حسان خان
لائبریرین
پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے مستونگ میں زائرین کی بسوں کو ایک کار بم دھماکے میں نشانہ بنایا گیا ہے اور اس دھماکے کے نتیجے میں انیس افراد ہلاک اور پچیس زخمی ہوگئے ہیں۔
ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد کا تعلق شیعہ مسلک سے ہے۔
بلوچستان کے سیکرٹری داخلہ اکبر حسین درانی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ زائرین کی تین بسیں کوئٹہ سے ایران جا رہی تھیں جب کوئٹہ سے پینتیس کلومیٹر دور مستونگ کے علاقے درینگڑھ میں انہیں نشانہ بنایا گیا۔
سیکرٹری داخلہ نے بتایا کہ ان بسوں کے راستے میں ایک سوزوکی گاڑی میں بم نصب کیا گیا تھا اور ’ان تین بسوں میں سے ایک بس بم دھماکے کے زد میں آئی اور مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔‘
بم ڈسپوزل سکواڈ کا کہنا ہے کہ یہ ریموٹ کنٹرول دھماکہ تھا اور اس میں ساٹھ سے ستّر کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا تھا۔
مستونگ کے ڈپٹی کمشنر طفیل بلوچ کا کہنا ہے کہ اس دھماکے میں انیس افراد ہلاک جبکہ پچیس زخمی ہوئے جن میں چار خواتین بھی شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بسوں کے اس قافلے کے آگے پیچھے لیویز کا سکواڈ بھی تھا۔
انہوں نے بتایا کہ دھماکے کے بعد ایک بس میں آگ لگ گئی اور وہ مکمل طور پر جل گئی۔ ڈپٹی کمشنر نے مزید بتایا کہ ہلاک ہونے والوں کی لاشیں جل چکی ہیں جس کے باعث شناخت میں مشکل ہو رہی ہے۔
ہلاک شدگان کی لاشیں جائے حادثہ سے کوئٹہ منتقل کر دی گئی ہیں اور انہیں شناخت کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
اس قافلے میں شامل ایک زائر کا کہنا ہے کہ مرنے والے زیادہ تر افراد پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں تاہم سرکاری طور پر اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے پاک فضائیہ کا ایک سی ون تھرٹی طیارہ فوری طور پر مستونگ روانہ کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ مرنے والے افراد کی لاشیں ان کے آبائی علاقوں تک منتقل کی جا سکیں۔
ایک عینی شاہد وزیر خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک بس مکمل طور پر جل گئی ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس وقت یہ معلوم نہیں کہ اس بس میں کتنے لوگ سوار تھے۔
عینی شاہد نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ کار بم حملہ کیا گیا ہے کیونکہ ایک چھوٹی گاڑی کا انجن بھی جائے حادثہ پر پڑا ہوا ہے۔
یاد رہے کہ کوئٹہ میں زائرین کی بسوں کو کئی بار نشانہ بنایا جا چکا ہے اور یہ حملے زیادہ تر مستونگ ہی کے علاقے میں ہوئے ہیں۔
ربط
ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد کا تعلق شیعہ مسلک سے ہے۔
بلوچستان کے سیکرٹری داخلہ اکبر حسین درانی نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ زائرین کی تین بسیں کوئٹہ سے ایران جا رہی تھیں جب کوئٹہ سے پینتیس کلومیٹر دور مستونگ کے علاقے درینگڑھ میں انہیں نشانہ بنایا گیا۔
سیکرٹری داخلہ نے بتایا کہ ان بسوں کے راستے میں ایک سوزوکی گاڑی میں بم نصب کیا گیا تھا اور ’ان تین بسوں میں سے ایک بس بم دھماکے کے زد میں آئی اور مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔‘
بم ڈسپوزل سکواڈ کا کہنا ہے کہ یہ ریموٹ کنٹرول دھماکہ تھا اور اس میں ساٹھ سے ستّر کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا تھا۔
مستونگ کے ڈپٹی کمشنر طفیل بلوچ کا کہنا ہے کہ اس دھماکے میں انیس افراد ہلاک جبکہ پچیس زخمی ہوئے جن میں چار خواتین بھی شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بسوں کے اس قافلے کے آگے پیچھے لیویز کا سکواڈ بھی تھا۔
انہوں نے بتایا کہ دھماکے کے بعد ایک بس میں آگ لگ گئی اور وہ مکمل طور پر جل گئی۔ ڈپٹی کمشنر نے مزید بتایا کہ ہلاک ہونے والوں کی لاشیں جل چکی ہیں جس کے باعث شناخت میں مشکل ہو رہی ہے۔
ہلاک شدگان کی لاشیں جائے حادثہ سے کوئٹہ منتقل کر دی گئی ہیں اور انہیں شناخت کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
اس قافلے میں شامل ایک زائر کا کہنا ہے کہ مرنے والے زیادہ تر افراد پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں تاہم سرکاری طور پر اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
پاکستان کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے پاک فضائیہ کا ایک سی ون تھرٹی طیارہ فوری طور پر مستونگ روانہ کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ مرنے والے افراد کی لاشیں ان کے آبائی علاقوں تک منتقل کی جا سکیں۔
ایک عینی شاہد وزیر خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک بس مکمل طور پر جل گئی ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس وقت یہ معلوم نہیں کہ اس بس میں کتنے لوگ سوار تھے۔
عینی شاہد نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ کار بم حملہ کیا گیا ہے کیونکہ ایک چھوٹی گاڑی کا انجن بھی جائے حادثہ پر پڑا ہوا ہے۔
یاد رہے کہ کوئٹہ میں زائرین کی بسوں کو کئی بار نشانہ بنایا جا چکا ہے اور یہ حملے زیادہ تر مستونگ ہی کے علاقے میں ہوئے ہیں۔
ربط