محسن وقار علی
محفلین
ہمیں اپنی اگلی نسل کو یہ پڑھانے کے بجائے کہ مسلمانوں نے سائنس میں کیا کارنامے انجام دیے، انہیں سائنس پڑھانی چاہیے۔ —. اللسٹریشن: جمیل خان
پہلا حصہ
دوسرا حصہ
تیسرا حصہ
گزشتہ سے پیوستہ
ہمیں بتایا جاتا ہے کہ جابر بن حیان (721ء تا 817ء) عظیم سائنسدان تھا۔ معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ وہ کیمیاگری کے ذریعے تانبے، چاندی یا کسی اور معمولی دھات کو سونے میں تبدیل کردینے کی کوشش میں ساری زندگی مصروف رہا۔ دیگر کیمیا گروں سے اس کی انفرادیت یہ تھی کہ اس نے اپنے تجربات کو تحریری صورت میں ریکارڈ کرلیا تھا۔ اُس دور میں ہزاروں مسلمان کیمیاگری کے جنون میں مبتلا تھے۔ جابر بن حیان کو یونانی زبان پر عبور حاصل تھا، چنانچہ اس نے یونانی زبان کی کتابوں سے استفادہ کیا اور ان میں پوشیدہ علوم کو عربی زبان میں منتقل کیا۔
جابر دراصل خالد بن یزید (وفات 704ء ) کا شاگرد تھا، جس سے جابر کو کیمیاگری کا جنون منتقل ہوا۔ خالد بن یزید کو تذکرہ نویس عالمِ اسلام کا پہلا سائنسدان خیال کرتے ہیں، کی ساری زندگی اسی کیمیاگری کرتے گزری تھی، لیکن یہ دونوں اپنی کوششوں میں ذرا بھی کامیاب نہ ہوسکے۔
نصاب کی کتابیں ہوں یا نصابی دانشوروں کی کتابیں، دونوں ہی میں ہمیں یہ بتایا جاتا ہے کہ علم کیمیا کی بنیاد جابر بن حیان نے رکھی۔ جبکہ جابر بن حیان کی کتابوں کا مطالعہ کرنے والوں کا خیال ہے کہ اس نے یونانی زبان کی کتابوں سے ناصرف استفادہ کیا ہے بلکہ کیمیاگری کے باب میں اس کے جو ماخذ اور سرچشمے ہیں، اُن کو اس نے عجیب ملغوبہ بنادیا ہے۔ جابر مصر اور یونان کے اساطیری دیوتاؤں مثلاً ہرمیس اور اغاثودیمون سے بھی فیضیابی کا دعویٰ کرتا ہے۔ جابر نے واضح الفاظ میں تسلیم کیا ہے کہ اس نے فیثا غورث اور سقراط کے علوم سے استفادہ کیا ہے۔
بالفرض مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کا راگ الاپنے والے دانشوروں کی بات تسلیم کر بھی لی جائے کہ علم کیمیا کے تمام تجربات جابر کی اختراع تھے، تو بھی ہمیں اس سوال کا جواب ضرور تلاش کرنا چاہیے کہ جابر بن حیان کے تجربات پر مشتمل کتابوں سے عالمِ اسلام کو کوئی ایسا فائدہ کیوں نہیں پہنچ سکا، جو فائدہ ان کتابوں کے مغربی زبانوں میں تراجم کے بعد مغربی سائنسدانوں کے ذریعے پوری دنیا کو پہنچا اور پہنچ رہا ہے….؟
مسلمان سائنسدانوں میں دوسرا بڑا نام موسٰی خوارزمی (780ء تا 850ء ) کا ہے۔ خوارزمی کا اصل کارنامہ یہ بتایا جاتا ہے کہ اس نے صفر کا ہندسہ ایجاد کیا، جس سے علم ریاضی میں ایک انقلاب برپا ہوگیا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ یہ موصوف بھی ایسے ہی سائنسدان تھے جیسے کہ آج کل ہمارے ہاں کے بعض سائنسدان! جن کا خیال ہے کہ امریکہ اپنے ایک پروجیکٹ ‘‘ہارپ’’ کے ذریعے دنیا بھر میں زلزلہ اور سیلاب پیدا کررہا ہے، تاکہ اس کے سب دشمن مر کھپ جائیں اور وہ آسانی سے تمام وسائل پر قبضہ کرلے۔
خوارزمی کے دور میں نہ تو امریکہ تھا اور نہ ہی اس نے ایسا کوئی احمقانہ دعویٰ کیا، لیکن یہ دعویٰ کہ اس نے صفر کا ہندسہ ایجاد کیا، سراسر دروغ گوئی پر مبنی ہے، جس سے محض خوارزمی ہی نہیں مسلمانوں کے تمام سائنسی کارناموں کی حیثیت مشکوک ہوجاتی ہے۔
کامن سینس کی بات ہے کہ محض لفظ‘‘ہندسہ’’ ہی اپنی توجہ ‘‘ہند’’ یعنی ہندوستان کی جانب مبذول کروارہا ہے۔ عربوں کے پروپیگنڈہ کی وجہ سے مغرب کے بعض مذہب پسند دانشور یہی سمجھتے رہے کہ صفر کا ہندسہ عربوں کی مرہون منت دنیا کو ملا ہے۔ ایچ جی ویلز جیسا مؤرخ بھی اسی غلط فہمی میں مبتلا دکھائی دیتا ہے۔
صفر بلکہ ریاضی کے تمام ہندسے ، ‘‘ہند ’’میں اختراع ہوئے، اس ضمن میں جیسے ہی ہمیں وقت ملا ، ایک مفصّل مقالہ تحریر کرکے آپ کی خدمت میں پیش کردیں گے، تاکہ سند رہے اور کام آئے۔ فی الحال اتنا جان لیجیے کہ صفر یا شونیہ کا استعمال خواہ نقطے کی صورت میں ہو یا دائرہ کی صورت میں، ہندوستان میں 200 قبل مسیح میں ہوتا تھا، جس کا ثبوت پنگل کی کتاب چھند سوتر میں ملتا ہے، اس کتاب کے قدیمی نسخے کو حاصل کرکے شری دینا ناتھ نے 1840ء میں کلکتہ سے شایع کیا تھا۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں صفر کے استعمال کا ایک ثبوت بکھشالی کے کتبے میں بھی ملا ہے، یہ کتبہ بھی 200ء قبل مسیح قدیم ہے۔ یہ اُن درجنوں ثبوتوں میں سے صرف دو ہیں جو آپ کے سامنے پیش کیے ہیں۔
عرب اپنی زبان پر اس قدر ناز کرتے ہیں کہ دیگر زبانیں بولنے والی اقوام کو عجمی یعنی گونگا کہتے ہیں۔ کیسی حماقت ہے کہ خود کو بہرا نہیں کہتے کہ دوسروں کی زبان سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اسی طرزفکر نے ترجمہ نگاری میں بھی اپنا کام دکھایا، ہندوستان اور یونان کی علمی و ادبی کتابوں کے جو تراجم عربی زبان میں کیے گئے، ان میں یہ بھی کارنامہ کیا گیا کہ تمام علمی و سائنسی اصطلاحات کا بھی عربی میں ترجمہ کردیا گیا۔
مامون کے عہد میں جو فضلاء غیر ملکی کتابوں کو عربی میں ترجمہ کرنے کرنے پر مامور تھے، ان میں سب سے مشہور مترجم حنین بن اسحاق(800ء تا 877ء) تھا۔ اس کی ساری زندگی اسی کام میں گزری، لیکن فخر اور گھمنڈ کی نفسیات رکھنے والے تذکرہ نویس اسے بھی سائنسدان خیال کرتے ہیں۔ وہ اگرچہ بیت الحکمت میں سب سے آخر میں داخل ہوا، جب اس کی عمر 25 سال سے متجاوز نہ تھی، مگر اپنی مہارت کے باعث وہ بہت جلد ہی دوسرے مترجمین پر سبقت لے گیا۔ اس نے یونانی عالموں کی بہت سی معیاری کتابوں کو عربی کے قالب میں ڈھالا۔حنین بن اسحاق عراق کے ایک شہر حیرہ کا رہنے والا تھا، جہاں اس کا خاندان بنو عباد کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اہلِ مغرب میں وہ ‘‘جونی ٹیئس’’ (Joannitius) کے نام سے مشہور ہے۔
ابھی اس کا لڑکپن ہی تھا کہ وہ ملازمت کی تلاش میں جندے شاہ پور آیا یہاں کا ایک مشہور طبیب یوحنا بن ماسویہ مطب کرنے کے علاوہ فارغ اوقات میں طلبہ کو طب کی تعلیم بھی دیتا تھا، چنانچہ جب طلبہ اس کے لیکچر سننے آتے تو حنین بن اسحاق بھی اُن میں شریک ہو جاتا۔ یوحنا اس بات کو پسند نہیں کرتا تھا کہ حنین اس کے درس میں شامل ہو کر طب کی تعلیم حاصل کرے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جندے شاہ پور کے تمام طبیب طب کو اپنے خاندان کی وراثت سمجھتے تھے اور انہیں یہ گوارا نہیں تھا کہ دوسرے شہر کے لوگ ان سے طب کی تعلیم حاصل کرکے اُن کے مدمقابل آ جائیں۔ اس لیے چند روز تک یوحنا خاموش رہا، مگر ایک دن جب حنین نے درس کے دوران اس سے کسی طبی مسئلے پر ایک سوال پوچھا تو وہ سخت ناراض ہوااور اس نے یہ کہہ کر حنین کو لیکچر روم سے باہر نکال دیا کہ حیرہ کے رہنے والے کو طب سے کیا نسبت ہوسکتی ہے۔ اس اخراج نے حنین کے شوقِ تعلیم کے لیے تازیانے کا کام کیا، چنانچہ اس نے پہلے یونان اور پھر مصر کا سفر اختیار کیا، جہاں اس نے یونانی اور سریانی زبان سیکھی اور ان زبانوں میں قدما کی تصانیف کو پڑھا۔ اس طرح وہ اپنے زمانے کی چار مشہور زبانوں ، یعنی عربی، فارسی، یونانی اور سریانی زبانوں کا ماہر بن گیا۔ تحصیل علم کے بعد وہ بغداد آیا اور بیت الحکمت کے شعبۂ ترجمہ سے منسلک ہوگیا، جہاں اب اس کا سابق استاد یوحنا بن ماسویہ بھی ایک مترجم کی حیثیت سے مامور تھا۔
حنین بن اسحاق بیت الحکمت میں ایک عالم مترجم کی حیثیت سے شامل ہوا تھا، لیکن مامون رشید کی قدر شناسی نے اسے بہت جلد ترجمے کے شعبے کا اعلیٰ افسر بنا دیا۔ اس طرح قدیم یونانی حکما کی تصانیف کو عربی زبان میں منتقل کرنے کا پورا منصوبہ حنین بن اسحاق کی تحویل میں آگیا ۔
حنین بن اسحاق نا صرف اُن کتابوں پر انحصار کرتا تھا جو مامون کے حکم سے بیت الحکمت میں کتب خانے میں فراہم کی گئی تھیں، بلکہ جہاں کہیں اس کو کسی قدیم کتاب کا سراغ ملتا وہ خود بھی سفر کی صعوبتیں برداشت کرکے اور زر کثیر صرف کرکے اس کتاب کو حاصل کرتا۔ تالیف اور ترجمے کے فن میں اسے غیر معمولی بصیرت حاصل تھی۔ اس ضمن میں سب سے دشوار امر یونانی اصطلاحوں کے مقابلے میں عربی اصطلاحیں وضع کرنا تھا….!
جی ہاں یہی وہ نکتہ تھا جسے بیان کرنے کے لیے حنین کا قصہ ہم نے بیان کیا۔ اب تو آپ پر واضح ہوگیا ہوگا کہ ہم کیا سمجھانا چاہتے ہیں اور کس اہم امر کی نشاندہی کرنے کی کو شش کررہے ہیں۔
حنین بن اسحاق نے ہی اس کام کی ابتداء نہیں کی تھی بلکہ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا تھا کہ یہ عربوں کی نفسیات تھی اور اسی نفسیات کی وجہ سے سائنسی اصطلاحات کے لیے عربی لفظ وضع کیے گئے، جس کے بعد بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہوئیں اور بہت سے لوگوں کو دروغ گوئی کا موقع مل سکا، یوں انہیں وہ درجہ دے دیا گیا، جس کے وہ ہرگز مستحق نہ تھے۔
مسلم دنیا میں تحقیقی کام اگر ہوا ہے تو وہ دو شعبوں میں ہوا ہے، اول طب! جس کی ضرورت جیسا کہ ہم اس مضمون کے پہلے حصہ میں وضاحت کرچکے ہیں کہ بادشاہوں، ظل الہٰیوں، مطلق العنان اور جابر حکمرانوں کو پڑتی تھی کہ وہ اپنے حرم میں موجود ہزاروں کنیزوں کو سیراب کرسکیں۔ علاوہ ازیں شاہی طبیب مختلف امراض کا علاج بھی کیا کرتے تھے، لیکن ان کی اصل ذمہ داری یہی تھی۔
دوسرا شعبہ جس میں عربوں نے کام کیا، اس کا تذکرہ ہوچکا ہے، یعنی کیمیاگری! راتوں رات دولت حاصل کرنے کے اس پاگل پن نے ہزاروں لوگوں کی زندگیوں کو برباد کیا ، نہ انہیں کچھ حاصل ہوسکا، نہ ہی ان کی قوم کو اور نہ ان کی اگلی نسلوں کو، البتہ جنہوں نے اپنے تجربات محفوظ کیے، ان سے مغرب کے لوگوں نے ہی فائدہ اُٹھایا اور ان کا بہت سا وقت فضول قسم کے تجربات میں ضایع ہونے سے محفوظ رہا۔ مثال کے طور پر جابر بن حیان کا نظریہ تھا کہ تمام دھاتیں گندھک اور پارے سے بنی ہوئی ہیں اور جب دونوں اشیاء اپنی خالص صورت میں ملاپ کرتی ہیں تو سونا پیدا ہوتا ہے، اگر یہ دونوں دھاتیں ناخالص صورت میں ملیں تو دیگر دھاتیں وجود میں آتی ہیں۔ چنانچہ کم قیمت دھاتوں کو سونے میں تبدیل کرلینا عین ممکن ہے۔ جابر کے سارے تجربات ناکام ہوتے گئے، لیکن اس نے اپنے نظریے کی کمزوری کو تسلیم نہیں کیا، بلکہ اپنی حماقت کا جواز تلاش کرتے ہوئے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ‘‘میں نے جب جب گندھک اور پارے کے ملاپ کی کوشش کی ہے، اس کے نتیجے میں ہمیشہ شنگرف Cinnabarہی حاصل ہوا ہے ۔ میرا یہ خیال ہے کہ وہ گندھک جس کے ساتھ پارے کو ملانے سے سونا بنتا ہے، اس عام گندھک کے علاوہ کوئی اور شئے ہے۔’’
جابر کے اسی بیان سے بعد کے لوگوں نے اس فرضی گندھک کا نام ‘‘گوگرد احمر’’ رکھ لیا تھا۔
یہ تو بھلا ہو مغربی سائنسدانوں کی ریسرچ کا کہ ان کی وجہ سے اٹھارہویں صدی میں یہ نظریہ رَد ہوا، لیکن ان صدیوں میں ہزاروں لاکھوں افراد اس سرخ گندھک کی تلاش میں اپنی عمرعزیز کے قیمتی برس اور اپنے وسائل و اسباب خرچ کرتے رہے۔ مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی شان بڑھاتے یہ نام نہاد سائنسدان چودہ سو سالوں میں سونا بنانے میں لگے رہے، سونانہ بننا تھا نہ بنا، لیکن مغربی سائنسدانوں نے سونے جیسی بے کار دھات پر فضول وقت اور پیسہ برباد کرنے کے بجائے لوہے پر توجہ دی تو اس کی ہزاروں اقسام تیار کرلیں، آج سوئی سے لے کر خلائی شٹل اسی صنعت کی مرہون منت ہے۔ کیمیائی سائنس کا سب سے بڑا کارنامہ پلاسٹک کی تیاری ہے۔ علاوہ ازیں پٹرولیم کی مصنوعات سے مصنوعی ریشہ یعنی پولیسٹر اور پھر اس سے کپڑوں کی تیاری بھی ایسا کارنامہ ہے کہ جس کے لیے ہمیں مغرب کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ لیکن ہم شاید اس صفت سے تخلیقی طور پر ہی محروم ہیں۔
مسلم سائنسدانوں کی فہرست میں ایک نام جرجیس بن جبریل (وفات 771ء) کا ہے، جو خلیفہ منصور کا شاہی طبیب تھا۔ تذکرہ نویس اسے مسلمان سائنسدانوں کی صف میں شامل کرتے ہیں جبکہ وہ عیسائی اطبا کے ایک مشہور خاندان آل بخت یشوع کا فرد تھا۔ ‘‘بخت یشوع’’ دراصل ‘‘بخش یسوع’’ تھا جو زبانوں پر آکر ‘‘بخت یشوع’’ بن گیا۔ یہ نام جس کے لفظی معنی ‘‘عطا کردہ مسیح’’ کے ہیں، اس زمانے کے عیسائیوں میں بہت مقبول تھا۔ بخت یشوع کے بعد قریباً سات نسلوں تک اس خاندان میں بہت سے نامی گرامی اطبّا پیدا ہوتے رہے، جو اپنے اپنے عہد میں طبیب شاہی کے منصب پر فائز رہے۔
طبیبوں کا یہ خاندان ایران کے ایک قدیم شہر ‘‘جندے شاہ پور’’ میں آباد تھا، جہاں ساسانی بادشاہوں کے عہد سے ایک شاندار ہسپتال اور ایک عظیم طبّیہ کالج قائم تھا۔ اس وجہ سے طبی دنیا میں ‘‘جندے شاہ پور’’ کو خاص شہرت حاصل ہوگئی تھی۔
جندے شاہ پور کا محل وقوع ایران کے جنوب مغربی صوبے خوزستان میں موجودہ زمانے کے قصبے ‘‘شاہ آباد’’ کے قریب تھا۔ اس شہر کو ساسانی شہنشاہ شاپور اوّل نے بسایا تھا۔ اس ایرانی فرمانروا نے اپنے ایک رومی حریف بادشاہ ‘‘دلیر پاں’’ کو شکست دے کر گرفتار کرلیا تھا اور اس کے شہر ‘‘انٹیوک’’ کو، جسے عرب ‘‘انطاکیہ، اور ایرانی ‘‘اندیو’’ کہتے تھے، تباہ برباد کردیا تھا۔ جب اس نے رومیوں کے خلاف اپنی فتح کی یاد میں اس نئے شہر کی بنیاد رکھی تو اس کا نام ‘‘بہ از اندیو شاہ پور’’ تجویز کیا، جس کے لفظی معنی ‘‘اندیو سے بہتر شاہ پور’’ کے تھے۔ چونکہ عوام کی زبان اتنے لمبے چوڑے نام کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی، اس لیے لوگوں نے مخفف کرکے اسے ‘‘زندے شاہ پور’’ اور پھر ‘‘گندے شاہ پور’’ کہنا شروع کردیا جسے عربوں نے ‘‘جندے شاہ پور’’ بنالیا۔ جب ایران کے ایک اور شہنشاہ شاہ پور دوم نے جندے شاہ پور کو اپنا پایۂ تخت قرار دیا تو اس شہر کی عظمت کو چار چاند لگ گئے۔ اس بادشاہ نے یہاں ایک شاندار طبی کالج اور ہسپتال قائم کیا اور اس کا افسر اعلیٰ ایک یونانی طبیب ‘‘تیا دورس’’ کو جو عیسائی مذہب کا پیرو کار تھا، مقرر کیا۔ یہ طبیہ کالج صدیوں تک قائم رہا، چنانچہ عباسیوں کے دورِ حکومت میں بھی اس کو طب کے ایک عظیم مرکز کی حیثیت حاصل تھی۔ یہ طبیہ کالج اور ہسپتال اگرچہ ایران میں تھا، مگر اس کے اعلیٰ طبیب یونانی نسل کے مسیحی ہوتے تھے، جو طلبہ کو یونانی زبان میں تعلیم دیتے تھے۔ خلیفہ منصور کے عہد میں اس کالج کا افسر اعلیٰ جرجیس بن جبریل تھا ۔
ہم نے پہلے عرض کیا تھا کہ ایک سائنسدان کے اُبھرنے کے لیے ایک بڑا اور مستحکم ماحول درکار ہوتا ہے۔ کم از کم ڈھائی سو سے لے کر سوا سو کی تعداد میں ماہرین پر مشتمل یہ ماحول تشکیل پاتا ہے۔ اگر بالفرض جندے شاہ پور کے طبّیہ کالج سے فارغ التحصیل ہونے والے افراد کو ہم سائنسدان کا درجہ دے بھی دیں تو انہیں سائنسدان بنانے میں جو ماحول فراہم ہوا، اس میں عربوں یا مسلمانوں کا کوئی کردار نہیں تھا۔
جندے شاہ پور کا یہ طبیہ کالج فارس کی فتح کے وقت شاید اس لیے محفوظ رہ گیا تھا کہ اس سے تعلیم حاصل کرنے والے کشتہ گری کے فن میں بھی ماہر تھے۔
خلیفہ منصور کی وفات کے بعد جب اس کا بیٹا مہدی 775ء میں تخت خلافت پر بیٹھا تو جرجیس وفات پا چکا تھا اور اس کا جانشین اس کا بیٹا بخت یشوع بن جرجیس تھا۔ مہدی کے زمانے میں ایک مرتبہ اس کا بیٹا ہادی سخت بیمار ہوا تو اس کے علاج کے لیے خلیفہ نے بخت یشوع بن جرجیس کو جندے شاہ پور سے بغداد میں طلب کیا۔ اس وقت دربار خلافت میں ایک حکیم ابوقریش سرکاری طور پر طبیب شاہی کے عہدے پر فائز تھا اور خلیفہ مہدی کی بیوی، یعنی ہادی کی والدہ ملکہ خیزران کو ابو قریش پر بہت اعتماد تھا۔ ملکہ نے اس امر کی سخت مخالفت کی کہ ابو قریش کو چھوڑ کر ہادی کا علاج بخت یشوع سے کرایا جائے، چنانچہ مہدی نے بخت یشوع کو انعام و اکرام دے کر پورے اعزاز کے ساتھ جندے شاہ پور روانہ کردیا۔ ہارون رشید کے زمانے میں بخت یشوع کو طبی مشورے کے لیے دربار خلافت میں دوبارہ طلب کیا گیا۔ اب کی بار ہارون رشید نے اسے اپنے علاج کے لیے بلایا تھا۔ بخت یشوع کے علاج سے خلیفہ نے کلی شفا پائی۔ چنانچہ خلیفہ نے بخت یشوع کو افسر الاطباء، یعنی آج کل کی اصطلاح میں چیف میڈیکل افسر مقرر کیا اور اس نے بغداد میں سکونت اختیار کرلی۔
791ء میں جب یحییٰ بن خالد کا بیٹا اور ہارون رشید کا وزیر خاص جعفر بن یحییٰ برمکی بیمار پڑا اور بخت یشوع کے علاج سے اس کو صحت حاصل ہوئی تو اس نے اپنے لیے ایک مستقبل طبیب رکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس پر بخت یشوع نے اپنے بیٹے جبریل بن بخت یشوع کو اس خدمت پر مامور کروادیا۔ جب بخت یشوع نے وفات پائی تو ہارون رشید نے جبریل بن بخت یشوع کو اس کی جگہ افسر الاطباء مقرر کیا اور مامون رشید کے زمانے تک وہ اسی عہدے پر فائز رہا۔ جبریل بن بخت یشوع اس عہد کا سب سے بڑا طبیب ہے اور آل بخت یشوع کے تمام اطبا میں ممتاز ہے۔ ہارون کے عہد میں اس کا سیاسی رسوخ بھی بہت بڑھ گیا تھا، کیونکہ خلیفہ اُس کی کوئی سفارش بھی رد نہیں کرتا تھا۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا‘‘جبریل کا مرتبہ میرے وزرائے سلطنت سے کم نہیں ہوسکتا، کیونکہ یہ وزراء میری سلطنت کے نگہبان ہیں، لیکن جبریل خود میری ذات اور میرے جسم کا نگران ہے ۔’’
یہاں یہ تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ عباسی دور کے اس طبیب اعظم کو تنخواہ کے ذریعے کس قدر آمدنی ہوتی تھی۔ جبریل کو سرکاری خزانے سے دس ہزار درہم ماہوار تنخواہ ملتی تھی۔ اس کے علاوہ خلیفہ ہر سال کےشروع میں اس کو پچاس ہزار درہم نقد اور دس ہزار درہم کے ملبوسات اور دیگر سامان عطا کرتا تھا، سال میں دو بار اس کو پچاس ہزار درہم ملتے تھے اور اتنی ہی رقم دیگر معالجات کے عوض اس کو خلیفہ سے مل جاتی تھی۔ امرائے دربار سے جبریل کو قریباً چار لاکھ سالانہ کی نقد آمدنی تھی اور خاندان برامکہ سے اس کو چودہ لاکھ سالانہ الگ وصول ہوتے تھے۔ ہارون رشید کی تیئیس سالہ سلطنت اور برآمکہ کے تیرہ سالہ دور اقتدار میں جبریل کو ملنے والی رقم کی مالیت آٹھ کروڑ اٹھاسی لاکھ درہم کو پہنچ جاتی ہے۔مامون رشید نے 833ء میں وفات پائی اور جبریل نے اس سے تین سال قبل۔ جبریل کی موت کا سوگ نا صرف بغداد میں، بلکہ پوری عباسی سلطنت میں منایا گیا اور شعراء نے اس کے مرثیے لکھے، اور کیوں نہ لکھتے کہ وہ ان کے لیے لطف و لذّت کوشی کی صلاحیت کو برقرار رکھنے کا گُر جو جانتا تھا۔
جرجیس، جبریل، بخت یشوع کے علاوہ اور بھی بہت سے نام مسلم سائنسدانوں کی فہرست میں باآسانی آپ کو ایسے مل جائیں گے جو مسلمان نہیں تھے۔ ہم سب کی تفصیل دینے کے بجائے ایک بڑے نام کی جانب آپ کی توجہ مرکوز کروانا چاہیں گے۔ اور وہ نام ہے یعقوب الکندی (800ء تا 872ء ) جو ایک یہودی قبیلے کے سردار کے خاندان کا فرد تھا، اس کومسلمان بتایا جاتا ہے، لیکن تذکرہ نگاروں میں اس امر پر سخت اختلاف ہے کہ اس کے اہلِ خاندان کس نسل میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔ بعض نے یعقوب اور اس کے باپ اسحاق، دونوں کو مسلمان لکھا ہے، لیکن بعض تذکروں میں یہ بھی لکھا ہے کہ ناصرف یعقوب کا باپ اسحاق، بلکہ خود یعقوب کندی بھی پہلے یہودی مذہب پر قائم تھا اور اس نے مامون رشید کے زمانے میں اسلام قبول کیا تھا۔
اگر ہم اس بات پر قائم رہیں کہ الکندی مسلمان ہوگیا تھا، تب بھی ہمیں یہ ضرور تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کے فکری اور علمی استعداد کی تشکیل میں مسلم ماحول کے بجائے یہودی ماحول نے بنیادی کردار ادا کیا تھا، جس طرح جندے شاہ پور طبیہ کالج میں عیسائی طبیبوں نے یہ ماحول تشکیل دیا تھا۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ ہمارے سبھی زرّیں ادوار میں فروعی معاملات کو علوم قرار دے کر اُس پر خوب توانائیاں خرچ کی گئیں، جس کا نتیجہ یہی نکلا کہ مختلف مکاتب فکر اور فرقے وجود میں آتے گئے اور ہر فرقے کے موجد اپنے افکار و نظریات کی برتری و فضیلت جتانے کے لیے دن رات بحث و مباحثے میں اُلجھے رہتے تھے۔ ان مباحثوں میں کن امور کو زیر غور لایا جاتا تھا۔ ذرا یہ بھی سنتے چلیے ‘‘یہ اہم امور’’ کیا تھے؟
حضرت آدم کی ناف تھی یا نہیں؟
ایک سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے آسکتے ہیں؟
اُلّو کے گوشت کے بارے میں شرعی احکامات کیا ہیں؟
مچھر کا خون کپڑے پر لگ جائے تو نماز ہوگی یا نہیں؟
اور ان جیسے ان گنت امور جن کےلیے یہاں گنجائش نہیں ہے۔
ان نام نہاد علماء نے ہماری عظمت رفتہ کے نشان بننے والے تمام ‘‘عہدِ زرّیں’’ میں عام مسلمانوں کو فرقہ بازی، فروعات پرستی میں کچھ اس طرح اُلجھا یا کہ اُن کی توجہ دیگر امور سے ہٹ گئی۔
دن رات جاری مذہبی مباحثوں اور ایک دوسرے کے خلاف کی جانے والی سازشوں سے قومی وحدت کو بھی زبردست نقصان پہنچا، یوں دقیانوسیت کی پامال راہوں پر چلنے کا انتخاب جو اُمت کے ‘‘بہی خواہوں’’ نے کیا تھا تو اُمت نے اُن نام نہاد بہی خواہوں کے سامنے سر تسلیم بھی خم کردیا ، آج بھی مسلمان قیاس و منطق کے اُسی طلسمِ ہوشربا کی قید میں نظر آتے ہیں۔ آج چونکہ ہمارے چاروں اطراف تیز رفتار سائنسی ترقی نے ہر چیز کو بدل ڈالا ہے اور تبدیلی کا یہ سفر مسلسل جاری ہے بلکہ اس کی رفتار میں بھی روزبروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فروعات اور قیاسات کی زنجیروں میں جکڑے دماغوں پر بھی سائنس کا بخار چڑھ رہا ہے۔ اس بخار سے ان دماغوں میں گھمنڈ کا ناسور اور زیادہ پھیل گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ہلوک نورباقی، ہارون یحییٰ جیسے ان گنت ماضی پرست اپنی آستینوں میں فخر کے بُت چھپائے سائنس کو مسلمان کرنے چل پڑے ہیں۔
چودہ سو سال بعد ان نابغوں کو یاد آرہا ہے کہ آکسیجن، فلاں سائنسی فارمولے اور فلاں فلاں سائنسی نظریہ کا ذکر تو قرآن میں پہلے سے موجودہے!
ارے بھائی! جب پہلے سے موجود تھا تو ان چودہ سو سالوں میں تم نے اور تمہارے سینکڑوں نام نہاد سائنسی دیوتاؤں نے دریافت کرکے کیوں نہیں پیش کیا، جن دیوتاؤں کے استھان پر موجودہ سائنسی ترقی کا پرشاد چڑھایا جاتا ہے؟
المیہ یہ ہے کہ گھمنڈ کے ناسور پر صرف نابغوں اور بزعم خود دانشمندوں کی ہی اجارہ داری نہیں، اس میں ہرخاص و عام مبتلا دکھائی دیتا ہے۔ یہ ناسور قومی جسد کو گلا سڑا کر غلاظت کے ایک بدبودار ڈھیر میں تبدیل کرسکتا ہے۔
اس طویل مضمون کے اختتام پر ہم اتنا عرض کرنا چاہیں گے کہ ہمیں اپنی اگلی نسل کو یہ پڑھانے کے بجائے کہ مسلمانوں نے سائنس میں کیا کارنامے انجام دیے، انہیں سائنس پڑھانی چاہیے۔
یہی ایک راستہ ہے ہماری نجات کا۔
تحریر:جمیل خان
بہ شکریہ ڈان اردو