انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے کہا ہے کہ ان کے پاس اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ برما کی حکومت اپنی مسلمان روہنجیا آبادی کے خلاف امتیازی سلوک کی مرتکب ہے جس کے تحت مسلمانوں کی نقل و حرکت اور بچوں کی تعداد پر پابندیاں موجود ہیں۔
’فورٹی فائی رائیٹس‘ نامی اس تنظیم نے دعویٰ کیا ہے ان کے پاس ایسی سرکاری دستاویزات موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست رخائن میں مسلمانوں کے خلاف ’ آزار رسانی کی سرکاری پالیسی‘ پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔برما کی حکومت کی طرف سے تنظیم کے اس دعوے پر کوئی فوری رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
برما کی حکومت روہنجیا لوگوں کو ملک کا شہری نہیں بلکہ مہاجر سمجھتی ہے۔
برما میں بدھ مت کے پیروکاروں کی اکثریت ہے اور یہاں روہنجیا لوگوں کو عوامی سطح پر شدید مخالفت کا سامنا ہے، جبکہ دوسری جانب روہنجیا سمجھتے ہیں کہ وہ برما کا حصہ ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ حکومت ان سے امتیازی سلوک کرتی ہے۔
یاد رہے کہ اقوام متحدہ برما کے روہنجیا لوگوں کو دنیا کی سب سے زیادہ ستائی ہوئی آبادی قرار دے چکی ہے۔
فورٹیفائی رائیٹس کا اپنی رپورٹ میں کہنا ہے کہ انھوں نے سنہ 1993 اور سنہ 2013 کے درمیانی عرصے کی 12 سرکاری دستاویزات کا تجزیہ کیا ہے جن سے انھیں معلوم ہوا ہے کہ ریاست رخائن میں حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے ’ روہنجیا مسلمانوں کی بنیادی آزادی پر شدید پابندیاں‘ عائد ہیں۔
رپورٹ کے مطابق حکومتی پالیسی کے نتیجے میں مسلمانوں کی ’نقل وحرکت، شادی بیاہ، بچوں کی پیدائش، گھر کی مرمت اور عبادت گاہوں کی تعمیر‘ پر شدید پابندیاں عائد ہیں۔ اس کے علاوہ مسلمان اجازت کے بغیر ریاست کے اندر مختلف شہروں کے درمیان آزادانہ سفر نہیں کرسکتے اور نہ ہر ریاست سے باہر جا سکتے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سرکاری حکم کے مطابق ریاست کے کچھ علاقوں میں مسلمان جوڑوں پر پابندی ہے کہ وہ دو سے زیادہ بچے پیدا نہیں کر سکتے جبکہ ایک دوسری دستاویز سے ظاہر ہوتا ہے کہ روہنجیا کے لیے ضروری ہے کہ وہ شادی کرنے کے لیے بھی حکومت سے اجازت لیں۔ شادی کے لیے حکومتی منظوری کے حصول میں درخواست گزار کی ’تذلیل ہوتی ہے اور یہ نہایت مہنگا‘ عمل ہے۔
رپورٹ میں شائع ہونے والی ایک دستاویز کے مطابق اگر سرکاری اہلکاروں کو شک ہو کہ کوئی عورت بچے کی حقیقی ماں نہیں ہے تو انھیں چاہیے کہ وہ اس عورت سے زبردستی کریں کہ وہ بچےکو اپنا دودھ پلا کر ثابت کرے کہ بچہ اسی کا ہے۔
بودھوں اور مسلمانوں کے درمیان فسادات میں ہزاروں روہنجیا مسلمان نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں
روہنجیا مسلمانوں پر اس قسم کی سرکاری پابندیوں کا منظرِعام پر آنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تاہم رنگون میں بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ حالیہ رپورٹ اس بات لحاظ سے نئی ہے کہ اس میں بودھوں کی اکثریتی حکومت کی طرف سے جاری کیے گئے احکامات کے ثبوت شائع کیے گئے ہیں۔
نامہ نگار کے مطابق برما کے بدھ مت کے پیروکار اکثر کہتے ہیں اگر مسلمان زیادہ بچے پیدا کرتے رہے تو ایک دن ملک میں مسلمانوں کی اکثریت ہو جائے گی۔
ریاست رخائن میں گذشتہ ماہ بودھوں کے حملوں میں دو سو سے زائد روہنجیا مسلمانوں کی ہلاکت کے بعد سے مسلمانوں اور بودھوں کے درمیان تناؤ پایا جاتا ہے۔
ان حملوں کے بعد دو بین الاقوامی امدادی افسران کو اس علاقے میں رسائی دی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں علاقے میں وسیع پیمانے پر ہونے والی ہلاکتوں کے ثبوت ملے تھے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2014/02/140225_mayanmar_rohingya_sq.shtml
’فورٹی فائی رائیٹس‘ نامی اس تنظیم نے دعویٰ کیا ہے ان کے پاس ایسی سرکاری دستاویزات موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست رخائن میں مسلمانوں کے خلاف ’ آزار رسانی کی سرکاری پالیسی‘ پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔برما کی حکومت کی طرف سے تنظیم کے اس دعوے پر کوئی فوری رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
برما کی حکومت روہنجیا لوگوں کو ملک کا شہری نہیں بلکہ مہاجر سمجھتی ہے۔
برما میں بدھ مت کے پیروکاروں کی اکثریت ہے اور یہاں روہنجیا لوگوں کو عوامی سطح پر شدید مخالفت کا سامنا ہے، جبکہ دوسری جانب روہنجیا سمجھتے ہیں کہ وہ برما کا حصہ ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ حکومت ان سے امتیازی سلوک کرتی ہے۔
یاد رہے کہ اقوام متحدہ برما کے روہنجیا لوگوں کو دنیا کی سب سے زیادہ ستائی ہوئی آبادی قرار دے چکی ہے۔
فورٹیفائی رائیٹس کا اپنی رپورٹ میں کہنا ہے کہ انھوں نے سنہ 1993 اور سنہ 2013 کے درمیانی عرصے کی 12 سرکاری دستاویزات کا تجزیہ کیا ہے جن سے انھیں معلوم ہوا ہے کہ ریاست رخائن میں حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے ’ روہنجیا مسلمانوں کی بنیادی آزادی پر شدید پابندیاں‘ عائد ہیں۔
رپورٹ کے مطابق حکومتی پالیسی کے نتیجے میں مسلمانوں کی ’نقل وحرکت، شادی بیاہ، بچوں کی پیدائش، گھر کی مرمت اور عبادت گاہوں کی تعمیر‘ پر شدید پابندیاں عائد ہیں۔ اس کے علاوہ مسلمان اجازت کے بغیر ریاست کے اندر مختلف شہروں کے درمیان آزادانہ سفر نہیں کرسکتے اور نہ ہر ریاست سے باہر جا سکتے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سرکاری حکم کے مطابق ریاست کے کچھ علاقوں میں مسلمان جوڑوں پر پابندی ہے کہ وہ دو سے زیادہ بچے پیدا نہیں کر سکتے جبکہ ایک دوسری دستاویز سے ظاہر ہوتا ہے کہ روہنجیا کے لیے ضروری ہے کہ وہ شادی کرنے کے لیے بھی حکومت سے اجازت لیں۔ شادی کے لیے حکومتی منظوری کے حصول میں درخواست گزار کی ’تذلیل ہوتی ہے اور یہ نہایت مہنگا‘ عمل ہے۔
رپورٹ میں شائع ہونے والی ایک دستاویز کے مطابق اگر سرکاری اہلکاروں کو شک ہو کہ کوئی عورت بچے کی حقیقی ماں نہیں ہے تو انھیں چاہیے کہ وہ اس عورت سے زبردستی کریں کہ وہ بچےکو اپنا دودھ پلا کر ثابت کرے کہ بچہ اسی کا ہے۔
بودھوں اور مسلمانوں کے درمیان فسادات میں ہزاروں روہنجیا مسلمان نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں
روہنجیا مسلمانوں پر اس قسم کی سرکاری پابندیوں کا منظرِعام پر آنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تاہم رنگون میں بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ حالیہ رپورٹ اس بات لحاظ سے نئی ہے کہ اس میں بودھوں کی اکثریتی حکومت کی طرف سے جاری کیے گئے احکامات کے ثبوت شائع کیے گئے ہیں۔
نامہ نگار کے مطابق برما کے بدھ مت کے پیروکار اکثر کہتے ہیں اگر مسلمان زیادہ بچے پیدا کرتے رہے تو ایک دن ملک میں مسلمانوں کی اکثریت ہو جائے گی۔
ریاست رخائن میں گذشتہ ماہ بودھوں کے حملوں میں دو سو سے زائد روہنجیا مسلمانوں کی ہلاکت کے بعد سے مسلمانوں اور بودھوں کے درمیان تناؤ پایا جاتا ہے۔
ان حملوں کے بعد دو بین الاقوامی امدادی افسران کو اس علاقے میں رسائی دی گئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں علاقے میں وسیع پیمانے پر ہونے والی ہلاکتوں کے ثبوت ملے تھے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2014/02/140225_mayanmar_rohingya_sq.shtml