محمداحمد
لائبریرین
معروف مصنف ودانشورمستنصرحسین تارڑالمعروف چاچاجی نے ‘آدھا کمال فن ایوارڈ’ قبول کرنے سےانکارکرتے ہوئے اس فیصلے پرسوال اٹھادیے،نصف ایوارڈ سرائیکی شاعرڈاکٹرآشولال کو دیاجارہا تھا۔
اس سے قبل گزشتہ ہفتے ڈاکٹرآشو لال نے بھی اعلان کے فوراً بعد ہی پاکستان کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ تسلیم کیا جانے والا یہ ایوارڈ قبول کرنے سے یہ کہتے ہوئے انکارکردیا تھا کہ وہ ‘عوام اور فن مخالف فاشسٹ ریاست ‘ کا ایوارڈ قبول نہیں کرسکتے۔
سوشل میڈیا پرپوسٹ کیے جانے والے پیغام میں مستنصرحسین تارڑکا کہنا تھا کہ گزشتہ دنوں ملک کے سب سےبڑے نام نہاد ادبی ایوارڈ کمال فن کا اعلان کیا گیا، 20، 21 سالہ تاریخ میں پہلی باراس ایوارڈ کو تقسیم کیا گیا ورنہ قواعد کےتحت یہ ہمیشہ ایک ادیب کودیا جاتا تھا چاہے اس کا تعلق کسی بھی زبان سے ہو۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ جوروایت چلی آرہی تھی اس کی خلاف ورزی کیوں کی گئی اورطےشدہ اصولوں کو پس پشت کیوں ڈالا گیا، یہ اسی طرح سے ہے کہ ستارہ امتیاز کیلئےکہاجائے کہ یہ آدھا آپ کا ہے اورآدھا کسی اورادیب کا ہے۔
ڈاکٹرآشولال کی جانب سے ایوارڈ لینے سے انکار کے حوالے سے اپنا ردعمل دیتے ہوئے مستنصرحسین تارڑ نے کہا کہ وہ حق بجانب ہیں، یہ نہ صرف میرے بلکہ ان کے ساتھ بھی زیادتی تھی کہ انہیں آدھاایوارڈ دیا جائے،نانچہ میرے لیے اس قسم کا متنازع اورداغدارایوارڈ قبول کرنا مشکل ہے، یہ میری تخلیقی صلاحیتوں کے خلاف ہے۔
پاکستان کے سب سے بہترین ناول نگار تسلیم کیے جانے والے مستنصرحسین تارڑ نے مزید کہا کہ 83 برس کی عمرمیں 60 سال کی تخلیقی کاوش کے بعد جی نہیں، یہ مجھے قبول نہِیں ہے، ایوارڈ کی کمیٹی اورمیری محبت میں میرے حق میں ووٹ دینے والوں کا شکرگزار ہوں، میرا خیال ہے کہ وہ میرا نقطہ نظرسمجھ جائیں گے۔
انہوں نے اپنے پڑھنے والوں کا بھی شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کی وجہ سے اس مقام پر ہوں جومجھے میری ہرکتاب پر کمال فن ایوارڈ دیتے ہیں اور وہ مجھے ‘آدھا نہیں پورا ادیب مانتے ہیں’۔
ادبی خدمات پرمستنصرحسین تارڑ2016 میں حکومت کی جانب سے ستارہ امتیازحاصل کرچکےہیں۔
بشکریہ ہماری ویب