ایک مسلمان معاشرے میں :
اقلیتوں کے حقوق کیا ہیں ؟
اقلیتوں کے حقوق کی تعریف / بیان کی ذمہ داری کس پر ہے ؟ کیا اسلام خود یا مسلمان یا کون ؟
اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کس کے ذمہ ہوتا ہے ؟
اقلیتوں کو نقصان پہنچانے والے افراد / گروہ سے نمٹنے کے لیے اسلام میں کیا بیان ہے ؟ اور کون نمٹے گا ؟
شگفتہ صاحبہ آپ کے سوالات تو بہت طویل بحث کے متقاضی ہیں لیکن میں انہیں چند جملوں میں سمیٹنےکی کوشش کروں گا۔
سب سے پہلے تو اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ مسلمان معاشرے سے مراد کیا ہے؟ کیا وہ معاشرہ جہاں کے اکثر باشندے مسلمان کہلاتے ہیں مسلم معاشرہ کہلائے گا یا اس کا کوئی الگ معیار ہے؟ تو اس امر کی وضاحت یہاں ضروری ہے کہ مسلم معاشرہ صرف اور صرف وہ معاشرہ کہلائے گا جہاں اللہ کے آخری پیغام قرآن کو ریاست کے قانون کی حیثیت حاصل ہوگی اور وہ معاشرہ جو اللہ کے بنائے ہوئے قانون کے تابع ہے وہی دراصل مسلم یا اسلامی معاشرہ کہلانے کے قابل ہے۔ باقی رہے تمام وہ علاقے جہاں اسلام کو قانونی حیثیت حاصل نہیں ہر گز اسلامی معاشرے نہیں کہلائے جاسکتے۔
اب آتے ہیں موضوع کی طرف کہ ان اسلامی معاشروں میں جہاں اللہ کی بیان کردہ شریعت بالادست ہے وہاں اقلیت کے اصل حقوق کیا ہیں؟
تو سب سے پہلے یہ امر ذہن میں واضح رکھیے کہ اسلامی حکومت میں مسلمانوں کی حیثیت یہ نہیں ہے کہ ایک قوم دوسری قوم پر قابض یا حکمران ہے بلکہ درحقیقت ملک پر الٰہی اصولوں کی حکمرانی ہوگی۔ اور ان اصولوں کو (جنہیں شریعت کہا جاتا ہے) کو تسلیم کرنے والے ہی ایسی حکومت چلانے کی ذمہ داری اٹھا سکتے ہیں اس لیے باقی دوسرے لوگ جو ان اصولوں کو تسلیم نہیں کرتے یا ان پر مطمئن نہیں "اہلِ ذمہ" کہلاتے ہیں یعنی ان افراد کی حفاظت کی ذمہ داری اصولوں کو تسلیم کرنے والوں طبقے پر ہوگی۔
ذمیوں کا ذمہ جب مسلمانوں نے لے لیا تو وہ ان تمام سہولتوں کے حقدار ہیں جو الٰہی شریعت ان کو دیتی ہے یعنی مسلمان ان کی جان، مال اور آبرو کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں، ان کے قانونی حقوق وہی ہوں گے جو مسلمانوں کے ہیں۔ ان کی خون کی قیمت وہی ہوگی جو مسلمان کی ہے۔ ان کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی حاصل ہوگی۔ ان کی عبادت گاہیں محفوظ رہیں گی۔ ان کو اپنی مذہبی تعلیم کے انتظام کا پورا حق حاصل ہوگا اور اسلامی تعلیم ان پر جبراً مسلط نہیں کی جائے گی۔
اقلیتوں کے حقوق اسلام نے بتصریح بیان کر کیے ہیں اور آسان الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اقلیتوں کو تمام Civil rights حاصل ہوں گے لیکن کیونکہ وہ اس شریعت کے قائل نہیں جو حکومت کر رہی ہے اس لیے ان کے political rights مسلمانوں کے برابر نہیں ہوں گے۔
رہا آپ کا آخری سوال تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسلامی حکومت ان عناصر سے سختی سے نمٹے گی۔
"بدائع" اور "فتح التقدیر" میں درج ہے کہ "ذمی خواہ کیسے ہی بڑے جرم کا ارتکاب کرے، اس کا ذمہ نہیں ٹوٹتا (یعنی حکومت اس کی حفاظت کے ذمے سے دستبردار نہیں ہو سکتی)۔ حتی کہ جزیہ بند کر دینا، مسلمان کو قتل کرنا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنا یا کسی مسلمان عورت کی آبرو ریزی کرنا بھی اس کے حق میں ناقص ذمہ نہيں ہے۔ ان افعال پر اسے مجرم کی حیثيت سے سزا دی جائے گی لیکن باغی قرار دے کر ذمہ سے خارج نہیں کر دیا جائے گا۔ صرف دو صورتیں ہیں جن سے ذمی خارج الذمہ ہو جاتا ہے ایک یہ کہ وہ دارالاسلام کو چھوڑ کر دشمنوں سے جاملے۔ دوسرے یہ کہ حکومت اسلامی کے خلاف صریح بغاوت کر کے فتنہ و فساد برپا کرے۔
آخر میں ایک اہم وضاحت کہ یہ تمام قوانین اس حکومت کے لیے ہیں جو شریعت الٰہیہ کو دستور کا درجہ دے کر اس کو اعلٰی و برتر قرار دے اور اس کے مطابق چلے۔ ان تمام قوانین کا اطلاق اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب اسلامی حکومت قائم ہو جو کہ ظاہر ہے آج دنیا کے کسی بھی مسلم ملک میں نہیں ہے۔ اس لیے کسی بھی مسلم ملک میں اقلیتوں یا غیر مسلموں کو جو استحصال ہو رہا ہے اس کی سب سے بنیادی وجہ اسلامی حکومت کی عدم موجودگی ہے۔