ابن آدم
محفلین
کہا جاتا ہے کہ مسلمان جب مدینہ گئے تو پہلے ١٦-١٧ ماہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے. نبی کریم ﷺ کی شدید خواہش تھی کہ مسلمانوں کو بیت الله کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے جو کہ پھر سوره بقرہ کی آیات ۱۴۲-۱۴۴ میں ۲ہجری میں جاکر ملی. ان آیات کی روایات/شان نزول ہے وہ بہت ہی مضحکہ خیز ہے اور اس کو نبی کے ساتھ جوڑنا دین کے ساتھ ایک مذاق سے کم نہیں۔کہا جاتا ہے کہ:
"ظہر کا وقت ہو گیا اور لوگوں کو نماز پڑھانے کھڑے ہوئے۔ دو رکعتیں پڑھ چکے تھے کہ تیسری رکعت میں یکایک وحی کے ذریعے تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا اور اسی وقت آپ اور آپ کی اقتدا میں تمام لوگ بیت المقدس سے کعبے کے رخ پھر گئے۔ اس کے بعد مدینہ اور اطراف مدینہ میں اس کی عام منادی کی گئی۔ کیونکہ بیت المقدس مدینے کے شمال میں ہے جبکہ کعبہ جنوب میں اس لیے قبلہ تبدیل کرنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو چل کر مقتدیوں کے پیچھے آنا پڑا ہوگا اور مقتدیوں کو صرف رخ ہی نہ بدلنا پڑا ہوگا بلکہ کچھ نہ کچھ انہیں بھی چل کر اپنی صفیں درست کرنا پڑی ہوں گی چنانچہ بعض روایات میں یہ تفصیل مذکور بھی ہے۔"
اہم ترین بات یہ ہے کہ دوران نماز اس نوعیت کی وحی آنا کہ صفوں کی ترتیب ہی تتر بتر ہوجائے، کیا نمازیوں کے ذہنی و قلبی خضوع و خشوع کے خلاف نہیں؟ کیا یہی وحی نماز کے بعد نازل نہیں ہو سکتی تھی کہ ہیجان انگیزی کی بجائے باوقار طریقے سے مسلمانوں کو جدید حکم سے آگاہ کردیا جاتا؟
اس پہلو کو کو اگر کچھ دیر کے لیے نظر انداز بھی کردیا جائے تو سوچنے کی بات ہے مقتدیوں کو کیونکر معلوم ہوا کہ بیت اللہ کی جانب رخ کرنے کا حکم آگیا ہے کہ انہوں نے نہ صرف رخ موڑلیے بلکہ سمجھ بھی لیا کہ نئی ترتیب کس طریقے سے وضع کرنی ہے؟ انہیں تو اب تک وحی سنائی نہیں گئی تھی کہ وہ مقصد سمجھ پاتے، اور سورہ بقرہ کی آیت ١٤٣ کہ جسکو اس وقوعے کی شان نزول مانا جاتا ہے تو اس سے بھی تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی جو بھی خواہش تھی (شان نزول کے مطابق مکہ کی جانب رخ کرنے کی) تو اسکا اظہار تو عام لوگوں کے سامنے اب تک کیا ہی نہیں گیا تھا کہ اسکی بنیاد پر مسلمان دوران نماز یہ قیاس لگاتے کہ اس خواہش کی تکمیل دوران نماز کسی وحی کی صورت میں ہو گئی ہے، لہذا صفوں کی از سر نو ترتیب بیت اللہ کی جانب رخ کرتے ہوئے بنالی جائے۔
نبی کریم ﷺ کی اگر بیت اللہ کی جانب رخ کرکے نماز پڑھنے کی خواہش کیا مدینہ آکر بیدار ہوئی؟ مکہ میں کیا ترتیب رہتی تھی؟ بعض لوگ اسکا جواب یہ دیتے ہیں کہ وہاں استقبال قبلتین ہوتا تھا کہ حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان کھڑے ہوکر نماز کا اہتمام ہوا کرتا تھا، مکہ میں توآخر تک نناوے فیصد جماعت چھپ کر ہوتی تھی، اور اسکے لیے جو جگہ بیان ہوتے ہے، وہ دار ارقم ہے جو کہ بیت اللہ سے مشرق کی جانب ہے نہ کہ جنوب کی، لہذا وہاں رہتے ہوئے اس مبینہ فرضی استقبال قبلتین کا معاملہ ممکن تھا ہی نہیں۔ اگر یہ سمجھا جائے کہ مسجد اقصی کی جانب رخ کرنے کا حکم مدینہ آیا تھا، تو سورہ بقرہ کی آیت ١۴۲ کی روشنی میں اس پہلی تبدیلی کے متعلق نادانوں نے سوال کیوں نہیں کیا تھا، جبکہ دوسری تبدیلی پر کہا گیا کہ نادان پوچھیں گے کہ تبدیلی کیوں ہوئی۔
اہم بات یہ ہے کہ اگر یہ مانا جائے کہ شروع سے ہی بیت المقدس کی جانب رخ کرکے ادائیگی صلوة کا حکم تھا اور استقبال قبلتین صرف ایک امکانی صورت تھی جو کہ مکہ میں تو کسی قدر ممکن تھی مگر مدینہ آکر تو اسکا امکان مسدود ہوگیا تھا لہذا بیت اللہ کے قبلہ ہوجانے کی خواہش نے بھی وہیں آکر زیادہ شدت اختیار کرلی (ہوگی)، تو لامحالہ یہ سوال اٹھ جاتا ہے کہ آخر مکہ والوں کو دین ابراہیمی کی جانب ہی تو دعوت دی جارہی تھی اور وہ لوگ بیت اللہ، صفا مروہ، رمی جمرات وغیرہ کو حضرت ابراہیم سے متعلق جان کر ہی رسومات بجالاتے تھے۔ بیت اللہ کے سامنے آکر اپنے تئیں بلا روح اور خشیت کے کوئی رسمی نماز بھی ادا کرتے تھے جسکا ذکر قرآن میں بھی ہے، تو آخر مکہ والوں نے بیت اللہ کی مقابلہ میں ایک ایسی عبادت گاہ کو قبلہ بیان کرنے کی بات پر اعتراض کیوں نہ لگایا کہ جسکی نسبت خود یہودی حضرت ابراہیم کی بجائے دسیوں صدیوں بعد کے حضرت داود کی جانب کرتے تھے۔ مدینہ کے نادانوں سے پہلے تو یہ سوال مکہ میں ہی اٹھ جانا چاہیے تھا۔ آخر تمام مکی دور کی تاریخ اس بنیادی منطقی سوال سے خاموش کیوں ہے۔
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ بنو سلمہ کی وہ مسجد جہاں یہ مبینہ واقعہ پیش آیا اسکو دور نبوی میں کہا کیا جاتا تھا؟ تاریخی حوالے تو یہ بیان کرتے کہ بنو امیہ کے دور اقتدار میں بطور یادگار اس مقام پر مسجد تعمیر کی گئی اور قبلتین کا نام دیا گیا۔ یہ ضرور ہوا ہوگا کہ اس تعمیر سے تھوڑا عرصہ پہلے یہ جگہ اس مبینہ وقوعے سے روایت سازوں نے منسوب کردی ہو، جسکو ارباب اختیار نے بعد میں ایک باقاعدہ یادگار بنادیا ہو۔ ایسی ایک واضح مثال ہمارے اپنے دور میں موجود ہے، جمعہ جمعہ آٹھ دن کی بات ہے کہ شہید بابری مسجد کے درمیانی گنبد کے عین نیچے کی جگہ ہندو رجعت پسندوں نے دیومالائی رام کا جنم استھل قرار دیدی، اور مذہبی ہندووں کے اذہان نے اسکو بلا ثبوت حقیقت بھی تسلیم کرلیا، اور پھر جب الہ آباد ہائی کورٹ نے متنازع اراضی کا فیصلہ سنایا تو وہ حصہ ہندووں کے حوالے کیا تھا، اور بیرونی مضافاتی زمین میں سے ایک تہائی مسلمانوں کو دیا تھا۔ حالانکہ تنازع سے قبل ہندو پوجا پاٹ بیرونی احاطے میں کیا کرتے تھے۔
ایک اور بات بھی غور طلب ہے کہ آخر یہی مسجد کیوں مسجد قبلتین ٹھہری۔ امت محمدیہ کی تاریخ کی ابتدائی ترین باقاعدہ مساجد یعنی مسجد قبا اور مسجد نبوی کیونکر قبلتین نہ ٹھہریں۔ اگر دو قبلوں والی بات درست ہے، تو آخران مساجد میں بھی تو دونوں قبلوں پر نماز پڑھی گئی ہوگی۔ مسجد قبا کی نیو تو دوران ہجرت ہی پڑ گئی تھی، جبکہ مسجد نبوی کی تعمیر مدینہ آتے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی۔ اور اس سے بالکل متصل ازواج کے حجرے بنائے گئے۔ جبکہ پچھلی جانب اصحاب الصفاء کا چبوترا تھا۔ اب ذرا اس بنیادی ڈھانچے پر اس مفروضہ کو دماغ میں رکھ کر زیر غور لایا جائے کہ قبلہ مکہ کی جانب ابھی نہیں ہوا ہے، تو کیا یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ منبر رسول ﷺ تو شمال یعنی بیت المقدس کی سمت میں ہو، اور ازواج کے حجرے پچھلی جانب یعنی اس وقت کے داخلی دروازے کی طرف ہوں؟ کیا یہ ترتیب ایک اچھی منصوبہ بندی مانی جاسکتی ہیں، کہ نجی رہائش گاہیں بالکل لبِ سڑک ہوں۔ مزید یہ کہ ریاض الجنۃ میں منبر رسول ﷺ اور متصل حجرہ حضرت عائشہؓ آج میں اپنے مقام پر موجود ہیں، حجرہ عائشہؓ کی سمت قبلہ رخ ہے، اگر مسجد نبویؐ کی ابتدائی تعمیر بیت المقدس بحیثیت قبلہ رکھتے ہوئے کی گئی ہوتی تو حجرہ عائشہؓ کی دیواروں کی ترتیب مدینہ یروشلم کے متوازی خط پر ہوتی نہ کہ مکہ مدینہ کے متوازی خط پر، کیونکہ مکہ بیشک مدینہ کے جنوب میں ہو اور یروشلم شمال میں، مگر یہ تینوں شہر زاویہ مستقیم پر نہیں ہیں، کہ منبر رسولؐ شمال کی جانب سے اٹھا کر جنوب کی جانب رکھ دیا گیا، اور داخلی دروازہ دوسری جانب سے کھول دیا گیا۔ بلکہ یہ تینوں شہر زاویہ منفرجہ بناتے ہیں، یعنی احاطے کے ترتیب میں نمایاں تبدیلیاں لانی پڑتیں۔
سوچنے والوں کے لیے یہ بات باعث حیرت ہے کہ نماز ہی کے اہم رکن میں تبدیلی سے متعلق دس کے قریب لگ بھگ آیات میں ایک بار بھی صلوة کا لفظ استعمال آخر کیوں نہیں ہوا؟ یا یہ کہ کسی اور حکم کے متعلق پیش بندی کی آیات تو نہیں ہیں جن پر ایک سنسنی آمیز شان نزول چڑھاکر رخ کہیں اور پھیرا گیا، اور یہ ظاہر کیا گیا کہ جب تک اسلام کو سیاسی برتری حاصل نہیں ہوگئی ، اس نے یہود کو لبھانے کے لیے انکے قبلے کو اپنا قبلہ مانا ہوا تھا، اور غزوہ بدر کے زمانے میں اس کی ضرورت سے آزاد ہوتے ہی قبلہ بدل لیا۔ جبکہ یہی آیات تو یہ بات کر رہی ہیں کہ مسلمانوں نے اپنا قبلہ نہیں بدلہ تھا۔
"ظہر کا وقت ہو گیا اور لوگوں کو نماز پڑھانے کھڑے ہوئے۔ دو رکعتیں پڑھ چکے تھے کہ تیسری رکعت میں یکایک وحی کے ذریعے تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا اور اسی وقت آپ اور آپ کی اقتدا میں تمام لوگ بیت المقدس سے کعبے کے رخ پھر گئے۔ اس کے بعد مدینہ اور اطراف مدینہ میں اس کی عام منادی کی گئی۔ کیونکہ بیت المقدس مدینے کے شمال میں ہے جبکہ کعبہ جنوب میں اس لیے قبلہ تبدیل کرنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو چل کر مقتدیوں کے پیچھے آنا پڑا ہوگا اور مقتدیوں کو صرف رخ ہی نہ بدلنا پڑا ہوگا بلکہ کچھ نہ کچھ انہیں بھی چل کر اپنی صفیں درست کرنا پڑی ہوں گی چنانچہ بعض روایات میں یہ تفصیل مذکور بھی ہے۔"
اہم ترین بات یہ ہے کہ دوران نماز اس نوعیت کی وحی آنا کہ صفوں کی ترتیب ہی تتر بتر ہوجائے، کیا نمازیوں کے ذہنی و قلبی خضوع و خشوع کے خلاف نہیں؟ کیا یہی وحی نماز کے بعد نازل نہیں ہو سکتی تھی کہ ہیجان انگیزی کی بجائے باوقار طریقے سے مسلمانوں کو جدید حکم سے آگاہ کردیا جاتا؟
اس پہلو کو کو اگر کچھ دیر کے لیے نظر انداز بھی کردیا جائے تو سوچنے کی بات ہے مقتدیوں کو کیونکر معلوم ہوا کہ بیت اللہ کی جانب رخ کرنے کا حکم آگیا ہے کہ انہوں نے نہ صرف رخ موڑلیے بلکہ سمجھ بھی لیا کہ نئی ترتیب کس طریقے سے وضع کرنی ہے؟ انہیں تو اب تک وحی سنائی نہیں گئی تھی کہ وہ مقصد سمجھ پاتے، اور سورہ بقرہ کی آیت ١٤٣ کہ جسکو اس وقوعے کی شان نزول مانا جاتا ہے تو اس سے بھی تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی جو بھی خواہش تھی (شان نزول کے مطابق مکہ کی جانب رخ کرنے کی) تو اسکا اظہار تو عام لوگوں کے سامنے اب تک کیا ہی نہیں گیا تھا کہ اسکی بنیاد پر مسلمان دوران نماز یہ قیاس لگاتے کہ اس خواہش کی تکمیل دوران نماز کسی وحی کی صورت میں ہو گئی ہے، لہذا صفوں کی از سر نو ترتیب بیت اللہ کی جانب رخ کرتے ہوئے بنالی جائے۔
نبی کریم ﷺ کی اگر بیت اللہ کی جانب رخ کرکے نماز پڑھنے کی خواہش کیا مدینہ آکر بیدار ہوئی؟ مکہ میں کیا ترتیب رہتی تھی؟ بعض لوگ اسکا جواب یہ دیتے ہیں کہ وہاں استقبال قبلتین ہوتا تھا کہ حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان کھڑے ہوکر نماز کا اہتمام ہوا کرتا تھا، مکہ میں توآخر تک نناوے فیصد جماعت چھپ کر ہوتی تھی، اور اسکے لیے جو جگہ بیان ہوتے ہے، وہ دار ارقم ہے جو کہ بیت اللہ سے مشرق کی جانب ہے نہ کہ جنوب کی، لہذا وہاں رہتے ہوئے اس مبینہ فرضی استقبال قبلتین کا معاملہ ممکن تھا ہی نہیں۔ اگر یہ سمجھا جائے کہ مسجد اقصی کی جانب رخ کرنے کا حکم مدینہ آیا تھا، تو سورہ بقرہ کی آیت ١۴۲ کی روشنی میں اس پہلی تبدیلی کے متعلق نادانوں نے سوال کیوں نہیں کیا تھا، جبکہ دوسری تبدیلی پر کہا گیا کہ نادان پوچھیں گے کہ تبدیلی کیوں ہوئی۔
اہم بات یہ ہے کہ اگر یہ مانا جائے کہ شروع سے ہی بیت المقدس کی جانب رخ کرکے ادائیگی صلوة کا حکم تھا اور استقبال قبلتین صرف ایک امکانی صورت تھی جو کہ مکہ میں تو کسی قدر ممکن تھی مگر مدینہ آکر تو اسکا امکان مسدود ہوگیا تھا لہذا بیت اللہ کے قبلہ ہوجانے کی خواہش نے بھی وہیں آکر زیادہ شدت اختیار کرلی (ہوگی)، تو لامحالہ یہ سوال اٹھ جاتا ہے کہ آخر مکہ والوں کو دین ابراہیمی کی جانب ہی تو دعوت دی جارہی تھی اور وہ لوگ بیت اللہ، صفا مروہ، رمی جمرات وغیرہ کو حضرت ابراہیم سے متعلق جان کر ہی رسومات بجالاتے تھے۔ بیت اللہ کے سامنے آکر اپنے تئیں بلا روح اور خشیت کے کوئی رسمی نماز بھی ادا کرتے تھے جسکا ذکر قرآن میں بھی ہے، تو آخر مکہ والوں نے بیت اللہ کی مقابلہ میں ایک ایسی عبادت گاہ کو قبلہ بیان کرنے کی بات پر اعتراض کیوں نہ لگایا کہ جسکی نسبت خود یہودی حضرت ابراہیم کی بجائے دسیوں صدیوں بعد کے حضرت داود کی جانب کرتے تھے۔ مدینہ کے نادانوں سے پہلے تو یہ سوال مکہ میں ہی اٹھ جانا چاہیے تھا۔ آخر تمام مکی دور کی تاریخ اس بنیادی منطقی سوال سے خاموش کیوں ہے۔
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ بنو سلمہ کی وہ مسجد جہاں یہ مبینہ واقعہ پیش آیا اسکو دور نبوی میں کہا کیا جاتا تھا؟ تاریخی حوالے تو یہ بیان کرتے کہ بنو امیہ کے دور اقتدار میں بطور یادگار اس مقام پر مسجد تعمیر کی گئی اور قبلتین کا نام دیا گیا۔ یہ ضرور ہوا ہوگا کہ اس تعمیر سے تھوڑا عرصہ پہلے یہ جگہ اس مبینہ وقوعے سے روایت سازوں نے منسوب کردی ہو، جسکو ارباب اختیار نے بعد میں ایک باقاعدہ یادگار بنادیا ہو۔ ایسی ایک واضح مثال ہمارے اپنے دور میں موجود ہے، جمعہ جمعہ آٹھ دن کی بات ہے کہ شہید بابری مسجد کے درمیانی گنبد کے عین نیچے کی جگہ ہندو رجعت پسندوں نے دیومالائی رام کا جنم استھل قرار دیدی، اور مذہبی ہندووں کے اذہان نے اسکو بلا ثبوت حقیقت بھی تسلیم کرلیا، اور پھر جب الہ آباد ہائی کورٹ نے متنازع اراضی کا فیصلہ سنایا تو وہ حصہ ہندووں کے حوالے کیا تھا، اور بیرونی مضافاتی زمین میں سے ایک تہائی مسلمانوں کو دیا تھا۔ حالانکہ تنازع سے قبل ہندو پوجا پاٹ بیرونی احاطے میں کیا کرتے تھے۔
ایک اور بات بھی غور طلب ہے کہ آخر یہی مسجد کیوں مسجد قبلتین ٹھہری۔ امت محمدیہ کی تاریخ کی ابتدائی ترین باقاعدہ مساجد یعنی مسجد قبا اور مسجد نبوی کیونکر قبلتین نہ ٹھہریں۔ اگر دو قبلوں والی بات درست ہے، تو آخران مساجد میں بھی تو دونوں قبلوں پر نماز پڑھی گئی ہوگی۔ مسجد قبا کی نیو تو دوران ہجرت ہی پڑ گئی تھی، جبکہ مسجد نبوی کی تعمیر مدینہ آتے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی۔ اور اس سے بالکل متصل ازواج کے حجرے بنائے گئے۔ جبکہ پچھلی جانب اصحاب الصفاء کا چبوترا تھا۔ اب ذرا اس بنیادی ڈھانچے پر اس مفروضہ کو دماغ میں رکھ کر زیر غور لایا جائے کہ قبلہ مکہ کی جانب ابھی نہیں ہوا ہے، تو کیا یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ منبر رسول ﷺ تو شمال یعنی بیت المقدس کی سمت میں ہو، اور ازواج کے حجرے پچھلی جانب یعنی اس وقت کے داخلی دروازے کی طرف ہوں؟ کیا یہ ترتیب ایک اچھی منصوبہ بندی مانی جاسکتی ہیں، کہ نجی رہائش گاہیں بالکل لبِ سڑک ہوں۔ مزید یہ کہ ریاض الجنۃ میں منبر رسول ﷺ اور متصل حجرہ حضرت عائشہؓ آج میں اپنے مقام پر موجود ہیں، حجرہ عائشہؓ کی سمت قبلہ رخ ہے، اگر مسجد نبویؐ کی ابتدائی تعمیر بیت المقدس بحیثیت قبلہ رکھتے ہوئے کی گئی ہوتی تو حجرہ عائشہؓ کی دیواروں کی ترتیب مدینہ یروشلم کے متوازی خط پر ہوتی نہ کہ مکہ مدینہ کے متوازی خط پر، کیونکہ مکہ بیشک مدینہ کے جنوب میں ہو اور یروشلم شمال میں، مگر یہ تینوں شہر زاویہ مستقیم پر نہیں ہیں، کہ منبر رسولؐ شمال کی جانب سے اٹھا کر جنوب کی جانب رکھ دیا گیا، اور داخلی دروازہ دوسری جانب سے کھول دیا گیا۔ بلکہ یہ تینوں شہر زاویہ منفرجہ بناتے ہیں، یعنی احاطے کے ترتیب میں نمایاں تبدیلیاں لانی پڑتیں۔
سوچنے والوں کے لیے یہ بات باعث حیرت ہے کہ نماز ہی کے اہم رکن میں تبدیلی سے متعلق دس کے قریب لگ بھگ آیات میں ایک بار بھی صلوة کا لفظ استعمال آخر کیوں نہیں ہوا؟ یا یہ کہ کسی اور حکم کے متعلق پیش بندی کی آیات تو نہیں ہیں جن پر ایک سنسنی آمیز شان نزول چڑھاکر رخ کہیں اور پھیرا گیا، اور یہ ظاہر کیا گیا کہ جب تک اسلام کو سیاسی برتری حاصل نہیں ہوگئی ، اس نے یہود کو لبھانے کے لیے انکے قبلے کو اپنا قبلہ مانا ہوا تھا، اور غزوہ بدر کے زمانے میں اس کی ضرورت سے آزاد ہوتے ہی قبلہ بدل لیا۔ جبکہ یہی آیات تو یہ بات کر رہی ہیں کہ مسلمانوں نے اپنا قبلہ نہیں بدلہ تھا۔