جاسم محمد
محفلین
مسلم لیگ ن اٹھارہویں ترمیم میں تبدیلی کے لیے مذاکرات پر تیار
11/05/2020 محمد کاشف میو
آج کے کالم کا موضوع سخن تو اٹھارہویں ترمیم اور نواز شریف کی نا اہلی کا آپس میں تعلق ہے مگر کورونا کے حوالے سے حکومتی اقدامات کا تذکرہ کیے بغیر کچھ تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس نے لاک ڈاؤن ختم کرنے سے پہلے جن چھ نکات پر عملدرآمد کا کہا تھا ان میں سرفہرست نکتہ یہ تھا ”لاک ڈاؤن میں نرمی سے پہلے یہ یقینی ہونا چاہیے کہ کورونا کیسز کی تعداد کم ہو رہی ہے اور وائرس کی منتقلی قابو میں ہے“ اطلاعات کے مطابق پاکستان میں مریضوں کی یومیہ تعداد دو ہزار سے بڑھ چکی مگر حکومت نے لاک ڈاؤن کھولنے کا حیران کن فیصلہ کیا۔
حکومت میں فیصلہ سازی کا فقدان صرف وبا کے حوالے سے ہی نہیں ہے بلکہ صوبوں میں رابطوں کے حوالے سے بھی حکومتی اقدامات اس کی نالائقی کی قلعی کھول رہے ہیں۔ وبا کے اس المناک دور میں افہام و تفہیم کی بجائے دشنام طرازی کی فضاء بنائی جا رہی ہے۔ اس اندوہناک صورتحال میں اپوزیشن سیاست کرتی تو ہدف تنقید ٹھہرتی مگر قابل افسوس کہ جب توجہ صرف آفت ناگہانی پر ہونی چاہیے تھی تو حکومت نے اٹھارہویں ترمیم میں مزید ترمیم کا شوشہ چھوڑ دیا۔ اس پر صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’حکومت ری حکومت تیری کون سی کل سیدھی‘
اٹھارہویں ترمیم کا معاملہ بہت اہم ہے۔ اٹھارہویں ترمیم اپریل 2010 میں متفقہ طور پر منظور ہوئی اور رضا ربانی کی زیر قیادت بننے والی کمیٹی میں تمام جماعتوں کی نمائندگی تھی بھلے کوئی یک رکنی جماعت ہی ہو۔ اس ترمیم میں سول سوسائٹی نے بھی سینکڑوں تجاویز دیں۔ 104 تبدیلیوں پر مشتمل اس متفقہ ترمیم سے صوبوں کو خودمختاری ملی، اپنے وسائل پر حق ملا۔ صحت، تعلیم سمیت این ایف سی ایوارڈ کے تحت اضافی رقم بھی ملی لیکن اس میں سب سے اہم تبدیلی مارشل لا کا راستہ روکنے کے لئے آرٹیکل 6 کی شمولیت تھی۔
اس ترمیم سے پہلے ہماری اسمبلیاں آمر ضیا الحق اور پرویز مشرف کو استثنا دے چکی تھیں اور سپریم کورٹ ان اقدامات کو سند قبولیت بخش چکی تھی مگر اس آرٹیکل کی شمولیت کے بعد آمر پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنائی گئی۔ اس تاریخی فیصلہ کی بدولت پرویز مشرف پاکستان واپس آنے سے قاصر ہے۔ ہمارے یرغمالی نظام کی کمزوری کے باعث اس فیصلہ پر عملدرآمد تو ناممکن ہے مگر تاریخ کے اوراق میں آمر پرویز مشرف کو غدار قرار دیا جا چکا۔ اب کوئی جج بھی مارشل لاء کو قانونی جواز نہیں دے سکتا۔ جو ایسا کرے گا وہ بھی سنگین غداری کا مرتکب ٹھہرے گا۔
اٹھارہویں ترمیم کے فوائد و نقصانات ایک کالم میں سمیٹنا ممکن نہیں مگر اس کے کچھ پہلو ضرور قابل غور ہیں۔ اس ترمیم میں مزید ترمیم کا مطالبہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے نہیں آیا بلکہ اس میں شدت 2017 میں متعارف ہونے والے ’باجوہ ڈاکٹرائن‘ کی وجہ سے آئی ہے۔ کہا جا رہا ہے وفاق کو وسائل کی تقسیم پر اعتراض ہے اور یہ بھی اعتراض ہے کہ صوبوں میں صلاحیت نہیں کہ وہ ان محکموں کو سنبھال سکے۔ کیا اٹھارہویں ترمیم میں کچھ تبدیلی مسلم لیگ ن کے لئے بھی ضروری ہے یا نہیں اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
آمر پرویز مشرف کی جنبش قلم سے تخلیق ہونے والا نیب اپنے قیام سے ہی ہدف تقید رہا ہے مگر موجودہ چیئرمین کے دور میں نیب آئے روز شہ سرخیوں کی زینت بنتا ہے۔ بوگس اور کمزور مقدمات کی بنا پر نہ صرف ملزمان کی ضمانتیں ہو رہی ہیں بلکہ عدالتوں میں بھی نیب نمائندوں کی سرزنش ہوتی ہے۔ مگر اب تمام جماعتیں ہی اس قانون میں تبدیلی کی خواہاں نظر آتی ہیں۔ چند دن پہلے برادرم عمر چیمہ صاحب نے ایک خبر دی کہ مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی سے ملکر نیب قانون میں کچھ تبدیلیوں کا مسودہ تیار کیا ہے۔ یہ ملاقات ایک ایسے بزنس مین کے گھر پر ہوئی جس کے رابطے پاور بروکرز کے ساتھ بھی استوار ہیں۔ بزنس مین کا نام تو انہوں نے نہیں لکھا مگر حوالہ دیا کہ وہ شخصیت حالیہ دنوں میں نیب کی تحویل میں رہی ہے۔
میری معلومات کے مطابق وہ کاروباری شخصیت اقبال زیڈ احمد ہیں جن کے گھر پر وہ مسودہ تیار ہوا اور انہی کے ذریعہ وہ پاور بروکرز تک پہنچا ہے۔ ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ یہ نظام پاور بروکرز کے ہاتھوں یرغمال ہو چکا ہے، کچھ بھی ان کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ خفیہ کردار بے نقاب ضرور ہوئے ہیں مگر کمزور نہیں ہوئے۔ سیاسی جماعتوں میں ثابت قدمی کا فقدان بھی ہے۔ جو بھی راستہ نکلے گا ان کی رضامندی اور مذاکرات سے ہی نکلے گا۔ نیب قانون میں تبدیلیوں کے ساتھ اٹھارہویں ترمیم میں مجوزہ تبدیلیوں پر مشتمل ایک نئی ترمیم پر بات چیت چل رہی ہے۔ جلد ہی اس بارے میں مزید پیشرفت نظر آئے گی۔
مسلم لیگ ن کے لئے سب سے بڑا مسئلہ عدالتی کیسز کی بجائے نواز شریف کی تاحیات نا اہلی ہے۔ نواز شریف کرپشن کیسز میں عدالتوں سے باعزت بری بھی ہو جائیں تو نا اہلی کی سزا ختم نہیں ہو گی۔ نا اہلی ختم کروانے کا راستہ اسی آئینی ترمیم میں تبدیلی سے ممکن ہے جو پاور بروکرز کی آنکھوں میں حرف غلط کی طرح کھٹک رہی ہے۔ مسلم لیگ ن اٹھارہویں ترمیم میں تبدیلی کے لئے مذاکرات پر تیار ہے۔ جہاں باقی تبدیلیاں ہوں گی وہیں پر تاحیات نا اہلی کی شق میں تبدیلی بھی نظر آئے گی۔
ووٹ کی عزت کا جو سفر شروع ہوا تھا وہ یک دم پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ ابھی منزل بہت دور ہے مگر گزشتہ دو سالوں میں بڑھتے عوامی شعور کا ادراک ان قوتوں کو بھی ہے جو آناً فاناً اس نظام پر قبضہ کر لیتی تھیں۔ اب انھیں بھی سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کرنے پڑ رہے ہیں۔ سول بالادستی کے خواب تو بہت اچھے ہیں مگر ابھی ان کی عملی تعبیر ممکن نہیں ہے۔ ابھی اس راستہ میں بہت سی مشکلات برداشت کرنی پڑیں گی۔ ابھی بہت سے عذاب جھیلنے پڑیں گے۔ بحثیت قوم بھی ہمیں قربانیاں دینی پڑیں گی۔ بقول فیض احمد فیض
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
سیاسی جماعتوں کو بھی سول بالادستی سے عہد وفا کر لینا چاہیے۔ اٹھارہویں ترمیم میں مالی معاملات میں بھلے جو تبدیلی کرنی ہو کریں مگر آرٹیکل 6 پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔ اسی میں اس نظام کی بقاء ہے۔ اس آرٹیکل میں کسی بھی قسم کی تبدیلی نہ صرف سول بالادستی کے خواب کو مایوسی کی گہری کھائی میں دھکیل دے گی بلکہ ایک ایسی گزیدہ شب بھی طاری ہو جائے گی جس کی سحر وہ نہیں ہو گی جس کا انتظار جمہور پسند کامریڈز کو ہے۔ آخر میں افتخار عارف کا یہ شعر
ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں
پھر اس کے بعد مسلسل عذاب آنکھوں میں
11/05/2020 محمد کاشف میو
آج کے کالم کا موضوع سخن تو اٹھارہویں ترمیم اور نواز شریف کی نا اہلی کا آپس میں تعلق ہے مگر کورونا کے حوالے سے حکومتی اقدامات کا تذکرہ کیے بغیر کچھ تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس نے لاک ڈاؤن ختم کرنے سے پہلے جن چھ نکات پر عملدرآمد کا کہا تھا ان میں سرفہرست نکتہ یہ تھا ”لاک ڈاؤن میں نرمی سے پہلے یہ یقینی ہونا چاہیے کہ کورونا کیسز کی تعداد کم ہو رہی ہے اور وائرس کی منتقلی قابو میں ہے“ اطلاعات کے مطابق پاکستان میں مریضوں کی یومیہ تعداد دو ہزار سے بڑھ چکی مگر حکومت نے لاک ڈاؤن کھولنے کا حیران کن فیصلہ کیا۔
حکومت میں فیصلہ سازی کا فقدان صرف وبا کے حوالے سے ہی نہیں ہے بلکہ صوبوں میں رابطوں کے حوالے سے بھی حکومتی اقدامات اس کی نالائقی کی قلعی کھول رہے ہیں۔ وبا کے اس المناک دور میں افہام و تفہیم کی بجائے دشنام طرازی کی فضاء بنائی جا رہی ہے۔ اس اندوہناک صورتحال میں اپوزیشن سیاست کرتی تو ہدف تنقید ٹھہرتی مگر قابل افسوس کہ جب توجہ صرف آفت ناگہانی پر ہونی چاہیے تھی تو حکومت نے اٹھارہویں ترمیم میں مزید ترمیم کا شوشہ چھوڑ دیا۔ اس پر صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’حکومت ری حکومت تیری کون سی کل سیدھی‘
اٹھارہویں ترمیم کا معاملہ بہت اہم ہے۔ اٹھارہویں ترمیم اپریل 2010 میں متفقہ طور پر منظور ہوئی اور رضا ربانی کی زیر قیادت بننے والی کمیٹی میں تمام جماعتوں کی نمائندگی تھی بھلے کوئی یک رکنی جماعت ہی ہو۔ اس ترمیم میں سول سوسائٹی نے بھی سینکڑوں تجاویز دیں۔ 104 تبدیلیوں پر مشتمل اس متفقہ ترمیم سے صوبوں کو خودمختاری ملی، اپنے وسائل پر حق ملا۔ صحت، تعلیم سمیت این ایف سی ایوارڈ کے تحت اضافی رقم بھی ملی لیکن اس میں سب سے اہم تبدیلی مارشل لا کا راستہ روکنے کے لئے آرٹیکل 6 کی شمولیت تھی۔
اس ترمیم سے پہلے ہماری اسمبلیاں آمر ضیا الحق اور پرویز مشرف کو استثنا دے چکی تھیں اور سپریم کورٹ ان اقدامات کو سند قبولیت بخش چکی تھی مگر اس آرٹیکل کی شمولیت کے بعد آمر پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنائی گئی۔ اس تاریخی فیصلہ کی بدولت پرویز مشرف پاکستان واپس آنے سے قاصر ہے۔ ہمارے یرغمالی نظام کی کمزوری کے باعث اس فیصلہ پر عملدرآمد تو ناممکن ہے مگر تاریخ کے اوراق میں آمر پرویز مشرف کو غدار قرار دیا جا چکا۔ اب کوئی جج بھی مارشل لاء کو قانونی جواز نہیں دے سکتا۔ جو ایسا کرے گا وہ بھی سنگین غداری کا مرتکب ٹھہرے گا۔
اٹھارہویں ترمیم کے فوائد و نقصانات ایک کالم میں سمیٹنا ممکن نہیں مگر اس کے کچھ پہلو ضرور قابل غور ہیں۔ اس ترمیم میں مزید ترمیم کا مطالبہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے نہیں آیا بلکہ اس میں شدت 2017 میں متعارف ہونے والے ’باجوہ ڈاکٹرائن‘ کی وجہ سے آئی ہے۔ کہا جا رہا ہے وفاق کو وسائل کی تقسیم پر اعتراض ہے اور یہ بھی اعتراض ہے کہ صوبوں میں صلاحیت نہیں کہ وہ ان محکموں کو سنبھال سکے۔ کیا اٹھارہویں ترمیم میں کچھ تبدیلی مسلم لیگ ن کے لئے بھی ضروری ہے یا نہیں اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
آمر پرویز مشرف کی جنبش قلم سے تخلیق ہونے والا نیب اپنے قیام سے ہی ہدف تقید رہا ہے مگر موجودہ چیئرمین کے دور میں نیب آئے روز شہ سرخیوں کی زینت بنتا ہے۔ بوگس اور کمزور مقدمات کی بنا پر نہ صرف ملزمان کی ضمانتیں ہو رہی ہیں بلکہ عدالتوں میں بھی نیب نمائندوں کی سرزنش ہوتی ہے۔ مگر اب تمام جماعتیں ہی اس قانون میں تبدیلی کی خواہاں نظر آتی ہیں۔ چند دن پہلے برادرم عمر چیمہ صاحب نے ایک خبر دی کہ مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی سے ملکر نیب قانون میں کچھ تبدیلیوں کا مسودہ تیار کیا ہے۔ یہ ملاقات ایک ایسے بزنس مین کے گھر پر ہوئی جس کے رابطے پاور بروکرز کے ساتھ بھی استوار ہیں۔ بزنس مین کا نام تو انہوں نے نہیں لکھا مگر حوالہ دیا کہ وہ شخصیت حالیہ دنوں میں نیب کی تحویل میں رہی ہے۔
میری معلومات کے مطابق وہ کاروباری شخصیت اقبال زیڈ احمد ہیں جن کے گھر پر وہ مسودہ تیار ہوا اور انہی کے ذریعہ وہ پاور بروکرز تک پہنچا ہے۔ ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ یہ نظام پاور بروکرز کے ہاتھوں یرغمال ہو چکا ہے، کچھ بھی ان کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ خفیہ کردار بے نقاب ضرور ہوئے ہیں مگر کمزور نہیں ہوئے۔ سیاسی جماعتوں میں ثابت قدمی کا فقدان بھی ہے۔ جو بھی راستہ نکلے گا ان کی رضامندی اور مذاکرات سے ہی نکلے گا۔ نیب قانون میں تبدیلیوں کے ساتھ اٹھارہویں ترمیم میں مجوزہ تبدیلیوں پر مشتمل ایک نئی ترمیم پر بات چیت چل رہی ہے۔ جلد ہی اس بارے میں مزید پیشرفت نظر آئے گی۔
مسلم لیگ ن کے لئے سب سے بڑا مسئلہ عدالتی کیسز کی بجائے نواز شریف کی تاحیات نا اہلی ہے۔ نواز شریف کرپشن کیسز میں عدالتوں سے باعزت بری بھی ہو جائیں تو نا اہلی کی سزا ختم نہیں ہو گی۔ نا اہلی ختم کروانے کا راستہ اسی آئینی ترمیم میں تبدیلی سے ممکن ہے جو پاور بروکرز کی آنکھوں میں حرف غلط کی طرح کھٹک رہی ہے۔ مسلم لیگ ن اٹھارہویں ترمیم میں تبدیلی کے لئے مذاکرات پر تیار ہے۔ جہاں باقی تبدیلیاں ہوں گی وہیں پر تاحیات نا اہلی کی شق میں تبدیلی بھی نظر آئے گی۔
ووٹ کی عزت کا جو سفر شروع ہوا تھا وہ یک دم پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ ابھی منزل بہت دور ہے مگر گزشتہ دو سالوں میں بڑھتے عوامی شعور کا ادراک ان قوتوں کو بھی ہے جو آناً فاناً اس نظام پر قبضہ کر لیتی تھیں۔ اب انھیں بھی سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کرنے پڑ رہے ہیں۔ سول بالادستی کے خواب تو بہت اچھے ہیں مگر ابھی ان کی عملی تعبیر ممکن نہیں ہے۔ ابھی اس راستہ میں بہت سی مشکلات برداشت کرنی پڑیں گی۔ ابھی بہت سے عذاب جھیلنے پڑیں گے۔ بحثیت قوم بھی ہمیں قربانیاں دینی پڑیں گی۔ بقول فیض احمد فیض
نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
سیاسی جماعتوں کو بھی سول بالادستی سے عہد وفا کر لینا چاہیے۔ اٹھارہویں ترمیم میں مالی معاملات میں بھلے جو تبدیلی کرنی ہو کریں مگر آرٹیکل 6 پر کوئی سمجھوتہ نہ کریں۔ اسی میں اس نظام کی بقاء ہے۔ اس آرٹیکل میں کسی بھی قسم کی تبدیلی نہ صرف سول بالادستی کے خواب کو مایوسی کی گہری کھائی میں دھکیل دے گی بلکہ ایک ایسی گزیدہ شب بھی طاری ہو جائے گی جس کی سحر وہ نہیں ہو گی جس کا انتظار جمہور پسند کامریڈز کو ہے۔ آخر میں افتخار عارف کا یہ شعر
ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں
پھر اس کے بعد مسلسل عذاب آنکھوں میں