شمشاد
لائبریرین
آج مسلم معاشرہ جن سنگین اور بھیانک مسائل سے دو چار ہے ان میں ایک مسئلہ نوجوان لڑکیوں کی شادیوں کا ہے۔ پاکستان، ہندوستان اور دیگر اسلامی ممالک میں لاکھوں لڑکیاں ایسی ہیں جن کی شادی نہیں ہو سکی حالانکہ ان کی عمریں 30-35 سال سے تجاوز کر چکی ہیں۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم اللہ کی شریعت سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ آیئے اس سلسلے میں اللہ تعالٰی کے احکامات اور اپنی حالت کا جائزہ ہیں :
لڑکیوں کی تعلیم و تربیت : اسلام نے لڑکیوں کی پرورش اور ان کی تعلیم و تربیت پر زور دیا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی، ان کی تعلیم و تربیت کی، ان کی شادیاں کیں اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے۔ (ابو داؤد 5147)
مغرب کی اندھی تقلید میں حجاب کی پابندیوں کو نظر انداز کر کے مخلوط تعلیم میں عورتوں کو مردوں کے ساتھ اسکولوں اور کالجوں میں پڑھایا جاتا ہے۔
کوٹھی، بنگلہ اور آرائشِ زندگی کی بلندی کے مقصودِ حیات نے لوگوں میں حلال و حرام، جائز و ناجائز کا فرق مٹا دیا ہے۔ جبکہ معیارِ زندگی کی بلندی کی کوئی حد مقرر نہیں لیکن یہی خواہش نے اصلی سکون اور راحت ختم کر دی ہے۔
لڑکی کو اعلٰی تعلیم دلوانے کے بعد کوئی رشتہ معیار پر پورا نہیں اترتا۔ معیاری رشتہ کی تلاش میں لڑکیوں کی شادی کی عمریں گزر جاتی ہیں۔ کسی کی تعلیم کم ہے اور کسی کے پاس دولت کم ہے، کسی کا حسب و نسب معیاری نہیں ہوتا، گویا آج کے دور میں ایک بہت بڑا فتنہ معیاری رشتہ کی تلاش ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دینداری کی بنیاد پر رشتہ کرنے کا حکم دیا ہے۔
آج مسلمان دنیاوی تعلیم کے پیچھے اس طرح پڑے ہوئے ہیں کہ دینی تعلیم کا خیال بھی ان کے ذہن میں نہیں آتا۔ جب شادی ہوتی ہے تو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ حقوق الزوجین کیا ہیں اور اس کی کمی بیشی کی وجہ سے رشتے ٹوٹ بھی جاتے ہیں۔
مہر : نکاح کے لیے مہر دینا واجب ہے لیکن آج بعض اوقات مہر کی رقم اتنی زیادہ مقرر کی جاتی ہے کہ نکاح کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مہر اتنا ہی ہونا چاہیے جتنا مرد آسانی سے ادا کر سکے۔
آج ہمارے معاشرہ کا رواج ہے کہ ہم شادی میں لاکھوں خرچ کرتے ہیں لیکن نکاح کے وقت مہر ادا نہیں کرتے اور کئی تو ایسے ہیں کہ ان کے مرنے کے بعد ان کا مہر ان کی بیوی سے زبردستی معاف کروا دیتے ہیں جو شریعت میں بالکل غلط ہے۔
غیر ضروری اخراجات : آج ہم اگر اپنی شادیوں کے اخراجات پر نظر ڈالیں تو ایسے لگتا ہے کہ ہم صرف فضول خرچی کرنے کے لیے کما رہے ہیں۔ کم از کم چھ یا سات قسم کے پکوان ہوتے ہیں، سینکڑوں ہزاروں مہمانوں کی دعوت ہوتی ہے، ایک ایک لباس ہزاروں کا ہوتا ہے جو صرف ایک دن کے لیے بنوایا جاتا ہے۔ غیر شرعی رسموں کی وجہ سے ایک دوسرے کو تحفہ تحائف دینے کے چکر میں لوگ قرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور جو تحفہ دینے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو وہ پھر جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں اور شادی سے غیر حاضر ہو جاتے ہیں۔ خاص طور سے جو لوگ خلیجی ممالک سے جاتے ہیں یہ تک نہیں سوچتے کہ ہم جو قربانی دے کر اپنے گھر سے دور رہ کر جو کچھ کماتے ہیں اسے کس طرح ضائع کر رہے ہیں۔
= اور تم اپنے رشتہ داروں کو غریب مسکینوں کو اور مسافروں کو ان کا حق دو اپنی دولت کو مگر فضول خرچ مت کرو (سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر 26)
= فضول خرچی کرنے والا شیطان کا بھائی ہے اور شیطان اپنے خدا کا ہمیشہ سے ناشکرا رہا ہے (سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر 27)
جہیز : اسلام میں جہیز کے مطالبہ کا کوئی تصور نہیں۔ یہ ہندوانہ رسم ہے جو مسلمانوں کے اندر پھیل گئی ہے۔ آج مسلم معاشرہ میں بھی یہ چیز عام ہے کہ جہیز میں جوڑے، نقد رقم، کار، موٹر سائیکل اور دیگر چیزوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اور جو لڑکی جہیز میں مطلوبہ چیزیں نہیں لاتی اسے طعن و تشیع سے لے کر مار کٹائی بلکہ طلاق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
غریب لوگ بھی اپنی اور اپنی لڑکی کی عزت قائم رکھنےکے لیے ادھار بلکہ سود پر رقم لیتے ہیں اور ساری زندگی اس کی ادائیگی کرتے رہتے ہیں لیکن اعلٰی قسم کا جہیز اس لیے تیار کرتے ہیں کہ ان کی لڑکی کو سسرال میں طعنے نہ سننے پڑیں اور وہ ہنسی خوشی زندگی بسر کر سکے۔ اور سسرال والوں کے ظلم سے بچ سکے۔ اس معاملے میں معاشرہ بے حس ہو چکا ہے۔ الا ماشاء اللہ - اس ظلم کے خلاف کوئی موثر کوشش نظر نہیں آتی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ جب ظالم کو ظلم کرتے ہوئے دیکھیں اور اسے نہ روکیں تو قریب ہے اللہ تعالٰی اس سب کو اپنے عذاب کی لپیٹ میں لے لے۔ (ابو داؤد 4338، ترمذی 216
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنے بھائی کی مدد کرو وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ایک صحابی نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وہ مظلوم ہو تو میں اس کی مدد کروں گا لیکن یہ فرمائیے اگر وہ ظالم ہو تو اس کی مدد کیسے کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کو تم ظلم کرنے سے روک دو۔ یہی اس کی مدد ہے (بخاری 2443)۔
آج معاشرہ میں جہیز کے نام پر جو ظلم و فساد ہو رہا ہے اس کو روکنے کے لیے کتنا جامع ارشاد ہے کہ اخلاق و جرات سے کام لے کر ظالم کو ظلم کرنے سے روکو۔ کمزور عورتوں پر ظلم کرنے والوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یاد رکھنا چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ظلم کرنے سے بچو اس لیے کہ ظلم قیامت کے دن اندھیروں کا سبب ہو گا۔ (مسلم 257۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالٰی ظالم کو مہلت دیتا ہے لیکن جب اس کی گرفت فرماتا ہے تو اسے نہیں چھوڑتا (بخاری 4686، مسلم 2583)۔
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے وہ ساری خلقت میں بہتر ہیں۔ (سورۃ البینہ آیت 7)
اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ اللہ تعالٰی ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھے اور ہمیں معاشرہ میں ہونے والے ہر ظلم کو روکنے کی توفیق دے۔
آمین یا رب العالمین۔
لڑکیوں کی تعلیم و تربیت : اسلام نے لڑکیوں کی پرورش اور ان کی تعلیم و تربیت پر زور دیا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی، ان کی تعلیم و تربیت کی، ان کی شادیاں کیں اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے۔ (ابو داؤد 5147)
مغرب کی اندھی تقلید میں حجاب کی پابندیوں کو نظر انداز کر کے مخلوط تعلیم میں عورتوں کو مردوں کے ساتھ اسکولوں اور کالجوں میں پڑھایا جاتا ہے۔
کوٹھی، بنگلہ اور آرائشِ زندگی کی بلندی کے مقصودِ حیات نے لوگوں میں حلال و حرام، جائز و ناجائز کا فرق مٹا دیا ہے۔ جبکہ معیارِ زندگی کی بلندی کی کوئی حد مقرر نہیں لیکن یہی خواہش نے اصلی سکون اور راحت ختم کر دی ہے۔
لڑکی کو اعلٰی تعلیم دلوانے کے بعد کوئی رشتہ معیار پر پورا نہیں اترتا۔ معیاری رشتہ کی تلاش میں لڑکیوں کی شادی کی عمریں گزر جاتی ہیں۔ کسی کی تعلیم کم ہے اور کسی کے پاس دولت کم ہے، کسی کا حسب و نسب معیاری نہیں ہوتا، گویا آج کے دور میں ایک بہت بڑا فتنہ معیاری رشتہ کی تلاش ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دینداری کی بنیاد پر رشتہ کرنے کا حکم دیا ہے۔
آج مسلمان دنیاوی تعلیم کے پیچھے اس طرح پڑے ہوئے ہیں کہ دینی تعلیم کا خیال بھی ان کے ذہن میں نہیں آتا۔ جب شادی ہوتی ہے تو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ حقوق الزوجین کیا ہیں اور اس کی کمی بیشی کی وجہ سے رشتے ٹوٹ بھی جاتے ہیں۔
مہر : نکاح کے لیے مہر دینا واجب ہے لیکن آج بعض اوقات مہر کی رقم اتنی زیادہ مقرر کی جاتی ہے کہ نکاح کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مہر اتنا ہی ہونا چاہیے جتنا مرد آسانی سے ادا کر سکے۔
آج ہمارے معاشرہ کا رواج ہے کہ ہم شادی میں لاکھوں خرچ کرتے ہیں لیکن نکاح کے وقت مہر ادا نہیں کرتے اور کئی تو ایسے ہیں کہ ان کے مرنے کے بعد ان کا مہر ان کی بیوی سے زبردستی معاف کروا دیتے ہیں جو شریعت میں بالکل غلط ہے۔
غیر ضروری اخراجات : آج ہم اگر اپنی شادیوں کے اخراجات پر نظر ڈالیں تو ایسے لگتا ہے کہ ہم صرف فضول خرچی کرنے کے لیے کما رہے ہیں۔ کم از کم چھ یا سات قسم کے پکوان ہوتے ہیں، سینکڑوں ہزاروں مہمانوں کی دعوت ہوتی ہے، ایک ایک لباس ہزاروں کا ہوتا ہے جو صرف ایک دن کے لیے بنوایا جاتا ہے۔ غیر شرعی رسموں کی وجہ سے ایک دوسرے کو تحفہ تحائف دینے کے چکر میں لوگ قرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور جو تحفہ دینے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو وہ پھر جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں اور شادی سے غیر حاضر ہو جاتے ہیں۔ خاص طور سے جو لوگ خلیجی ممالک سے جاتے ہیں یہ تک نہیں سوچتے کہ ہم جو قربانی دے کر اپنے گھر سے دور رہ کر جو کچھ کماتے ہیں اسے کس طرح ضائع کر رہے ہیں۔
= اور تم اپنے رشتہ داروں کو غریب مسکینوں کو اور مسافروں کو ان کا حق دو اپنی دولت کو مگر فضول خرچ مت کرو (سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر 26)
= فضول خرچی کرنے والا شیطان کا بھائی ہے اور شیطان اپنے خدا کا ہمیشہ سے ناشکرا رہا ہے (سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر 27)
جہیز : اسلام میں جہیز کے مطالبہ کا کوئی تصور نہیں۔ یہ ہندوانہ رسم ہے جو مسلمانوں کے اندر پھیل گئی ہے۔ آج مسلم معاشرہ میں بھی یہ چیز عام ہے کہ جہیز میں جوڑے، نقد رقم، کار، موٹر سائیکل اور دیگر چیزوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ اور جو لڑکی جہیز میں مطلوبہ چیزیں نہیں لاتی اسے طعن و تشیع سے لے کر مار کٹائی بلکہ طلاق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
غریب لوگ بھی اپنی اور اپنی لڑکی کی عزت قائم رکھنےکے لیے ادھار بلکہ سود پر رقم لیتے ہیں اور ساری زندگی اس کی ادائیگی کرتے رہتے ہیں لیکن اعلٰی قسم کا جہیز اس لیے تیار کرتے ہیں کہ ان کی لڑکی کو سسرال میں طعنے نہ سننے پڑیں اور وہ ہنسی خوشی زندگی بسر کر سکے۔ اور سسرال والوں کے ظلم سے بچ سکے۔ اس معاملے میں معاشرہ بے حس ہو چکا ہے۔ الا ماشاء اللہ - اس ظلم کے خلاف کوئی موثر کوشش نظر نہیں آتی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ جب ظالم کو ظلم کرتے ہوئے دیکھیں اور اسے نہ روکیں تو قریب ہے اللہ تعالٰی اس سب کو اپنے عذاب کی لپیٹ میں لے لے۔ (ابو داؤد 4338، ترمذی 216
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنے بھائی کی مدد کرو وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ایک صحابی نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وہ مظلوم ہو تو میں اس کی مدد کروں گا لیکن یہ فرمائیے اگر وہ ظالم ہو تو اس کی مدد کیسے کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کو تم ظلم کرنے سے روک دو۔ یہی اس کی مدد ہے (بخاری 2443)۔
آج معاشرہ میں جہیز کے نام پر جو ظلم و فساد ہو رہا ہے اس کو روکنے کے لیے کتنا جامع ارشاد ہے کہ اخلاق و جرات سے کام لے کر ظالم کو ظلم کرنے سے روکو۔ کمزور عورتوں پر ظلم کرنے والوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یاد رکھنا چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ظلم کرنے سے بچو اس لیے کہ ظلم قیامت کے دن اندھیروں کا سبب ہو گا۔ (مسلم 257۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالٰی ظالم کو مہلت دیتا ہے لیکن جب اس کی گرفت فرماتا ہے تو اسے نہیں چھوڑتا (بخاری 4686، مسلم 2583)۔
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے وہ ساری خلقت میں بہتر ہیں۔ (سورۃ البینہ آیت 7)
اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ اللہ تعالٰی ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھے اور ہمیں معاشرہ میں ہونے والے ہر ظلم کو روکنے کی توفیق دے۔
آمین یا رب العالمین۔