مسلمانوں کے زوال کے اسباب ( ایک تجزیہ )

ظفری

لائبریرین
تمہید
گذشتہ کئی مہینوں سے اسلام اور عصرِ حاضر کے حوالے سے کئی مباحث کا سلسلہ چل رہا ہے ۔ مختلف موضوعات ہیں ۔ جہاں بحث در بحث کا سلسلہ جاری ہے ۔ میں نے اس دھاگے پر کوشش کی ہے کہ ان تمام موضوعات پر بحث کا احاطہ کرسکوں ۔ جو مسلمانوں کی ترقی میں رکاوٹ کا سبب بنے ہیں ۔ مختلف موضاعات ، خدشات اور اعتراضات کو میں نے اپنے تجزیئے کی شکل میں اس دھاگے میں نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے ۔ عملی طور پر یہ مغرب اور مسلمانوں کے درمیان ایک تنقیدی تقابلہ ہے کہ گذشتہ چار ، پانچ سو سال میں ہم اور مغرب نے کیسے ، کیا اور کہاں تک سفر کیا ۔ یہاں میرے اس تجزیئے سے کسی کامتفق ہونا مقصود نہیں ہے ۔ میں نے یہ کوشش ضرور کی ہے کہ میں یہ واضع کروں‌کہ گذشتہ پانچ سو سالوں سے ہم کس نقطے پر جامد ہوکر بیٹھے ہوئے ہیں ۔ میری کوشش تھی کہ یہ تجزیہ میں ایک ہی نشت میں تحریر کروں مگر اپنی مصروفیات کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں لگ رہا ۔ لہذا اس موضوع پر یہ پہلا حصہ ملاحظہ فرمائیں اور دعاؤں میں یاد رکھیں ۔


مسلمانوں کی تاریخ میں ایک دور ایسا گذرا ہے ۔ جب دنیا کی سیاسی ، اخلاقی ، سماجی اور تہذیبی قیادت ان کے ہاتھ میں تھی ۔ لیکن پھر حالات نے کچھ اس طرح کروٹ بدلی کہ یہ سب ان کے ہاتھ سے نکل گیا ۔ عروج زوال سے آشنا ہوا ۔ اور قیادت مسلمانوں کے گھر سے ایسی نکلی کہ پھر لوٹ کر نہیں آئی ۔ اس دوران ایسا نہیں ہوا کہ مسلمان ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہے ہوں ۔ بلکہ انہوں نے اس مسئلہ پر سوچا ، غور کیا اور اس صورتحال کو بدلنے کی بہت سی کوششیں‌ بھی کیں ۔ مگر بدقسمتی سے یہ کوششیں نتیجہ خیز ثابت نہیں‌ ہوسکیں ۔ مسلمانوں‌کے حالات میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں‌ آسکی ۔ اور آج بھی دنیا کے حالات پر ہم اگر ایک نظر ڈالیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ علمی ، سیاسی ، فکری ہر اعتبار سے پست مقام ہمارے حصے میں آتا ہے ۔
یہ صورتِ حال کیوں ہے ۔ ؟ یہ ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے ۔ ؟ یا اس کا تعلق خارجی عوامل اور خارجی طبقات سے ہے ۔ ؟

اس صورتحال کا اندازہ ہمیں اس بات سے ہوتا ہے ۔ جب ہم اپنا موازانہ دنیا کی دیگر ترقی یافتہ اقوام سے کرتے ہیں ۔ اور اس زوال میں‌ جو عوامل کارفرما ہیں ۔ ان کا جائزہ لینے کے لیئے ظاہر ہے ہمیں انہی اقوام میں‌ جانا پڑتا ہے ، جو گذشتہ پانچ سو سالوں میں ترقی کی انتہائی درجے پر پہنچیں ۔ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم ہمیشہ ان عوامل کا جائزہ لینے مغرب میں ہی کیوں جاتے ہیں ۔ مگر کیا کریں کہ حقیقت تو یہی ہے کہ دنیا میں جو نئی قوتیں ابھریں اور جو نئی تبدیلیاں آئیں ۔ وہ انہی لوگوں ، اسی خطے اور اسی دور میں آئیں ہیں ۔

اگر آپ غور کریں تو ایک بات سامنے یہ آتی ہے کہ یورپ کا نشاۃ ثانیہ اور پھر اس کے بعد یورپ کی Industrial Growth ، سانئس اور ٹیکنالوجی یہ سب چیزیں چار ، پانچ سو سال کی ایک طول تاریخ میں پہ در پہ آئیں ۔ انہی تبدیلیوں کی وجہ سے ان کا معاشی نظام بدلا ہے ۔ اور انہی کی بنیاد پر ان کے Superstructure بھی بنے ۔ ان کے ہاں علم و دانش کی جو چیزیں تھیں ۔ ان میں بھی تبدیلیوں نے جگہ بنائی ۔ نئے فلسفے ، نئے شعور ، نئے علم ، سیاست کی نئی بساط ، جہموریت کے ولولے ، یہ تمام چیزیں گذشتہ چار ، پانچ سو سال کی ترقی کا نتیجہ ہے ۔ اور یہی چار ، پانچ سو سال ، ہمارے پیچھے جانے کے ہیں ۔ کیونکہ جو معروضی کیفیت اس وقت دنیا میں پیدا ہو رہی تھی ، معاشرے کے اندر جو رشتے بدل رہے تھے ، جو نئی تبدیلیاں آرہیں تھیں ۔ ان سب سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں رہا تھا ۔ اب چونکہ ہم اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے لہذا ہم اپنے ماضی میں‌ لوٹنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اور ایسی چیزوں‌کو تلاش کرتے ہیں ۔ جو کبھی ہمارے ماضی کا حصہ تھیں ۔ اور جو اس وقت تک کارآمد نہیں ہوسکتیں ۔ جب تک آپ معروضی کیفیت کا تجزیہ نہیں کرتے ۔ اور پھر ان کیفیات کا تجزیہ کرنے کے بعد ان ابھرتی ہوئی قوتوں کے ابھار کی بنیادوں کو تلاش نہیں کرتے ۔ اور وہ بنیادیں ہیں ۔ سائنس ، ٹیکنا لوجی اور علم ۔ اگر ہم ان کے ساتھ رشتہ جوڑ نہیں سکتے تو پھر بیشک آپ اپنے ماضی میں جو چاہیں ، جاکر کرتے رہیں ۔جب مسلمانوں‌کا ابھار ہوا تھا تو اس قسم کی یہ تمام چیزیں اس وقت موجود تھیں ۔ مگر ہم ان کو لیکر ان خطوط پر نہیں سوچ سکے ۔ جو مغرب نے اپنے اس ابھار کے دور میں حاصل کرلیں ۔ اور یہی وہ چیزیں ہیں جو کسی قوم کی ترقی کے لیئے درکار ہوتیں ہیں ۔

( جاری ہے )
 

ظفری

لائبریرین
مسلمانوں نے کئی صدیوں سے اپنی فکری صلاحیتوں کو ایک نقطے پر منجمد کیا ہوا ہے ۔ اور وہ نقطہ یہ ہے کہ ہمارے تمام مسئلوں کا حل ہمارے مذہب میں ہے ۔ اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سو سال قبل علامہ اقبال نے اپنے لیکچر Reconstruction Religoin Theory Of ISLAM میں کہا تھا کہ ” مسلمانوں نے پانچ سو سال سے سوچنا بند کردیا ہے " ۔ اسے ایک بحث کہہ لیں یا مفروضہ ، جس کی وجہ سے مکالمہ آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ 16 ویں صدی میں جو Reformation یورپ میں آئی اس کا تعلق ایک فکری آزادی کیساتھ تھا ۔ اس فکری آزادی کا اظہار نہ صرف سائنس و ٹیکنالوجی کے حوالے سے ہوا بلکہ فلسفے اور سوچ کے نئے زایوں کے حوالے سے بھی ہوا ۔ پھر یورپ نے یہ سوچنا شروع کردیا کہ ہم آگے کیسے جا سکتے ہیں ۔اور آگے جانے یا بڑھنے کی جو تدابیر تھیں ان میں سیاست ، اکنامکس اور فلسفہ بھی شامل تھا ۔ مذہب جب ان کے سامنے آیا تو انہوں نے چرچ سے علیحدگی کو ترجیح دی ۔ تاکہ ایک نئی سوچ کے لیئے انہیں مکمل طور پر فکری آزادی میسر آئے ۔ اور یہ سوچ تقریباً ڈیڑھ ، دو سو سال تک غالب رہی کہ اگر ہم چرچ سے منسلک رہے تو کبھی ترقی نہیں کرسکتے ۔

یہاں مذہب کے حوالے سے فلسطین کا ذکر کرنا بہت مناسب ہوگا کیونکہ مسلمانوں کے درمیان باہمی تضادات اتنے زیادہ ہیں کہ ہم اپنی سوچوں کا رخ اپنی معاشی حالت کو سدھارنے کی طرف موڑ ہی نہیں سکتے ۔ الفتح اور حماس کے بنیادی Objects عالمی سامراجیت اور فلسطین کے حوالے سے ایک ہی ہیں ۔ مگر باہمی تضادات اتنے ہیں کہ فلسطین کا ایشو انہی جھگڑوں کی نذر ہوجاتا ہے ۔ یہ کیفیت عالم ِ اسلام میں ہر جگہ دیکھی جا سکتی ہے ۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اصل مسئلہ ہمارے اپنے تضادات کے گرد گھوم رہا ہے ۔ اب فلسطین کی بات چلی ہے تو اسی کا ذکر کرتے ہیں ۔ اگرفلسطین کے مسئلہ کو ان تضادات کی تہہ میں جاکر دیکھا جائے تو یہ بات باآسانی معلوم کی جاسکتی ہے کہ ان لوگوں نے فلسطین کا مسئلہ کیسے اور کس slogan کے تحت اٹھایا تھا ۔
یعنی فلسطینوں کو اپنی ایک ریاست قائم کرنے کا حق حاصل ہے ۔ اور یہ تمام فلسطینوں کا مطالبہ تھا ۔ فلسطینی جہدوجہد کا آغاز ایک سیکولر جہدوجہد کا آغاز تھا ۔ یہ ایک Right Of Self Determination کا آغاز تھا ۔ اپنی سرزمین کو ارسرِ نو حاصل کرنے کا آغاز تھا ۔ اس میں لیلیٰ خالد تھیں جو ان کے سرکردہ لیڈروں کی اولین فہرست میں شامل تھیں اور وہ عیسائی تھیں ۔ فلسطین کے لیئے پہلی جنگ جو آزادی کے لیئے لڑی گئی اس میں پہلے جو 9 لوگ شہید ہوئے ۔ ان میں دو عرب یہودی تھے ، تین عیسائی تھے اور باقی چار مسلمان تھے ۔ یعنی وہ عرب فلسطینی جہدوجہد ِ آزادی تھی ۔ اس عرب فلسطینی جہدوجہدِ آزادی میں جو رخنے ڈالے گئے ۔ اس میں ایک بڑا رخنہ تو یہ تھا کہ اس کا ایک Muslim Cheractor دیدیا گیا ۔ یہ صرف فلسطینوں‌کے ساتھ نہیں ہوا ۔ بلکہ جب عرب نیشنلزم کی جہدوجہد شروع ہوئی اور اس میں ناصر ایک لیڈر کے طور پر سامنے آئے تو اس کو بھی سبوتاژ کرنے کے لیئے Muslim Brotherhood کو زبردست طریقے سے استعمال کیا گیا ۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ ان سب تحریکوں کو بشمول ان تحریکوں کو بھی جن کا سلسلہ افغانستان میں آکر منتج ہوتا ہے ۔ استعماریوں اور سامراجیوں نے زبردست طریقے سے استعمال کیا اور مکمل طور پر ان کی پشت پناہی کی ۔ اور ان تحریکوں میں اخوان بھی شامل ہے ۔ اور یہ سب کے سب وہ لوگ تھے جو امریکہ کے ایماء پر پیدا ہوئے اور انہی کے مشن کو آگے لیکر جا رہے تھے ۔ لیکن جب امریکیوں کو ان کی ضرورت نہیں پڑی تو اب انہوں نے ان سے قطع تعلق کرلیا ہے ۔ ( مگر یہ ایک الگ قصہ ہے ) ۔ لیکن جو یہ کشکمش تھی جس میں‌ لوگ خود کو مبتلا کر رہے تھے ۔ وہ ایک آزاد ریاست کو حاصل کرنے کی تھی ۔ یعنی ایک آزاد مشرقِ وسطیٰ کو بنانے کی جہدوجہد تھی ۔ اس زمین کی Resources پر اپنا حق حاصل کرنے کی کوشش تھی ۔ اور یہ عربوں کی جہدوجہد تھی ۔ لیکن ہم نے اس کو مسلمانوں کی جہدوجہد بنادیا ۔ یہ تو ہوگیا کہ حماس ایک Militant طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آگیا ۔ لیکن حقیقت یہ رہی کہ وہ ساری جہدوجہد سبوتاژ ہوگئی ۔ دو حصوں میں تقسیم ہوگئی اور اصل تحریک پس منظر میں چلی گئی ۔ فلسطین کے اس مسئلے سے یہ بات صاف ظاہر ہوجاتی ہے کہ اس جہدوجہد میں مذہبی Fector کو شامل کرنا سامراجی ایجنڈا تھا ۔ جس نے اصل میں عرب فلسطین کی جہدوجہدِ آزادی کے عمل کو سبوتاژ کیا ۔ اخوان اور دیگر گروہ بھی سامراجی قوتوں کی تائید سے آگے بڑھی ۔

ایک عام تاثر یہ ہے کہ مغرب کو اصل خطرہ اسلام سے ہے ۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ اسلام سے مغرب کو کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے اپنے ہدف ہی کچھ اس طرح بنا لیئے ہیں ۔ سارے فلسفے انہوں نے ہی ایجاد کیئے ۔ Clash of Civilizations انہوں نے ایجاد کیا ۔ مسلمانوں نے تو اسے خود ہی اپنا لیا ہے ۔ اگرچہ ساری کی ساری یہ بات مغرب میں ہی ایجاد ہوئی ہے ۔ اصل میں ہوا کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ Socialist Ententity کے ٹوٹنے سے دنیا میں جو تغیرات پیدا ہوئے ہیں اس کی وجہ سے استعمار ساری دنیا پر اپنا قبضہ جمانا چاہتا ہے ۔ مگر ساری دنیا میں استعمار کے قبضے کے جو طریقے ہیں وہ تو سارے ہی سرمایہ داری نظام کے ہیں ۔ کہ وہ اپنی Profit Making Market Economy کو ساری دنیا پر مسلط کریں ۔ چناچہ اب اگر یہ کشمکش ہے تو کس کے درمیان ہے ۔ جس کو وہ لوٹ رہا ہے یا وہ ، جو لوٹ رہے ہیں ۔ ؟ ۔ اس میں صرف مسلمان تو نہیں آتے ۔ اس میں تو وہ سارے لاطینی امریکہ کے لوگ بھی آتے ہیں ۔ جو آج امریکہ کیساتھ جنگ کررہے ہیں ۔ اصل خطرہ تو وہ ہیں ۔ Hugo Chavez سے ان کو خطرہ ہے ۔ مسلم دنیا کے جو بمبار یا خودکش حملہ آور تو ان کی سیکورٹی کےلیئے خطرہ ہیں ۔ یہ ان ملکو ں کے سسٹم کے لیئے کوئی خطرہ پیدا نہیں کرتے ۔ ان کے پاس توکوئی سسٹم ہے ہی نہیں ، کوئی متبادل نہیں ہے ۔ ہم یہ Elementary معاملے جو ہمارے معاشروں میں موجود ہیں ان کا حل تو تلاش نہیں کرسکتے اور چلے ہیں بین الاقوامی قوتوں کیساتھ مقابلہ کرنے ۔ ایک وقت تھا کہ مذہب ایک Consolidated Power تھا ۔ اب مذہب ایک Dividing Power ہے ، ان کے درمیان جو تیسری دنیا کے ممالک کے مذہبی لوگ ہیں ۔ اگر آپ کا تعلق لاطینی امریکہ کی جہد وجہد سے نہیں ہے تو آپ الگ ہیں اور وہ الگ ہیں ۔ وہ اپنی لڑائی لڑ رہے ہیں اور آپ اپنی لڑائی لڑ رہے ہیں ۔ یہ خود کش حملے وغیرہ Limited Actions ہیں ۔ یہ Mass of Population کو اپنے ساتھ نہیں لیتے ۔ یہ Democratic Struggle نہیں کرتے ۔ یہ اپنے ملکوں کے نظام کو تبدیل نہیں کرتے ۔ تو یہ بین الاقوامی نظام کو تبدیل کیا کریں گے ۔

( جاری ہے )
 

ظفری

لائبریرین
مذہب کو ، سوسائٹی میں ایک Dividing Fector کے طور پر سامنے لایا گیا ۔ اگر ہم اسلامی تحریکوں کو دیکھیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اعتدال پسندی ، روشن خیالی اور انتہا پسندی کے لحاظ سے معاشرہ تقسیم ہوا ہے ۔ اس تناظر میں سوال یہ ذہن میں اٹھتا ہے کہ کیا اسلام کے نام پر بیداری کی جو تحریکیں دنیا میں اٹھیں ۔ انہوں نے مسلمانوں کو متحد کرنے کے بجائے تقسیم کرنےکا کام انجام دیا ۔ ؟
یہ بات واضع ہے کہ بعض تحریکوں نے معاشرے میں اپنے عقائد کے لحاظ سے سماجی اصلاحی کام بھی کیئے مگر مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ جب آپ ریاست سے کہتے ہیں کہ وہ اسلام نافذ کرے ۔ چناچہ اس طرح عقیدے کا تعلق طاقت سے منسلک ہوجاتا ہے ۔ اور پھر ایک نیا مسئلہ سامنے آجاتا ہے کہ کونسا فقہ سامنے آئے گا ۔ اور اس طرح گروہ بندی ہوجاتی ہے ۔ اسی طرح آج عراق کو دیکھیں ۔ وہاں مسئلہ عقائد کا نہیں ہے ۔ عقائد تو بہت پہلے سے وہاں موجود تھے ۔ مسئلہ سیاسی طاقت کا ہے ۔ جب آپ اپنی Community کو Mobilized کرتے ہیں تو اسے ایک خاس قسم کی شناخت بھی دیتے ہیں ۔ پاکستان میں بھی یہی کچھ ہے ۔
ہمارے مذہب کا آغاز جس دور میں ہوا وہ ایک قبائلی معاشرہ تھا ۔ اور جب وہ قبائلی معاشرہ آگے بڑھا تو اس کا ٹکراؤ دنیا کی کُھلی تہذیبوں سے ہوا ۔ چناچہ پھر ہر چیز کی شکل ہی بدل گئی ۔ سوچنے کے انداز بھی بدل گئے ۔ جن چار ، پانچ ارکان پر مذہب کی بنیاد تھی جس پر سادہ سی قبائلی سوسائٹی چل رہی تھی ۔ اُس کی بھی وہ شکل نہ رہ سکی ۔ فلسفہ ، علم ، نظریات ، توجیحات ، تشریحات یہ سب بعد کی پیداوار ہے ۔ چناچہ جب آپ کا واسطہ دنیا کی بڑی تہذیبوں سے پڑا تو ہم دوبارہ پیچھے جانے کی طرف لوٹ آئے ۔ اور ان چیزوں کے ساتھ ہماری ریاست اور نظام تو وہی رہے مگر دنیا کی ریاستیں اور نظام ترقی کر کے کہاں سے کہاں پہنچ گئے ۔ وہ سارے فارمولے جو قبائلی معاشرے استعمال کرتے تھے ۔ وہ نہ تو بادشاہوں کے زمانے میں استعمال ہوسکے ۔اور نہ آج کے جدید دور میں جہاں دنیا کی اعلیٰ ٹیکنالوجی کی بنیاد پر پروڈکشن ہو رہی ہے ۔ دنیا کے نظام کسی اور ہی طریقے سے چلتے ہیں ۔ اس کے جوابات آپ کو دینے پڑتے ہیں ۔ یہ جوابات آپ مذہب میں نہیں دیں گے ۔ یہ آپ اکنامکس میں دیں گے ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں دیں گے ۔ جو ہم نہیں دیتے یا یوں کہہ لیں کہ جو ہم نہیں دے سکتے ۔
اگر خیال یہ ہے کہ کسی ریاست کا نظریات اور خیالات کے لحاظ سے ایک Frames Of Reference ہوتا ہے تو پھر یہ درست ہے ۔ مگر جب آپ اس Frames Of Reference سے ایسی چیزیں بناتے ہیں ۔ جس کے بارے میں آپ کہتے ہیں کہ یہ قائمتہ الذات ہے ۔ یہ بدل نہیں سکتی ۔ اور اس کو آپ اپنے تجربے کی روشنی میں بھی بدل نہیں سکتے اور یہ حکم ہے اور جو اس سے ہٹے گا وہ قابلِ گردنِ زد ٹہرے گا ۔ تو بات یہاں تک آجاتی ہے ۔ آپ دیکھیں کہ مغرب کے سیکولر سسٹم میں بھی گذشتہ چار صدیوں میں کئی تبدیلیاں آچکیں ہیں ۔ اور اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ آپ نے United Nations Charter بنادیا اور اس میں دائیں بازو، بائیں بازو ، مسلم ، عسیائی ، یہودی ، ہندو ، بدھ مت سبھی نے دستخط کردیئے ۔ اور دیکھیں کہ یہ Charter ہے کیا ۔ ؟ یہ بھی سیکولر ہے ۔
لہذا مجھے یہ بات کبھی سمجھ نہیں آئی کہ ریاست کا مذہب سے کیا تعلق ہونا چاہیئے ۔ موجودہ ریاست کا جو نظام ہے وہ صرف مذہب کے حوالے سے دیکھا نہیں جاسکتا ۔ بلکہ اس کی جو پہچان ہے وہ شہریت ہے ۔ اور اس میں سب برابر کا حق رکھتے ہیں ۔ اسی حوالے سے اسپین کو دیکھیں تو وہ ایک Empire تھا، کوئی اسلامی ریاست نہیں تھی ۔ جس میں یہودی ، مسلم اور عیسائی سب اکٹھے رہتے تھے ۔ اسی طرح Ottoman Empire میں بھی یہی کچھ تھا ۔ اور ہمارے ہاں مغل ایمپائر میں یہی کچھ صورتحال تھی ۔ اسی طرح آج پاکستان میں دیکھیں جو کہ مسلم اکثریت کی ریاست ہے ۔ اب آپ ریاست کا مذہب لکھیں یا نہ لکھیں ۔ لیکن جب مسلمان اسمبلیوں میں بیٹھیں گے تو ان کا اپنا ایک Frames Of Reference ہوگا ۔ اسی کے بنیاد پر وہ آئین بناکر اس کو پرکھتے رہیں گے ۔ جوں جوں ان کا تجربہ بڑھتا رہے گا ۔ اسی طرح وہ اپنے خیالات میں بھی تبدیلیاں لاتے رہیں گے ۔ لیکن جب آپ ایک چیز Fixed کردیتے ہیں تو یہ بحث شروع ہوجاتی ہے کہ کس کا اسلام ، کونسا فرقہ ، کونسا مسلک ، اور پھر اس کے بعد آپ آپس میں لڑنا شروع کردیتے ہیں ۔

( جاری ہے )
 

دعا سحر

محفلین
مسلمانوں کی اسلام سے دوری کی اصل وجہ ‘انتہائی حیران کن اور قابل غور
عراق پر امریکی حملے کے دوران بغداد کی ایک قدیم عمارت بمباری سے ملبے کا ڈھیر بن گئی۔ عراق پر امریکی قبضے کے بعد شہر کی صفائی شروع ہوئی تو اس عمارت کا ملبہ ہٹاتے ہوئے گہرائی سے ایک قدیم عمارت کے آثار دریافت ہوئے۔ یہ کسی درس گاہ کے آثار تھے۔ وہاں سے ایک قدیم قلمی نسخہ مکمل حالت میں دستیاب ہوا جس کا نام “تحفۃ الاغانی” تھا۔ مصنف کا نام عبداللہ بن طاہر البغدادی رضوی تھا۔ کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف عالم دین اور صوفی تھے۔ یہ کتاب ان کے کشف پر مبنی پیشینگوئیوں پر مبنی ہے۔ اس میں ایک باب خاص طور پر ہند یعنی ہندوستان کے بارے میں ہے۔ اس میں حضرت لکھتے ہیں کہ ہند کے کچھ علاقوں پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگی لیکن ایک طویل عرصہ تک یہ ملک افراتفری اور بے چینی کا شکار رہے گا۔ اس کی جو وجہ اس کتاب میں بیان کی گئی وہ بہت ہولناک ہے۔ حضرت لکھتے ہیں کہ اس علاقے کے مسلمان خنزیر نما خوراک کھانے کے عادی ہوں گے اور یہی سبب ہوگا کہ وہ بتدریج دین سے دور ہوتے جائیں گے۔ یہ بہت عجیب بات تھی کیونکہ پاکستان میں لوگ بظاہر ایسی کوئی چیز نہیں کھاتے۔ 2011 میں یونیورسٹی آف مشیگن کے پروفیسر سٹورٹ جونز جو ڈپارٹمنٹ آف بائیو ٹکنولوجی کےسربراہ ہیں، انہوں نے اپنی ریسرچ میں ثابت کیا کہ برائلر چکن اور خنزیر کے گوشت میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں۔ برائلر جس ٹیکنالوجی سے پیدا کیا گیا اس میں خنزیر کے ماڈل کو ہی فالو کیا گیا تھا۔ اس تحقیق کے سامنے آتے ہی اس پر پابندی لگا دی گئی اور ڈاکٹر جونز کو نفسیاتی مریض قرار دے کر ذہنی امراض کے ہسپتال میں ڈال دیا گیا۔ نومبر 2015 میں ڈاکٹر سٹورٹ جونز کا اسی ہسپتال میں پراسرار حالات میں انتقال ہوگیا۔ اگر یہ تحقیق منظر عام پر آجاتی تو مغرب کی ملٹی بلین ڈالر برائلر چکن انڈسٹری تباہ ہوجاتی۔ اس انڈسٹری کے بَل پر انہوں نے مسلم ممالک میں اپنے ایجنٹس کو جیسے ارب پتی کیا، وہ سلسلہ بھی ختم ہوجاتا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسلمان حرام گوشت کھا کے جن روحانی امراض کا شکار ہو رہے ہیں اس سے نجات مل جاتی۔انہی دنوں تل ابیب یونیورسٹی میں کدّو کے خواص پر ایک ریسرچ پیش کی گئی۔
ڈاکٹر موشےڈیوڈ جو پولینڈ سے ہجرت کرکے اسرائیل میں آئے تھے، وہ پچھلے بائیس برس سے کدّو کے خواص پر تحقیق کررہے تھے۔ 2014 کے موسم گرما میں یہ تحقیق مکمل کرکے یونیورسٹی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگ میں پیش کی گئی۔ اس ریسرچ پیپر میں یہ انکشاف کیا گیا کہ کدّو ایک ایسی مکمل غذا ہے جس کی مثال کسی اور غذا میں نہیں ملتی۔ اگر ایک انسان روزانہ دو وقت کدّو کھائے تو اس کی غذائی ضروریات بالکل پوری ہوجاتی ہیں۔ کدّو میں ایسے اجزاء شامل ہیں جو انسان کو ہر قسم کی بیماری سے بچا لیتے ہیں۔ کینسر اور ایڈز کے مریضوں کو تجرباتی طور پر ایک مہینہ کدّو کھلائے گئے تو وہ بالکل بھلے چنگے ہوگئے۔ کدّو کے جوہر سے ہر قسم کی بیماری کے علاج کی ویکسین تیار کرنے کا تجربہ بھی کیا گیا اور نتائج حیران کن تھے۔ کسی بھی بیماری کے آخری سٹیج کے مریض کو بھی کدّو ویکسین لگائی گئی تو وہ ایک دن کے اندر پوری طرح صحت مند ہوگیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ڈاکٹر موشے ڈیوڈ کو بھی اس کے بعد منظر عام سے غائب کردیا گیا۔ تل ابیب ٹائمز میں ڈاکٹر ڈیوڈ کی بیوی مارشا ڈیوڈ کا انٹرویو بھی چھپا جس میں انہوں نے اپنے خاوند کی پراسرار گمشدگی پر سوالات اٹھائے اور اس کا تعلق ان کی ریسرچ سے جوڑتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اصل حقائق کو سامنے لایا جائے۔ یہ معاملہ بھی بعد میں وقت کی گرد میں گم ہوگیا۔ اس ریسرچ کو اگر آفیشلی طور پر سامنے لایا جاتا تو اسلام کی حقّانیت کھل کر پوری دنیا کے سامنے واضح ہوجاتی اور یہود و ہنود کا کفر روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتا۔درج بالا دو واقعات سے ہر مسلمان مرد و زن پر لازم ہے کہ وہ اس تحریر کو شئیر کرے اور اپنے مسلمان بھائی بہنوں کو حرام کھانے سے بچائے اور کدّو کے فوائد سے رو شناس کرائے۔ جزاکم اللہ
https://bit.ly/2vOf9KV
 

سید عمران

محفلین
نہ جانے آج کل یہ رجحان کہاں سے چل نکلا ہے کہ فارمی مرغی کے گوشت کو بلاوجہ سور کے گوشت سے تشبیہ دی جارہی ہے۔۔۔
اس سلسلے میں وقت کے جید علماء کرام سے رجوع کریں، عوام کو بلاوجہ حلال کے چیزوں کے بارے میں شکوک و شبہات میں نہ ڈالیں۔۔۔
البتہ اگر اس میں صحت سے متعلق نقصان دہ عناصر پائے جاتے ہیں تو مستند تحقیق کے ساتھ کسی ماہر فن سے اس کا اعلان کروایا جاسکتا ہے۔۔۔
دوسری بات یہ کہ نہ تو کدو کوئی ایسی نایاب شے ہے نہ اس سے متعلق ریسرچ کے لیے ایسے ساز و سامان کی ضرورت ہے جو نہایت نایاب یا بیش قیمت ہو کہ کوئی اسے حاصل نہ کرسکتا ہو ۔۔۔
اس لیے سمجھ میں نہیں آتا کہ اس تحقیق کی وجہ سے کسی کو اغوا وغیرہ کروایا جائے۔۔۔
یہ ایک عام سبزی ہے اور کوئی بھی ماہر فن اس پر تحقیق کرسکتا ہے!!!
 

دعا سحر

محفلین
یہ تحقیق تو ہے اور کئی جگہ اس کو پکانے کے بعد اس میں کیڑے ابلنے لگے ہیں ایسا میری دوست کے پکانے کے بعد بھی پیش آیا ہے ایک واقعہ ۔۔۔
 

سید رافع

محفلین
مسلمان خنزیر نما خوراک کھانے کے عادی ہوں گے اور یہی سبب ہوگا کہ وہ بتدریج دین سے دور ہوتے جائیں گے۔

دین سے دور تو ساری دنیا ہے۔ افراتفری تو مڈل ایسٹ میں ہند سے زیادہ ہے۔ یورپی مسلمان دین میں ہند کے مسلمانوں سے زیادہ دور ہے۔ ان سب کی خوراک مختلف ہے۔ دین سے دوری کی اصل وجہ بینک اور سودی نظام ہے جس نے انسانوں کو قرض میں جکڑ کر اپنا غلام بنا لیا ہے۔
 

دعا سحر

محفلین
دوری کی اور بھی کئی وجوہات ہو سکتیں ہونگی مگر حرام کھانا بھی تو انسان کو اللہ سے اور دین سے دور کرنے میں پیش پیش ہے۔
 
یہ تحقیق تو ہے اور کئی جگہ اس کو پکانے کے بعد اس میں کیڑے ابلنے لگے ہیں ایسا میری دوست کے پکانے کے بعد بھی پیش آیا ہے ایک واقعہ ۔۔۔
ہوسکتا ہے آپ کی دوست نے جو گوشت لیا ہو وہ خراب ہو ۔یوٹیوب تو ویسے ہی الم غلم وڈیو سے بھری پڑی ہے جن کی کوئی سرے سے حقیقت ہی نہیں ہے ۔
 

سید عمران

محفلین
۱) ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔
۲) اسلامی ریاست کا شہری کے مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔
یہ دونوں الگ الگ باتیں ہیں۔۔۔
اگر مسلمانوں کی حکومت کا مذہب سے کوئی تعلق نہ ہو تو حدود، تعزیرات، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، جہاد اور زکوٰۃ کی وصولی وغیرہ جیسے احکاماتِ خداوندی جو اسلامی حکومت کے ذمہ ہیں یہ سارے شعبے تو دنیا سے ختم ہوجائیں گے!!!
 

سید رافع

محفلین
دوری کی اور بھی کئی وجوہات ہو سکتیں ہونگی مگر حرام کھانا بھی تو انسان کو اللہ سے اور دین سے دور کرنے میں پیش پیش ہے۔

فارمی مرغی اگر حلال کمائی سے کما کر کھائیں تو حرام نہیں حلال ہو گا۔ حرام تو سب کو معلوم ہیں اور ہند کی آبادی کی اکثریت تو حلال ہی کھا رہی ہے۔
 

سید عمران

محفلین
یہ تحقیق تو ہے اور کئی جگہ اس کو پکانے کے بعد اس میں کیڑے ابلنے لگے ہیں ایسا میری دوست کے پکانے کے بعد بھی پیش آیا ہے ایک واقعہ ۔۔۔
قربانی کے دنوں میں عام لوگ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ کبھی گائے کے دماغ میں کلبلاتے ہوئے کیڑے نظر آتے ہیں!!!
 

سید رافع

محفلین
یہ دونوں الگ الگ باتیں ہیں۔۔۔
اگر مسلمانوں کی حکموت کا مذہب سے کوئی تعلق نہ ہو تو حدود، تعزیرات، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، جہاد اور زکوٰۃ کی وصولی وغیرہ جیسے احکاماتِ خداوندی جو اسلامی حکومت کے ذمہ ہیں یہ سارے شعبے تو دنیا سے ختم ہوجائیں گے!!!

جی میں نے الگ الگ ہی عرض کی تھیں۔ مطلب ریاست، اسلامی ریاست سے کیونکر مختلف ہے۔
 

دعا سحر

محفلین
مرغی لائی گئی تھی بازار سے انہوں نے بنا کے دی یا پہلے والی دی اس بات کا مجھے علم نہیں بہر حال پکانے کے بعد خراب ضرور ہوئی
 
مرغی لائی گئی تھی بازار سے انہوں نے بنا کے دی یا پہلے والی دی اس بات کا مجھے علم نہیں بہر حال پکانے کے بعد خراب ضرور ہوئی
یہ تو کوئی دلیل نا ہوئی میری بہن ۔ہوسکتا ہے مرغی میں کوئی بیماری ہو جو گوشت پکانے کے بعدخراب ہو گیا ۔مگر آپ اس کو حرام نہیں بول سکتی ۔حرام اور خراب ہونے میں فرق ہے ۔
 

دعا سحر

محفلین
جی بالکل مگر میں نے ایک آرٹیکل بھی پڑھا ہے جس میں یہ سب لکھا گیا ہے ڈاکٹرز کے نام یونیورسٹی اور لیب وغیرہ جو میں نے شئیر بھی کی تھی چند لمحے قبل۔
 

سید رافع

محفلین
جی بالکل مگر میں نے ایک آرٹیکل بھی پڑھا ہے جس میں یہ سب لکھا گیا ہے ڈاکٹرز کے نام یونیورسٹی اور لیب وغیرہ جو میں نے شئیر بھی کی تھی چند لمحے قبل۔

آجکل میڈیکل کے میگزین اور ڈاکٹرز فارماسوئٹیکل کمپنیوں کے ہاتھوں بکے ہوئے ہیں۔ بہترین ڈاکٹرز آپکو کچھ کا کچھ بتا دیں گے حالانکہ وہ سچی تحقیق نہ ہو گی۔یوٹیوب تو خیر چھوڑیں بہترین لکھی گئی کتابیں تک پروپیگینڈا کا حصہ ہے۔ اس موضوع پر اگر نوم چومسکی کی manufacturing consent نظر سے نہ گزری ہو تو پڑھیں۔ کچھ معلوم نہیں کہ یہ کتاب بھی ایک مخصوص دماغ تیار کرنے اور سوچنے کے لیے لکھی گئی ہو۔

اسکے علاوہ ایک تائب امریکی ڈاکٹر نے ایک ریسرچ پر مبنی کتاب selling sickness لکھی ہے۔ قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مواد صحیح ہے اور پروپیگینڈا کا حصہ نہیں۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:

A lot of money can be made from healthy people who believe they are sick. Pharmaceutical companies sponsor diseases and promote them to prescribers and consumers. Ray Moynihan, Iona Heath, and David Henry give examples of "disease mongering" and suggest how to prevent the growth of this practice.​
 
Top