محسن وقار علی
محفلین
مسلمان معاشروں میں ابتداء سے آج تک مذہبی اجارہ دار، سائنسی اندازِ فکر کو انتہائی شک وشبہ کی نظر سے دیکھتے اور اس کو شرک و الحاد کا منبع قرار دیتے آئے ہیں۔ عباسی دورِ حکومت میں مامون الرشید نے عقلی علوم پر توجہ دی تو اُس وقت کے تمام قدامت پرست علماء جو باہم دست وگریباں رہتے تھے، اس معاملے میں یک زبان ہوگئے اور مامون پر دین سے گمراہی کا الزام لگایا گیا۔ —۔ اللسٹریشن: جمیل خان
پہلا حصہ پڑھنے کے لیے کلک کیجئے
دوسرا حصہ پڑھنے کے لیے کلک کیجئے
برصغیر میں مغلیہ سلطنت کے عروج کے عین متوازی سلطنت عثمانیہ کا دور بھی ‘‘عہد زرّیں’’ ہی کہلاتا ہے۔ یہ سلطنت بھی (1288ء تا 1924ء) 636 برس پورے جاہ و جلال کے ساتھ قائم رہی۔ مؤرخین ان دونوں ‘‘عہدِزرّیں’’ کے بڑے بڑے کارنامے سناتے ہیں، لیکن کسی ایک ایسے سائنسدان کا ذکر نہیں کرپاتے جسے ہم فخریہ آپ کے سامنے پیش کرسکیں۔
مغلیہ سلطنت کا دور تو اس حوالے سے بالکل ہی کورا ہے، عثمانیہ سلطنت کے 636 سالہ دور میں حاجی خلیفہ چلپی (1609ء تا 1657ء ) کا نام ملتا ہے۔ حاجی خلیفہ کی زندگی کے بارے میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر فوجی تھا اور سلطان مُراد چہارم کے زمانے میں بغداد کی فتح کے لیے لڑی جانے والی جنگ میں شریک تھا۔
اس کی عمر کا بڑا حصہ عثمانی ترکوں کی سلطنت کی توسیع کے لیے لڑی جانے والی خوں ریز جنگوں میں حصہ لیتے ہوئے گزرا۔
ان حضرت سے ایک کتاب منسوب کی جاتی ہے، جس میں آغازِ کائنات اور ارتقائے قدیم سے لے کر اُس دور تک کے نظریات جمع کیے گئے تھے، مگر وہ ناپید ہوگئی۔
عربی زبان کی ایک انسائیکلوپیڈیا ‘‘کشف الظّنون’’ بھی اس ہی کے نام سے ملتی ہے، بتایا جاتا ہے کہ حاجی خلیفہ نے اس کتاب کا مواد جمع کرنے کے لیے بیس سال کا طویل عرصہ صرف کیا، جبکہ یہ بھی بتایا جاتا ہے اس کی زندگی جنگوں میں حصہ لیتے ہوئے گزری تھی۔
اب غیرجانبدار ہو کر تجزیہ کیجیے! اور اس سوال کا جواب تلاش کیجیے کہ کیا یہ خصوصیات حاجی خلیفہ کو ‘‘سائنس دان’’ کے زُمرے میں شامل کرسکتی ہیں؟
ہمیں یہ بالآخر تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ مسلم دنیا میں گزشتہ چودہ سو سالوں کے دوران تفکر، روشن خیالی، آزاد ذہنی اور روایت شکن افکار کی بنیاد رکھنے والا ماحول کبھی تشکیل نہیں پاسکا، یہی وجہ ہے کہ سائنسی اور فنّی علوم کو کبھی بھی مذہبی اور فروعی معاملات پر موشگافیاں کرنے والے منطقی علوم کے برابر کا درجہ حاصل نہیں ہوسکا۔
آج بھی سائنسی علوم کو مادّی علوم کہہ کر دن رات ان کی تحقیر کی جاتی ہے، جبکہ سائنسی علوم کی دریافتوں اور اختراعات سے ملنے والی سہولتوں سے فائدہ اُٹھانے میں کوئی حذر بھی نہیں ہوتا۔
آج اکیسویں صدی میں جبکہ حقائق سے پردے اُٹھ چکے ہیں، مسلم معاشروں میں یہ تسلیم کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں کہ مذہبی اور روایتی علوم انسانی فلاح و بہبود اور انسانوں کو انسانوں ہی کی غلامی سے نجات دلانے میں ہمیشہ ناکام رہے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ان روایتی اور تقلیدی علوم نے ہی انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو انسانوں کا غلام بننے پر مجبور کیا اور عقل و خرد پر پہرے لگائے۔ ہماری رائے تو یہ ہے کہ ماضی پرستی کی بنیادیں مضبوط کرنے والے ان روایتی علوم کو ‘‘علم’’ ہرگز نہیں کہنا چاہیے کہ اس طرح اُن حقیقی علوم کی تذلیل ہوتی ہے، جو آج انسانی فلاح کا باعث بن رہے ہیں اور ہمیشہ سے نوع انسانی کے لیے فلاح کا راستہ کھولتے رہے ہیں۔
مسلمان معاشروں میں ابتداء سے آج تک مذہبی اجارہ دار، سائنسی اندازِ فکر کو انتہائی شک وشبہ کی نظر سے دیکھتے اور اس کو شرک و الحاد کا منبع قرار دیتے آئے ہیں۔ عباسی دورِ حکومت میں مامون الرشید نے عقلی علوم پر توجہ دی تو اُس وقت کے تمام قدامت پرست علماء جو باہم دست وگریباں رہتے تھے، اس معاملے میں یک زبان ہوگئے اور مامون پر دین سے گمراہی کا الزام لگایا گیا۔
مامون کے عہد میں یعقوب الکندی(800ء تا 872ء) جو فلسفی اور سائنسدان تھے، پر ماضی پرست مذہب فروشوں نے کفر کے فتوے عائد کیے۔
اسپین (اندلس) کا ایک فلسفی ابنِ باجہ (110ء تا 1138ء) کو اس کے افکار کی بناء پر دہریہ کا خطاب دیا گیا، وہ اپنی جان بچانے کے لیے پہلے اشبیلیہ، پھر غرناطہ اورپھر مراکش میں چھپتا پھرتا تھااور صرف اڑتیس برس کی عمر میں اُسے زہر دے کر ماردیا گیا۔
ابن رشد(1126ء تا 1198ء) جسے آج ہمارے بعض نیم مذہبی دانشور بھی فخر سے اپنی تاریخ کا روشن باب کہتے نہیں تھکتے، اُسی ابن رشد کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا رہا، جو اُمّتِ مسلمہ کے چہرے پر سیاہ داغ بن چکا ہے۔
وہ مراکش سے بچتا بچاتا قرطبہ پہنچا، جہاں سے اُسے جلاوطن کردیا گیا۔ ابن رشد کو ماضی کی روایات کی پوجا کرنے والوں نے ملحد قرار دے کر اُسے جامعہ مسجد کے ایک ستون سےبندھوا دیا تھا اور جمعہ کی نماز میں شریک نمازیوں سے کہا گیا کہ اس ملحد کے چہرے پر تھوکتے ہوئے مسجد سے باہر جائیں، چنانچہ ان نمازیوں نے ایک عظیم سائنسدان کو گندگی سے نہلا دیا۔
سچائی یہ تھی کہ انہوں نے ابن رشد پر تھوکا تھا، لیکن حقیقت یہ تھی کہ وہ آئندہ آنے والی تمام صدیوں میں اپنی قوم کو جہالت کی تاریکی کے عمیق گڑھے میں دفن کر دینے کا سامان کررہے تھے۔
جس دور میں ہمارے معاشروں میں توہمات پرستی کاشت کی جارہی تھی، دقیانوسی عقائد کی آبیاری ہورہی تھی اور ظلم وجبر پرمبنی نظامِ استحصال کو صدیوں مستحکم کرنے کے لیے علماء، مشائخ اور بادشاہوں کے درمیان قائم گٹھ جوڑ کو مزید مضبوط کیا جارہا تھا تو عین اُسی دور میں 1155ء کے دوران انگلینڈ کے بادشاہ ہنری دوم نے جاگیرداری نظام کا خاتمہ کرکے عوام کی آزادی کی جانب پہلا قدم بڑھایا۔ اسی سال کے دوران ہی پیرس میں جدید یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔
اِدھر مسلم معاشروں کی نفسیاتی کیفیت اُسی طرح قائم تھی، جیسی کہ آج کم وبیش ہے۔ کہیں خانہ جنگی تو کہیں فرقہ وارانہ فساد اور کہیں مناظروں اور مباحثوں کی رونق بڑھاتے منطقی دانشور اپنے جلوے دکھارہے تھے۔
جب بغداد میں رافضی اور غیر رافضی اختلافات اپنے عروج پر تھے تو تاریک یورپ میں 1163ء میں انگلینڈ کی مشہور زمانہ آکسفورڈ یونیورسٹی قائم کی جارہی تھی۔
1214ء وہ یادگار سال ہے جب انگلینڈ کے بادشاہ جان نے ‘‘میگناکارٹا ’’پر دستخط کیے۔ یہ پہلا شاہی حکمنامہ تھا، جس کے ذریعے بادشاہ کی بڑھتی ہوئی طاقت کو ایک حد میں رکھنے کی ابتداء ہوئی اور رعایا کے اختیارات کو وسعت دینے کا آغاز ہوا، اس کے صرف دو سال کے بعد ہی انگلینڈ میں پہلی مرتبہ پارلیمنٹ کا قیام عمل میں آگیا تھا۔
درحقیقت میگناکارٹا جدید طرزِ حکومت کی پہلی سیڑھی تھی۔ 1214ء میں ہی آکسفورڈ یونیورسٹی کا پہلا چانسلر مقرر کیا گیا جبکہ پیرس یونیورسٹی کا پہلا آئین مرتب ہوا۔
یہاں مسلم معاشروں میں تاریخ کے ایک مرتبہ پھر ‘‘دہرائے’’ جانے کے لیے پلیٹ فارم تیار ہورہا تھا، یعنی طوائف الملوکی کا عفریت اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ موجود تھا، تو اس سے فائدہ اُٹھانے کے لیے تاتاریوں کا ٹڈی دل کی مانندلشکر آہستہ آہستہ شہروں کو تاراج کرتے ہوئے مسلم معاشروں کی جانب بڑھ رہا تھا۔
پھر اگلے آٹھ برسوں میں ہی چنگیز خان کی افواج خوارزم، ماواراءُالنّہر، ایران اور سمرقند پر قبضہ کرنے کے بعد سلطنت دہلی کے سرحدوں تک جاپہنچی تھیں۔
1214ء میں راجر بیکن کی پیدائش ہوئی جس نےصرف اکتیس سال کی عمر میں گن پاؤڈر ایجاد کرلیا تھا۔ یورپ میں بارود کی ایجاد نے جنگوں کا نقشہ ہی بدل ڈالا اور ہتھیاروں کی اختراعات کا ایک نیا سلسلہ جاری ہوگیا۔
ہمارے دانشور جو ہمیشہ سے عقل وخرد سے دشمنی کا سبق پڑھاتے آئے تھے، توقع کی جاسکتی ہے کہ اُس زمانے میں یہی سبق پڑھا رہے ہوں گے کہ :
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
ہمارے ہاں آج بھی ابن خلدون کا نام ایک بڑا حوالہ سمجھا جاتا ہے، ذرا اُن کی عقل وخرد کے ساتھ دشمنی تو ملاحظہ کیجیے، وہ اپنے مقدمے میں لکھتے ہیں :
‘‘ہم نے سنا ہے کہ فرنگیوں کے ملک، بحیرۂ روم کے شمالی علاقوں میں علومِ طبیعی کا بہت چرچا ہے۔ اس کی تعلیم مختلف درجوں میں کی جاتی ہے، ان علوم کے جاننے والے بہت زیادہ ہیں اور طلباء کی تعداد بھی بےشمار ہے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ علوم کیا ہیں…؟ اور کیسے ہیں….؟ لیکن ہم اتنا جانتے ہیں کہ طبیعیات کے مسائل ہمارے دینی معاملات سے کوئی علاقہ نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کی کوئی اہمیت ہے، اس لیے ان علوم طبیعی سے ہمارا دُور رہنا ہی بہتر ہے۔’’
واہ واہ سبحان اللہ۔
کیا دُور اندیشی تھی حضرت کی، ان جیسے سینکڑوں عقل وخرد کے دشمنوں نے مسلمان معاشروں کو مبتلائے جہالت رہنے پر مجبور کیا اور آج ان کے خانوادے ان ہی کی روایت کو دُہرا ئے چلے جارہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ابنِ خلدون چودہویں صدی عیسوی کے دوران عقل وخرد اورغورو فکر سے دور رہنے پر زور دے رہے تھے، تو اُسی دور میں وینس اور جنیوا میں اسلحہ سازی کے نت نئے طریقے وضع ہورہے تھے۔
پرتگالی قوم کے لوگ جہاز رانی اور جہاز سازی میں ایسی اختراعات کررہے تھے کہ جس کی بناء پر اس قوم نے اگلے ادوار میں سمندروں پر حکمرانی کی۔ دلچسپ بات یہ ہے ان میں وہ بحری راستے بھی شامل تھے، جہاں جہاں سے مسلمان حج کے سفر پر جایا کرتے تھے۔
ابن خلدون جب گویا مسلمانوں کو قیامت تک کے لیے جہالت میں مبتلا رہنے کی وصیت کرکے وفات پاگئے تو چار سال بعد اٹلی میں 1410ء کے دوران عوامی مقامات پر نصب گھڑیال میں پہلی مرتبہ کوائل اسپرنگ لگائے گئے، اس طرح مشینی گھڑیوں کی ابتدائی صورت سامنے آئی۔
ابن خلدون کی وفات سے ایک سال قبل یورپ میں پہلی مرتبہ لوہے کے چھوٹے بڑے پیچ یا اسکریو بنائے جارہے تھے، یہ گویا مشینی دور کا آغاز تھا۔
مسلمان ابن خلدون کی وصیت پر کاربند رہے اور ان کے اردگرد ترقی کی رفتار تیز تر ہوتی چلی گئی۔ 1429ء میں جب مسلمان قسطنطنیہ پر حملے کررہے تھے، تو جرمنی میں مشین کی رفتار کو کنٹرول کرنے کے لیے پہلی مرتبہ گیئر کا استعمال کیا گیا۔
اس سے قبل 1401ء میں جب امیر تیمور نامی وحشی حکمران بغداد اور دمشق میں اپنے ہی ہم مذہب مسلمانوں کو تہہ تیغ کرکے ان شہروں کے تمدن کو برباد کررہا تھا، تب انہی دنوں ویانا میں ایک ایسا ہسپتال بنایا گیا جس میں پہلی مرتبہ قرنطینہ Quarantine بھی قائم کیا گیا۔ ایک جانب زندگی بچانے کا تصور پروان چڑھ رہا تھا تو دوسری جانب زندگی کو تباہ و برباد کرنے کا، اور المیہ یہ ہے دونوں اطراف یہی تصور آج بھی قائم نظر آتا ہے۔
امیر تیمور دمشق کو تاراج کرنے کے بعد اس شہر میں لوہے کی صنعت سے وابستہ افراد کو غلام بنا کر اپنے ہمراہ لے گیا، گویا اس نے دمشق سے اس صنعت کا خاتمہ کر دیا۔
سال 1451ء ۔ جب کہ دہلی میں بہلول لودھی اور ترکی میں محمد ثانی جیسے نالائق حکمرانوں کی تخت نشینی کا جشن منایا جارہا تھا، تو عین اُسی سال جرمنی میں پرنٹنگ مشین کے مؤجد گوٹن برگ نے اپنی مشین پر پہلی مرتبہ ایک کتاب پرنٹ کی۔ یہ لاطینی گرامر کی کتاب تھی، جس کی تین سو کاپیاں شایع کی گئی تھیں۔
پرنٹنگ مشین کی ایجاد سے علم و آگہی کے دریچوں پر سے روایات اور ماضی پرستوں اور دقیانوسی سوچ کے حامل افراد کی گرفت رفتہ رفتہ کمزور پڑتی چلی گئی۔
اس کے بعد 1471ء کے دوران فرانس میں، 1472ء میں ہالینڈ اور 1476ء کے سال برطانیہ میں پرنٹنگ پریس لگائے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک انقلاب برپا ہوتا گیا، لیکن مسلمانوں کے احمق دانشوروں اور حکمرانوں نے صدیوں اسے حرام اور غیرضروری قرار دے کر اس کے فیوض وبرکات سے اپنی قوم کو محروم کیے رکھا۔
یہ تو نوآبادیاتی دور کی مہربانی ہے کہ مسلمانوں کے ملکوں پر قبضہ کرنے والی فرنگی اقوام یہ نعمت ان کے ہاں لے کر آئیں۔ اگر خدانخواستہ یہ کالونیل سسٹم قائم نہ ہوتا تو نجانے مزید کتنی صدیوں تک ہمارے دانشور اور حکمران ہمیں اس نعمت سے محروم رکھتے، اس بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
ہندوستان میں ناصرالدین خلجی کی تخت نشینی 1500ء میں ہوئی تھی، اسی سال پیراسیلس نے ہائیڈروجن دریافت کی، نکاسیٔ آب کے لیے پہلی مرتبہ پمپس کا استعمال ہالینڈ میں شروع ہوا، اسی سال سوئٹزرلینڈ کے ایک ڈاکٹر نے اپنی حاملہ بیوی کا پہلا کامیاب سیزیرین آپریشن کیا۔ یہ دنیا کا پہلا واقعہ تھا کہ کسی زندہ عورت کے آپریشن کے بعد اس کے زندہ سلامت اولاد پیدا ہوئی ہو۔ یہ طبی تاریخ کا بہت بڑا کارنامہ تھا کہ اس سے پہلے کیے جانے والے تمام آپریشنز میں حاملہ عورتیں ہلاک ہوجاتی تھیں۔
جس سال ہندوستان پر پیش قدمی کرتے ہوئے مغل حکمران بابر نے قندھار پر قبضہ کیا، اسی سال یعنی 1522ء کے دوران کیمبرج (انگلینڈ) میں مشینی طباعت کا آغاز ہوا، جبکہ اس سے اگلے سال انگلینڈ میں ہی تھیوکریسی پر کاری ضرب لگائی گئی اور ایک قانون کے ذریعے ڈاکٹروں کو پاپائیت کے اثر سے آزاد کرکے ان کی پوزیشن مستحکم کردی گئی۔
جب ہندوستان میں ہمایوں اور شیرشاہ کے مابین اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے خونی جنگیں جاری تھیں، تو یہ وہی دور تھا جب 1540ء میں کوپرنیکس کے تہلکہ خیز نظریہ کی اشاعت ہوئی، جس نے صدیوں سے قائم اس عقیدہ کو رد کردیا کہ زمین کائنات کا مرکز ہے۔ یہ روایت پرستی اور ماضی پرستی کے عقائد پر ایک کاری ضرب تھی، اگر بالفرض انسان اسی قدیم نظریہ کو سینے سے لگائے رکھتا تو آج خلاء میں قدم رکھنا، مصنوعی سیاروں کا ہجوم اور ان کے ذریعے سہولیات کا ایک عظیم الشان انبار، کسی صورت ممکن ہی نہ ہوتا۔
مسلمان صدیوں اسی نظریہ کو سچ سمجھتے رہے، اور تو اور آج اکیسویں صدی میں بھی ایسے بہت سے ‘‘علامہ’’ دیکھنے کو مل جاتے ہیں، جو زمین کو کائنات کا مرکز سمجھتے ہیں اور اس عقیدے کی تقدیسیت پر ایک حرف بھی سننے کو تیار نہیں ہوتے۔ جبکہ دنیا صدیوں پہلے اس عقیدے پر ‘‘چار حرف’’ بھیج کر کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے۔
ایک طرف سلطنت عثمانیہ کی حدود میں سلطان مراد ثالث، ایران پر شاہ عباس صفوی اور ہندوستان پر جلال الدین اکبر کی حکمرانی تھی۔
ان تینوں حکمرانوں کے دورِ اقتدار کو سنہری دور کہا جاتا ہے۔ اس سنہری دور میں کسی بھی قسم کی سائنسی ایجادات، اختراعات یا انکشافات کا سراغ نہیں ملتا، جبکہ یہی دور تھا جب ‘‘تاریک اور غلاظت میں ڈوبے یورپ’’ میں 1587ء کے دوران اٹلی میں پہلے پبلک بنک کا قیام عمل میں آیا۔
ہالینڈ کے جینسن نے 1590ء میں مائیکرواسکوپ ایجاد کی، اسی سال سلطان قلی قطب شاہ نے چار مینار کا سنگ بنیاد رکھا۔ 1600ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا قیام عمل میں آیا، جس نے آگے چل کر دنیا کا نقشہ ہی بدل ڈالا۔
اس سے اگلے سال مغلیہ شہزادہ سلیم اپنے باپ اکبر کے خلاف بغاوت کا علم لے کر میدان جنگ میں مدمقابل آگیا تھا، یعنی جب مسلمان اپنی دیرینہ روایت کے مطابق اپنی تلواروں سے اپنی ہی گردنیں کاٹ رہے تھے، عین اسی دور میں مغرب ترقی اور جہاں بانی کے نئے راستے تلاش کررہا تھا۔
1602ء میں اکبر فتح پور سیکری کا بلند دروازہ تعمیر کروا رہا تھا، تو یورپ میں جان ولسن نے پہلی مرتبہ باضابطہ طور پر شارٹ ہینڈایجاد کی۔
1609ء میں سورج کے گرد سیاروں کی گردش کے موضوع پر جاہن کپلر کی کتاب شایع ہوئی۔ اس کے اگلے برس گلیلیو نے اپنی ایجاد کردہ دوربین سے مشتری کے چاند دریافت کیے، اسی سال فرانس کے ماہر فلکیات نکولس پائرسک نے ‘‘اورین نیبولا’’ دریافت کی۔اس کے اگلے سال جہانگیر نے اپنے ایک ملازم کو ایک سازش کے ذریعے قتل کروانے کے بعد اس کی بیوہ کے ساتھ شادی رچائی تو اس کے اگلے برس 1612ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا تجارتی مرکز سُورت کی بندرگاہ پر قائم ہوا۔ 1616ء میں پنجاب اور شمالی ہندوستان میں طاعون نے ہلاکتوں کے انبار لگادیے تو اسی سال ولیم ہاروے نے دوران خون پر اپنا پہلا لیکچر دیا۔ 1618ء کے دوران ہندوستان میں عالمگیر کی پیدائش اور ترکی میں سلطان عثمانی کی تخت نشینی کا جشن منایا جارہا تھا تو اسی سال کپلر نے سیاروں کی گردش کا تیسرا قانون پیش کیا اور یہی سال تھا جب معدنی گیس کے بطور ایندھن استعمال کا طریقہ دریافت ہوا۔ 1620ء میں ایک ولندیزی سائنسدان جے ڈریبل نے سمندری آبدوز تیار کی۔ 1625ء کے سال ہندوستان میں جہانگیر اور شہزادہ خرّم باہم دست وگریبان تھے تو مغرب میں جوہان گلوبر نے سوڈیم سلفیٹ دریافت کررہا تھا۔
اس کے بعد تو مغربی ممالک میں ایجادات اور اختراعات کا جیسے عظیم الشان سیلاب ہی آگیا اور اِدھر مسلمان جو علم و آگہی سے پہلے ہی پرہیز کرتے آئے تھے، مزید دور ہوتے چلے گئے۔ اگلی صدیوں میں ہونے والی چند ایجادات اور دریافتوں کا نہایت مختصر احوال یہ ہے کہ 1700ء سے 1800ء تک اسٹیم انجن، پاور لوم، تھرمامیٹر، لوہا پگھلانے کی صنعت، ٹیکسٹائل پرنٹنگ کی ایجادات…. 1800ء سے 1900ء تک الیکٹرک لائٹ، آٹوموبائل، ریلوے کا نظام، پکی سڑک، ایکسرے، بال پوائنٹ، تارپیڈو، ٹیلی گراف، وائرلیس، ٹیلی فون، ٹریکٹر، ڈیزل انجن، ڈائنامائٹ، گراموفون، اسٹیل، ریزربلیڈ، سینمامشین، سیمنٹ، سیونگ مشین، سیفٹی ماچس، سیفٹی پِن، فونوگراف، فوٹوگرافی، مشین گن، مائیکروفون، موٹر سائیکل وغیرہ وغیرہ۔
مغربی اقوام نے طب، سائنس اور جغرافیہ کو ترقی دے کر دنیا کو ایک نئی جہت دی اور صدیوں سے قیاس پر مبنی عقائد کی زنجیروں میں جکڑے انسانوں کو آزاد فضا میسر آسکی۔ یہ سب کچھ مغربی معاشروں میں ایسا آسان نہ تھا، وہاں بھی جمود کے پرستار روایات اور عقائد کی مقدس تلواریں سونتے قدم قدم پر علم و آگہی اور روشن خیالی کا راستہ روکے کھڑے تھے۔ مغرب کے اُن گمنام خردمندوں کو ہمیں تہہ دل سے سلام پیش کرنا چاہیے، جنہوں نے اپنی زندگی اور اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر نوع انسانی کی اگلی نسلوں کے لیے آسانیاں فراہم کیں اور جدید ترقی کے لیے بنیادیں فراہم کیں۔ کتنے ہی ایسے بےلوث افراد گزرے جن کا تذکرہ عام نہیں، لیکن انہوں نے اپنی زندگی تج دی، اپناکھانا پینا، اور اپنی نیند کو خود پر حرام کردیا اور ایک جنون کے تحت اپنے مشن کی تکمیل میں جُت گئے، تب کہیں جاکر بڑی بڑی یونیورسٹیاں اور تحقیقی اداروں کی بنیاد پڑسکی، انسانی زندگی کو آسان بنانے اور اس کے شعور کے ارتقائی سفرکو تیزتر کرنے میں معاون و مددگار ایجادات و اختراعات سامنے آسکیں۔
یہ چھ صدیاں جس کے دوران مسلمان ‘‘پدرم سلطان بود’’ کے زعم میں مبتلا رہے، اُدھر انہی صدیوں میں مغربی دنیا کے اندر مہم جوئی کا ایسا جذبہ پیدا ہوا کہ انہوں نے دنیا کا کونا کونا چھان مارا۔
جبکہ مسلمان اُن چھ صدیوں کے دوران، اس سے پہلے اور آج بھی اسی خیالِ خام میں مبتلا ہیں کہ کفار کی ہمارے سامنے حقیقت ہی کیاہے؟
مسلمانوں کی ترقی زیادہ سے زیادہ عالیشان مقبرے، مینار، گنبد اور مصوری کی شاہکار عمارتوں تک محدود رہی، چنانچہ مغربی اقوام نے فقط اپنی اگلی نسلوں ہی کے لیے نہیں بلکہ پوری نوعِ انسانی کے لیے سائنس و ٹیکنالوجی کی بنیادیں فراہم کیں، جبکہ ہم مسلمانوں کے اسلاف صرف آثار و کھنڈرات ہمارے لیے چھوڑ گئے۔
آخر یہ کیا ہے؟
ان چھ صدیوں کو ایسے عظیم الشان ادوار کہا جاتا ہے کہ جب مسلمان ان دونوں سلطنتوں میں مطلق العنان حکمران تھے۔ برصغیر میں بلوچستان سے لے کر راس کماری تک اور سلطنت عثمانیہ میں ترکی کے علاوہ جنوبی یورپ، شمالی افریقہ، مصر، عرب اور وسطی ایشیا کے بہت سے خطے یا توبراہِ راست زیرِنگیں تھے یا زیرِ اثر ۔
اپنے وقت کی دو سپر پاور سلطنتیں، جن پر آج کے مسلمان فخر کرتے نہیں تھکتے، بین الاقوامی تو چھوڑیں قومی شہرت کا حامل کوئی سائنس دان پیدا نہیں کرسکیں۔
ازراہِ مہربانی اِسے قدرت کی مصلحت کہہ کر نظر انداز نہ کیجئے گا۔ اس معاملے کو تقدیر کے سپرد نہ کردیجیے گا۔ اس لیے کہ کسی تخلیقی مزاج کے بندے یا محقق یعنی سائنس دان کے اُبھرنے کے لیے ایک بڑا اور مستحکم ماحول درکار ہوتا ہے۔
کم از کم ڈھائی سو سے لے کر سوا سو کی تعداد میں ماہرین پر مشتمل یہ ماحول تشکیل پاتا ہے۔ آپ یہ نہ کہئیے گا کہ کسی بنجر زمین سے بھی اﷲ کی مہربانی ہو تو کوئی سائنس دان پیدا ہوسکتا ہے۔
بنجر زمین سے سائنسدان تو کجا گندم پیدا نہیں ہوسکتا، اگر ایساممکن ہوتا تو ہمارے ملک جسے مملکتِ خداداد کہاجاتا ہے، کی زرخیز زمینوں میں مصنوعی کھاد کی ضرورت ہی نہ پڑتی، بس خدا کی مہربانی سے سارے کام ہوجاتے۔
آیئے اس بات کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں۔ نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام، جھنگ جیسے چھوٹے شہر میں پیدا ہوئے اور میٹرک کے امتحان میں غیر منقسم پنجاب کے اندر فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن بھی حاصل کرلی، لیکن کیا اُنہیں سائنس دان بنانے کے لیے جھنگ میں وہ مستحکم ماحول میسر آسکتا تھا جس کا ہم نے اوپر تذکرہ کیا تھا؟
ہر گز نہیں!
ڈاکٹر عبدالسلام کے جوہر بھی انگلینڈ یعنی مغرب کے ماحول میں ہی کھل سکے دیگر نمایاں پاکستانی سائنسدانوں میں سرشاہ سلیمان، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، ڈاکٹر رضی الدین صدیقی، ڈاکٹر سر ضیاءالدین اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی صلاحیتیوں کو اُبھارنے میں مغربی تعلیم و تربیت اور ماحول کے گہرے اثر سے، کون ہے جو انکار کرسکتا ہے؟
اس مثال کو بیان کرنے سے ہمارا مؤقف اُمید ہے آپ پر واضح ہوگیا ہوگا۔ ہم یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ اوپر بیان کردہ ‘‘زرّیں ادوار’’ کے مسلمان معاشروں میں غور و فکر اور علوم و فنون کو کبھی حقیقی معنوں میں پذیرائی ہی نہیں مل سکی۔ یہی وجہ ہے کہ ایسا ‘‘مستحکم علمی ماحول’’ ہی تیار نہ ہوسکا جو نابغۂ روزگار شخصیات کو منظر عام پر لاتا اور قوم اُن کی صلاحیتیوں اور کارناموں سے مستفیض ہوتی۔
(جاری ہے)
از جمیل خان
ربط