عبدالحسیب
محفلین
درس و تدریس کے پیشہ سے وابسطہ ہونے کے تقریباً دس سال بعد یہ موقعہ آیا کہ ہمیں ریاستی تعلیمی بورڈ کی جانب سے بحثیت چیف موڈریٹر، بورڈ میں طلب کیا گیا۔ طئے شدہ تاریخ پر ہم بورڈ کے لیے روانہ ہوئے۔ بورڈ کی جانب سے بہترین انتظمات کئے گئے تھے ، سفر سے لے کر بورڈ پہنچنے تک کہیں بھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ یہ صدر مقام کا ہمارا پہلا سفر ہے۔ رات کچھ نو بجے کا آس پاس ہم بورڈ گیسٹ ہاؤس پہنچے۔ باوجود اس کے کہ سفر میں تمام سہولیات میسر تھی، صرف طویل مسافت کے سبب تھکان محسوس ہو رہی تھی ۔ طعام کے بعد بورڈ عہدیداران سے ہم نے معذرت طلب کی اور سیدھے خوابِ خرگوش کی نظر ہو گئے۔ صبح صادق بیدار ہوئے ، تمام ضروریات سے فارغ ہوکر ہم بورڈ دفتر کے لیے قبل از وقت ہی روانہ ہوئے۔ جلد روانگی کا ایک سبب یہ بھی تھا کی جمعہ کا دن ہے نئے شہر میں نا راستوں کا علم ہے نا کسی علاقہ سے شناسائی ہے، کسی صاحب سے قریبی مسجد کا پتہ دریافت کر لیں گے اور ممکن ہو تو نماز سے قبل راستہ کا جائزہ بھی لے لیں گے۔ یہ منصوبہ ذہن میں لیے ہم دفتر پہنچے۔ ذمہ داران سے اپنی کارکردگی کی فہرست لی اور ایک کیبن جو چند دنوں کے لیے ہمارے لیے مخصوص کیا گیا تھا، کی راہ لی۔ منصوبہ کے مطابق دفتر ہی میں ایک صاحب سے ہم نے قریبی مسجد کا پتہ دریافت کیا۔ ان صاحب نے بتایا کہ باہر چوارہے پر کسی سے بھی دریافت کریں گے تو وہ بتا دے گا۔ ہم چوراہے کی جانب چل نکلے۔ سامنے سے ایک صاحب آتے نظر آئے۔ ہم نے سلام عرض کیا اور حضرت کے جواب دینے سے قبل ہی دریافت کیا،
'چچا، یہاں کہیں قریب میں مسجد ہے؟'
'کونسی مسجد چاہئے آپ کو،میاں؟'
'مسلمانوں کی ہی مسجدکا پتہ بتا دیں تو ممنون ہوں!'
حضرت نا جانے کیوں ہمیں ایک عجیب نگاہ سے سر تا پا دیکھنے لگے اور بغیر کوئی جواب دیے آگے چل نکلے۔ کچھ دیر ہم اُن صاحب کو جاتے ہوئے دیکھتے رہے پھر اپنے شانوں کو جنبش دی اور آگے نکل گئے۔ کچھ دیر دائیں بائیں موڑ لینے کے بعد ایک مسجد نظر آگئی۔ ہم نے راحت کی سانس لی اور واپس دفتر آگئے۔ دس روزہ قیام کے دوران تمام نمازیں اسی مسجد میں ادا ہوئیں۔ وطن واپسی پر جب عیال میں سب کی فرمائشیں تقسیم ہورہی تھیں تب ہماری چھوٹی صاحب زادی نے سوال کیا۔
'ابو، آپ اپنے لیے کیا لے آئے؟'
اُس معصوم سوال پر ہمیں یاد آیا کہ ہم اپنے لیے بھی تو ایک 'سوال' ہی لے آئے ہیں۔
'آپ کو کونسی مسجد چاہئے، میاں؟'
ہم اپنے لیے اتنا قیمتی تحفہ لے آئے تھے کہ آج پندرہ برس بعد بھی وہ ذہن میں صحیح وسالم محفوظ ہے۔
'کونسی مسجد؟'
'مسلمانوں کی مسجد!'
'چچا، یہاں کہیں قریب میں مسجد ہے؟'
'کونسی مسجد چاہئے آپ کو،میاں؟'
'مسلمانوں کی ہی مسجدکا پتہ بتا دیں تو ممنون ہوں!'
حضرت نا جانے کیوں ہمیں ایک عجیب نگاہ سے سر تا پا دیکھنے لگے اور بغیر کوئی جواب دیے آگے چل نکلے۔ کچھ دیر ہم اُن صاحب کو جاتے ہوئے دیکھتے رہے پھر اپنے شانوں کو جنبش دی اور آگے نکل گئے۔ کچھ دیر دائیں بائیں موڑ لینے کے بعد ایک مسجد نظر آگئی۔ ہم نے راحت کی سانس لی اور واپس دفتر آگئے۔ دس روزہ قیام کے دوران تمام نمازیں اسی مسجد میں ادا ہوئیں۔ وطن واپسی پر جب عیال میں سب کی فرمائشیں تقسیم ہورہی تھیں تب ہماری چھوٹی صاحب زادی نے سوال کیا۔
'ابو، آپ اپنے لیے کیا لے آئے؟'
اُس معصوم سوال پر ہمیں یاد آیا کہ ہم اپنے لیے بھی تو ایک 'سوال' ہی لے آئے ہیں۔
'آپ کو کونسی مسجد چاہئے، میاں؟'
ہم اپنے لیے اتنا قیمتی تحفہ لے آئے تھے کہ آج پندرہ برس بعد بھی وہ ذہن میں صحیح وسالم محفوظ ہے۔
'کونسی مسجد؟'
'مسلمانوں کی مسجد!'