تو ایک کمزور لکڑی بھی نہیں کاٹ سکتا، لیکن اگر مسلسل محنت کرتا رہے تو دھات اور پتھر کو بھی تراش لیتا ہے۔چین نے اس بات کو پلّے باندھ لیا اور گزشتہ ساٹھ برسوں کی مسلسل محنت سے وہ کمال کر دکھایا جس نے ساری دنیا کو حیران کردیا۔
خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ایک آدمی کو علم حاصل کرنے کا شوق تھا لیکن اسے کامیابی حاصل نہیں ہو رہی تھی، تھک ہار کر اس نے فیصلہ کرلیا کہ اب مزید علم حاصل نہیں کرے گا۔ ایک دن اس کا گزر ایک پہاڑ سے ہوا جس کا پانی قطرہ قطرہ کرکے ایک چٹان پر گررہا تھا جس سے چٹان میں شگاف پیدا ہوگیا تھا۔ تب اس نے کہا کہ جب پانی اپنی لطافت کے باوجود کثیف چٹان میں شگاف پیدا کرسکتا ہے تو اللہ کی قسم میں بھی علم حاصل کرسکتا ہوں۔
تاریخ کے تمام مشہور لوگوں کی زندگی کے معمولات میں سب سے واضح چیز ان کی مستقل مزاجی ہے۔ مستقل مزاجی کے بغیر کامیابی کا تصور ایسے ہی ہے جیسے آکسیجن کے بغیر زندہ رہنا۔ مستقل مزاجی اپنائیے اور اپنی زندگی کو ایک نئی سمت دیجیے جو آپ کے لیے خوشحالی اور آسودگی کی ضامن ہوگی۔
مستقل مزاجی انسان کو منزل تک پہنچاتی ہے۔ جو لوگ مستقل مزاج نہیں وہ منزل نہیں پاسکتے ۔ ان کے ارادے بدلتے رہتے ہیں وہ کبھی بھی اپنے کیے پر خوش نہیں رہتے۔ ہوم اکنامکس پڑھنے والے زمیں دار ہیں اور زراعت پڑھنے والے ہوٹلوں میں باورچی، اسلامیات پڑھنے والے بنک میں کام کرتے ہیں اور کامرس پڑھے لوگ اسلامیات پڑھاتے ہیں۔ کوئی سیاسیات میں ایم اے کرنے کے بعد مسجد کا امام ہے تو کوئی حافظ قرآن اور ایم اسلامیات کے بعد سیاست میں ہے۔ کچھ لوگ جنرل اسٹور کھولتے ہیں مگر تھوڑے ہی عرصے کے بعد فروٹ کا کاروبار شروع کردیتے ہیں، پھر کھاد کی دکان کھولتے ہیں،اگر اس میں بھی دل نہیں لگتا تو مال مویشیوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، پھر کاروبار ختم کر کے ملازمت اختیار کرلیتے ہیں۔
بہت سے طالب علم اپنی تعلیم کے لیے ضروری سامان اکھٹا کرتے ہیں، چند دن شوق سے پڑھتے ہیں پھر اکتا کر کسی اور وادی میں اترنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کے برعکس بعض طلباء ایسے ہوتے ہیں جنہیں تعلیم کا زیادہ شوق نہیں ہوتا لیکن ان کی محنت میں تسلسل ہوتا ہے، وہ پورا سال پڑھتے ہیں چنانچہ کامیابی ان کے قدم چومتی ہے۔ ثابت ہوا کہ کامیابی کا راز ہمت اور شوق کے علاوہ ایسی محنت میں پوشیدہ ہے جس میں تسلسل پایا جائے۔اکثر تعمیری کام مطلوبہ نتائج اس لیے نہیں حاصل کرتے کیوں کہ شوق اور ہمت کے ساتھ ایک اور ضروری چیز تسلسل کے ساتھ محنت کرنے کا فقدان ہوتا ہے۔کسی کام کو تسلسل سے کرتے رہنا ایک دن منزل تک پہنچا دیتا ہے۔
ہوانگ دافا نامی چینی شہری نے دیہاتیوں کی مدد سے مسلسل چھتیس برس تک محنت کرکے تین پہاڑوں سے سو میٹر لمبی سرنگ کھودی اور پانی کی ایک نہر اپنے گاؤں تک لایا۔ اس کے گاؤں میں آج سے تقریباً تیس سال قبل تک پانی کی شدید قلت تھی۔ ہوانگ نے ۱۹۵۹ ء میں سرنگ کھودنے کا آغاز کیا تھا۔نہر کو گاؤں تک لانے کے لیے ہوانگ نے یونیورسٹی میں پانی کے بہاؤ اور ندیوں کی تعمیر کا علم حاصل کیا اور اسے آزمایا۔نہر کا پانی آنے سے گاؤں میں کھیتی باڑی کا آغاز ہوا جس کے ساتھ ہی خوشحالی کا دور شروع ہوگیا۔ اب یہاں موجود بارہ سو افراد اس نہر کے پانی سے فائدہ اٹھارہے ہیں۔
بھارتی ریاست بہار کے پچاس سالہ شخص رام چندر داس نے مسلسل پندرہ برس کی سخت محنت سے پہاڑ کاٹ کر دس کلو میٹر لمبی اور چار میٹر چوڑی سڑک بنالی ۔ یہ راستہ بن جانے سے اس کے دیہات کا باقی علاقوں سے فاصلہ سات کلومیٹر سے کم ہوکر دو سے ڈھائی کلومیٹر رہ گیا۔ آج اس کی بنائی ہوئی سڑک سبھی استعمال کررہے ہیں۔
چین کے مشہور فلسفی اور ماہرِ تعلیم ژُن زی کا کہنا ہے کہ ”اگر ایک باہمت جنگی گھوڑا ایک بار چھلانگ لگائے تو وہ دس قدم سے زیادہ کا فاصلہ طے نہیں کرسکتا، لیکن اگر ایک ادنیٰ گھوڑا دس دن چلتا رہے تو وہ اپنی مستقل مزاجی کی بدولت ایک لمبا راستہ طے کرلیتا ہے۔ اگر ایک مجسمہ ساز آدھے راستے میں کام چھوڑ دے تو ایک کمزور لکڑی بھی نہیں کاٹ سکتا، لیکن اگر مسلسل محنت کرتا رہے تو دھات اور پتھر کو بھی تراش لیتا ہے۔چین نے اس بات کو پلّے باندھ لیا اور گزشتہ ساٹھ برسوں کی مسلسل محنت سے وہ کمال کر دکھایا جس نے ساری دنیا کو حیران کردیا۔
خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ایک آدمی کو علم حاصل کرنے کا شوق تھا لیکن اسے کامیابی حاصل نہیں ہو رہی تھی، تھک ہار کر اس نے فیصلہ کرلیا کہ اب مزید علم حاصل نہیں کرے گا۔ ایک دن اس کا گزر ایک پہاڑ سے ہوا جس کا پانی قطرہ قطرہ کرکے ایک چٹان پر گررہا تھا جس سے چٹان میں شگاف پیدا ہوگیا تھا۔ تب اس نے کہا کہ جب پانی اپنی لطافت کے باوجود کثیف چٹان میں شگاف پیدا کرسکتا ہے تو اللہ کی قسم میں بھی علم حاصل کرسکتا ہوں۔
تاریخ کے تمام مشہور لوگوں کی زندگی کے معمولات میں سب سے واضح چیز ان کی مستقل مزاجی ہے۔ مستقل مزاجی کے بغیر کامیابی کا تصور ایسے ہی ہے جیسے آکسیجن کے بغیر زندہ رہنا۔ مستقل مزاجی اپنائیے اور اپنی زندگی کو ایک نئی سمت دیجیے جو آپ کے لیے خوشحالی اور آسودگی کی ضامن ہوگی۔
آخری تدوین: