تمہید
گذشتہ کئی مہینوں سے اسلام اور عصرِ حاضر کے حوالے سے کئی مباحث کا سلسلہ چل رہا ہے ۔ مختلف موضوعات ہیں ۔ جہاں بحث در بحث کا سلسلہ جاری ہے ۔ میں نے اس دھاگے پر کوشش کی ہے کہ ان تمام موضوعات پر بحث کا احاطہ کرسکوں ۔ جو مسلمانوں کی ترقی میں رکاوٹ کا سبب بنے ہیں ۔ مختلف موضاعات ، خدشات اور اعتراضات کو میں نے اپنے تجزیئے کی شکل میں اس دھاگے میں نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے ۔ عملی طور پر یہ مغرب اور مسلمانوں کے درمیان ایک تنقیدی تقابلہ ہے کہ گذشتہ چار ، پانچ سو سال میں ہم اور مغرب نے کیسے ، کیا اور کہاں تک سفر کیا ۔ یہاں میرے اس تجزیئے سے کسی کامتفق ہونا مقصود نہیں ہے ۔ میں نے یہ کوشش ضرور کی ہے کہ میں یہ واضع کروںکہ گذشتہ پانچ سو سالوں سے ہم کس نقطے پر جامد ہوکر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ میری کوشش تھی کہ یہ تجزیہ میں ایک ہی نشت میں تحریر کروں مگر اپنی مصروفیات کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں لگ رہا ۔ لہذا اس موضوع پر یہ پہلا حصہ ملاحظہ فرمائیں اور دعاؤں میں یاد رکھیں ۔
مسلمانوں کی تاریخ میں ایک دور ایسا گذرا ہے ۔ جب دنیا کی سیاسی ، اخلاقی ، سماجی اور تہذیبی قیادت ان کے ہاتھ میں تھی ۔ لیکن پھر حالات نے کچھ اس طرح کروٹ بدلی کہ یہ سب ان کے ہاتھ سے نکل گیا ۔ عروج زوال سے آشنا ہوا ۔ اور قیادت مسلمانوں کے گھر سے ایسی نکلی کہ پھر لوٹ کر نہیں آئی ۔ اس دوران ایسا نہیں ہوا کہ مسلمان ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہے ہوں ۔ بلکہ انہوں نے اس مسئلہ پر سوچا ، غور کیا اور اس صورتحال کو بدلنے کی بہت سی کوششیں بھی کیں ۔ مگر بدقسمتی سے یہ کوششیں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکیں ۔ مسلمانوںکے حالات میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آسکی ۔ اور آج بھی دنیا کے حالات پر ہم اگر ایک نظر ڈالیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ علمی ، سیاسی ، فکری ہر اعتبار سے پست مقام ہمارے حصے میں آتا ہے ۔
یہ صورتِ حال کیوں ہے ۔ ؟ یہ ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے ۔ ؟ یا اس کا تعلق خارجی عوامل اور خارجی طبقات سے ہے ۔ ؟
اس صورتحال کا اندازہ ہمیں اس بات سے ہوتا ہے ۔ جب ہم اپنا موازانہ دنیا کی دیگر ترقی یافتہ اقوام سے کرتے ہیں ۔ اور اس زوال میں جو عوامل کارفرما ہیں ۔ ان کا جائزہ لینے کے لیئے ظاہر ہے ہمیں انہی اقوام میں جانا پڑتا ہے ، جو گذشتہ پانچ سو سالوں میں ترقی کی انتہائی درجے پر پہنچیں ۔ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم ہمیشہ ان عوامل کا جائزہ لینے مغرب میں ہی کیوں جاتے ہیں ۔ مگر کیا کریں کہ حقیقت تو یہی ہے کہ دنیا میں جو نئی قوتیں ابھریں اور جو نئی تبدیلیاں آئیں ۔ وہ انہی لوگوں ، اسی خطے اور اسی دور میں آئیں ہیں ۔
اگر آپ غور کریں تو ایک بات سامنے یہ آتی ہے کہ یورپ کا نشاۃ ثانیہ اور پھر اس کے بعد یورپ کی Industrial Growth ، سانئس اور ٹیکنالوجی یہ سب چیزیں چار ، پانچ سو سال کی ایک طول تاریخ میں پہ در پہ آئیں ۔ انہی تبدیلیوں کی وجہ سے ان کا معاشی نظام بدلا ہے ۔ اور انہی کی بنیاد پر ان کے Superstructure بھی بنے ۔ ان کے ہاں علم و دانش کی جو چیزیں تھیں ۔ ان میں بھی تبدیلیوں نے جگہ بنائی ۔ نئے فلسفے ، نئے شعور ، نئے علم ، سیاست کی نئی بساط ، جہموریت کے ولولے ، یہ تمام چیزیں گذشتہ چار ، پانچ سو سال کی ترقی کا نتیجہ ہے ۔ اور یہی چار ، پانچ سو سال ، ہمارے پیچھے جانے کے ہیں ۔ کیونکہ جو معروضی کیفیت اس وقت دنیا میں پیدا ہو رہی تھی ، معاشرے کے اندر جو رشتے بدل رہے تھے ، جو نئی تبدیلیاں آرہیں تھیں ۔ ان سب سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں رہا تھا ۔ اب چونکہ ہم اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے لہذا ہم اپنے ماضی میں لوٹنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اور ایسی چیزوںکو تلاش کرتے ہیں ۔ جو کبھی ہمارے ماضی کا حصہ تھیں ۔ اور جو اس وقت تک کارآمد نہیں ہوسکتیں ۔ جب تک آپ معروضی کیفیت کا تجزیہ نہیں کرتے ۔ اور پھر ان کیفیات کا تجزیہ کرنے کے بعد ان ابھرتی ہوئی قوتوں کے ابھار کی بنیادوں کو تلاش نہیں کرتے ۔ اور وہ بنیادیں ہیں ۔ سائنس ، ٹیکنا لوجی اور علم ۔ اگر ہم ان کے ساتھ رشتہ جوڑ نہیں سکتے تو پھر بیشک آپ اپنے ماضی میں جو چاہیں ، جاکر کرتے رہیں ۔جب مسلمانوںکا ابھار ہوا تھا تو اس قسم کی یہ تمام چیزیں اس وقت موجود تھیں ۔ مگر ہم ان کو لیکر ان خطوط پر نہیں سوچ سکے ۔ جو مغرب نے اپنے اس ابھار کے دور میں حاصل کرلیں ۔ اور یہی وہ چیزیں ہیں جو کسی قوم کی ترقی کے لیئے درکار ہوتیں ہیں ۔
( جاری ہے )
گذشتہ کئی مہینوں سے اسلام اور عصرِ حاضر کے حوالے سے کئی مباحث کا سلسلہ چل رہا ہے ۔ مختلف موضوعات ہیں ۔ جہاں بحث در بحث کا سلسلہ جاری ہے ۔ میں نے اس دھاگے پر کوشش کی ہے کہ ان تمام موضوعات پر بحث کا احاطہ کرسکوں ۔ جو مسلمانوں کی ترقی میں رکاوٹ کا سبب بنے ہیں ۔ مختلف موضاعات ، خدشات اور اعتراضات کو میں نے اپنے تجزیئے کی شکل میں اس دھاگے میں نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے ۔ عملی طور پر یہ مغرب اور مسلمانوں کے درمیان ایک تنقیدی تقابلہ ہے کہ گذشتہ چار ، پانچ سو سال میں ہم اور مغرب نے کیسے ، کیا اور کہاں تک سفر کیا ۔ یہاں میرے اس تجزیئے سے کسی کامتفق ہونا مقصود نہیں ہے ۔ میں نے یہ کوشش ضرور کی ہے کہ میں یہ واضع کروںکہ گذشتہ پانچ سو سالوں سے ہم کس نقطے پر جامد ہوکر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ میری کوشش تھی کہ یہ تجزیہ میں ایک ہی نشت میں تحریر کروں مگر اپنی مصروفیات کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں لگ رہا ۔ لہذا اس موضوع پر یہ پہلا حصہ ملاحظہ فرمائیں اور دعاؤں میں یاد رکھیں ۔
مسلمانوں کی تاریخ میں ایک دور ایسا گذرا ہے ۔ جب دنیا کی سیاسی ، اخلاقی ، سماجی اور تہذیبی قیادت ان کے ہاتھ میں تھی ۔ لیکن پھر حالات نے کچھ اس طرح کروٹ بدلی کہ یہ سب ان کے ہاتھ سے نکل گیا ۔ عروج زوال سے آشنا ہوا ۔ اور قیادت مسلمانوں کے گھر سے ایسی نکلی کہ پھر لوٹ کر نہیں آئی ۔ اس دوران ایسا نہیں ہوا کہ مسلمان ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہے ہوں ۔ بلکہ انہوں نے اس مسئلہ پر سوچا ، غور کیا اور اس صورتحال کو بدلنے کی بہت سی کوششیں بھی کیں ۔ مگر بدقسمتی سے یہ کوششیں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکیں ۔ مسلمانوںکے حالات میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آسکی ۔ اور آج بھی دنیا کے حالات پر ہم اگر ایک نظر ڈالیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ علمی ، سیاسی ، فکری ہر اعتبار سے پست مقام ہمارے حصے میں آتا ہے ۔
یہ صورتِ حال کیوں ہے ۔ ؟ یہ ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے ۔ ؟ یا اس کا تعلق خارجی عوامل اور خارجی طبقات سے ہے ۔ ؟
اس صورتحال کا اندازہ ہمیں اس بات سے ہوتا ہے ۔ جب ہم اپنا موازانہ دنیا کی دیگر ترقی یافتہ اقوام سے کرتے ہیں ۔ اور اس زوال میں جو عوامل کارفرما ہیں ۔ ان کا جائزہ لینے کے لیئے ظاہر ہے ہمیں انہی اقوام میں جانا پڑتا ہے ، جو گذشتہ پانچ سو سالوں میں ترقی کی انتہائی درجے پر پہنچیں ۔ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم ہمیشہ ان عوامل کا جائزہ لینے مغرب میں ہی کیوں جاتے ہیں ۔ مگر کیا کریں کہ حقیقت تو یہی ہے کہ دنیا میں جو نئی قوتیں ابھریں اور جو نئی تبدیلیاں آئیں ۔ وہ انہی لوگوں ، اسی خطے اور اسی دور میں آئیں ہیں ۔
اگر آپ غور کریں تو ایک بات سامنے یہ آتی ہے کہ یورپ کا نشاۃ ثانیہ اور پھر اس کے بعد یورپ کی Industrial Growth ، سانئس اور ٹیکنالوجی یہ سب چیزیں چار ، پانچ سو سال کی ایک طول تاریخ میں پہ در پہ آئیں ۔ انہی تبدیلیوں کی وجہ سے ان کا معاشی نظام بدلا ہے ۔ اور انہی کی بنیاد پر ان کے Superstructure بھی بنے ۔ ان کے ہاں علم و دانش کی جو چیزیں تھیں ۔ ان میں بھی تبدیلیوں نے جگہ بنائی ۔ نئے فلسفے ، نئے شعور ، نئے علم ، سیاست کی نئی بساط ، جہموریت کے ولولے ، یہ تمام چیزیں گذشتہ چار ، پانچ سو سال کی ترقی کا نتیجہ ہے ۔ اور یہی چار ، پانچ سو سال ، ہمارے پیچھے جانے کے ہیں ۔ کیونکہ جو معروضی کیفیت اس وقت دنیا میں پیدا ہو رہی تھی ، معاشرے کے اندر جو رشتے بدل رہے تھے ، جو نئی تبدیلیاں آرہیں تھیں ۔ ان سب سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں رہا تھا ۔ اب چونکہ ہم اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے لہذا ہم اپنے ماضی میں لوٹنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اور ایسی چیزوںکو تلاش کرتے ہیں ۔ جو کبھی ہمارے ماضی کا حصہ تھیں ۔ اور جو اس وقت تک کارآمد نہیں ہوسکتیں ۔ جب تک آپ معروضی کیفیت کا تجزیہ نہیں کرتے ۔ اور پھر ان کیفیات کا تجزیہ کرنے کے بعد ان ابھرتی ہوئی قوتوں کے ابھار کی بنیادوں کو تلاش نہیں کرتے ۔ اور وہ بنیادیں ہیں ۔ سائنس ، ٹیکنا لوجی اور علم ۔ اگر ہم ان کے ساتھ رشتہ جوڑ نہیں سکتے تو پھر بیشک آپ اپنے ماضی میں جو چاہیں ، جاکر کرتے رہیں ۔جب مسلمانوںکا ابھار ہوا تھا تو اس قسم کی یہ تمام چیزیں اس وقت موجود تھیں ۔ مگر ہم ان کو لیکر ان خطوط پر نہیں سوچ سکے ۔ جو مغرب نے اپنے اس ابھار کے دور میں حاصل کرلیں ۔ اور یہی وہ چیزیں ہیں جو کسی قوم کی ترقی کے لیئے درکار ہوتیں ہیں ۔
( جاری ہے )