نماز عید میں دوسری رکعت میں ، رکوع میں جانے سے پہلے 4 تکبیریں ہوتی ہیں اور چوتھی تکبیر پر رکوع کیا جاتا ہے۔
اس موقع پر میں نےکچھ لوگوں کو پہلی تکبیر پر ہی رکوع میںجاتے دیکھا ہے او ر جب انہیں احساس ہوتا ہے کہ باقی جماعت ابھی قیام میںہی ہے اور دوسری تکبیر پر بے اختیار شرمندگی اور مسکراہٹ کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور یوں دو رکوع کرتے ہیں
اور مزے کی بات یہ ، کہ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
ذرا نماز عیدین پر خود دیکھ لیجئے گا۔۔۔ کوئی نہ کوئی ایسا کرتا نظر آجائے گا۔
رمضان المبارک میں، زیادہ تر مساجد میں تراویح میں جو تلاوتِ قرآن مجید کی جاتی ہے، اسے کوشش کی جاتی ہے کہ ۲۷ ویں شب (جو زیادہ قیاس کے مطابق شبِ قدر کی جلیل القدر رات ہے) کو تکمیلِ کو پہنچایا جائے۔(یعنی ختمِ قرآن)۔
بچپن میں ہم سب دوست اس رات کو اپنے علاقے کی تین یا چار مساجد میں باری باری جایا کرتے اور دعا میں شریک ہونے کی کوشش کرتے اور ساتھ ہی مٹھائی اور دیگر نیاز وغیرہ سے بھی لطف اندوز ہوتے تھے۔مسجد اھلحدیث میں سب سے آخر میں تراویح کا اختتام ہوا کرتا تھا اور یوںہمیں وہاں جانے کا بھی خوب موقع مل جاتا تھا۔
وہاں کے امام صاحب(اللہ انہیں صحتِ کاملہ عطا فرمائے، وہ آجکل دل کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ آمین) جب بھی منبر پرآ کر کلام کرتے تو اکثر ہاتھوں کے مکے بناتے تھے جو زیادہ نوٹ نہیں کیا جاتا تھا۔ مگر ایک دفعہ ۲۷ویں شب کو جب ہم دعا کے انتظار میں تھے اور مولانا صاحب خطاب کرر ہے تھے:
ابھی قار ی صاحب قرآنِ پاک کی تلاوت کریں گے اسکے بعد دعا ہوگی اور اسکے بعد (عادتاً مُکے بناتے ہوئے) آپ سب لوگوں کی اچھی قسم کی تواضع کی جائے گی۔۔
اور اس وقت پہلی دفعہ مُکے بنانا بہت لوگوں نے نوٹ کر لیا۔۔۔