مسلمانوں کے مابین اتحاد کی ضرورت واہمیت

ابن جمال

محفلین
مولانامحمدیوسف صاحبٌ تبلیغی جماعت کےدوسرے امیرعام تھے۔جنہوں نے اس تبلیغی تحریک کو دنیاکے کونے کونے تک پہنچایااوراقطاع عالم میں پھیلایا۔ہوسکتاہے کہ بعض احباب کو تبلیغی جماعت کے بعض امور سےاختلاف ہو۔لیکن تبلیغی جماعت سے امت کوجس قدر فائدہ پہنچاہے اس کی افادیت سے انکارمشکل ہے۔
مولانامحمدیوسفٌ نے انتقال سے پہلے پاکستان میں ہی مسلمانوں کے اندرافتراق وانتشار اوراس کے خطرناک نتائج پر ایک تقریر کی تھی جو پوری کی پوری دردواثر مین ڈوبی ہوئی ہے اورآج جب ہم دیکھتے ہیں کہ دن بدن امت کاانتشاروافتراق بڑھتاجارہاہے۔کبھی علاقائیت کےنام پر ،توکبھی زبان کے نام پر،کبھی مسلکی اختلافات کولے کرآپس مین سرپھٹول ہوتاہے اورکبھی بعض معمولی امور جن کی شریعت میں اہمیت مستحبات ونوافل اورافضل وغیروافضل تک محدود ہے وہ ہمارے لئے اتنے اہم بن جاتے ہیں کہ ہم اس کے لئے امت کوتوڑنے اورایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے سے گریز نہیں کرتے ۔اس تناظر میں مولانا کی تقریر کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔تقریر چونکہ طویل ہے اس لئے جستہ جستہ مقامات سے انتخاب کرکے پیش کررہاہوں۔
امید ہے کہ محفل کے باذوق اوراہل علم قارئین اپنی مثبت آراء سے نوازیں گے۔والسلام

امت کسی ایک قوم اورایک علاقہ کے رہنے والوںکانام نہیں ہے بلکہ سینکڑوں ،ہزاروں قوموں اورعلاقوںسے جڑکرامت بنتی ہے جو کوئی کسی ایک قوم یاایک علاقہ کو اپناسمجھتاہے اوردوسروںکو غیرسمجھتاہے وہ امت کوذبح کرتاہے۔اوراس کے ٹکرے ٹکرے کرتاہے اورحضورۖ کی اورصحابہ کی محنتوںپر پانی پھیرتاہے۔امت کوٹکرے ٹکرے ہوکر پہلے ہم نے خود ذبح کیاہے۔یہودونصاریٰ نے تواس کے بعد کٹی کٹائی امت کوکاٹاہے۔اگرمسلمان پھرامت بن جائیں تو دنیاکی ساری طاقتیں مل کر بھی ان کابال بانکانہیںکرسکیں گے اورراکٹ ان کو نہیں ختم کرسکیں گے۔لیکن اگر وہ قومی اورعلاقائی عصبیتوں کی وجہ سے باہم امت کے ٹکرے کرتے رہے تو خداکی قسم تمہارے ہتھیار اورتمہاری فوجیں تم کونہیں بچاسکیں گی۔
امت ہونے کیلئے اورمسلمانوں کے ساتھ خدائی مدد ہونے کیلئے صرف یہ کافی نہیں ہے کہ مسلمانوں میں نماز ہو،ذکرہو،مدرسہ ہو،مدرسہ کی تعلیم ہو،حضرت علی کاقاتل ابن ملجم ایسانمازی اورایساذاکر تھا کہ جب اس کوقتل کرتے وقت غصہ میں بھرے لوگوںنے اس کی زبان کاٹنی چاہی تو اس نے کہاسب کچھ کرلو لیکن میری زبان مت کاٹو تاکہ زندگی کے آخری سانس تک میں ا سے اللہ کاذکر کرتارہوں۔اس کے باوجود حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ علی کاقاتل میری امت کا سب سے زیادہ شقی اوربدبخت ترین ہوگا۔ مدرسہ کی تعلیم توابوالفضل اورفیضی نے بھی حاصل کی تھی کہ قرآن کی تفسیر بے نقط لکھ دی حالانکہ انہوں نے بھی اکبرکو گمراہ کرکے دین کوبربادکیاتھاتوجوباتیں ابن ملجم اورابوالفضل فیضی میں تھیں وہ امت بننے کیلئے اورخداکی غیبی نصرت کیلئے کافی ہوسکتی ہیں؟
حضرت شاہ اسمٰعیل شہید اورحضرت سید احمد شہیداوان کے ساتھی دینداری کے لحاظ سے بہترین مجموعہ تھے۔اورجب وہ سرحدی علاقہ پہنچے اوروہاں کے لوگوں نے ان کواپنابڑابنالیاتو شیطان نے وہاں کے کچھ مسلمانوں کے دلوں میں یہ بات ڈالی کہ یہ دوسرے علاقہ کے لوگ،ان کی بات یہاں کیوں چلے۔انہوں نے ان کے خلاف بغاوت کرائی،ان کے کتنے ہی ساتھی شہید کردئے گئے اوراس طرح خودمسلمانوں نے علاقائی بنیاد پر امت پنے کو توڑدیا۔اللہ نے اس کی سزا میں انگریزون کو مسلط کیا۔یہ خداکاعذاب تھا۔
یادرکھو!میری قوم اورمیراعلاقہ اورمیری برادری یہ سب امت کوتوڑنے والی باتیں ہیں اوراللہ تعالیٰ کو یہ باتیں اتنی ناپسند ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ جیسے بڑے صحابی سے اس بارے میں جوغلطی ہوئی(جواگردب نہیں گئی ہوتی تو اس کے نتیجہ میں انصار اورمہاجرین میں تفریق ہوجاتی)اس کانتیجہ حضرت سعد کو دنیاہی میں بھگتناپڑا۔روایات میں یہ ہے کہ ان کو جنات نے قتل کردیااورمدینہ میں یہ آواز سنائی
دے رہی تھی اوربولنے والاکوئی نظرنہ آیا۔
قتلناسید الخزرج سعدبن عبادہ
رمیناہ بسھم فلم نخط فوادہ
(الراوی: قتادۃ المحدث: الہیثمی - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحۃاو الرقم: 1/211
خلاصۃ حکم المحدث: قتادۃ لم یدر ک سعدا یضا
الراوی: محمد بن سیرین المحدث: الہیثمی - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة او الرقم: 1/211
خلاصۃ حکم المحدث: ابن سیرین لم یدرک سعد بن عبادۃ)
ہم نے قبیلہ خزرج کے سردار سعد بن عبادہ کو ہلاک کردیا ۔ہم نے اس کو تیر کانشانہ بنایاجوٹھیک اس کے دل پر لگا۔
اس واقعہ نے مثال قائم کردی اورسبق دیاکہ اچھے سے اچھاآدمی بھی اگرقومیت اورعلاقائیت کی بنیاد پر امت پنے کوتوڑے گا تواللہ تعالیٰ اس کوتوڑکے رکھ دے گا۔
یادرکھوامت پنے کو توڑنے والی چیزیں معاملات اورمعاشرت کی خرابیاں ہیں۔ایک فردیاطبقہ جب دوسرے کے ساتھ ناانصافی اورظلم کرتاہے اوراس کا پوراحق اس کو نہیں دیتایااس کوتکلیف پہنچتاہے یااس کی تحقیر اوربے عزتی کرتاہے توتفریق پیداہوتی ہے اورامت پناٹوٹتاہے اسلئے میں کہتاہوں کہ صرف کلمہ اورتسبیح سے امت نہیں بنے گی ۔امت معاملات اورمعاشرت کی اصلاح سے اورسب کاحق اداکرنے اورسب کااکرام کرنے سے بنے گی ۔بلکہ جب بنے گی جب دوسروں کیلئے اپناحق اوراپنامفاد قربان کیاجائے گا۔

امت بننے کیلئے یہ ضروری ہے کہ سب کی یہ کوشش ہو کہ آپس میں جوڑ ہوپھوٹ نہ پڑے۔حضور کی ایک حدیث کا مضمون ہے کہ قیامت میں ایک آدمی لایاجائے گا جس نے دنی امیں نماز،روزہ ،حج وتبلیغ سب کچھ کیاہوگا۔وہ عذاب میں ڈالاجائے گا۔ کیونکہ اس کی کسی بات نے امت میں تفریق ڈالی ہوگی ۔اس سے کہاجائے گاکہ پہلے اپنے اس ایک لفظ کی سزا بھگت لے جس کی وجہ سے امت کونقصان پہنچا۔ اورایک دوسراآدمی ہوگاجس کے پاس نماز،روزہ حج وغیرہ کی بہت کمی ہوگئی اوروہ خداکے عذاب سے بہت ڈرتاہوگا۔ مگر اس کو بہت ثواب سے نوازاجائے گا۔ وہ خود پوچھے گا کہ یہ کرم میرے کس عمل کی وجہ سے ہے اس کو بتایاجائے گاکہ تونے فلاں موقع پر ایک بات کہی تھی جس سے امت میں پیداہونے والاایک فساد رک گیااوربجائے توڑ کے جوڑ پیداہوگیا۔یہ سب اسی لفظ کاصلہ اورثواب ہے۔

یہ امت حضور کے خون اورفاقوں سے بنی تھی اب ہم اپنی معمولی معمولی باتوںپر امت کوتوڑرہے ہیں ۔یادرکھو نمازجمعہ چھوڑنے پر بھی اتنی پکڑ نہیں ہوگی جتنی امت کے توڑنے پر ہوگی۔اگرمسلمانوں میں امت پناآجائے تو وہ دنیا میںہرگز ذلیل نہ ہوں گے۔روس اورامریکہ کی طاقتیں بھی ان کے سامنے جھکیں گی اورامت پناجب آئے گا جب اذلۃ علی المومنین پر مسلمانوں کا عمل ہو ،یعنی ہرمسلمان دوسرے مسلمان کے مقابلے مین چھوٹا بننے اورذلت وتواضع اختیار کرنے کو اپنائے۔
اللہ ورسول نے ان باتوں سے شدت اورسختی سے منع فرمایاہے جن سے دلوں میں فرق پڑے اورپھوٹ کاخطرہ بھی ہو۔دودوچارچار الگ کاناپھوسی کریں ا س سے شیطان دلوں میں بدگمانی پیداکرسکتاہے۔اس سے منع فرمایاگیا اوراس کو شیطانی کام بتایاگیا۔انماالنجویٰ من الشیطن لیحزن الذین آمنو اولیس بضارھم شیئاالاباذن اللہ ،اسی طرح تحقیراوراستہزاء اورتمسخر سے منع فرمایاگیا۔''لایسخر قوم من قوم عسیٰ ان یکونوا خیراًمنھم''اس سے بھی منع فرمایاگیا کہ دوسرے کی کوئی برائی جومعلوم نہ ہو اس کوتجسس کرکے معلوم کیاجائے اورجوبرائی کسی کی معلوم ہوگئی ہو اس کو دوسروں کو سامنے ذکرکرنے سے منع فرمایاگیاہے اورغیبت کو حرام کیاگیا۔غیبت اس کانام ہے کہ جوواقعی برائی کسی کی معلوم اس کاذکر کسی سے کیاجائے۔ولاتجسسوا ولایغتب بعضکم بعضاً۔یہ تحقیر اورتمسخر اورغیبت وہ سب چیزیں ہیں جوآپس میں تفرقہ پیداکرکے امت کوتوڑتی ہیں۔ ان سب کو حرام قراردیاگیا۔اورایک دوسرے کا اکرام واحترام کرنا جس سے امت جڑتی ہے اس کی تاکید فرمائی گئی اوردوسروں سے اکرام چاہنے سے منع گیاگیا۔کیونکہ اس سے امت بنتی نہیں بگڑتی ہے۔
ہرنبی کو ایک ایسادعادی جاتی تھی کہ جس وقت وہ دعامانگیںگے اللہ وہ کردیں گے۔یہ دعااس نبی کی محنت کے بدلہ میں دی جاتی تھی۔سارے نبیوں نے اپنی قوم یاامت کے متعلق بددعائیں اوراللہ تعالیٰ نے ان کو فوراًقبول فرمالیا۔حضوراکرمۖ کو بھی دعامحنت والی عطاء فرمائی لیکن حضورۖ نے وہ دنیا میں نہیں مانگی بلکہ اس کوپوری امت کے آخرت کے مسائل حل کرنے کیلئے محفوظ رکھا۔فرمایاکہ سب اپنی اپنی دعاکرگئے لیکن میں اپنی محنت والی دعاکوآخرت میں لے جارہاہوں۔وہی شفاعت ہے۔آپ نے اپنی قبولیت والی دعاکوبھی امت کی ابدی زندگی کیلئے محفوظ فرمادیا۔نہ اپنے لئے کچھ مانگانہ اپنے خاندان یاصحابہ کیلئے اسی طرح حج کی دعائوں میںبھی سوائے امت کیلئے کسی اورکیلئے کچھ نہ مانگا۔یہ نہ مانگا کہ حسین قتل نہ کئے جائیں حضرت عثمان شہید نہ کئے جائیں اورچین کی زندگی گزاریںبلکہ ان دونوں کوتواس کی خبردے دی گئی ۔ساری امت کیلئے قربانی دیتے رہے ۔حضرت امام حسین جن کے ہاتھوں قتل ہوئے،حضرت علی قتل ہوئے،حضرت عثمان قتل ہوئے۔اس کو توپی گئے اورساری امت میں ان کے قاتلوں کو بھی شامل کرکے پوری امت کی دعامانگ گئے۔(خطبات حضرت مولانا یوسف صاحب ص26،میدان عرفات میں حضرت مولانا محمد یوسف صاحب کاخطاب،یوم عرفہ 9ذی الحہ،1384ھجری)
اپنے اوراپنے خاندان والوں کے بارے میں آپ نے ہرقسم کی تاکلیف برداشت کرکے حج والی دعامانگی تو وہ بھی ساری امت کیلئے ہی مانگی۔آپ کو اپنی امت سے بہت زیادہ محبت اورتعلق تھا۔آج دین کے دشمن بے انتہامال خرچ کرکے امت کواسلام سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں۔امت اعمال توچھوڑرہی ہے۔لیکن اب بھی دین چھوڑنے پر تیارنہیں۔یہ برکت اورصدقہ ہے ان دعائوں کا جوآپ امت کیلئے کرگئے ہیں۔ایک مرتبہ حضرت عائشہ نے دعاکی درخواست کی ،آپنے دعادی۔حضرت عائشہ اس دعاکو سن کوخوشی میں لوٹ پوٹ ہوگئیںاورکہامجھ کویہ دعابہت پسند آئی۔حضورۖ نے فرمایا اے عائشہ،میںیہ دعاہرنماز کے بعد اپنی امت کیلئے روزانہ کرتاہوں۔حضرت عائشہ کو وہ دعاعمر میں ایک مرتبہ دی اورامت کیلئے وہ دعاروزانہ ہرنماز کے بعد۔(المصدرالسابق)

مسلمانوں میں جواس وقت ایک دوسرے کو گمراہ اورکافر کہنے کا سلسلہ چل پڑاہے اورجس کی وجہ سے ہرفرقہ دوسرے فرقہ کو اورمسلک والوں گمراہ سمجھتاہے جس کی وجہ سےآپسی منافرت پیداہوتی ہے اوردل میں بغض وکینہ بھرارہتاہے ایسے حضرات سے گزارش ہے کہ خدارا ذیل میں امام ابوالحسن اشعریٌ کے کلام اورابن تیمیہ کی بات اورحافظ ذہبی کی بات بغورپڑھیں اورسمجھیں اوردوسروں کو کافروگمراہ قراردینے کے مشغلہ سے بازآئیں۔
حافظ ذہبی سیراعلام النبلا میں امام ابوالحسن اشعری کے ترجمہ میں لکھتے ہیں۔ رایت للاشعری کلمۃ اعجبتنی وھی ثابتۃ رواھاالبہیقی، سمعت اباحازم العبدوی،سمعت زاہر بن احمد السرخسی یقول :لماقرب حضوراجل ابی الحسن الاشعری فی داری ببغداد،دعانی فاتیتہ ،فقال،اشھد علی انی لااکفر احدا من اھل القبلہ ،لان الکل یشیرون الی معبود واحد،وانما ھذاکلہ اختلاف العبارات۔
قلت(الذہبی)وبنحوھذاادین،وکذاکان شیخناابن تیمیہ فی اواخرایامہ یقول:انالااکفر احدامن الامۃ ،ویقول قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم،لایحافظ علی الوضو الامومن ،فمن لازم الصلوات بوضو فھو مسلم۔وھویدعو،ویستغفر لکل من طلب الحق باخلاص،ویرجولہ الرحم فمن ذلک قولہ :فکل من قصدالحق من ھذہ الامۃ فاللہ یغفرلہ ،اعاذنااللہ من الھوی والنفس(سیراعلام النبلا 15/88)
امام ابوالحسن اشعری کی ایک بات مجھے بہت اچھی لگی اوراس بات کو امام بیہقی نے روایت کیاہے زاہربن احمد السرخسی کہتے ہیں کہ جب ان کے انتقال کاوقت قریب آیاتوانہوں نے مجھے بلایااورکہاکہ تم گواہ رہناکہ میں اہل قبلہ میں سے کسی کوبھی کافرنہیں کہتاہوں،اس لئے کہ تمام ایک ہی معبود کی جانب اشارہ کرتے ہیں اوریہ سب الفاظ کااختلاف ہے۔(یہاں پرعربی کایہ شعرذکرکئے بغیرچارہ کارنہیں ہے کہ
عباراتناشتی وحسنک واحد
وکل الی ذاک الجمال یشیر
میں کہتاہوں کہ میری بھی یہی رائے ہے۔اورامام ابن تیمیہ بھی اپنی زندگی کے آخری دور میں کہتے ہیں میں امت میں سے کسی کو کافر نہیں کہتاہوں اور(دلیل میں)رسول پاکۖ کاارشاد نقل کرتے تھے کہ وضو پر محافظت مومن ہی کرتاہے توجونمازوں کی پابندی کرے وہ مسلمان ہے۔علاوہ ازیں وہ ہراس شخص کیلئے جواخلاص کے ساتھ سچائی اورحق کا طلبگار ہو اس کیلئے دعااوراستغفار کیاکرتے تھے اور(جناب حق سے)رحمت کی امید رکھتے تھے اسی سلسلے میں ان کا یہ بھی قول تھاکہ جوکسی نے بھی اس امت میں سے حق کی نیت کی ہے اللہ اس کی مغفرت فرمائے گا۔اللہ ہم سب کو خواہشات اورنفس کی پیروی سے بچائے۔
علاوہ ازیں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جس طرح ہم دوسرے مسلک والوں کے قول وفعل کو تعجب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اسی طرح دوسرے بھی آپ کے قول وفعل کو تعجب کی نگاہ سے دیکھتے ہوں گے۔چنانچہ حافظ ذہبی امام ابن قدامہ کے بارے میں امام ابوشامہ کا قول کان اماماعلمافی العلم والعمل،صنف کتباکثیرا،لکن کلامہ فی العقائد علی الطریق المشہور عن اھل مذہبہ ،فسبحان من لم یوضح الامر فیھاعلی جلالتہ ومعرفتہ بمعانی الاخبار
ابوشامہ کے قول کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ علم اورعمل میں اتنے بڑے امام تھے کتاب اللہ اوراحادیث رسول کے معانی اورمدلولات سے واقف تھے۔لیکن باوجود اس کے ان کا کلام عقائد میں اپنے اہل مذہب کے طریقہ پر ہے۔پاک ہے وہ ذات جس نے جلالت علمی اوراحادیث کے معانی سے باخبر ہونے کے باوجود ان پر حقیقت حال کوواضح نہیں ہونے دیا۔
اس پر حافظ ذہبی کہتے ہیں۔
قلت:ھووامثالہ متعجب منکم مع علمکم وذکائکم کیف قلتم:وکذاکل فرقہ تتعجب من الاخری،ولاعجب فی ذلک،ونرجو لکل من بذل جھدہ فی تطلب الحق ان یغفرلہ من ھذہ الام المرحوم۔(سیراعلام النبلائ39/22))
میں((ذہبی)کہتاہوں وہ ((بن قدامہ)اوران جیسے تم سے تعجب کرتے ہیں کہ باوجود اس علم وفہم کے تم (ایسے عقائد ونظریات )کے کیوں قائل ہوئے۔اسی طرح ہرفرقہ دوسرے فرقہ (کے عقائد ونظریات )کو تعجب سے دیکھتاہے جب کہ اس میں تعجب اورحیرانی کی کوئی بات نہیں۔اورہم امت مرحومہ میں سے ہراس شخص کیلئے جس نے حق کی تلاش اورطلب میں جدوجہد کیاہے اس کے بارے میں امید رکھتہے کہ اس کی مغفرت اوربخشش ہوجائے گی۔
 

arifkarim

معطل
اتحاد کیسے پیدا ہوگا جب اسوقت بے تحاشا فرقے، جماعتیں، مسلک اپنی الگ تعلیم اسلام کیساتھ موجود ہیں؟
 

ابن جمال

محفلین
اسی لئے اوپر امام ابوالحسن اشعری کاحوالہ دیاگیاہے جن کو حنفی،شافعی ،مالکی اپنامقتداتسلیم کرتے ہیں۔دوسری جانب امام ابن تیمیہ کابھی حوالہ دیاگیاہے جن کو حنبلی اور موجودہ اہل حدیث حضرات اپنامقتداتسلیم کرتے ہیں تاکہ ان کی طرح وہ بھی کشادہ ولی اوروسعت ظرفی سے کام لیں۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ امت کوتوڑناکتنابڑاگناہ ہے اورجن چیزوں پر ہم امت کے درمیان تفریق اورانتشار پیداکرتے ہیں وہ کتنی معمولی چیزیں ہیں۔اگریہ بات ہماری سمجھ میں آجائے توانشاء اللہ مختلف مسالک کے ہوتے ہوئے بھی اتحاد ہوجائے گا۔
ویسے یاد رکھئے اتحاد اس کانام نہیں کہ تمام لوگ ہرہربات میں متفق ہوجائیں۔اتحاد نام اس کاہے کہ اپنے اختلافات کو باقی رکھتے ہوئے ملی اورقومی مسائل پر اتحاد کامظاہرہ کریں۔
 
Top