محمد ندیم پشاوری
محفلین
عالمی سطح پر دہشت گردی، دغا بازی اور ہوس کی انتہا کا دوسرا نام ’’امریکہ‘‘ ہے۔بربریت کی انتہا کرنے والا یہ وحشی جانوراور سفاک درندہ انسان نما لباس اوڑھ مسلسل اپنے آپ کو مہذب ترین انسان باور کرانے کی کوشش میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہوا ہے اور انسانیت کے تحفظ کا ایجنڈا لے کر دنیا کو سر پر اُٹھا رکھا ہے جبکہ ایک ایک کر کے پہلے تمام اسلامی دنیا میں داخلی انتشار و فسادات کو جنم دینے کے بعد اُنہیں مسمار کرنے کی خواہش نے انکھوں کی بصارت کے ساتھ ساتھ ذہنی بصیرت کو بھی ختم کر دیا ہے۔ اپنے ہتھیاروں کی نمائش، تشہیر اور سالہا سال دوسرے ممالک سے زیادہ سے زیادہ ’’ریونیو‘‘بزور بازو بٹورنے کی دوڑ میں سب سے آگے نکل جانے کے لیے اور ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کے تحت تمام اسلامی دنیا پرجنگ مسلط کئے ہوئے ہے۔ ’’جوہری ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کا خطرہ ہے‘‘ کے جواز کا ڈھونگ رچا کر انسانی حقوق کے تحفظ کا عَلم ہاتھ میں لئے ہوئے ملکوں و ریاستوں پر چڑھ دوڑتا ہے جس کے نتیجے میں انسانی حقوق کی پامالی کے بیسیوں ریکارڈ قائم کر چکا ہے ۔
میرے نقطۂ نظر سے اُن جدید دانشوروں کا اختلاف قطعی اور یقینی ہے جو اِس شیطنت اور حیوانیت کو ترقی کا معیارگردانتے ہیں۔ اس قسم کے دانشوروں کے لیے امپورٹڈ نیوز [درآمد شدہ خبریں] قرآن و حدیث کا درجہ رکھتی ہے ہیں اور اِسے ماخذ کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔’’جوشواکی‘‘ ایسا ہی ایک ’’ایمپورٹ شدہ ‘‘ کردار ہے جو بد مست ہاتھی کے پاگل پن، ذاتی اَنا اور مذموم مقاصد کی نا صرف نشاندہی بلکہ ترجمانی کرتا ہے۔
’’جوشواکی‘‘1978ء کو امریکہ کے ایک ریاست ’’اوکلوہاما‘‘ جو دس ہزار افراد پر مشتمل ہے کے ایک قصبہ ’’گتھری‘‘ میں پیدا ہوا ۔محب وطن اور ذمہ دار شہری کے طور پر پروان چڑھتا گیا اور بچپن ہی سے حکومت کا احترام اپنے صدر پر مکمل بھروسہ اور اعتماد کرنا سکھایا گیا۔بچپن سے اسلحہ کا شوقین اور بندوق چلانے کا عادی تھا۔ وقت معمول کے مطابق گزرتا گیا لیکن دھیرے دھیرے مفلسی اور لاچاری نے آگھیرا اور ایسا گھیرا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ایک شادی شدہ دو بچوں کے باپ کو فقط ایک ہزار دو سو(۱۲۰۰) ڈالر کے عوض ’’پروائیویٹ‘‘ [نان کمیشنڈ میں سب سے نچلا عہدہ]کے طور پر آرمی جوائن کرنے پر مجبور کر دیا۔’’جوشواکی‘‘ نے فوج میں بھرتی ہونے کا آغاز اس نظرئیے سے کیا تھا کہ فوج میں رہ کر امریکی براعظم میں ہی کسی نہ کسی جگہ پل سازی کا کام کروں گا لیکن امریکن ملٹری نے’’جواشواکی‘‘ اور دوسرے سیاہ فام، لاطینی امریکیوں کو دھوکہ دے کر امریکن ملٹری کمبیٹ سیکشن کا حصہ بنا کر ٹریننگ کے لئے بھیج دیا جو ان کا ایک نفرت انگیز اقدام تھا۔ ٹریننگ کے دوران دو چیزیں خصوصی طور پر پڑھائی گئی ایک امریکن آرمی کا موٹو ’’پہلے آرمی، پھر خدا اور پھر آپ کی فیملی!‘‘ اور دوسری چیز یہ کہ ’’اس کرۂ ارض پر صرف اور صرف امریکی ہی ایک مہذب قوم ہیں اور صرف امریکن آرمی ہی دنیا میں ڈسپلن قائم کرنے کی اہل ہے جو لوگ امریکی نہیں وہ سب دہشت گرد ہیں۔11ستمبر 2001ء کو جن لوگوں نے ہمارے ملک پر حملہ کیا تھا وہ سب کے سب مسلمان تھے اور سارے مسلمان اور دہشت گرد موت کے سزا وار ہیں‘‘۔ جبکہ ٹریننگ کے دوران غیر امریکیوں کو مخاطب کرنے کے لیے ’’لعین‘‘، ’’صحرائی‘‘ اور ’’حبشی‘‘ جیسے الفاظ بھی استعمال کیے جاتے رہے۔ آخر کار گیارہ ماہ گزرنے کے بعد ٹریننگ ختم ہوئی اور پوسٹنگ ابھی باقی تھی۔ اچانک 20 مارچ 2003ء کو 36 ملکوں کو ہمنوا بنا کر قریباً چار لاکھ افواج کے ساتھ صدر جارج ڈبلیو بش نے عراق پر چڑھائی کا اعلان کر دیا ابھی جنگ کے صرف تین ہفتے ہی گزرے تھے کہ ’’جوشواکی‘‘ کو انتظامیہ سے بحث و تمحیص اور جھگڑا تک کی نوبت آنے کے بعد عراق کے جنگ میں دھکیل دیا گیا کیونکہ وہ کسی صورت اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر جنگ پر جانے کے لئے راضی نہیں تھا اور نہ ہی جنگ کرنے کے لیے وہ آرمی میں برتی ہونا چاہتا تھا۔ عراق کی جنگ میں ’’جوشواکی‘‘ نے رمادی، فلوجہ، حبانیہ اور القائم میں تقریباً ساڈھے چھ مہینے گزارے۔ اس طویل مگر مختصر عرصے میں ’’جوشواکی‘‘ پر امریکہ کی درندگی، سفاکی ، بربریت اور پاگل پن عیاں ہو گیا اور ایک محب وطن شہری کے دل میں اب اپنے وطن اور صدر مملکت کے لئے انتہائی حد تک نفرت کے جذبات کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔نومبر 2003ء کو ڈیوٹی سے مختصر چھٹی ملتے ہی ’’جوشواکی‘‘ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کینیڈا بھاگ گیا کیونکہ اُسے اپنے ملک کے سرکاری وکیل کی طرف سے یہ بتا جا چکا تھا کہ ’’فوج سے بھگوڑا ہونے کے بعد یا تو واپس فوج بھیج دیا جاتا ہے یا ساری عمر جیل میں گزارنی پڑتی ہے اور اگر جنگ کے دوران کوئی فوج سے بھگوڑا ہو جائے تو اُسے فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کر کے گولی ما دی جاتی ہے‘‘۔ کینڈا پہنچتے ہی ’’جوشواکی‘‘ نے امیگریشن اینڈ ریفیوجی بورڈ کے پاس ریفیوجی سٹیٹس کی درخواست جمع کروائی جو 20اکتوبر 2006ء کو مسترد کر دی گئی بعد ازاں 4 جولائی 2008ء کو کیس پر نظر ثانی کر کے ریفیوجی سٹیٹس دے دیا گیا۔ اور آج وہ کینیڈا میں اپنی بیوی، تین بیٹوں اور ایک بیٹی [ذاکری، آدم، فلپ، اَنّا] کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے۔
’’جوشواکی‘‘ کا کہنا ہے کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں تھا کہ ہمارا دشمن کہاں ہے، ہمیں اصل دشمن کی کوئی خبر نہ تھی کہ وہ کہاں ہے، کون ہے، اس کا تجربہ کیا ہے اور اس کی جنگی مہارت کیا ہے ۔ ہم تو عراق میں سب لڑنے والوں کو محض ڈھورڈنگر سمجھتے تھے اور خیال کیا کرتے تھے کہ وہ انسان نہیں بلکہ کوئی پست تر حیوان ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم عراق میں جس جگہ بھی گئے عراقی پروفیشنل سوجھ بوجھ میں امریکن ملٹری سے کئی ہاتھ آگے نکلے۔ جب ہمیں دہشت گردی کی علامات کا کہیں سامنا نہ ہوا تو ہمارا یقین اس جنگ کی کاز پر سے اٹھنے لگا۔کسی باقاعدہ حربی معرکے میں چونکہ ہمارا کوئی حقیقی دشمن ہی نہیں تھا اس لیے ہم اپنا غصہ اور جھنجھلاہٹ چھاپے مار مار کر پوری کر لیا کرتے تھے اول اول ان چھاپوں نے ہمیں مواقع فراہم کئے رکھا کہ ہم لوگوں کو زد و کوب کریں، ان کی قیمتی اشیاء چرالیں اور ان کی ملکیت میں ایسی چیزوں کو برباد کر دیں جو ہماری استعمال کی نہیں۔
عراق میں عرصۂ قیام کے دوران میں نے تقریباً دو سو سے زائد چھاپے مارے لیکن مجھے اِن چھاپوں کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آئی کیونکہ جب بھی ہم کسی گھر کے دروازے کو اڑانے کے لیے بارود لگاتے اور اندرونِ خانہ ہر شے کو تہہ و بالا کر دیتے اس مار دھاڑ کا کوئی بھی جواز مجھے مطمئن نہ کر سکا ۔ میں نے قیامِ عراق کے دوران امریکی سولجرز کا عراقی بچوں، بوڑھوں اور خصوصاً عورتوں کو بلا کسی جھجک ایسے مارتے پیٹتے دیکھا جو معمول کی کسی بھی لڑائی میں کوئی بھی سولجر روا نہیں رکھتا اور نہ کوئی مذہب حتی کہ انسانیت اس کی اجازت دیتا ہے۔
اس جنگ میں امریکی اور عراقی افسروں اور جوانوں نے جو قربانیاں دیں اس کا جواز صرف اسی صورت میں نکل سکتا ہے جب ہمیں کی ہمہ گیر تباہی والے ہتھیاروں کا سراغ مل جاتا، ہم ان کے پھیلاؤ کو روک دیتے اور بنی نوع انسان کو کسی عظیم غارت گری سے محفوظ بنا دیتے!۔۔۔ لیکن مجھے اس جنگ میں نہ تو خلافِ قانون منشیات کا کوئی نام و نشان ملا اور نہ کسی ہمہ گیر تباہی کے ہتھیار(Weapon of Mass Destruction) دیکھنے کا اتفاق ہوا اور نہ کوئی اور مثبت پہلو اس جنگ کا نظر آیا۔ تب جا کے مجھے احساس ہوا کہ مسلمان دہشت گرد نہیں بلکہ ہم امریکی دہشت گرد ہیں جنہوں نے ساری دنیا میں دہشت گردی پھیلا رکھی ہے۔
’’جوشواکی‘‘ کا مزید کہنا ہے کہ ہم چونکہ امریکی تھے اس لیے ہمیں یہ بتا دیا گیا تھا کہ ہم جس گھر میں چاہے گھس سکتے ہیں ،چھاپے مار سکتے ہیں اور جہاں چاہیں دشمن کی کاروائی سے چھپ بھی سکتے ہیں ہم پر روک ٹوک کرنے کا کسی کو حق نہیں پہنچتا۔
اس بات میں بھی کوئی صداقت نہیں تھی کہ صدام حسین کے قبضے میں ہمہ گیر تباہی والے ہتھیار موجود تھے اور یہ بات بھی بالکل جھوٹ اور لغو تھی کہ عراق کا ہر مرد، عورت اور بچہ ایک ایسا بد کردار دہشت گرد ہے جسے امریکی نفرت، امریکی بمباری اور امریکی قبضے کی ضرورت ہے۔
میں نے کینڈا جا کر اپنی داستان بیان کرنے کے لئے مساجد کو ترجیح دی پہلی بار تو مجھے اندیشہ تھا کہ مسلمان مجھ سے نفرت کریں گے اور الزام لگائیں گے لیکن میں نے جس مسجد میں بھی جا کر کوئی تقریر کی نہ صرف میرا بلکہ میری ساری فیملی کا پر تپاک خیر مقدم کیا گیا۔
’’جوشواکی‘‘ سے دوبارہ امریکہ جانے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ’’میں دوبارہ امریکہ نہیں جانا چاہوں گا کیونکہ میں اپنے وطن کے لئے گم ہو چکا ہوں اور امریکہ میرے لیے گم ہو گیا ہے۔’’جوشواکی‘‘عراقی جنگ میں دوبارہ شرکت کے حوالے سےاپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ میں ایسی جنگ میں شریک نہیں ہونا چاہتا جو غیر منصفانہ ہو اور یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ ایسی جیل میں گلتا سڑتا رہوں جو اپنے ہی وطن کے اندر ہو۔ میں یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ میرا جرم یہ بھی بتایا جائے کہ میں نے عراق کی اس قابلِ نفرت جنگ میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔ چنانچہ میرے لئے بھگوڑا ہونے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں تھا۔ ہاں!’’میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے کو تیار ہوں بشرطیکہ وہاں صدر امریکہ بھی میرے ساتھ ہوں کیونکہ وہ بھی ہماری طرح کے عام آدمی ہیں اور میری طرح سزا کے حقدار ہیں۔
اقرار جرم کا اعتراف کرتے ہوئے ’’جوشواکی‘‘ کہتے ہیں ’’میں نے عراق میں جو کچھ کیا اس پر شرمندہ ہوں اور وہ تمام بے قصو سویلین شہری جو ہمارے ہاتھوں ہلاک ہوئے ، زخمی ہوئے یا کسی بھی اور طرح کا ظلم و ستم ان پر ہوا تھا اس پر بھی نادم ہوں۔ یہ خیال کہ میں اپنے سینئرز کا حکم بجالا رہا تھا اور مجبور تھا تو نہ تو یہ خیال میرے کرب میں کوئی کمی کرتا ہے اور نہ ہی میرے ڈراؤنے خوابوں کو ختم کرتا ہے۔
اگر مجھے امریکی صدر کے ساتھ روبرو بات کرنے کا موقع ملے تو میں ان کو بتاؤں گا کہ وہ اپنے ملک کے آئین و قوانین پر نظر ثانی کریں۔ ان کو یہ بتانے کی بھی اشد ضرورت ہے کہ جب میں نے عراقی جنگ میں حصہ لیا تھا تو یہ دیکھا تھا کہ آرمی کے افسروں اور جوانوں نے ان اقدار کو پارہ پارہ کر دیا تھا جن کا پرچم بلند رکھنے کا دعویٰ ہم آئے روز کرتے رہتے ہیں اگر امریکہ کے صدر یہ جاننا چاہیں کہ میں کن اقدار کی بات کر رہا ہوں تو میں ان کو کہوں گا کہ وہ 1776ء کے امریکی اعلانِ آزادی کے اولین الفاظ کو ہی یاد کر لیں جو یہ تھے: ’’ہم یہ ساری سچائیاں سر بلند رکھنا چاہتے ہیں جو یہ کہتی ہیں کہ تمام انسانوں کو یکساں پید کیا گیا اس لئے بنی نوع انسان برابر ہیں۔ ان انسانوں کو اپنے خالق کی طرف سے یہ عطیہ ارزانی ہوا ہے کہ ان کے بعض حقوق ایسے ہیں جن سے لطف اندوز ہونے کے یکساں مواقع اس خالق کی عطا ہیں۔ مثلا ً زندگی، آزادی، مسرتوں اور خوشیوں کی تلاش۔
میں امریکہ کے لئے اس جنگ کے میدان میں کبھی نہ کودتا اگر مجھے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ میں اس کی فوج کی کرتوتیں اُن اقدار کے خلاف ہوں گی جن کا ذکر میں اوپر ذکر ہو چکا ہے! میں امریکن آرمی سے بھگوڑا ہونے کی معافی کبھی نہیں مانگوں گا۔ میں ظلم اور جبر و اکراہ سے بھاگا تھا اور فوج کو خیر باد کہنا میرے نزدیک عینِ انصاف تھا۔
یہ داستان فقط عراق جنگ کا آئینہ دار نہیں بلکہ اُن تمام جنگوں جو تمام اسلامی دنیا میں شروع کی جا چکی ہیں کی ترجمانی کرتا ہے اور ہر جگہ امریکن سولجرز میں ایسے ہزاروں لاکھوں ’’جوشواکی‘‘ موجود ہوں گے جو فوج سے بھگوڑا اور امریکہ سے بھاگ جانا چاہتے ہیں ۔ عالمگیر امن اور انصاف کے بلند بانگ دعویداروں کی حالت زار قابل دید بھی ہے اور قابل اصلاح بھی ۔ اس جیسی کئی ہزاروں دیگر داستانیں ہیں جو امریکہ کے چہرے سے انسانیت کا نقاب ہٹانے اور ہمارے ہاں اُن ’’جدید دانشوروں‘‘ کی عقل ٹھکانے لگانے کے لیے کافی ہیں جو آئے روز اسلام، مسلمان اور انسانیت کے دشمنوں کے گیت گاتے سنائی دیتے ہیں۔’’جوشواکی‘‘ کے جوتوں میں بیس قدم چلنے سے کسی بھی ’’دانشور ‘‘ پر امریکہ کا مکروہ چہرہ آشکارا ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔
میرے نقطۂ نظر سے اُن جدید دانشوروں کا اختلاف قطعی اور یقینی ہے جو اِس شیطنت اور حیوانیت کو ترقی کا معیارگردانتے ہیں۔ اس قسم کے دانشوروں کے لیے امپورٹڈ نیوز [درآمد شدہ خبریں] قرآن و حدیث کا درجہ رکھتی ہے ہیں اور اِسے ماخذ کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔’’جوشواکی‘‘ ایسا ہی ایک ’’ایمپورٹ شدہ ‘‘ کردار ہے جو بد مست ہاتھی کے پاگل پن، ذاتی اَنا اور مذموم مقاصد کی نا صرف نشاندہی بلکہ ترجمانی کرتا ہے۔
’’جوشواکی‘‘1978ء کو امریکہ کے ایک ریاست ’’اوکلوہاما‘‘ جو دس ہزار افراد پر مشتمل ہے کے ایک قصبہ ’’گتھری‘‘ میں پیدا ہوا ۔محب وطن اور ذمہ دار شہری کے طور پر پروان چڑھتا گیا اور بچپن ہی سے حکومت کا احترام اپنے صدر پر مکمل بھروسہ اور اعتماد کرنا سکھایا گیا۔بچپن سے اسلحہ کا شوقین اور بندوق چلانے کا عادی تھا۔ وقت معمول کے مطابق گزرتا گیا لیکن دھیرے دھیرے مفلسی اور لاچاری نے آگھیرا اور ایسا گھیرا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ایک شادی شدہ دو بچوں کے باپ کو فقط ایک ہزار دو سو(۱۲۰۰) ڈالر کے عوض ’’پروائیویٹ‘‘ [نان کمیشنڈ میں سب سے نچلا عہدہ]کے طور پر آرمی جوائن کرنے پر مجبور کر دیا۔’’جوشواکی‘‘ نے فوج میں بھرتی ہونے کا آغاز اس نظرئیے سے کیا تھا کہ فوج میں رہ کر امریکی براعظم میں ہی کسی نہ کسی جگہ پل سازی کا کام کروں گا لیکن امریکن ملٹری نے’’جواشواکی‘‘ اور دوسرے سیاہ فام، لاطینی امریکیوں کو دھوکہ دے کر امریکن ملٹری کمبیٹ سیکشن کا حصہ بنا کر ٹریننگ کے لئے بھیج دیا جو ان کا ایک نفرت انگیز اقدام تھا۔ ٹریننگ کے دوران دو چیزیں خصوصی طور پر پڑھائی گئی ایک امریکن آرمی کا موٹو ’’پہلے آرمی، پھر خدا اور پھر آپ کی فیملی!‘‘ اور دوسری چیز یہ کہ ’’اس کرۂ ارض پر صرف اور صرف امریکی ہی ایک مہذب قوم ہیں اور صرف امریکن آرمی ہی دنیا میں ڈسپلن قائم کرنے کی اہل ہے جو لوگ امریکی نہیں وہ سب دہشت گرد ہیں۔11ستمبر 2001ء کو جن لوگوں نے ہمارے ملک پر حملہ کیا تھا وہ سب کے سب مسلمان تھے اور سارے مسلمان اور دہشت گرد موت کے سزا وار ہیں‘‘۔ جبکہ ٹریننگ کے دوران غیر امریکیوں کو مخاطب کرنے کے لیے ’’لعین‘‘، ’’صحرائی‘‘ اور ’’حبشی‘‘ جیسے الفاظ بھی استعمال کیے جاتے رہے۔ آخر کار گیارہ ماہ گزرنے کے بعد ٹریننگ ختم ہوئی اور پوسٹنگ ابھی باقی تھی۔ اچانک 20 مارچ 2003ء کو 36 ملکوں کو ہمنوا بنا کر قریباً چار لاکھ افواج کے ساتھ صدر جارج ڈبلیو بش نے عراق پر چڑھائی کا اعلان کر دیا ابھی جنگ کے صرف تین ہفتے ہی گزرے تھے کہ ’’جوشواکی‘‘ کو انتظامیہ سے بحث و تمحیص اور جھگڑا تک کی نوبت آنے کے بعد عراق کے جنگ میں دھکیل دیا گیا کیونکہ وہ کسی صورت اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر جنگ پر جانے کے لئے راضی نہیں تھا اور نہ ہی جنگ کرنے کے لیے وہ آرمی میں برتی ہونا چاہتا تھا۔ عراق کی جنگ میں ’’جوشواکی‘‘ نے رمادی، فلوجہ، حبانیہ اور القائم میں تقریباً ساڈھے چھ مہینے گزارے۔ اس طویل مگر مختصر عرصے میں ’’جوشواکی‘‘ پر امریکہ کی درندگی، سفاکی ، بربریت اور پاگل پن عیاں ہو گیا اور ایک محب وطن شہری کے دل میں اب اپنے وطن اور صدر مملکت کے لئے انتہائی حد تک نفرت کے جذبات کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔نومبر 2003ء کو ڈیوٹی سے مختصر چھٹی ملتے ہی ’’جوشواکی‘‘ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کینیڈا بھاگ گیا کیونکہ اُسے اپنے ملک کے سرکاری وکیل کی طرف سے یہ بتا جا چکا تھا کہ ’’فوج سے بھگوڑا ہونے کے بعد یا تو واپس فوج بھیج دیا جاتا ہے یا ساری عمر جیل میں گزارنی پڑتی ہے اور اگر جنگ کے دوران کوئی فوج سے بھگوڑا ہو جائے تو اُسے فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کر کے گولی ما دی جاتی ہے‘‘۔ کینڈا پہنچتے ہی ’’جوشواکی‘‘ نے امیگریشن اینڈ ریفیوجی بورڈ کے پاس ریفیوجی سٹیٹس کی درخواست جمع کروائی جو 20اکتوبر 2006ء کو مسترد کر دی گئی بعد ازاں 4 جولائی 2008ء کو کیس پر نظر ثانی کر کے ریفیوجی سٹیٹس دے دیا گیا۔ اور آج وہ کینیڈا میں اپنی بیوی، تین بیٹوں اور ایک بیٹی [ذاکری، آدم، فلپ، اَنّا] کے ساتھ زندگی گزار رہا ہے۔
’’جوشواکی‘‘ کا کہنا ہے کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں تھا کہ ہمارا دشمن کہاں ہے، ہمیں اصل دشمن کی کوئی خبر نہ تھی کہ وہ کہاں ہے، کون ہے، اس کا تجربہ کیا ہے اور اس کی جنگی مہارت کیا ہے ۔ ہم تو عراق میں سب لڑنے والوں کو محض ڈھورڈنگر سمجھتے تھے اور خیال کیا کرتے تھے کہ وہ انسان نہیں بلکہ کوئی پست تر حیوان ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم عراق میں جس جگہ بھی گئے عراقی پروفیشنل سوجھ بوجھ میں امریکن ملٹری سے کئی ہاتھ آگے نکلے۔ جب ہمیں دہشت گردی کی علامات کا کہیں سامنا نہ ہوا تو ہمارا یقین اس جنگ کی کاز پر سے اٹھنے لگا۔کسی باقاعدہ حربی معرکے میں چونکہ ہمارا کوئی حقیقی دشمن ہی نہیں تھا اس لیے ہم اپنا غصہ اور جھنجھلاہٹ چھاپے مار مار کر پوری کر لیا کرتے تھے اول اول ان چھاپوں نے ہمیں مواقع فراہم کئے رکھا کہ ہم لوگوں کو زد و کوب کریں، ان کی قیمتی اشیاء چرالیں اور ان کی ملکیت میں ایسی چیزوں کو برباد کر دیں جو ہماری استعمال کی نہیں۔
عراق میں عرصۂ قیام کے دوران میں نے تقریباً دو سو سے زائد چھاپے مارے لیکن مجھے اِن چھاپوں کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آئی کیونکہ جب بھی ہم کسی گھر کے دروازے کو اڑانے کے لیے بارود لگاتے اور اندرونِ خانہ ہر شے کو تہہ و بالا کر دیتے اس مار دھاڑ کا کوئی بھی جواز مجھے مطمئن نہ کر سکا ۔ میں نے قیامِ عراق کے دوران امریکی سولجرز کا عراقی بچوں، بوڑھوں اور خصوصاً عورتوں کو بلا کسی جھجک ایسے مارتے پیٹتے دیکھا جو معمول کی کسی بھی لڑائی میں کوئی بھی سولجر روا نہیں رکھتا اور نہ کوئی مذہب حتی کہ انسانیت اس کی اجازت دیتا ہے۔
اس جنگ میں امریکی اور عراقی افسروں اور جوانوں نے جو قربانیاں دیں اس کا جواز صرف اسی صورت میں نکل سکتا ہے جب ہمیں کی ہمہ گیر تباہی والے ہتھیاروں کا سراغ مل جاتا، ہم ان کے پھیلاؤ کو روک دیتے اور بنی نوع انسان کو کسی عظیم غارت گری سے محفوظ بنا دیتے!۔۔۔ لیکن مجھے اس جنگ میں نہ تو خلافِ قانون منشیات کا کوئی نام و نشان ملا اور نہ کسی ہمہ گیر تباہی کے ہتھیار(Weapon of Mass Destruction) دیکھنے کا اتفاق ہوا اور نہ کوئی اور مثبت پہلو اس جنگ کا نظر آیا۔ تب جا کے مجھے احساس ہوا کہ مسلمان دہشت گرد نہیں بلکہ ہم امریکی دہشت گرد ہیں جنہوں نے ساری دنیا میں دہشت گردی پھیلا رکھی ہے۔
’’جوشواکی‘‘ کا مزید کہنا ہے کہ ہم چونکہ امریکی تھے اس لیے ہمیں یہ بتا دیا گیا تھا کہ ہم جس گھر میں چاہے گھس سکتے ہیں ،چھاپے مار سکتے ہیں اور جہاں چاہیں دشمن کی کاروائی سے چھپ بھی سکتے ہیں ہم پر روک ٹوک کرنے کا کسی کو حق نہیں پہنچتا۔
اس بات میں بھی کوئی صداقت نہیں تھی کہ صدام حسین کے قبضے میں ہمہ گیر تباہی والے ہتھیار موجود تھے اور یہ بات بھی بالکل جھوٹ اور لغو تھی کہ عراق کا ہر مرد، عورت اور بچہ ایک ایسا بد کردار دہشت گرد ہے جسے امریکی نفرت، امریکی بمباری اور امریکی قبضے کی ضرورت ہے۔
میں نے کینڈا جا کر اپنی داستان بیان کرنے کے لئے مساجد کو ترجیح دی پہلی بار تو مجھے اندیشہ تھا کہ مسلمان مجھ سے نفرت کریں گے اور الزام لگائیں گے لیکن میں نے جس مسجد میں بھی جا کر کوئی تقریر کی نہ صرف میرا بلکہ میری ساری فیملی کا پر تپاک خیر مقدم کیا گیا۔
’’جوشواکی‘‘ سے دوبارہ امریکہ جانے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا ’’میں دوبارہ امریکہ نہیں جانا چاہوں گا کیونکہ میں اپنے وطن کے لئے گم ہو چکا ہوں اور امریکہ میرے لیے گم ہو گیا ہے۔’’جوشواکی‘‘عراقی جنگ میں دوبارہ شرکت کے حوالے سےاپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ میں ایسی جنگ میں شریک نہیں ہونا چاہتا جو غیر منصفانہ ہو اور یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ ایسی جیل میں گلتا سڑتا رہوں جو اپنے ہی وطن کے اندر ہو۔ میں یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ میرا جرم یہ بھی بتایا جائے کہ میں نے عراق کی اس قابلِ نفرت جنگ میں شرکت سے انکار کر دیا ہے۔ چنانچہ میرے لئے بھگوڑا ہونے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں تھا۔ ہاں!’’میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے کو تیار ہوں بشرطیکہ وہاں صدر امریکہ بھی میرے ساتھ ہوں کیونکہ وہ بھی ہماری طرح کے عام آدمی ہیں اور میری طرح سزا کے حقدار ہیں۔
اقرار جرم کا اعتراف کرتے ہوئے ’’جوشواکی‘‘ کہتے ہیں ’’میں نے عراق میں جو کچھ کیا اس پر شرمندہ ہوں اور وہ تمام بے قصو سویلین شہری جو ہمارے ہاتھوں ہلاک ہوئے ، زخمی ہوئے یا کسی بھی اور طرح کا ظلم و ستم ان پر ہوا تھا اس پر بھی نادم ہوں۔ یہ خیال کہ میں اپنے سینئرز کا حکم بجالا رہا تھا اور مجبور تھا تو نہ تو یہ خیال میرے کرب میں کوئی کمی کرتا ہے اور نہ ہی میرے ڈراؤنے خوابوں کو ختم کرتا ہے۔
اگر مجھے امریکی صدر کے ساتھ روبرو بات کرنے کا موقع ملے تو میں ان کو بتاؤں گا کہ وہ اپنے ملک کے آئین و قوانین پر نظر ثانی کریں۔ ان کو یہ بتانے کی بھی اشد ضرورت ہے کہ جب میں نے عراقی جنگ میں حصہ لیا تھا تو یہ دیکھا تھا کہ آرمی کے افسروں اور جوانوں نے ان اقدار کو پارہ پارہ کر دیا تھا جن کا پرچم بلند رکھنے کا دعویٰ ہم آئے روز کرتے رہتے ہیں اگر امریکہ کے صدر یہ جاننا چاہیں کہ میں کن اقدار کی بات کر رہا ہوں تو میں ان کو کہوں گا کہ وہ 1776ء کے امریکی اعلانِ آزادی کے اولین الفاظ کو ہی یاد کر لیں جو یہ تھے: ’’ہم یہ ساری سچائیاں سر بلند رکھنا چاہتے ہیں جو یہ کہتی ہیں کہ تمام انسانوں کو یکساں پید کیا گیا اس لئے بنی نوع انسان برابر ہیں۔ ان انسانوں کو اپنے خالق کی طرف سے یہ عطیہ ارزانی ہوا ہے کہ ان کے بعض حقوق ایسے ہیں جن سے لطف اندوز ہونے کے یکساں مواقع اس خالق کی عطا ہیں۔ مثلا ً زندگی، آزادی، مسرتوں اور خوشیوں کی تلاش۔
میں امریکہ کے لئے اس جنگ کے میدان میں کبھی نہ کودتا اگر مجھے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ میں اس کی فوج کی کرتوتیں اُن اقدار کے خلاف ہوں گی جن کا ذکر میں اوپر ذکر ہو چکا ہے! میں امریکن آرمی سے بھگوڑا ہونے کی معافی کبھی نہیں مانگوں گا۔ میں ظلم اور جبر و اکراہ سے بھاگا تھا اور فوج کو خیر باد کہنا میرے نزدیک عینِ انصاف تھا۔
یہ داستان فقط عراق جنگ کا آئینہ دار نہیں بلکہ اُن تمام جنگوں جو تمام اسلامی دنیا میں شروع کی جا چکی ہیں کی ترجمانی کرتا ہے اور ہر جگہ امریکن سولجرز میں ایسے ہزاروں لاکھوں ’’جوشواکی‘‘ موجود ہوں گے جو فوج سے بھگوڑا اور امریکہ سے بھاگ جانا چاہتے ہیں ۔ عالمگیر امن اور انصاف کے بلند بانگ دعویداروں کی حالت زار قابل دید بھی ہے اور قابل اصلاح بھی ۔ اس جیسی کئی ہزاروں دیگر داستانیں ہیں جو امریکہ کے چہرے سے انسانیت کا نقاب ہٹانے اور ہمارے ہاں اُن ’’جدید دانشوروں‘‘ کی عقل ٹھکانے لگانے کے لیے کافی ہیں جو آئے روز اسلام، مسلمان اور انسانیت کے دشمنوں کے گیت گاتے سنائی دیتے ہیں۔’’جوشواکی‘‘ کے جوتوں میں بیس قدم چلنے سے کسی بھی ’’دانشور ‘‘ پر امریکہ کا مکروہ چہرہ آشکارا ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔