مسلمان معاشرے میں اقلیتوں کے حقوق کیا ہیں ؟

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم

چند سوالات :


ایک مسلمان معاشرے میں :


  • اقلیتوں کے حقوق کیا ہیں ؟
  • اقلیتوں کے حقوق کی تعریف / بیان کی ذمہ داری کس پر ہے ؟ کیا اسلام خود یا مسلمان یا کون ؟
  • اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کس کے ذمہ ہوتا ہے ؟
  • اقلیتوں کو نقصان پہنچانے والے افراد / گروہ سے نمٹنے کے لیے اسلام میں کیا بیان ہے ؟ اور کون نمٹے گا ؟





۔
 

ابوشامل

محفلین
ایک مسلمان معاشرے میں :

اقلیتوں کے حقوق کیا ہیں ؟

اقلیتوں کے حقوق کی تعریف / بیان کی ذمہ داری کس پر ہے ؟ کیا اسلام خود یا مسلمان یا کون ؟

اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کس کے ذمہ ہوتا ہے ؟

اقلیتوں کو نقصان پہنچانے والے افراد / گروہ سے نمٹنے کے لیے اسلام میں کیا بیان ہے ؟ اور کون نمٹے گا ؟

شگفتہ صاحبہ آپ کے سوالات تو بہت طویل بحث کے متقاضی ہیں لیکن میں انہیں چند جملوں میں سمیٹنےکی کوشش کروں گا۔

سب سے پہلے تو اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ مسلمان معاشرے سے مراد کیا ہے؟ کیا وہ معاشرہ جہاں کے اکثر باشندے مسلمان کہلاتے ہیں مسلم معاشرہ کہلائے گا یا اس کا کوئی الگ معیار ہے؟ تو اس امر کی وضاحت یہاں ضروری ہے کہ مسلم معاشرہ صرف اور صرف وہ معاشرہ کہلائے گا جہاں اللہ کے آخری پیغام قرآن کو ریاست کے قانون کی حیثیت حاصل ہوگی اور وہ معاشرہ جو اللہ کے بنائے ہوئے قانون کے تابع ہے وہی دراصل مسلم یا اسلامی معاشرہ کہلانے کے قابل ہے۔ باقی رہے تمام وہ علاقے جہاں اسلام کو قانونی حیثیت حاصل نہیں ہر گز اسلامی معاشرے نہیں کہلائے جاسکتے۔

اب آتے ہیں موضوع کی طرف کہ ان اسلامی معاشروں میں جہاں اللہ کی بیان کردہ شریعت بالادست ہے وہاں اقلیت کے اصل حقوق کیا ہیں؟

تو سب سے پہلے یہ امر ذہن میں واضح رکھیے کہ اسلامی حکومت میں مسلمانوں کی حیثیت یہ نہیں ہے کہ ایک قوم دوسری قوم پر قابض یا حکمران ہے بلکہ درحقیقت ملک پر الٰہی اصولوں کی حکمرانی ہوگی۔ اور ان اصولوں کو (جنہیں شریعت کہا جاتا ہے) کو تسلیم کرنے والے ہی ایسی حکومت چلانے کی ذمہ داری اٹھا سکتے ہیں اس لیے باقی دوسرے لوگ جو ان اصولوں کو تسلیم نہیں کرتے یا ان پر مطمئن نہیں "اہلِ ذمہ" کہلاتے ہیں یعنی ان افراد کی حفاظت کی ذمہ داری اصولوں کو تسلیم کرنے والوں طبقے پر ہوگی۔

ذمیوں کا ذمہ جب مسلمانوں نے لے لیا تو وہ ان تمام سہولتوں کے حقدار ہیں جو الٰہی شریعت ان کو دیتی ہے یعنی مسلمان ان کی جان، مال اور آبرو کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں، ان کے قانونی حقوق وہی ہوں گے جو مسلمانوں کے ہیں۔ ان کی خون کی قیمت وہی ہوگی جو مسلمان کی ہے۔ ان کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی حاصل ہوگی۔ ان کی عبادت گاہیں محفوظ رہیں گی۔ ان کو اپنی مذہبی تعلیم کے انتظام کا پورا حق حاصل ہوگا اور اسلامی تعلیم ان پر جبراً مسلط نہیں کی جائے گی۔

اقلیتوں کے حقوق اسلام نے بتصریح بیان کر کیے ہیں اور آسان الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اقلیتوں کو تمام Civil rights حاصل ہوں گے لیکن کیونکہ وہ اس شریعت کے قائل نہیں جو حکومت کر رہی ہے اس لیے ان کے political rights مسلمانوں کے برابر نہیں ہوں گے۔

رہا آپ کا آخری سوال تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسلامی حکومت ان عناصر سے سختی سے نمٹے گی۔

"بدائع" اور "فتح التقدیر" میں درج ہے کہ "ذمی خواہ کیسے ہی بڑے جرم کا ارتکاب کرے، اس کا ذمہ نہیں ٹوٹتا (یعنی حکومت اس کی حفاظت کے ذمے سے دستبردار نہیں ہو سکتی)۔ حتی کہ جزیہ بند کر دینا، مسلمان کو قتل کرنا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنا یا کسی مسلمان عورت کی آبرو ریزی کرنا بھی اس کے حق میں ناقص ذمہ نہيں ہے۔ ان افعال پر اسے مجرم کی حیثيت سے سزا دی جائے گی لیکن باغی قرار دے کر ذمہ سے خارج نہیں کر دیا جائے گا۔ صرف دو صورتیں ہیں جن سے ذمی خارج الذمہ ہو جاتا ہے ایک یہ کہ وہ دارالاسلام کو چھوڑ کر دشمنوں سے جاملے۔ دوسرے یہ کہ حکومت اسلامی کے خلاف صریح بغاوت کر کے فتنہ و فساد برپا کرے۔

آخر میں ایک اہم وضاحت کہ یہ تمام قوانین اس حکومت کے لیے ہیں جو شریعت الٰہیہ کو دستور کا درجہ دے کر اس کو اعلٰی و برتر قرار دے اور اس کے مطابق چلے۔ ان تمام قوانین کا اطلاق اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب اسلامی حکومت قائم ہو جو کہ ظاہر ہے آج دنیا کے کسی بھی مسلم ملک میں نہیں ہے۔ اس لیے کسی بھی مسلم ملک میں اقلیتوں یا غیر مسلموں کو جو استحصال ہو رہا ہے اس کی سب سے بنیادی وجہ اسلامی حکومت کی عدم موجودگی ہے۔
 
بہت ہی اچھا موضوع ہے۔ شروع کرنے والوں کا اور شرکت کرنے والوں کا پیشگی شکریہ۔ اقلیتوں کے حقوق کا ڈائریکٹ تعلق " انصاف "‌ سے ہے۔ اور انصاف کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جو کچھ میرے حق میں اچھا وہ آپ کے حق میں بھی اچھا ہونا چاہئیے۔ عقائد کا اختلاف کسی طور بھی حقوق کی کمی سے پورا نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ایسا ہو تو پھر مسلمان اپنے لئے کسی قسم کے حقوق کا ایک غیر مسلم ملک میں مطالبہ نہیں کرسکتے۔

جب آپ ایک مسلم معاشرہ میں "اقلیتوں "‌ کے حق کی بات کیجئے تو ذہن میں یہ رکھئے کہ آپ مسلمان اقلیت کو ایک غیر اسلامی ملک میں‌ کس قسم کے حقوق سے محروم دیکھنا پسند کریں گے۔

ابو شامل کا یہ جملہ بہت ہی اہم ہے:

"تو سب سے پہلے یہ امر ذہن میں واضح رکھیے کہ اسلامی حکومت میں مسلمانوں کی حیثیت یہ نہیں ہے کہ ایک قوم دوسری قوم پر قابض یا حکمران ہے بلکہ درحقیقت ملک پر الٰہی اصولوں کی حکمرانی ہوگی۔ "

ملک میں‌ مسلمانوں کو تعداد، ایک ملک کو مسلمان ملک نہیں بناتی ہے بلکہ اس ملک کا قانون اور آئین اس ملک یا معاشرہ کو اسلامی بناتا ہے۔ ہندوستان کی "اسلامی یا مسلمانوں کی مملکت" میں مسلمانوں کی تعداد اقلیتی تھی۔
 

خرم

محفلین
ایک ٹیپ کا جملہ بہت سے مواقع پر بظاہر بات کو پلٹانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے کہ "احکام الٰہی کا نفاذ" ایک معاشرہ کو اسلامی معاشرہ بناتا ہے۔ میرا سوال ہے کہ ان احکام کا تعین کون کرے گا جو نافذ ہونے پر آپ ایک معاشرہ کو اسلامی معاشرہ قرار دیں گے؟ کیا کوئی ایسا مکمل ضابطہ ہے جس پر اگر کوئی معاشرہ یا حکومت مکمل طور پر عمل پیرا ہو تو آپ اسے اسلامی معاشرہ کہیں گے؟ اور اگر ایسا ہے تو صحابہ کبار کے امور مملکت میں سنگین اختلافات جن میں بعض اوقات خانہ جنگی کی بھی نوبت آئی انہیں آپ کس شمار میں رکھیں گے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ اصحاب کبار اور بالخصوص عشرہ مبشرہ کا فہمِ دین اس قدر ناقص تھا کہ ان میں سے چند کو اسلام اور اسلامی معاشرہ کی شرائط کے متعلق ہی کچھ معلوم نہ تھا؟ اور اگر ایسا تھا تو صحیح حدیث پاک کہ میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں جس کی پیروی کروگے فلاح پاؤ گے کی پیروی کیسے ممکن ہوگی؟ ان سوالات کی وجہ یہ ہے کہ میرے تئیں آج کا مسلمان ایک ایسے تصوراتی دور میں جینے کی خواہش رکھتا ہے جس کا کوئی وجود اسلام کے اولین ادوار میں بھی نہیں ملتا۔ ہم نے اپنی سہولت کے لئے اسلامی مملکت اور معاشرہ کی ایسی اصطلاحیں ایجاد کرلی ہیں کہ جن کی رو سے بعض اوقات تو نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ عہد خلفائے راشدین بھی غیر اسلامی ثابت ہوجاتا ہے اور بعض شرائط تو ایسی ہیں کہ کچھ کہتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ بات تمام عمر کے ضیاع پر نہ جانکلے۔ مجھے بہت خوشی ہوگی اگر کوئی بھائی یا بہن میرے اس تصور کا ابطال کر سکیں اور میرے سوالوں کا جواب دے سکیں۔
 

خاور بلال

محفلین
ایک ٹیپ کا جملہ بہت سے مواقع پر بظاہر بات کو پلٹانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے کہ "احکام الٰہی کا نفاذ" ایک معاشرہ کو اسلامی معاشرہ بناتا ہے۔ میرا سوال ہے کہ ان احکام کا تعین کون کرے گا جو نافذ ہونے پر آپ ایک معاشرہ کو اسلامی معاشرہ قرار دیں گے؟ کیا کوئی ایسا مکمل ضابطہ ہے جس پر اگر کوئی معاشرہ یا حکومت مکمل طور پر عمل پیرا ہو تو آپ اسے اسلامی معاشرہ کہیں گے؟ اور اگر ایسا ہے تو صحابہ کبار کے امور مملکت میں سنگین اختلافات جن میں بعض اوقات خانہ جنگی کی بھی نوبت آئی انہیں آپ کس شمار میں رکھیں گے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ اصحاب کبار اور بالخصوص عشرہ مبشرہ کا فہمِ دین اس قدر ناقص تھا کہ ان میں سے چند کو اسلام اور اسلامی معاشرہ کی شرائط کے متعلق ہی کچھ معلوم نہ تھا؟ اور اگر ایسا تھا تو صحیح حدیث پاک کہ میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں جس کی پیروی کروگے فلاح پاؤ گے کی پیروی کیسے ممکن ہوگی؟ ان سوالات کی وجہ یہ ہے کہ میرے تئیں آج کا مسلمان ایک ایسے تصوراتی دور میں جینے کی خواہش رکھتا ہے جس کا کوئی وجود اسلام کے اولین ادوار میں بھی نہیں ملتا۔ ہم نے اپنی سہولت کے لئے اسلامی مملکت اور معاشرہ کی ایسی اصطلاحیں ایجاد کرلی ہیں کہ جن کی رو سے بعض اوقات تو نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ عہد خلفائے راشدین بھی غیر اسلامی ثابت ہوجاتا ہے اور بعض شرائط تو ایسی ہیں کہ کچھ کہتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ بات تمام عمر کے ضیاع پر نہ جانکلے۔ مجھے بہت خوشی ہوگی اگر کوئی بھائی یا بہن میرے اس تصور کا ابطال کر سکیں اور میرے سوالوں کا جواب دے سکیں۔

خرم صاحب
اگر آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ “اسلام میں مملکت کے قیام اور اس کے نظم و نسق سے متعلق کوئ متعین ضابطہ موجود نہیں“ تو یہ بالکل الگ موضوع ہے اور اسے اس دھاگے میں شروع نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ دھاگا اقلیتوں کے حقوق سے متعلق اسلامی احکامات جاننے کے لیے کھولا گیا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے زمرے میں اکثر دھاگے ایسے ہیں جہاں موضوع سے ہٹ کر مباحث چھیڑ دیے جاتے ہیں اور آخر کار شدید اختلافات اور الزام تراشیوں پر بات ختم ہوتی ہے۔ ہم اختلافات سے بچنے کی خاطر عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافتِ راشدہ کے زمانے میں رہ کر بات کرسکتے ہیں کہ اس کے متعلق شاید سب کا اتفاق ہے کہ یہ اسلامی معاشرہ تھا۔ اور میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ ہم پر قرآن و سنت کی پیروی واجب ہے نہ کہ کسی صحابی کی۔ اسلامی قانون و فقہ میں صحابہ کرام کے افعال و اعمال کی بہت اہمیت ہے لیکن جہاں قرآن و سنت کی صریح رہنمائ موجود ہو وہاں کسی اور کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا جاتا۔ آپ نے جو حدیث پیش کی ہے اسکے متعلق چھان بین کرلیں میری معلومات کے مطابق یہ ضعیف ہے۔
 

خرم

محفلین
خاور صاحب،

آپ کے جواب کا شکریہ۔ کیونکہ عموماً ہر جواب کے اندر "مسلمان حکومت" اور "مسلمان معاشرہ" کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں اس لئے یہ ضروری ہے کہ ان اصطلاحات کی ایک واضح تعریف دین کی رو سے متعین کر لی جائے اگر ایسی کوئی تعریف دین میں موجود ہے تو۔ آپ نے خلافت راشدہ کے دور کا حوالہ دیا ہے لیکن اس دور میں بھی صحابہ کرام کے مابین شدید اختلافات موجود تھے جن کے متعلق میں نے پچھلی پوسٹ میں عرض کی تھی۔ جہاں‌تک قرآن فہمی میں اصحاب سے بریت کا تعلق ہے تو کس طرح قرآن فہمی اصحاب کی تعلیمات سے دور رہ کر حاصل کی جاسکتی ہے یہ میری ناقص فہم سے باہر ہے۔
 

خاور بلال

محفلین
خاور صاحب،

آپ کے جواب کا شکریہ۔ کیونکہ عموماً ہر جواب کے اندر "مسلمان حکومت" اور "مسلمان معاشرہ" کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں اس لئے یہ ضروری ہے کہ ان اصطلاحات کی ایک واضح تعریف دین کی رو سے متعین کر لی جائے۔ آپ نے خلافت راشدہ کے دور کا حوالہ دیا ہے لیکن اس دور میں بھی صحابہ کرام کے مابین شدید اختلافات موجود تھے جن کے متعلق میں نے پچھلی پوسٹ میں عرض کی تھی۔ جہاں‌تک قرآن فہمی میں اصحاب سے بریت کا تعلق ہے تو کس طرح قرآن فہمی اصحاب کی تعلیمات سے دور رہ کر حاصل کی جاسکتی ہے یہ میری ناقص فہم سے باہر ہے۔

قرآن فہمی میں اصحاب سے بریت کے متعلق تو میں نے بات ہی نہیں کی بس اتنا کہا ہے کہ قرآن و سنت کے مقابل اگر کوئ عمل کسی صحابی سے ثابت ہوتو وہ دین میں حجت نہیں‌ ہوسکتا۔ بہر حال موضوع کا تقاضہ یہی ہے کہ اس بات کو یہیں ختم کردیا جائے۔
 

گرو جی

محفلین
یار جب ایک چیز ختم ہو گئی تھی تو اس سے ملتے جلتے دھاگے کھول کر کیا بتانا چاہ رہے ہیں آپ لوگ
ہم لوگ عالمی حقوق کے چمپین بنتے پھرتے ہیں اور دنیا میں مسلمانوں کو مارا جا رہا ہے
بجائے اقلیت کے حقوق کا پرچار کیا جائے اس سے اچھا ہے کہ کسی مسلمان کی پکار پر لبیک کیا جائے
پڑوس میں آگ لگی ہوئی ہو تو اپنا گھر بچانے کے بجائے اس کا گھر بچا لیں تو اپنا گھر خود بہ خود بچ جاتا ہے
 

خاور بلال

محفلین
میں یہاں پر مذکورہ مسئلے سے متعلق ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کے لیکچر سے اقتباس پیش کررہا ہوں۔ یہ لیکچرز مارچ 1980 میں متعد اسلامی موضوعات پر، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں مسلسل بارہ روز دئیے گئے تھے جس کے لیے ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب (مرحوم) پیرس سے تشریف لائے تھے۔ ان لیکچرز کا مجموعہ "خطبات بہاولپور" کے نام سے شائع ہوا۔

اس آیت سے آپ میں سے ہر شخص واقف ہوگا کہ "اسلام قبول کرنے کے لیے جبر کرنے کی کوئ اجازت نہیں" اور "پیغمبر کا فریضہ صرف ابلاغ و تبلیغ ہے" اس کے بعد نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ عہد نبوی اور خلافت راشدہ کے بارے میں حتمی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی کو جبر کے ساتھ کبھی مسلمان نہیں بنایا گیا۔ غیر مسلموں کے ساتھ کیا برتاؤ کرنا چاہیے؟ قرآن میں یہ عجیب و غریب اصول ملتا ہے کہ ہر مذہبی کمیونٹی کو کامل داخلی خودمختاری دی جائے حتیٰ کہ نہ صرف عقائد کی آزادی ہو اور اپنی عبادات وہ اپنی طرز پر کرسکیں بلکہ اپنے ہی قانون، اپنے ہی ججوں کے ذریعے سے اپنے مقدمات کا فیصلہ بھی کرائیں۔ کامل داخلی خود مختاری کا قرآن کی کئی آیتوں میں ذکر ہے۔ جن میں سے ایک آیت بہت واضح ہے "ولیحکم اھل الانجیل بما انزل اللہ فیہ" (47:5) یعنی انجیل والوں کو چاہیے کہ اس چیز کے مطابق احکام دیا کریں جو اللہ نے انجیل میں نازل کی ہے۔ ان احکام کے تحت عہد نبوی میں ہی قومی خود مختاری ساری آبادی کے ہر ہر گروہ کو مل گئی تھی۔ جس طرح مسلمان اپنے دین ، عبادات، قانونی معاملات اور دیگر امور میں مکمل طور پر آزاد تھے، اسی طرح دوسری ملت کے لوگوں کو بھی کامل آزادی تھی۔

اس کے کچھ عرصے بعد ایک نیا واقعہ پیش آتا ہے۔ مسلمانوں پر جنگ فرض کی جاتی ہے اور غیر مسلم رعایات کو اس سے مستثنیٰ کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اگر مسلمان دین کی خاطر جنگ کریں تو غیر مسلموں کو اسلام کی خاطر جنگ کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ چونکہ مسلمان جنگ کرکے اسلامی مملکت، ریاست اور اس کی حدود کی حفاظت کرتا ہے، جس کے باعث وہاں رہنے والی غیر مسلم رعایا امن و امان سے متمتع ہوتی ہے جب کہ مسلمان اپنے ملک کی حفاظت کے لیے سر کٹاتے ہیں، لہٰذا فوجی ضروریات کے تحت غیر مسلم رعایا پر ایک ٹیکس عاید کیا جاتا ہے، جو جزیہ کہلاتا ہے۔ یہ جزیہ اسلام کی ایجاد نہیں ہے۔ اسلام سے پہلے ایران وغیرہ میں بھی جو لوگ فوجی خدمت انجام نہیں دیتے تھے ان کو ایک ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا۔ چنانچہ یہ چیز اسلام میں بھی آئی۔ غیر مسلم رعایا بہت ہی خفیف ٹیکس دے کر جو سال میں دس دن کی غذا کے مترادف تھا اسلامی سلطنت کی پوری حفاظتی قوتوں اور پولیس وغیرہ کی خدمات سے مستفید ہوتے رہتے اور جس وقت مسلمان اپنا سرکٹاتے یہ اپنی تجارت اور کاروبات میں لگے ہوئے دولت کماتے۔ اس کے علاوہ ایک اور چیز غیر مسلموں کے متعلق ہمیں نظر آتی ہے کہ محض دین کی بناء پر ان کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا تھا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ٢ ہجری میں جب غزوہ بدر میں مسلمانوں کو فتح ہوئ تو مکے والوں نے ایک وفد دوبارہ حبشہ بھیجا اور چاہا کہ وہاں جو مسلمان مہاجرین مقیم ہیں ان کو نئے نجاشی سے کسی طرح واپس حاصل کرلیں اور ان کو تکالیف دیں جب اس کی اطلاع رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئ تو مؤرخوں نے لکھا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن امیہ الضمری کو اپنا سفیر بنا کر نجاشی کے پاس بھیجا تاکہ وہ مسلمانوں کی سفارش کرے اور ان کی حفاظت کے لیے حکمران کو آمادہ کرے۔ حالانکہ عمرو بن امیہ الضمری اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ اسی طرح ہمیں اس کا بھی پتہ چلتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمسائے میں یہودی رہتے تھے اگر ان کے یہاں کوئ بچہ بھی بیمار ہوتا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس بچے کی عیادت کے لیے اس کے گھر جایا کرتے۔ بنی عریض نامی ایک یہودی قبیلہ میں رہتا تھا۔ اس کی کسی بات سے خوش ہوکر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لے کچھ سالانہ معاش مقرر فرمایا۔ یہ مختلف چیزیں ہیں جو غیر مسلموں سے برتاؤ کے سلسلے میں ہمیں نظر آتی ہیں۔ ایک اور چیز کہ مسلمان کا ہی نہیں یہودیوں کا جنازہ بھی شہر کی گلیوں سے گزرتا اور اتفاق سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کسی جگہ بیٹھے ہوتے تو جنازے کو دیکھ کر آپ کھڑے ہوجاتے تاکہ ان کے ساتھ ایک طرح سے اپنی ہمدردی کا مظاہرہ کریں۔ غرض مسلمانوں کا طرز عمل غیر مسلم رعایا کے ساتھ اتنی رواداری کا تھا کہ اس کی نظیر ہمیں تاریخ عالم میں کم ملتی ہے۔ اس کا جو نتیجہ نکلا اس کی طرف بھی میں اشارہ کردوں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پہلی دفعہ مسلمانوں میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں خانہ جنگی ہوئ۔ پھر اس کے بعد بارہا خانہ جنگیاں ہوتی رہیں۔ کسی بھی مسلمانوں کی باہمی خانہ جنگی کے زمانے میں غیر مسلم رعایا نے کبھی بغاوت نہیں کی۔ وہ نہ اس فریق کا ساتھ دیتے نہ اس فریق کا ساتھ دیتے۔ موقع سے فائدہ اٹھا کر مسلمان حکومت سے غداری یا بغاوت کا خیال انہیں کبھی پیدا نہیں ہوا۔ حتیٰ کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں جب قیصر روم نے پیام بھیجے اور اسلامی ممالک کی عیسائ رعایا سے کہا کہ موقع ہے تم بغاوت کرو، میں بھی اس وقت مسلمانوں پر حملہ کروں گا اور ان مشترکہ دشمنوں سے ہم نجات پائیں گے، اس ابتدائ زمانے سے لے کر کروسیڈز (صلیبی جنگوں) تک جب کبھی ایسے مطالبے کسی پوپ نے یا کسی عیسائ حکمران نے کیے تو مسلمانوں کی عیسائ رعایا کا جواب یہ ہوتا تھا کہ ہم ان کافر (مسلمانوں) کو تم جیسے ہم مذہب حکمرانوں پر ترجیح دیتے ہیں اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلماں کبھی غیر مسلموں پر اسلام لانے کے لیے جبر نہیں کرتے تھے اور ان کو مذہبی و قومی معاملات میں پوری آزادی و خودمختاری دیتے تھے۔ حتیٰ کہ ان کے مذہبی اداروں کی مدد بھی کیا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ کے زمانے کی ایک معتبر شہادت موجود ہے جس کی اصل دستاویز بھی آج تک محفوظ ہیں۔ ایک عیسائ اپنے بعض ہم مذہبوں کو جو دوسرے شہر کے تھے یہ خوش خبری پہنچاتا ہے کہ آج کل ایک نئ قوم ہماری حاکم بن گئی ہے۔ لیکن وہ ہم پر ظلم نہیں کرتی، اس کے بر خلاف وہ ہمارے گرجاؤں اور ہمارے راہب خانوں Convents کی مالی امداد کرتی ہے۔
 

خرم

محفلین
لیکن کیا ڈاکٹر حمید اللہ کے بیان سے تمام احباب کو اتفاق بھی ہے؟
 
خاور کی طرف سے پیش کردہ ڈاکٹر حمید اللہ کا لیکچر ، ڈاکٹر صاحب کا اپنا خیال نہیں بلکہ قرانی اصولوں پر ڈاکٹرصاحب کی خیال آرائی ہے۔ لہذا بہت مشکل ہے کہ اس سے اختلاف کیا جائے۔ انصاف کا بنیادی اصول ہے کہ وہ ہر شخص کے لئے مساوی ہو۔ اگر مسلمان کو اپنے دین پر عمل کرنے کی آزادی ہو تو دوسرے مذہب کے پیروکاروں سے یہ حق نہیں چھینا جاسکتا۔ اگر مسلم ممالک میں اقلیت کے ساتھ برا سلوک کیا جائے گا یا ان کو اپنے مذہب پر عمل کرنے سے روکا جائے گا تو پھر مسلمان کو بھی غیرمسلم ملک میں عبادت یا اسلام پر عمل کرنے کا کوئی حق نہیں رہے گا۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ ہمارے قوانین کی اساس قرآن و سنت رسول کے اصولوں پر ہو نہ کہ کسی دوسرے انسان پر۔

میں نے ڈاکٹر حمید اللہ کی کوئی کتاب نہیں پڑھی لیکن قرآن جتنا پڑھا ہے اس سے میں اسی نتیجے پر پہنچا ہوں جس پر ڈاکٹر حمید اللہ پہنچے۔

میں نے ان آیات کا حوالہ اپنے کئی لیکچرز میں دے چکا ہوں، محفل پر پچھلے سال یہ حوالہ دوستوں کی نذر کیا تھاا، آپ کی آسانی کے دوبارہ یہاں نقل کررہا ہوں۔ یہ آیات اور نکات ڈاکٹر حمید اللہ کے اخذ کئے ہوئے نکات کی بنیاد لگتے ہیں ۔

00000000000000000
اسلامی فلاحی معاشرہ میں اقلیتی مذاہب کی آزادی

اسلامی فلاحی معاشرہ کے استحکام کے بعد اور مستقل استحکام کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ اقلیتی مذاہب ایک مسلم معاشرہ میں موجود رہیں گے۔ ان اقلیتی مذاہب کو اپنی رسومات کی آزادی دینا اسلامی معاشرہ کے لئے کئی وجوہات سے ضروری ہے۔ اقلیتی مذاہب کے پیروکار مسلم معاشرہ سے سبق حاصل کرتے ہیں اور پھر انہی قواعد و ضوابط پر عمل کرتے ہیں جو مسلم معاشرہ کی اساس ہے۔ دوسری طرف غیر مسلم معاشروں کے افراد مسلم معاشرہ میں ہونے والے نرم سلوک کی بناء پر مسلمانوں سے بہتر سلوک روا رکھتے ہیں۔

قران دین میں زبردستی کا قائل نہیں:
[AYAH]2:256[/AYAH] دین میں کوئی زبردستی نہیں، بیشک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے، سو جو کوئی معبودانِ باطلہ کا انکار کر دے اور اﷲ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کے لئے ٹوٹنا (ممکن) نہیں، اور اﷲ خوب سننے والا جاننے والا ہے


قران ایمان لانے کے لئے آپ کو مناسب موقع دیتا ہے۔ اور مندرجہ بالاء پیغام دوبارہ دیتا ہے:
[AYAH]18:29[/AYAH] اور فرما دیجئے کہ (یہ) حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کردے، بیشک ہم نے ظالموں کے لئے (دوزخ کی) آگ تیار کر رکھی ہے جس کی دیواریں انہیں گھیر لیں گی، اور اگر وہ (پیاس اور تکلیف کے باعث) فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی ایسے پانی سے کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح ہوگا جو ان کے چہروں کو بھون دے گا، کتنا برا مشروب ہے، اور کتنی بری آرام گاہ ہے

اللہ تعالی فرماتے ہیں‌کے وہ خانقاہوں گرجوں کلیسوں اور مسجدوں کی حفاظت فرماتے ہیں جہاں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے۔
[AYAH]22:40[/AYAH] (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے صرف اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ ہمارا رب اﷲ ہے (یعنی انہوں نے باطل کی فرمانروائی تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا)، اور اگر اﷲ انسانی طبقات میں سے بعض کو بعض کے ذریعہ (جہاد و انقلابی جد و جہد کی صورت میں) ہٹاتا نہ رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور کلیسے اور مسجدیں (یعنی تمام ادیان کے مذہبی مراکز اور عبادت گاہیں) مسمار اور ویران کر دی جاتیں جن میں کثرت سے اﷲ کے نام کا ذکر کیا جاتا ہے، اور جو شخص اﷲ (کے دین) کی مدد کرتا ہے یقیناً اﷲ اس کی مدد فرماتا ہے۔ بیشک اﷲ ضرور (بڑی) قوت والا (سب پر) غالب ہے۔

قرآن رنگ و نسل کے فرق کو اہمیت نہیں دیتا:
[AYAH]30:22[/AYAH] اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق (بھی) ہے اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف (بھی) ہے، بیشک اس میں اہلِ علم (و تحقیق) کے لئے نشانیاں ہیں

قرآن ہم کو دوسری قوموں پر ہنسنے اور ان کا مذاق اڑانے سے منع فرماتا ہے۔ اس طرح قران قوم یعنی Ethnicity کی بنیاد پر لوگوں کو استحصال یعنی Discrimination سے منع فرماتا ہے۔
[AYAH]49:11[/AYAH] اے ایمان والو! کوئی قوم کسی قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے وہ لوگ اُن (تمسخر کرنے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ہی دوسری عورتوں کا (مذاق اڑائیں) ممکن ہے وہی عورتیں اُن (مذاق اڑانے والی عورتوں) سے بہتر ہوں، اور نہ آپس میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کیا کرو اور نہ ایک دوسرے کے برے نام رکھا کرو، کسی کے ایمان (لانے) کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برا نام ہے، اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں

اللہ تعالی، قرآن میں رسول پاک (ص) کو حکم دیتا ہے کہ وضاحت فرمادیں کے تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین:
[AYAH]109:4[/AYAH] اور نہ میں ان کی عبادت کرتا ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو
[AYAH]109:5[/AYAH] اور نہ تم اس کی عبادت کرو جس کی میں عبادت کرتا ہوں
[AYAH]109:6[/AYAH] تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین

قران اس طرح مسلم معاشرہ میں اقلیتی مذہبی آزادی قائم کرتا ہے تاکہ مسلم معاشرہ استحکام پذیر رہے۔ اس طرح مسلم حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مناسب قانون سازی ان اصولوں پر اقلیتی بہبود کے لئے کرے۔

[AYAH]5:43[/AYAH] اور یہ لوگ آپ کو کیوں کر حاکم مان سکتے ہیں در آنحالیکہ ان کے پاس تورات (موجود) ہے جس میں اللہ کا حکم (مذکور) ہے، پھر یہ اس کے بعد (بھی حق سے) رُوگردانی کرتے ہیں، اور وہ لوگ (بالکل) ایمان لانے والے نہیں ہیں

[AYAH]5:44[/AYAH] بیشک ہم نے تورات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور نور تھا، اس کے مطابق انبیاء جو (اﷲ کے) فرمانبردار (بندے) تھے یہودیوں کو حکم دیتے رہے اور اﷲ والے (یعنی ان کے اولیاء) اور علماء (بھی اسی کے مطابق فیصلے کرتے رہے)، اس وجہ سے کہ وہ اﷲ کی کتاب کے محافظ بنائے گئے تھے اور وہ اس پر نگہبان (و گواہ) تھے۔ پس تم (اقامتِ دین اور احکامِ الٰہی کے نفاذ کے معاملے میں) لوگوں سے مت ڈرو اور (صرف) مجھ سے ڈرا کرو اور میری آیات (یعنی احکام) کے بدلے (دنیا کی) حقیر قیمت نہ لیا کرو، اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ کافر ہیں

[AYAH]5:47[/AYAH] اور اہلِ انجیل کو (بھی) اس (حکم) کے مطابق فیصلہ کرنا چاہئے جو اللہ نے اس میں نازل فرمایا ہے، اور جو شخص اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلہ (و حکومت) نہ کرے سو وہی لوگ فاسق ہیں

[AYAH]10:19[/AYAH] اور سارے لوگ (ابتداء) میں ایک ہی جماعت تھے پھر جدا جدا ہو گئے، اور اگر آپ کے رب کی طرف سے ایک بات پہلے سے طے نہ ہوچکی ہوتی تو ان کے درمیان ان باتوں کے بارے میں فیصلہ کیا جا چکا ہوتا جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں

والسلام
 
ایک ٹیپ کا جملہ بہت سے مواقع پر بظاہر بات کو پلٹانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے کہ "احکام الٰہی کا نفاذ" ایک معاشرہ کو اسلامی معاشرہ بناتا ہے۔ میرا سوال ہے کہ ان احکام کا تعین کون کرے گا جو نافذ ہونے پر آپ ایک معاشرہ کو اسلامی معاشرہ قرار دیں گے؟ کیا کوئی ایسا مکمل ضابطہ ہے جس پر اگر کوئی معاشرہ یا حکومت مکمل طور پر عمل پیرا ہو تو آپ اسے اسلامی معاشرہ کہیں گے؟ اور اگر ایسا ہے تو صحابہ کبار کے امور مملکت میں سنگین اختلافات جن میں بعض اوقات خانہ جنگی کی بھی نوبت آئی انہیں آپ کس شمار میں رکھیں گے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ اصحاب کبار اور بالخصوص عشرہ مبشرہ کا فہمِ دین اس قدر ناقص تھا کہ ان میں سے چند کو اسلام اور اسلامی معاشرہ کی شرائط کے متعلق ہی کچھ معلوم نہ تھا؟ اور اگر ایسا تھا تو صحیح حدیث پاک کہ میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں جس کی پیروی کروگے فلاح پاؤ گے کی پیروی کیسے ممکن ہوگی؟ ان سوالات کی وجہ یہ ہے کہ میرے تئیں آج کا مسلمان ایک ایسے تصوراتی دور میں جینے کی خواہش رکھتا ہے جس کا کوئی وجود اسلام کے اولین ادوار میں بھی نہیں ملتا۔ ہم نے اپنی سہولت کے لئے اسلامی مملکت اور معاشرہ کی ایسی اصطلاحیں ایجاد کرلی ہیں کہ جن کی رو سے بعض اوقات تو نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ عہد خلفائے راشدین بھی غیر اسلامی ثابت ہوجاتا ہے اور بعض شرائط تو ایسی ہیں کہ کچھ کہتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ بات تمام عمر کے ضیاع پر نہ جانکلے۔ مجھے بہت خوشی ہوگی اگر کوئی بھائی یا بہن میرے اس تصور کا ابطال کر سکیں اور میرے سوالوں کا جواب دے سکیں۔



جناب خرم صاحب۔ کچھ لکھنے والوں نے بھی آپ کے خیالات پر اپنے تحفظات کا اظہار یہاں اور یہاں بھی کیا ہے۔
 

خاور بلال

محفلین
جناب خرم صاحب۔ کچھ لکھنے والوں نے بھی آپ کے خیالات پر اپنے تحفظات کا اظہار یہاں اور یہاں بھی کیا ہے۔

خلیفہ صاحب
اگر آپ کو یہ گفتگو اچھالنے کا بہت شوق ہے تو کم از کم اس دھاگے کو معاف کردیں۔ اس بات پر اتفاق ہوچکا تھا کہ غیر متعلقہ بات مزید اس دھاگے پر نہیں ہوگی۔
 

خرم

محفلین
جناب خرم صاحب۔ کچھ لکھنے والوں نے بھی آپ کے خیالات پر اپنے تحفظات کا اظہار یہاں اور یہاں بھی کیا ہے۔
خالو جی آپ کے ارسال کردہ روابط پڑھے اور کچھ پرانے مہربانوں سے ملاقات ہوئی۔ ان کے اپنے متعلق دعوے اور اچھی آراء سُن کر جی کو اطمینان ہوا۔ باقی آپ نے اور آپ کے اصحاب نے میری بات کے موضوع کو سمجھا اور نہ اس پر بات کی۔ چلیں اس حدیث کو موضوع مان لیتے ہیں جو میں نے بیان کی، لیکن باذوق نے ایک اور حدیث پیش کی جس میں اصحاب کو ستاروں سے تشبیہ دی گئی اور امن کا نشان بتایا گیا۔ امید کرتا ہوں کہ وہ تو صحیح ہی ہوگی۔ خاور صاحب کےبیان کے مطابق میں اس موضوع پر مزید کوئی بات اس دھاگہ پر نہیں کرنا چاہتا لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ اس خاکسار پر نظر کرم فرمانے کی بجائے اگر میرے سوال کا مدلل جواب دے دیا جاتا تو بہت بہتر ہوتا۔ خیر جواب ہو تو دیں گے نا۔ اگر آپ چاہیں تو کوئی اور دھاگہ کھول لیتے ہیں اس موضوع پر بات کرنے کے لئے۔
 
من و تو کی منزل سے آگے بڑھئے دوستو ۔ اصولوں پر نکتہ ارتکاز رکھئے، معمولی سے معمولی سنہری اصول ، اس محفل کی بڑی سے بڑی شخصیت سے بڑا ہے۔ نظریاتی اختلاف جنگوں کی بنیاد ہے، جنگ ذہنوں کی پیداوار ہے، جنگوں کا بہترین دفاع ذہنوں میں ہی کیا جاسکتا ہے۔
 
Top