مسلک اہلحدیث اورتصوف واحسان

ابن محمد جی

محفلین
ابن محمد جی صاحب نے فورم پر آتے ہی پہلی پوسٹ بعنوان "علماء اہلحدیث اور تصوف" پوسٹ کی تھی۔ اُس میں بھی کچھ اسی قسم کی باتیں تھیں۔ اور یہ سب "کاپی پیسٹ دانائی" یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں انٹرنیٹ پر جگہ جگہ پھیلانے کا کام محترم بڑی تن دہی سے کرتے رہتے ہیں۔

اس پوسٹ پر ایک نظر ڈالنے سے اندازہ ہو جائے گا۔
محترم جناب محمد احمد صاحب ،ماشاء اللہ بہت خوبصورت نام ہے۔اللہ آپکو علم و عمل میں کوب سے خوب تر بنائیں۔
محترم !آج سے تقریباًدو سال قبل میر انٹر نیٹ سے واسطہ پڑا ، خاکسار کا قلبی لگاؤ علم سلوک سے ہے ،لیکن یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اہلحدیث حباب کی ویب سائیڈ پر تصوف کے خلاف سخت پروپگنڈہ ہے ،تو میں نے مسلک اہلحدیث پر اس حوالے سے تحقیق شروع کر دی ،پھر میں نے پہلا مضمون جو لکھا تھا جسکا لنک دیا ہے میری بالکل اس وقت کم تحقیق تھی ،پھر میں نےمختلف لائبریوں کا رخ کیا ، اہلحدیث لوگوں سے ملا کیونکہ میری چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ کہ اہلھدیث کی تصوف پر کتب ہونگی۔کیونکہ اہل حدیث اور حناف دونوں اہل سنت ہیں اور اللہ اپنے نیک بندوں کو علم سلوک ضرور عطا کر تا ہے،پھر میری حیرانگی اس وقت بڑھ گئی ،جب اہلھدیث میں صوفی لوگ مل گئے ،ذکر کرنے والے،پھر مجھے کچھ مزید کتب ملی ،اس وقت کم و پیش ان پیچ میں پچاس میں صفات پر میرے پاس یہ مضمون لکھا ہو اہے ،جو کہ ایک کتابی شکل میں مزید تحقیق کے بعد میں شائع کر دوںگا۔
میرے ساتھ ہو ایہ کہ میں مضمون ڈائریکٹ اہلحدیث فورم پر ہی لکھتا ،مگر میرے مضمون ڈیلیٹ یو جاتے اور یوں میرا لکھا ضائع ہو جاتا ،پھر ایک مسلئہ یہ بھی دیکھا کہ کہ مد مقابل کا مضمون جو مخالف تھا اس کو رہنے دیا جاتا اور مرے جوبات کو ڈلیت کیا جاتا۔تو میں نے اپنے دوسرے لوگوں تک پہچانے کے لئے پھر مختلف فورمز پر شئیر کر نا شروع کر دیئے۔آپ نے جو لنک دیا یہ میر امضمون چند ابتدائی لائنوں کے علاوہ بالکل نیا ہے ہاں دیگر فورم پر بھی موجود ہو سکتا ہے۔اب میں نے ایک مولانا میر سیالکوٹی ؒ پر جو مضمون لکھا ہے ،اس میں بہت کچھ آپ کو ملے گا۔انقریب۔
محترم میں صوفی ہوں اور اپنے اکابرین صوفیاء اہلحدیثؒ کے اس چھپے ہوئے گوشے کو بےنقاب کر رہا ہوں ،کیا ایسا کرنا جرم ہے؟
 

x boy

محفلین
محترم تصوف کو نقصان پہچانے والے دو طبقے ہیں ایک نام نہاد جھوٹے صوفی۔اور دوسرے منکرین تصوف۔آپ سوال یہ کریں کہ تصوف ہے کیا۔اگر آپ سنجیدہ ہیں اس موضوع پر بات کرنے کے لئے تو بندہ حاضر خدمت ہے۔مقصد ایک دوسرے کی اصلاح ہو گا۔
میں سیدھا سادھا مسلمان ہوں
سارے ارکان پورے کرتا ہوں
والدین اور رشتہ داروں کی خدمت کرتا ہوں
مجھے تصوف میں انٹرسٹ نہیں،،،
محترم ایک حدیث پیش کرتا ہوں اس کے بعد اس حدیث کی رو سے کسی بھی طبقہ فکر کو جانچئے اگر پوری اترے تو وہ ٹھیک ہے


نیکی صرف اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی
اطاعت کا نام ہے
صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے کہ تین افراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر تشریف لائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں موجود نہ تھے ۔ انہوں نے پردے کے پیچھے سے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی عبادت کے بارے میں پوچھا ، ان کی خواہش تھی کہ ہماری رات کی عبادت اس کا طریقہ اور اس کا وقت بھی نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طریقہ اور وقت کے مطابق ہو ، بالکل ویسے کریں جیسے اللہ کے پیغمبر کیا کرتے تھے ۔
حدیث کے الفاظ ہیں : فلما اخبروا تقالوھا
جب انہیں پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عبادت کے بارے میں بتلایا گیا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کو تھوڑا سمجھا ۔ پھر خود ہی کہا کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام تو وہ برگزیدہ ہستی ہیں جن کے اللہ تعالیٰ نے تمام گناہ معاف کر دئیے ہیں اور ہم چونکہ گناہ گار ہیں لہٰذا ہمیں آپ سے زیادہ عبادت کرنی چاہئیے ۔ چنانچہ تینوں نے کھڑے کھڑے عزم کر لیا ۔

ایک نے کہا میں آج کے بعد رات کو کبھی نہیں سوؤں گا بلکہ پوری رات اللہ کی عبادت کرنے میں گزاروں گا ۔
دوسرے نے کہا میں آج کے بعد ہمیشہ روزے رکھوں گا اور کبھی افطار نہ کروں گا ۔
تیسرے نے کہا میں آج کے بعد اپنے گھر نہیں جاؤنگا اپنے گھر بار اور اہل و عیال سے علیحدہ ہو جاؤں گا تا کہ ہمہ وقت مسجد میں رہوں ۔ چنانچہ تینوں یہ بات کہہ کر چلے گئے اور تھوڑی دیر بعد نبی علیہ الصلوٰۃ والتسلیم تشریف لے آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ تین افراد آئے تھے اور انہوں نے یوں عزم ظاہر کیا ۔
جب امام الانبیاءنے یہ بات سنی تو حدیث کے الفاظ ہیں : فاحمر وجہ النبی کانما فقع علی وجھہ حب الرمان ” نبی علیہ السلام کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا یوں لگتا تھا گویا سرخ انار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر نچوڑ دیا گیا ہے اتنے غصے کا اظہار فرمایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں کو بلا کر پوچھا کہ تم نے یہ کیا بات کی ؟ کیا کرنے کا ارادہ کیا ؟ پھر نبی علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے اپنا عمل بتایا کہ میں تو رات کو سوتا بھی ہوں اور جاگتا بھی ہوں ، نفلی روزے رکھتا بھی ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور میرا گھر بار ہے اور میری بیویاں ہیں ۔ میں انہیں وقت بھی دیتا ہوں اور اللہ کے گھر میں بھی آتا ہوں ۔ یہ میرا طریقہ اور سنت ہے جس نے میرے اس طریقے سے اعراض کیا اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہ ہے ۔ یعنی جس نے اپنے طریقے پر چلتے ہوئے پوری پوری رات قیام کیا ۔ زمانے بھر کے روزے رکھے اور پوری عمر مسجد میں گزار دی اس کا میرے دین سے میری جماعت سے میری امت سے کوئی تعلق نہ ہو گا ۔ وہ دین اسلام سے خارج ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نیکی محنت کا نام نہیں بلکہ اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا نام نیکی ہے ۔ ایک عمل اس وقت تک ” عمل صالح نہیں ہو سکتا جب تک اس کی تائید اور تصدیق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ فرمادیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے عمل کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رد کر دیا ۔ کیونکہ وہ عمل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے اور منہج کے خلاف تھا ۔ یاد رہے کہ کوئی راستہ بظاہر کتنا ہی اچھا لگتا ہو اس وقت تک اس کو اپنانا جائز نہیں جب تک اس کی تصدیق و تائید محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ فرمادیں ۔


امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا فیصلہ کن قول
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دو باتیں اگر کوئی شخص پہچان لے تو اس نے پورے دین کو پہچان لیا ۔ پورا دین اس کے پاس محفوظ ہوگیا ۔ ایک یہ کہ عبادت کس کی کرنی ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے صرف اللہ تعالیٰ کی ، کسی حجر و شجر کی نہیں ، قبے اور مزار کی نہیں اور نہ ہی کسی نبی ، ولی اور فرشتے کی ۔ دوسرا یہ کہ کس طرح کرنی ہے ؟ جیسے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ۔ پس جو شخص ان دو باتوں کو پہچان لے اس نے سارے دین کو پہچان لیا اور یہ پورے دین کی اساس و بنیاد ہے ۔ اس لئے ہمیں اپنا عقیدہ ، عمل ، منہج ، معیشت و معاشرت ، سیاست سمیت دیگر تمام امور اللہ کے رسول کے طریقے کے مطابق بنانا ہوں گے تب اللہ رب العالمین انہیں شرف قبولیت سے نوازیں گے ۔ بصورت دیگر تمام اعمال ، عبادتیں اور ریاضتیں برباد ہو جائیں گی اور کسی عمل کا فائدہ نہ ہو گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔
ھل اتاک حدیث الغاشیۃ وجوہ یومئذ خاشعۃ عاملۃ ناصبۃ تصلیٰ ناراً حامیۃ ( الغاشیۃ : 1-4 )
قیامت کے دن بہت سے چہرے ذلیل و رسوا ہونگے ۔ اس لئے نہیں کہ وہ عمل نہیں کرتے تھے ، محبت اور کوشش نہیں کرتے تھے بلکہ عمل کرتے تھے اور بہت زیادہ کرتے تھے عمل کرتے کرتے تھک جایا کرتے تھے لیکن یہ دھکتی ہوئی جہنم کی آگ کا لقمہ بن جائیں گے ۔ بے تحاشا عمل کرنے والے محنتیں اور ریاضتیں کرنے والے ، صبح و شام سفر کرنے والے جہنم کی آگ کا ایندھن بنیں گے ۔ کیوں ! اس لئے کہ ان کا عمل اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور طریقے کے مطابق نہ تھا ۔ قرآن و حدیث کے مطابق نہ تھا ۔ اگر عمل سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہو اور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ کو بلا جھجک اور بلا چوں و چراں تسلیم کر لیا جائے تو یہی کامیابی ہے اور یہی ایمان ہے ۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمارے عقیدے ، عمل اور منہج کو کتاب و سنت کے مطابق بنا دے ۔ تا کہ ہم قرآن و حدیث کو ہی اپنا مرکز اطاعت ٹھہرا لیں ۔ ( آمین )۔

 
آخری تدوین:
ابن محمد جی صاحب نے فورم پر آتے ہی پہلی پوسٹ بعنوان "علماء اہلحدیث اور تصوف" پوسٹ کی تھی۔ اُس میں بھی کچھ اسی قسم کی باتیں تھیں۔ اور یہ سب "کاپی پیسٹ دانائی" یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں انٹرنیٹ پر جگہ جگہ پھیلانے کا کام محترم بڑی تن دہی سے کرتے رہتے ہیں۔

اس پوسٹ پر ایک نظر ڈالنے سے اندازہ ہو جائے گا۔
محترم مدیرصاحب کاپی پیسٹ ہم بھی سمجھتے ہیں مگر یہاں بات نظریات واعتقادات کی ہورہی ہے۔
نام نہاد صوفیوں نے تو تصوف کوبدنام ہی کیا ہے اور اگرکچھ کسرباقی رہی تو منکرین تصوف نے وہ بھی پوری کی ہے۔
اب تک کتنے صوفی بزرگ پائے گئے مکہ معظمہ اور مدینے میں ان 1400 سالوں میں ، میں یہ جاننا چاہتا ہوں
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے لے کر اب تک۔
صوفی ازم کوئی قبیلہ نہیں ہے نہیں ہے جس کا کوئی حسب نسب یاد رکھاجائے۔
صوفیت کی اصطلاح صفہ سے لی گئی ہے۔ علما ومحققین نے اس بھرپوراصطلاح کی ہے اور جزئیات بتائے ہیں۔ تفصیل کے لئے ماہنامہ الرشاد ہانگل )اکٹوبر1957) دیکھئے۔ کئی مکتب فکر کے علما نے بحث کی ہے
 
ارے ہاں ، واقعی یہ تو میں نے سوچا نہ تھا ، بتائے بھلا میری نادانی دیکھے ، کہ جن علماء محدثین فقہاء یہ کتابیں مرتب کی تھی ، یہ لوگ تو صوفی تھے ؟؟؟
اب میں کہاں سے لاؤں آپ کے سوال کے جوابات میں تو لاجواب ہوکر رہ گیا ۔۔۔
بڑا شرمندہ ہؤا ۔۔۔ ۔کیا ہی زبردست سوال کیا آپ نے ۔۔۔ ۔
ہا ہا ہا ۔۔۔ ۔۔
سلفی فرقہ کے امام بھی صوفی ہی تھے
عبدالرحمٰن کیلانی اپنی کتاب " روح عذاب قبر اور سماع موتٰی " میں لکھتے ہیں کہ

ابن قیم اور ان کے استاد ابن تیمیہ دونوں بزرگ نہ صرف یہ کہ سماع موتٰی کے قائل تھے بلکہ ایسی طبقہ صوفیاء سے تعلق رکھتے تھے جنھوں نے اس مسئلہ کو اچھالا اور ضیعف اور موضوع احادیث کا سہارا لیکر اس مسئلہ کو علی الاطلاق ثابت کرنا چاھا ابن تیمیہ اور ابن قیم دونوں صاحب کشف و کرامات بھی تھے اور دونوں بزروگوں نے تصوف و سلوک پر مستقل کتابیں بھی لکھی ۔۔۔۔

مزید آگے لکھتے ہیں کہ

ایسی طرح کے ایک تیسرے بزرگ شاہ ولی اللہ صاحب ہیں یہ تینوں بزرگ جب شرک و بدعات کی تردید پر قلم اٹھاتے ہیں تو جی عش عش کر اٹھتا ہے اور ہم دل و جان سے ان کی دینی خدمات کے معترف ہوجاتے ہیں لیکن جب زیارات قبور کے آداب اور کشف کے طریق بتلاتے ہیں تو نہیں سوچتے کہ آیا قبروں اور مزارات کے وجود کا بھی کوئی جواز ہے یا نہیں یا قبروں پر اس غرض سے بیٹھنا جائز بھی ہے یا نہیں؟

کتاب: روح عذاب قبر اور سماع موتٰی ، مصنف: عبدالرحمٰن کیلانی
اب تو حقیقتا شرمندہ ہونا پڑے گا کیونکہ گھر کے بھیدی نے لنکا ڈھادی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کھسیانی ہنسی ہا ہاہا بھی نہیں نکلے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
میں سیدھا سادھا مسلمان ہوں
سارے ارکان پورے کرتا ہوں
والدین اور رشتہ داروں کی خدمت کرتا ہوں
مجھے تصوف میں انٹرسٹ نہیں،،
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا فیصلہ کن قول
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دو باتیں اگر کوئی شخص پہچان لے تو اس نے پورے دین کو پہچان لیا ۔ پورا دین اس کے پاس محفوظ ہوگیا ۔ ایک یہ کہ عبادت کس کی کرنی ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے صرف اللہ تعالیٰ کی ، کسی حجر و شجر کی نہیں ، قبے اور مزار کی نہیں اور نہ ہی کسی نبی ، ولی اور فرشتے کی ۔ دوسرا یہ کہ کس طرح کرنی ہے ؟ جیسے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ۔ پس جو شخص ان دو باتوں کو پہچان لے اس نے سارے دین کو پہچان لیا اور یہ پورے دین کی اساس و بنیاد ہے ۔ اس لئے ہمیں اپنا عقیدہ ، عمل ، منہج ، معیشت و معاشرت ، سیاست سمیت دیگر تمام امور اللہ کے رسول کے طریقے کے مطابق بنانا ہوں گے تب اللہ رب العالمین انہیں شرف قبولیت سے نوازیں گے ۔ بصورت دیگر تمام اعمال ، عبادتیں اور ریاضتیں برباد ہو جائیں گی اور کسی عمل کا فائدہ نہ ہو گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔
ھل اتاک حدیث الغاشیۃ وجوہ یومئذ خاشعۃ عاملۃ ناصبۃ تصلیٰ ناراً حامیۃ ( الغاشیۃ : 1-4 )
کمال ہے آپ کو تصوف میں دلچسپی نہیں پھر کیوں صوفی ابن تیمیہ کو امام مان رہے ہیں ،ان کی لکھی ہوئی کتابوں کا مطالعہ فرماتے ہیں اور ان کے اقوال کو دلیل کے طور پر پیش بھی فرماتے ہیں ۔
 

صرف علی

محفلین
ھھم ویسے ایک سوال ہے کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ اہل حدیث نے جب یہ دیکھا کہ برصغیر میں اکثر لوگ تصوف کے ماننے والے ہیں تو ان کے اپنی طرف مائل کرنے کے لئے تصوف کو اختیار کیا گیا ہو۔؟
 

صرف علی

محفلین
ھھم ویسے ایک سوال ہے کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ اہل حدیث نے جب یہ دیکھا کہ برصغیر میں اکثر لوگ تصوف کے ماننے والے ہیں تو ان کے اپنی طرف مائل کرنے کے لئے تصوف کو اختیار کیا گیا ہو۔؟
 
اور اصول یہ ہے کہ صحابہ کا عمل بدعت نہیں ہوتا ، چنانچہ یہ عمل آج تک جاری و ساری ہے،
اجی سرپھرے اس کاحوالہ دیجئے،
شاید آپ جیسے مخالف صوفی ازم نے ہی دہشت گردی کو فروغ دیا۔ دین میں بھی دنیامیں۔

الزامی کھیل (بلیم گیم) کھیلنا ہے تو الگ بات ہے ، میں بھی کہہ سکتا ہوں کہ صوفی ازم کی وجہ سے دربار مزار سجے ہیں جہاں ہر قسم کے اوباش چرسی لوگ نظر آئینگے ۔۔
لیکن میں آپ کی طرح غصہ نہیں نکالونگا ۔۔



دین میں دہشت گردی یہ کہ خداورسول اور قرآن کے نام پر صوفی ازم کے مخالفت میں دوسروں کو جاہل اور بدعت سمجھتے ہیں۔
یہ آپ کا اپنا خیال ہے ، جس سے کوئی اتفاق نہیں کرتا، صوفی ازم اسلام سے ہٹ کر ایک الگ مذہب ہے ، اور اگر اسکو ایسا دیکھا جائے تب مجھے کوئی اعتراض نہیں
ہاں اسلام سے اسکو جوڑنا درست نہیں

آپ یہ بتائیں کہ آپ کے آباواجداد کیا تھے؟ بدعتی یامسلمان؟
کمال ہے ، آپ کا سوال طنزیہ اور مناسب نہیں ، کسی سے اس طرح سوال کرنے کا طریقہ اچھا نہیں ، مجھے آپ سے یہ امید نہیں تھی ، لیکن فورم میں آپ کا سوال جوں کا توں رہے ، جبکہ میرے جواب کو حذف کردیا جائے ۔۔۔
سنا تو یہی ہے کہ میرے آباؤاجداد مسلمان تھے جیسا کہ ہم لوگ سید ہیں ، پر بیچ میں اگر کوئی بدعتی ہے ، تو مجھے اسکا علم نہیں ، واللہ اعلم ۔۔۔
 

x boy

محفلین
محترم مدیرصاحب کاپی پیسٹ ہم بھی سمجھتے ہیں مگر یہاں بات نظریات واعتقادات کی ہورہی ہے۔
نام نہاد صوفیوں نے تو تصوف کوبدنام ہی کیا ہے اور اگرکچھ کسرباقی رہی تو منکرین تصوف نے وہ بھی پوری کی ہے۔

صوفی ازم کوئی قبیلہ نہیں ہے نہیں ہے جس کا کوئی حسب نسب یاد رکھاجائے۔
صوفیت کی اصطلاح صفہ سے لی گئی ہے۔ علما ومحققین نے اس بھرپوراصطلاح کی ہے اور جزئیات بتائے ہیں۔ تفصیل کے لئے ماہنامہ الرشاد ہانگل )اکٹوبر1957) دیکھئے۔ کئی مکتب فکر کے علما نے بحث کی ہے

میں مطمئن نہیں ہوا ہوں اس جواب سے،
میں نے حدیث لکھی ہے اس میں امام الانبیاء سیدالمرسلین آخری نبی و پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کا ذکر ہے اس پر غور کریں
اگر میں صوفیت کی ایک لمبی تفصیل اس لڑی میں لکھونگا تو صوفیت یا ان جیسے کام کو پسند کرنے والوں کی قطاریں لگ جائنگی، کہ یہ کیا لکھ دیا۔
جناب عالی،،، ہم وہی کرینگے جو ہمیں قرآن حکم دیتا ہے اور طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو، ایک حدیث کا مفہوم ہے،
َقَالَ الْعِرْبَاضُ بن سارية رضي الله عنه صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ فَقَالَ قَائِلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَأَنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا فَقَالَ أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ

مفہوم،،،
میرے بعد تم بہت سی مشکلات میں پڑجاؤ گے، تم لوگ ایک کام کرنا میرے بعد میری سنت کو مت چھوڑنا پھرمیرے خلیفاؤ ( ابوبکر، عمر، عثمان و علی)
کے عمل پر عمل کرنا، دین (اسلامی شریعہ، سلیقہ،قرانی حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ جس کو ان کے صحابہ نے سیکھا اور سکھایا جو تابعین نے لیا پھر تبع تابعین نے اختیار کیا ، قرون اول، اثنین و ثلاثہ)میں جو بھی نئی چیز داخل ہوگی وہ بدعت ہے اور تمام بدعت برائی ہے اور تمام برائی جہنم میں ڈالی جائے گی۔
۔ انتھی
 
جنہیں آج کل کے جاہل محدثین نے لوگوں کو منکر اور موضوع باور کروا رکھا ہے اسے بھی صحیح کے درجے میں شمار کیا جاتا تھا،
محدیثین کو جاہل کہنے سے گریز کرے کیونکہ یہ محدثین ہیں ، صوفی نہیں ،اتنا تو لحاظ کرے ۔۔
یعنی آپ کے نذدیک کوئی روایت بھی منکر یہ موضوع نہیں سب صحیح ہے؟
صوفی ازم کی عمارت اسی موضوع و منکر روایت پر کھڑی ہیں

اسی طرح جب تمام تابعین، اور صحابہ اہلِ ذوق ہوں، اللہ کے مقرب ہوں، عدل، جہد اور تقوی گلی گلی کوچے کوچے میں موجود ہو تو صوفی ازم جیسے فن کی کیا ضرورت رہی؟
اور حقیقت میں ضرورت ہے بھی نہیں ۔۔

پھر آہستہ آہستہ جو لوگوں کی نیت میں کھوٹ آگئی، اور نفس پر قابو نہ رہا، اور دل کا ضبط جاتا رہا تو ولی اللہ اور مقربین نے ایسے طریقے نکالے جس سے اللہ تک رسائی حاصل کرنا آسان تھا،
یعنی اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم جو طریقہ بتایا اس سے اللہ تک رسائی آسان نہ تھی ؟؟؟
اللہ عالم غیب ہے ، اسے علم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے بعد مذکورہ صورتحال پیش آئے گی تبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے لسان مبارک سے یہ تنبہیہ کی جاتی رہی کے آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے بعد قرآن و سنت کو مظبوطی سے تھام رکھنا۔۔۔
یہ تو نہیں کہاں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کے بعد صوفی لوگ آئنگے وہ جو طریقہ بتائے اسی صورت اللہ تک رسائی آسان ہوگی ۔۔۔

اور یقین مانئے کہ طریقتِ اسلامی ہی نے مکمل شریعتِ اسلامی کو بچایا ہے۔
یعنی جب دین نبی آخرالزماں ، سراپائے رحمت محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم جو دین لیکر آئے وہ معاذاللہ کمزور تھا ، اسکو صرف صوفی ہی مظبوط کرسکتے ہیں ۔
کیا اللہ کا خوف نہیں آتا اس طرح کے جملے لکھتے وقت ؟؟؟


کیونکہ عالم گھر میں فرج اور ریفریجریٹر رکھ کر اور اس میں ایک مہینے کا کھانا اسٹور کر کے منبر پر توکل کی دعوت دیتا ہے،
جب کہ صوفی جو قمیض پہنتا ہے اسی کو بچھا کر سو جاتا ہے۔
یعنی جو اللہ کے اسباب و زرائع کو استعمال نہ کرے وہ اتنا مقرب نہیں جو ان سب کو جھٹلائے کفران نعمت کرے وہ اللہ والا ہے ۔۔۔
ویسے ریفجریٹر سے قمیض کا کیا تعلق بنا ، اسکی وضاحت کردے ۔۔۔

عالم فتوی دیکھتا ہے، اور صوفی تقوی دیکھتا ہے۔
کس کو اخیتار کرنا زیادہ مناسب ہے ، فتوی کو جوکہ سیدھی راہ متعین کرے گا ، یا اپنی جناب سے اس تقوی کو جسکا کوئی پتا نہیں ؟؟

لیکن اینٹی صوفی دنیا پرست اور نفس پرست لوگ اس حقیقت کو حاصل تو کیا کرتے، لگ گئے گالیاں دینے
۔
ان گالیوں کا حوالہ ضرور دے جو صوفی مخالف نے دیا ہے ، تاکہ آپ کی بات کی تصدیق ہوجائے ۔۔۔

آخری بات یہ کہ اسے صوفی ازم کیوں کہتے ہیں؟ تقوی کیوں نہیں کہتے؟۔
صرف نام کا فرق ہے، کام اللہ اور رسول کی بات کا اتباع ہے، وہاں بھی کام اللہ تک رسائی ہے۔
یہ نام کا فرق کیوں ہے ِ؟
جب کام اللہ اور اسکے رسول کی اتباع ہے تو ایسی مشقیں (طریقے) کیوں ایجاد کئے جنکا تعلق قرآن و حدیث میں نہیں ۔۔؟؟؟
 

محمداحمد

لائبریرین
محترم جناب محمد احمد صاحب ،ماشاء اللہ بہت خوبصورت نام ہے۔اللہ آپکو علم و عمل میں کوب سے خوب تر بنائیں۔
محترم !آج سے تقریباًدو سال قبل میر انٹر نیٹ سے واسطہ پڑا ، خاکسار کا قلبی لگاؤ علم سلوک سے ہے ،لیکن یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اہلحدیث حباب کی ویب سائیڈ پر تصوف کے خلاف سخت پروپگنڈہ ہے ،تو میں نے مسلک اہلحدیث پر اس حوالے سے تحقیق شروع کر دی ،پھر میں نے پہلا مضمون جو لکھا تھا جسکا لنک دیا ہے میری بالکل اس وقت کم تحقیق تھی ،پھر میں نےمختلف لائبریوں کا رخ کیا ، اہلحدیث لوگوں سے ملا کیونکہ میری چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ کہ اہلھدیث کی تصوف پر کتب ہونگی۔کیونکہ اہل حدیث اور حناف دونوں اہل سنت ہیں اور اللہ اپنے نیک بندوں کو علم سلوک ضرور عطا کر تا ہے،پھر میری حیرانگی اس وقت بڑھ گئی ،جب اہلھدیث میں صوفی لوگ مل گئے ،ذکر کرنے والے،پھر مجھے کچھ مزید کتب ملی ،اس وقت کم و پیش ان پیچ میں پچاس میں صفات پر میرے پاس یہ مضمون لکھا ہو اہے ،جو کہ ایک کتابی شکل میں مزید تحقیق کے بعد میں شائع کر دوںگا۔
میرے ساتھ ہو ایہ کہ میں مضمون ڈائریکٹ اہلحدیث فورم پر ہی لکھتا ،مگر میرے مضمون ڈیلیٹ یو جاتے اور یوں میرا لکھا ضائع ہو جاتا ،پھر ایک مسلئہ یہ بھی دیکھا کہ کہ مد مقابل کا مضمون جو مخالف تھا اس کو رہنے دیا جاتا اور مرے جوبات کو ڈلیت کیا جاتا۔تو میں نے اپنے دوسرے لوگوں تک پہچانے کے لئے پھر مختلف فورمز پر شئیر کر نا شروع کر دیئے۔آپ نے جو لنک دیا یہ میر امضمون چند ابتدائی لائنوں کے علاوہ بالکل نیا ہے ہاں دیگر فورم پر بھی موجود ہو سکتا ہے۔اب میں نے ایک مولانا میر سیالکوٹی ؒ پر جو مضمون لکھا ہے ،اس میں بہت کچھ آپ کو ملے گا۔انقریب۔
محترم میں صوفی ہوں اور اپنے اکابرین صوفیاء اہلحدیثؒ کے اس چھپے ہوئے گوشے کو بےنقاب کر رہا ہوں ،کیا ایسا کرنا جرم ہے؟

وضاحت کا بہت بہت شکریہ محترم۔۔۔۔!

ان تمام باتوں سے قطع نظر میرا خیال یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ ہم یہ ماننے منوانے پر لگ جائیں کہ اسلام میں کوئی چیز (مثلاً تصوف) ہے یا نہیں۔ ہمیں صرف یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے۔ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہی اسلام ہے سو بس ہمیں یہی جاننے کی کوشش کرنی چاہیے کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کیا ہیں۔ اُن پر عمل کرکے ہی ہم فلاح پا سکتے ہیں اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔

اہلِ حدیث میں صوفیاء ہیں یا نہیں ! یا صوفیا میں اہلِ حدیث ہیں کہ نہیں یہ سب فروعی معاملات ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ سب باتیں نہیں بھی سمجھتا اور اسلام کی بنیادی تعلیمات پر پابند رہتا ہے تو اُس کے مسلمان ہونے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

رہی آپ کی یہ بات کہ لوگ صوفیوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں تو اس میں پروپگنڈہ کرنے والوں سے زیادہ قصور تصوف کی اُن کتابوں کا ہے جن میں پیروں فقیروں کی شان میں اس قدر غلو سے کام لیا گیا ہے کہ معمولی سے معمولی عقل والا شخص بھی ان باتوں کو تسلیم نہیں کرپاتا۔ تاآنکہ آنکھوں پر اندھی عقیدت کی پٹی بندھی ہو ۔

اہلِ حدیث طبقہ محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو ہی دین سمجھتا ہے ۔ بالفرض اہلِ حدیث حضرات میں سے کچھ لوگ (خلافِ شرع) تصوف کی طرف مائل پائے بھی گئے ہیں تو وہ باقی اہلِ حدیث کے لئے حجت نہیں ہو سکتے کیونکہ بہر کیف دین کے اصل ماخذ تو قران اور احادیثِ صحیحہ ہی ہیں نا کہ کسی اُمتی کا عمل۔
 

محمداحمد

لائبریرین
محترم مدیرصاحب کاپی پیسٹ ہم بھی سمجھتے ہیں مگر یہاں بات نظریات واعتقادات کی ہورہی ہے۔
نام نہاد صوفیوں نے تو تصوف کوبدنام ہی کیا ہے اور اگرکچھ کسرباقی رہی تو منکرین تصوف نے وہ بھی پوری کی ہے۔

صوفی ازم کوئی قبیلہ نہیں ہے نہیں ہے جس کا کوئی حسب نسب یاد رکھاجائے۔
صوفیت کی اصطلاح صفہ سے لی گئی ہے۔ علما ومحققین نے اس بھرپوراصطلاح کی ہے اور جزئیات بتائے ہیں۔ تفصیل کے لئے ماہنامہ الرشاد ہانگل )اکٹوبر1957) دیکھئے۔ کئی مکتب فکر کے علما نے بحث کی ہے

غلام ربانی بھائی۔۔۔!

آپ کے طرزِ تخاطب سے تو ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے ایک مُدیر کو اپنی ذاتی رائے دینے کا حق ہی نہی ہونا چاہیے۔ محترم ہم بھی آپ ہی کی طرح اس محفل کے رکن ہیں کیا آپ ہمیں ایک رُکن کےبنیادی حق سے بھی محروم کرنا چاہتے ہیں۔ یا مُدیر ہونا واقعی کوئی معیوب بات ہے کہ اِسے بطورِ طنز استعمال کیا جائے۔

رہی بات صوفی ازم کی تو میں اپنی (ذاتی) رائے اوپر دے چکا ہوں۔
 

ابن محمد جی

محفلین
[
میں سیدھا سادھا مسلمان ہوں
سارے ارکان پورے کرتا ہوں
والدین اور رشتہ داروں کی خدمت کرتا ہوں
مجھے تصوف میں انٹرسٹ نہیں،،،
محترم ایک حدیث پیش کرتا ہوں اس کے بعد اس حدیث کی رو سے کسی بھی طبقہ فکر کو جانچئے اگر پوری اترے تو وہ ٹھیک ہے
بھائی آپ مجھ سے اچھے مسلمان ہیں۔کوئی بات نہیں جو علم سلوک نہ حاصل کریں وہ بھی مسلمان ہی ہے۔تعلیم تصوف بالکل آسان ہے اسکا حصول کثرت ذکر ہے


نیکی صرف اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی
اطاعت کا نام ہے
صحیح بخاری میں ایک حدیث ہے کہ تین افراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر تشریف لائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں موجود نہ تھے ۔ انہوں نے پردے کے پیچھے سے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی عبادت کے بارے میں پوچھا ، ان کی خواہش تھی کہ ہماری رات کی عبادت اس کا طریقہ اور اس کا وقت بھی نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طریقہ اور وقت کے مطابق ہو ، بالکل ویسے کریں جیسے اللہ کے پیغمبر کیا کرتے تھے ۔
حدیث کے الفاظ ہیں : فلما اخبروا تقالوھا
جب انہیں پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عبادت کے بارے میں بتلایا گیا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کو تھوڑا سمجھا ۔ پھر خود ہی کہا کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام تو وہ برگزیدہ ہستی ہیں جن کے اللہ تعالیٰ نے تمام گناہ معاف کر دئیے ہیں اور ہم چونکہ گناہ گار ہیں لہٰذا ہمیں آپ سے زیادہ عبادت کرنی چاہئیے ۔ چنانچہ تینوں نے کھڑے کھڑے عزم کر لیا ۔

ایک نے کہا میں آج کے بعد رات کو کبھی نہیں سوؤں گا بلکہ پوری رات اللہ کی عبادت کرنے میں گزاروں گا ۔
دوسرے نے کہا میں آج کے بعد ہمیشہ روزے رکھوں گا اور کبھی افطار نہ کروں گا ۔
تیسرے نے کہا میں آج کے بعد اپنے گھر نہیں جاؤنگا اپنے گھر بار اور اہل و عیال سے علیحدہ ہو جاؤں گا تا کہ ہمہ وقت مسجد میں رہوں ۔ چنانچہ تینوں یہ بات کہہ کر چلے گئے اور تھوڑی دیر بعد نبی علیہ الصلوٰۃ والتسلیم تشریف لے آئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ تین افراد آئے تھے اور انہوں نے یوں عزم ظاہر کیا ۔
جب امام الانبیاءنے یہ بات سنی تو حدیث کے الفاظ ہیں : فاحمر وجہ النبی کانما فقع علی وجھہ حب الرمان ” نبی علیہ السلام کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا یوں لگتا تھا گویا سرخ انار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر نچوڑ دیا گیا ہے اتنے غصے کا اظہار فرمایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں کو بلا کر پوچھا کہ تم نے یہ کیا بات کی ؟ کیا کرنے کا ارادہ کیا ؟ پھر نبی علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے اپنا عمل بتایا کہ میں تو رات کو سوتا بھی ہوں اور جاگتا بھی ہوں ، نفلی روزے رکھتا بھی ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور میرا گھر بار ہے اور میری بیویاں ہیں ۔ میں انہیں وقت بھی دیتا ہوں اور اللہ کے گھر میں بھی آتا ہوں ۔ یہ میرا طریقہ اور سنت ہے جس نے میرے اس طریقے سے اعراض کیا اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہ ہے ۔ یعنی جس نے اپنے طریقے پر چلتے ہوئے پوری پوری رات قیام کیا ۔ زمانے بھر کے روزے رکھے اور پوری عمر مسجد میں گزار دی اس کا میرے دین سے میری جماعت سے میری امت سے کوئی تعلق نہ ہو گا ۔ وہ دین اسلام سے خارج ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نیکی محنت کا نام نہیں بلکہ اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا نام نیکی ہے ۔ ایک عمل اس وقت تک ” عمل صالح نہیں ہو سکتا جب تک اس کی تائید اور تصدیق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ فرمادیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے عمل کو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رد کر دیا ۔ کیونکہ وہ عمل اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے اور منہج کے خلاف تھا ۔ یاد رہے کہ کوئی راستہ بظاہر کتنا ہی اچھا لگتا ہو اس وقت تک اس کو اپنانا جائز نہیں جب تک اس کی تصدیق و تائید محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ فرمادیں ۔
محترم علم تصوف وسلوک تششد د نہیں سکھتا ،اعتدال کی راہ پر چلاتا ہے ،آپ تصوف وسلوک سے نا آشنائی کی وجہ سے غلط سمجھ رہے ہیں۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا فیصلہ کن قول
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دو باتیں اگر کوئی شخص پہچان لے تو اس نے پورے دین کو پہچان لیا ۔ پورا دین اس کے پاس محفوظ ہوگیا ۔ ایک یہ کہ عبادت کس کی کرنی ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے صرف اللہ تعالیٰ کی ، کسی حجر و شجر کی نہیں ، قبے اور مزار کی نہیں اور نہ ہی کسی نبی ، ولی اور فرشتے کی ۔ دوسرا یہ کہ کس طرح کرنی ہے ؟ جیسے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ۔ پس جو شخص ان دو باتوں کو پہچان لے اس نے سارے دین کو پہچان لیا اور یہ پورے دین کی اساس و بنیاد ہے ۔ اس لئے ہمیں اپنا عقیدہ ، عمل ، منہج ، معیشت و معاشرت ، سیاست سمیت دیگر تمام امور اللہ کے رسول کے طریقے کے مطابق بنانا ہوں گے تب اللہ رب العالمین انہیں شرف قبولیت سے نوازیں گے ۔ بصورت دیگر تمام اعمال ، عبادتیں اور ریاضتیں برباد ہو جائیں گی اور کسی عمل کا فائدہ نہ ہو گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔
ھل اتاک حدیث الغاشیۃ وجوہ یومئذ خاشعۃ عاملۃ ناصبۃ تصلیٰ ناراً حامیۃ ( الغاشیۃ : 1-4 )
قیامت کے دن بہت سے چہرے ذلیل و رسوا ہونگے ۔ اس لئے نہیں کہ وہ عمل نہیں کرتے تھے ، محبت اور کوشش نہیں کرتے تھے بلکہ عمل کرتے تھے اور بہت زیادہ کرتے تھے عمل کرتے کرتے تھک جایا کرتے تھے لیکن یہ دھکتی ہوئی جہنم کی آگ کا لقمہ بن جائیں گے ۔ بے تحاشا عمل کرنے والے محنتیں اور ریاضتیں کرنے والے ، صبح و شام سفر کرنے والے جہنم کی آگ کا ایندھن بنیں گے ۔ کیوں ! اس لئے کہ ان کا عمل اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور طریقے کے مطابق نہ تھا ۔ قرآن و حدیث کے مطابق نہ تھا ۔ اگر عمل سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہو اور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ کو بلا جھجک اور بلا چوں و چراں تسلیم کر لیا جائے تو یہی کامیابی ہے اور یہی ایمان ہے ۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمارے عقیدے ، عمل اور منہج کو کتاب و سنت کے مطابق بنا دے ۔ تا کہ ہم قرآن و حدیث کو ہی اپنا مرکز اطاعت ٹھہرا لیں ۔ ( آمین )۔
اگر کوئی تصوف کے نام پر راہ حق سے ہٹ جائے کتاب وسنت کو چھوڑ دے تو ایسے تصوف کو ہم نہیں مانتے ۔آپ نے ابن تیمیہ ٌ کا حوالہ دیا تو ابن تیمہ ٌ تصوف پر فیصلہ کن قول یہ ہے
ابن تیمیہؒ کا تصوف پر ایک ارشاد گرامی ان لوگوں کے نام پر جو افراط وتفریط کا شکار ہیں۔آپ فرماتے ہیں
" ترجمعہ :۔ یعنی ایک جماعت نے مطلق صوفیاء اور تصوف کی برائی کی ہے ،اور انکے بارے میں کہا ہے کہ یہ بدعتیوں کا طبقہ ہے جو اہل سنت سے خارج ہے،اور ایک جماعت نے صوفیاء کے بارے میں غلو سے کام لیا ہے اور انبیاء علیہ اسلام کے بعد انکو سب سے افضل قرار دیا ہے اور یہ دونوں باتیں مذموم ہیں درست بات یہ ہے کہ صوفیاء اللہ کی اطاعت کے مسلئہ میں مجتہد ہیں،جیسے دوسرے اہل اطاعت اجتہاد کرنے والے ہوتے ہیں اسلیئے صوفیاء میں مقربین اور سابقین کا درجہ حاصل کرنے والے بھی ہیں،اور ان میں مقتصدین کا بھی طبقہ ہے جو اہل یمین میں سے ہیں اور اس طبقہ صوفیاء میں سے بعض ظالم اور اپنے رب کے نافرمان بھی ہیں۔( فتاوٰی ابن تیمیہ جلد11 صفحہ 18 بحوالہ کیا ابن تیمیہ علماء اہلسنت میں سے ہیں صحفہ 12)
خود ابن تیمیہٌ کون تھے مشہو منکر تصوف عبد الرحمن کیلانی صاحب لکھتے ہیں:۔
ابن قیم اور ان کے استاد ابن تیمیہ دونوں بزرگ نہ صرف یہ کہ سماع موتٰی کے قائل تھے بلکہ ایسی طبقہ صوفیاء سے تعلق رکھتے تھے جنھوں نے اس مسئلہ کو اچھالا اور ضیعف اور موضوع احادیث کا سہارا لیکر اس مسئلہ کو علی الاطلاق ثابت کرنا چاھا ابن تیمیہ اور ابن قیم دونوں صاحب کشف و کرامات بھی تھے اور دونوں بزروگوں نے تصوف و سلوک پر مستقل کتابیں بھی لکھی .
کتاب: روح عذاب قبر اور سماع موتٰی مصنف: عبدالرحمٰن کیلانی صفحہ نمبر ۔55.56
مزید آپ یہاں سے استفادہ کریں
 

ابن محمد جی

محفلین
"محمداحمد, post: 1404062, member: 740"]وضاحت کا بہت بہت شکریہ محترم۔۔۔ ۔!
ان تمام باتوں سے قطع نظر میرا خیال یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ ہم یہ ماننے منوانے پر لگ جائیں کہ اسلام میں کوئی چیز (مثلاً تصوف) ہے یا نہیں۔ ہمیں صرف یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے۔ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہی اسلام ہے سو بس ہمیں یہی جاننے کی کوشش کرنی چاہیے کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کیا ہیں۔ اُن پر عمل کرکے ہی ہم فلاح پا سکتے ہیں اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
محترم محمد احمد صاحب! دین مبین کے مختلف شعبے ہیں،تصوف واحسان بھی ایک جز ہے،اور تصوف اللہ رسول کی اطاعت کو دل کی گہرائی سے کرنے کا نام ہے۔
الِ حدیث میں صوفیاء ہیں یا نہیں ! یا صوفیا میں اہلِ حدیث ہیں کہ نہیں یہ سب فروعی معاملات ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ سب باتیں نہیں بھی سمجھتا اور اسلام کی بنیادی تعلیمات پر پابند رہتا ہے تو اُس کے مسلمان ہونے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں،مگر کوئی خوب سے خوب تر کی تلاش میں تو کچھ مذائقہ نہیں۔
رہی آپ کی یہ بات کہ لوگ صوفیوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں تو اس میں پروپگنڈہ کرنے والوں سے زیادہ قصور تصوف کی اُن کتابوں کا ہے جن میں پیروں فقیروں کی شان میں اس قدر غلو سے کام لیا گیا ہے کہ معمولی سے معمولی عقل والا شخص بھی ان باتوں کو تسلیم نہیں کرپاتا۔ تاآنکہ آنکھوں پر اندھی عقیدت کی پٹی بندھی ہو
۔ صوفیاء کی سونح حیات جن لوگوں نے قلمبند کی ،ان میں صوفی نہیں تھے ، لئے سنی ،سنائی باتیں ،کشف ، مشاھدات یا وہ امور جو صوفیاء کے نزدیک کچھ اہمیت نہیں رکھتے،ان کو بڑھا چڑھا کر لکھ دیا،ای اس طبقے نے اور دوسرے منکرین تصوف نے جنہوں نے کچھ تحقیق سے کام نہ لیا،اندھا دھند مخالفت میں کتابیں لکھ ماری۔

اہلِ حدیث طبقہ محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو ہی دین سمجھتا ہے ۔ بالفرض اہلِ حدیث حضرات میں سے کچھ لوگ (خلافِ شرع) تصوف کی طرف مائل پائے بھی گئے ہیں تو وہ باقی اہلِ حدیث کے لئے حجت نہیں ہو سکتے کیونکہ بہر کیف دین کے اصل ماخذ تو قران اور احادیثِ صحیحہ ہی ہیں نا کہ کسی اُمتی کا عمل۔
جو کتب تصوف کی مخالفت میں لکھی گئی ہیں،وہ مصنفین بھی اپنے آپکو اہل حدیث میں شمار کرتے ہیں ،مثلا کیلانی صاحب کی ،شریعت وطریقت یا علامہ احسان الہی صاحب کی"تصوف" تو ان کتب میں صوفیاء اہلحدیث پر کوئی تنقید نہیں ،اسکا مطلب ہوا کہ ان ناقدین تصوف کے نزدیک ان لوگوں کا سلوک عین منشاء نبوی تھا،مثلا کیلانی صاحب " خود ساختہ تحقیق میں لکھتے ہیں
image.jpg

تو آپ دیکھے مولانا عبد اللہ غزنوی ٌ اہل حدیث تھے،تو انکا سلوک عین قرآن وسنت ہے ،اور دیگر کا قابل اعتراض؟۔
اب مولانا عبداللہ غزنویٌ کا سلسلہ تصوف تو شاہ ولی اللہٌ سے ملتا ہے ،کمال ہے جب نیچے مولانا غزنویٌ پر آئے تو درست اوپر جائیں تو بدعت وشرک۔
تو حقیقت میں یہ لوگ علم سلوک سے نابلد تھے،اور پھر بے چارے محقق بھی بنے بیٹھے،اب ہر اہل حدیث ان کتب کو پڑھ کر گمراہ ہو رہا ہے ،سو لوگوں کو و علم سلوک کی طرف متوجہ کرنے کے لئے،اور ان گمراہ کردوہ لوگوں سے مسلک اہلحدیث کوبچانے کی یہ ساری کوشش ہے۔ہاں اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اکابرین اہلحدیث کا تصوف وسلوک قرآن وسنت سے ہٹ کر تھا ،تو یہ بھی اسکی غلطی ہے ،الحمد للہ ہمارے اکابرین صوفیاء اہلحدیث نے قرآن و حدیث سے دلائل دیکر تصوف وسلوک کو مشروع ثابت کیا ہے ،اور آج تک کسی منکر تصوف نے صوفیاء اہلحدیث ٌ کی کتب پر نقد نہیں کیا۔
 

x boy

محفلین
کیا صوفیوں کے مشائخ کا اللہ تعالی کے ساتھ رابطہ ہے
اسلام میں صوفیوں کا کیا درجہ اور مکان ہے ؟
اور یہ قول کہاں تک صحیح ہے کہ کچھ عبادت گزار اور اولیاء اللہ تعالی سے رابطہ رکھتے ہیں ، اور بعض لوگ اس کا اعتقاد رکھتے ہیں اور یہ کہ یہ دنیا میں مختلف جگہ اور ادیان میں اس کا ثبوت ملتا ہے ۔
جو لوگ صوفی ہونے یا صوفیوں کے پیروکار ہونے کا دعوی کرتے ہیں ان کی ر‎ؤیت کیسے ممکن ہے ؟
اور کیا نماز اور اللہ تعالی کا ذکر اللہ سبحانہ وتعالی سے رابطہ کی ایک قسم نہیں ؟


الحمد للہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے دور میں صوفیت نام کی کوئ چيز نہیں پائ جاتی تھی ، حتی کہ زاھد لوگوں کا ایک گروہ پیدا ہوا جو کہ اون کے موٹے کپڑے پہنا کرتے تھے تو انہیں صوفی کے نام سے پکارا جانے لگا۔
اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ (صوفی ) صوفیا سے ماخوذ ہے اور یونانی زبان میں اس کا معنی " حکمت " ہے نہ کہ جیسا کہ بعض یہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ الصفاء سے ماخوذ ہے ، کیونکہ اگر الصفاء کی طرف نسبت کی جائے تو صفائ کہا جائے گا نہ کہ صوفی ۔

اس نئے نام اور اس فرقہ نے مسلمانوں میں تفرقہ اور زیاد ہ کردیا ہے ، اور اس فرقہ کے پہلے صوفی حضرات بعد میں آنے والوں سے مختلف ہیں بعد میں آنےوالوں کے اندر بدعات کا بہت زیادہ عمل دخل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ شرک اصغر اور شرک اکبر بھی پیدا ہو چکا ہے ، ان کی بدعات ایسی ہیں جن سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بچنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا :

( تم نئے نئے کا موں سے بچو کیونکہ ہر نیا کام بدعت اور ہر بدعت گمراہی ہے ) سنن ترمذی ، امام ترمذی نے اسے حسن صحیح کہاہے۔

ذیل میں ہم صوفیوں کے اعتقادات اور ان کے دینی طریقوں اور قرآن وسنت پر مبنی اسلا م کا مقارنہ اور موازنہ پیش کرتے ہیں :

صوفی حضرات : کے مختلف طریقے اور سلسلے ہیں ، مثلا تیجانیہ ، نقشبندیہ ، شاذلیہ ، قادریہ ، رفاعیہ ،اور اس کے علاوہ دوسرے سلسلے جن پر چلنے والے یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ ہی حق پر ہیں ان کے علاوہ کو‎ئ اور حق پر نہیں ، حالانکہ اسلام تفرقہ بازی سے منع کرتا ہے ، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

{ اور تم مشرکوں میں سے نہ بنو ان لوگوں میں سے جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور خود بھی گروہ گروہ ہو گئے ، ہر گروہ اس چيز پر جو اس کے پاس ہے وہ اس میں مگن اور اس پر خوش ہے } الروم ( 31- 32 )

صوفی حضرات : نے اللہ تعالی کے علاوہ انبیاء اور اولیاء زندہ اور مردہ کی عبادت کرنی شروع کردی ، اور وہ انہیں پکارتے ہوئے اس طرح کہتے ہیں ( یا جیلانی ، یا رفاعی ، یا رسول اللہ مدد ، اور یہ بھی کہتے ہیں ، یا رسول اللہ آپ پر ہی بھروسہ ہے ) ۔

اور اللہ تبارک وتعالی اس سے منع فرماتا ہے کہ اس کے علاوہ کسی اور کو ایسی چیز میں پکارا جائے جس پر وہ قادر نہیں بلکہ یہ اسے شرک شمار کیا ہے ۔

جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ اور اللہ تعالی کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت مت کرو جو آپ کو کوئ نفع نہ دے سکے اور نہ ہی کوئ نقصان اور ضرر پنچا سکے ، پھر اگر آپ نے ایسا کیا تو تم اس حالت میں ظلم کرنے والوں میں سے ہو جاؤ گے } یونس ( 106 )

اور صوفی حضرات : کا یہ اعتقاد ہے کہ کچھ قطب اور ابدال اور اولیاء ہیں جنہیں اللہ تعالی نے معاملات اور کچھ امور سپرد کئے ہیں جن میں وہ تصرف کر تے ہيں ۔

اوراللہ تعالی نےتو مشرکوں کے جواب کوبیان کرتے ہوئے یہ فرمایاہے :

{ اور معاملات کی تدبیر کون کرتا ہے ؟ تو وہ ضرور یہ کہیں گے کہ اللہ تعالی ہی کرتا ہے } یونس ( 31 )

تو مشرکین عرب کو ان صوفیوں سے اللہ تعالی کی زیادہ معرفت تھی ۔

اورصوفی حضرات مصائب میں غیراللہ کی طرف جاتے اور ان سے مدد طلب کرتے ہیں ۔

لیکن اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

{ اوراگر اللہ تعالی تجھے کوئ تکلیف پہنچائے تو اللہ تعالی کے علاوہ کوئ بھی اسےدور کرنے والا نہیں ، اور اگرتجھے اللہ تعالی کوئ نفع دینا چاہے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے } الانعام ( 17 )

بعض صوفی حضرات وحدۃ الوجود کا عقیدہ رکھتے ہیں ، تو ان کے ہان خالق اور مخلوق نہیں بلکہ سب مخلوق اور سب الہ ہیں ۔

صوفی حضرات : زندگی میں زھد اور اسباب کو حاصل نہ کرنے اور جھاد کو ترک کرنے کی دعوت دیتے ہیں ۔

لیکن اللہ تبارک وتعالی کافرمان ہے :

{ اور جوکچھ اللہ تعالی نے آپ کودے رکھاہے اس میں آخرت کے گھر کی بھی تلاش رکھ ، اور اپنے دنیوی حصے کو نہ بھول } القصص (77 ) اور اللہ رب العزت کا فرمان ہے : { اور تم ان کے مقابلے کے لئے اپنی طاقت کے مطابق قوت تیار کرو } الانفال ( 60 )

صوفی حضرات : اپنے مشائخ کو احسان کے درجہ پر فائز کرتے ہیں اور اپنے مریدوں سے ان کا مطالبہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کا ذکر کرتے وقت اپنے شیخ کا تصور کریں حتی کہ نماز میں بھی شیخ کا تصور ہونا چاہئے ، حتی کہ ان میں سے بعض تونما ز پڑہتے وقت شیخ تصویر اپنے آگے رکھتے تھے ۔

حالانکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ( احسان یہ ہے کہ عبادت ایسے کرو گویا کہ اللہ تعالی کو دیکھ رہے ہو، اگر آپ اللہ تعالی کونہیں دیکھ رہے تو اللہ تعالی تمہیں دیکھ رہا ہے ) صحیح مسلم ۔

صوفی حضرات : رقص وسرور اور گانے بجانے اور موسیقی اور اونچی آواز سے ذکرکو جائز قرار دیتے ہیں ۔

اور اللہ تعالی کا فرمان تو یہ ہے کہ :

{ ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالی کا ذکر کیا آتا ہے تو ان کے دل دھل جاتے ہیں } الانفال ( 3 )

پھر آپ ان کو دیکھیں گے وہ صرف لفظ جلالہ ( اللہ اللہ اللہ ) کا ذکر کرتے ہیں جو کہ بدعت اور ایسی کلام ہے جو کہ شرعی معنی کے لحاظ سے غیر مفید ہے ، بلکہ وہ تو اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ صرف ( اھ ، اھ ) اور یا پھر ( ہو ، ہو ، ہو ) کرنا شروع کردیتے ہیں ۔

اور اسلام مصادر کتاب وسنت میں تو یہ ہے کہ بندہ رب ایسے کلام سے یاد اور اس کا ذکر کرے جو کہ صحیح اور مفید ہو جس پر اسے اجروثواب سے نوازا جائے ، مثلا سبحان اللہ ، الحمد للہ ، لاالہ الا اللہ ، اللہ اکبر ، اوراس طرح کے دوسرے اذکار ۔

صوفی حضرات : مجالس ذکر میں عورتوں اور بچوں کے نام سے غزلیں اور اشعار گاتے اور پڑھتے ہیں اور اس میں باربار عشق و محبت اور خواہشات کی باتیں ایسے دہراتے ہیں گویا کہ وہ رقص وسرور کی مجلس میں ہوں ، اور پھر وہ مجلس کے اندر تالیوں اور چیخوں کی گونج میں شراب کا ذکر کرتے ہیں اور یہ سب کچھ مشرکین کی عادات وعبادات میں سے ہے ۔

اللہ تعالی کا اس کے متعلق فرمان ہے :

{ اور ان کی نماز کعبہ کے پاس صرف یہ تھی کہ سیٹیاں بجانا اور تالیاں بجانا } الانفال ( 35 )

مکاء سیٹی بجانا اور تصدیۃ تالی بجانے کو کہتے ہیں ۔

اور بعض صوفی اپنے آپ کو لوہے کی سیخ مارتے اور یہ پکارتے ہيں (یاجداہ) تو اس طرح شیطان آکر اس کی مدد کرتا ہے کیونکہ اس نے غیراللہ کو پکارا ، اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

{ اور جو شخص رحمن کی یاد سے غافل ہو جائے ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں وہی اس کا ساتھی رہتا ہے } الزخرف ( 36 )

صوفی حضرات : کشف اور علم غیب کا دعوی کرتے ہیں اور قرآن کریم ان کے اس دعوی کی تکذیب کرتا ہے ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کے فرمان کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :

{ کہہ دیجئے کہ آسمان وزمین والوں میں سے اللہ تعالی کے علاوہ کوئ بھی غیب کا علم نہیں جانتا } النمل ( 65 )

صوفی حضرات : کا گمان ہے کہ اللہ تعالی نے دنیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پیدا کی ہے ، اور قرآن کریم ان کی تکذیب کرتے ہوئے کہتا ہے :

{ میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے } الذاریات ( 56 )

اور اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا یہ فرمایا ہے :

{ آپ اس وقت تک اپنے رب کی عبادت کرتے رہيں یہاں تک کہ آپ کو موت آجائے } الحجر ( 99 )

صوفی حضرات : اللہ تعالی کو دنیا میں دیکھنے کا گمان کرتے ہیں اور قرآن مجید ان کی تکذیب کرتا ہے جیسا کہ موسی علیہ السلام کی زبان سے کہا گیا { اےمیرے رب ! مجھے اپنا دیدار کردیجئے کہ میں آپ کو ایک نظر دیکھ لوں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا تم مجھ کو ہر گز نہیں دیکھ سکتے } الاعراف ( 143 )

صوفی حضرات : کا گمان یہ ہے کہ وہ بیداری کی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ کے بغیر علم ڈاریکٹ اللہ تعالی سے حاصل کرتے ہیں ، تو کیا وہ صحابہ کرام سے بھی افضل ہیں ؟۔

صوفی حضرات : اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ کے بغیرڈاریکٹ اللہ تعالی سے علم حاصل کرتے ہیں اور کہتے ہیں : میرے دل نے میرے رب سے بیان کیا ۔

صوفی حضرات : میلاد مناتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام کے نام سے مجلسیں قائم کرتے ہیں ، اور ان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی مخالفت کرتے ہوئے شرکیہ ذکر اور قصیدے اور اشعار پڑھتے ہیں جن میں صریح شرک ہوتا ہے ۔

تو کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر ، عمر اور عثمان اور علی رضي اللہ تعالی عنہم اور آئمہ اربعہ وغیرہ نے میلاد منایا تو ان کیا ان کی عبادت اور علم زیادہ صحیح ہے یا کہ صوفیوں کا ؟

صوفی حضرات : قبروں کا طواف یا ان کا تبرک حاصل کرنے کے لئے سفر کرتے اور ان پر جانور ذبح کرتے ہیں جوکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی صریحا مخالفت ہے ۔ فرمان نبوی ہے :

( صرف تین مسجدوں کی طرف سفر کیا جائے مسجد حرام ، اور میری یہ مسجد ، اور مسجد اقصی ) صحیح بخاری و صحیح مسلم ۔

صوفی حضرات : اپنے مشائخ کے بارہ میں بہت ہی متعصب ہیں اگرچہ وہ اللہ تعالی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت ہی کیوں نہ کریں ، اور اللہ تعالی کا تو فرمان یہ ہے : { اے ایمان والو ! اللہ تعالی اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو } الحجرات ( 2 )

صوفی حضرات : استخارہ کے لئے طلسم اور حروف استعمال کرتے اور تعویذ گنڈا وغیرہ کرتے ہیں ۔

صوفی حضرات : وہ درود جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں نہیں پڑھتے بلکہ ایسے بناوٹی درود پڑھتے ہیں جس میں صریح تبرک اور شرک پایا جاتا ہے جس پر اللہ تعالی کی رضا حاصل نہیں ہوتی ۔

اوررہا یہ سوال کہ کیا صوفیوں کے مشائخ کا رابطہ ہے تو یہ صحیح ہے ان کا رابطہ شیطان سے ہے نہ کہ اللہ تعالی سے ۔

تو وہ ایک دوسرے کے دل میں چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے ہیں تاکہ انہیں دھوکہ میں ڈالیں اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بہت سے شیطان پیدا کئے تھے کچھ آدمی اور کچھ جن ، جن میں سے بعض بعض کو چکنی چپڑي باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے تھے تا کہ ان کو دھوکہ میں ڈال دیں اوراگر اللہ تعالی چاہتا تو یہ ایسے کام نہ کرتے } الانعام ( 112 )

اور اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

{ اور بیشک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں ڈالتے ہیں } الانعام (121)

اور اللہ سبحانہ وتعالی کے فرمان کا ترجمہ ہے :

{ کیا میں تمہیں بتا‎ؤں کہ شیطان کس پر اتر تے ہیں وہ ہر ایک جھوٹے گنہگار پر اترتے ہیں } الشعراء ( 221 - 222 )

تو یہ وہ حقیقی رابطہ جو ان کے درمیا ن ہوتا ہے نہ کہ وہ رابطہ جو وہ گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی سے رابطہ جو کہ بہتان اور جھوٹ ہے اور اللہ تعالی اس سے منزہ اور بلند وبالا ہے ۔ دیکھیں معجم البدع ( 346 - 359 )

اور صوفیوں کے بعض مشائخ کا اپنے مریدوں کی نظروں سے اوجھل ہونا بھی اسی رابطہ کا نتیجہ ہے جو کہ شیطان کے ساتھ ہوتا ہے ، حتی کہ بعض اوقات وہ شیطان انہیں دور دراز جگہ پر لے جاتے ہیں اور پھر اسی دن یا رات کو واپس لے آتے ہیں تا کہ ان کے مریدوں کو گمراہ کیا جاسکے ۔

تواسی لئے یہ عظیم قاعدہ ہے کہ ہم خارق عادات کاموں سے اشخاص کا وزن نہیں کرتے بلکہ ان کا وزن کتاب وسنت کے قرب اور اس پر التزام کرنے کے ساتھ ہوگا ، اور اللہ تعالی کے اولیاء کے لئے یہ شرط نہیں کہ ان کے ھاتھ پر خارق عادت کام ہو بلکہ وہ تو اللہ تعالی کی عبادت اس طریقے پر کرتے ہیں جو کہ مشروع ہے نہ کہ بدعات کو رواج دے کر ۔

اولیاء اللہ تو وہ ہیں جو کہ حدیث قدسی میں ذکر کئے گئے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے روایت کیا ہے ۔

ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یقینا اللہ تعالی نے فرمایا ہے : ( جس نے میرے ولی سے دشمنی کی میری اس کے ساتھ جنگ ہے اور جو میرا بندا کسی چيز کے ساتھ میرا قرب حاصل کرتا ہے تو وہ مجھے اس چيزسے زیادہ پسند ہے جو میں نے اس پر فرض کیا ہے اور جو بندہ نوافل کے ساتھ میرا قرب حاصل کرتا ہے تو میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہو ں تو اس کا کان ہوتا ہوں جس سے وہ سنتا اور اس کی بصر ہوتا ہوں جس سے وہ دیکھتا اور اس کا ھاتھ ہوتا ہوں جس سے وہ پکڑتا اور اس کی ٹانگ ہو تا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ، اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے عطا کرتا ہوں اور اگر میری پناہ میں آتا ہے تو میں اسے پناہ دیتاہوں ) ۔

اور اللہ تبارک وتعالی توفیق بخشنے والا اور صحیح راہ پر چلانے والا ہے ۔

واللہ تعالی اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد
 

x boy

محفلین
[بھائی آپ مجھ سے اچھے مسلمان ہیں۔کوئی بات نہیں جو علم سلوک نہ حاصل کریں وہ بھی مسلمان ہی ہے۔تعلیم تصوف بالکل آسان ہے اسکا حصول کثرت ذکر ہے


محترم علم تصوف وسلوک تششد د نہیں سکھتا ،اعتدال کی راہ پر چلاتا ہے ،آپ تصوف وسلوک سے نا آشنائی کی وجہ سے غلط سمجھ رہے ہیں۔

اگر کوئی تصوف کے نام پر راہ حق سے ہٹ جائے کتاب وسنت کو چھوڑ دے تو ایسے تصوف کو ہم نہیں مانتے ۔آپ نے ابن تیمیہ ٌ کا حوالہ دیا تو ابن تیمہ ٌ تصوف پر فیصلہ کن قول یہ ہے
ابن تیمیہؒ کا تصوف پر ایک ارشاد گرامی ان لوگوں کے نام پر جو افراط وتفریط کا شکار ہیں۔آپ فرماتے ہیں
" ترجمعہ :۔ یعنی ایک جماعت نے مطلق صوفیاء اور تصوف کی برائی کی ہے ،اور انکے بارے میں کہا ہے کہ یہ بدعتیوں کا طبقہ ہے جو اہل سنت سے خارج ہے،اور ایک جماعت نے صوفیاء کے بارے میں غلو سے کام لیا ہے اور انبیاء علیہ اسلام کے بعد انکو سب سے افضل قرار دیا ہے اور یہ دونوں باتیں مذموم ہیں درست بات یہ ہے کہ صوفیاء اللہ کی اطاعت کے مسلئہ میں مجتہد ہیں،جیسے دوسرے اہل اطاعت اجتہاد کرنے والے ہوتے ہیں اسلیئے صوفیاء میں مقربین اور سابقین کا درجہ حاصل کرنے والے بھی ہیں،اور ان میں مقتصدین کا بھی طبقہ ہے جو اہل یمین میں سے ہیں اور اس طبقہ صوفیاء میں سے بعض ظالم اور اپنے رب کے نافرمان بھی ہیں۔( فتاوٰی ابن تیمیہ جلد11 صفحہ 18 بحوالہ کیا ابن تیمیہ علماء اہلسنت میں سے ہیں صحفہ 12)
خود ابن تیمیہٌ کون تھے مشہو منکر تصوف عبد الرحمن کیلانی صاحب لکھتے ہیں:۔
ابن قیم اور ان کے استاد ابن تیمیہ دونوں بزرگ نہ صرف یہ کہ سماع موتٰی کے قائل تھے بلکہ ایسی طبقہ صوفیاء سے تعلق رکھتے تھے جنھوں نے اس مسئلہ کو اچھالا اور ضیعف اور موضوع احادیث کا سہارا لیکر اس مسئلہ کو علی الاطلاق ثابت کرنا چاھا ابن تیمیہ اور ابن قیم دونوں صاحب کشف و کرامات بھی تھے اور دونوں بزروگوں نے تصوف و سلوک پر مستقل کتابیں بھی لکھی .
کتاب: روح عذاب قبر اور سماع موتٰی مصنف: عبدالرحمٰن کیلانی صفحہ نمبر ۔55.56
مزید آپ یہاں سے استفادہ کریں
امام تیمیہ رحمہ اللہ نے کبھی نہیں کہا کہ وہ صوفی بزرگ تھے کبھی تصوف کی تعلیم نہیں دی، بلکہ وہ مجدد تھے اور تمام تر غلط باتوں کا شدت سے انکار کیا جو مسلمانوں نے یہود و نصارا سے اپنالئے تھے اسی وجہ کچھ بہت سے فرقے والے امام تیمیہ رحمہ اللہ کو غلط القاب دیتے ہیں۔ ان فرقوں کا میں نام لینا نہیں چاہتا
لیکن ان میں کچھ تصوف عقیدہ رکھنے والے پیر بھی ہیں۔
کچھ پیر تو اے ار وائی میں اسطرح پائے گئے کہ اپنے غلط بیانی میں اتنے آگے چلے گئے اپنے مریدوں سے کہہ رہے تھے کہ خانہ کعبہ کی طواف کے دوران
وہاں کے علماء کرام کو برا بھلا کہو،، دیگر یہ اس نے کہا کہ میں ان کے پیچھے نماز نہیں پڑتا بس ڈرامہ کرتا ہوں اور اپنی نماز پہلے پڑھ لیتا ہوں۔
انتھی۔
 

ابن محمد جی

محفلین
کیا صوفیوں کے مشائخ کا اللہ تعالی کے ساتھ رابطہ ہے
اسلام میں صوفیوں کا کیا درجہ اور مکان ہے ؟
اور یہ قول کہاں تک صحیح ہے کہ کچھ عبادت گزار اور اولیاء اللہ تعالی سے رابطہ رکھتے ہیں ، اور بعض لوگ اس کا اعتقاد رکھتے ہیں اور یہ کہ یہ دنیا میں مختلف جگہ اور ادیان میں اس کا ثبوت ملتا ہے ۔
جو لوگ صوفی ہونے یا صوفیوں کے پیروکار ہونے کا دعوی کرتے ہیں ان کی ر‎ؤیت کیسے ممکن ہے ؟
اور کیا نماز اور اللہ تعالی کا ذکر اللہ سبحانہ وتعالی سے رابطہ کی ایک قسم نہیں ؟


الحمد للہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے دور میں صوفیت نام کی کوئ چيز نہیں پائ جاتی تھی ، حتی کہ زاھد لوگوں کا ایک گروہ پیدا ہوا جو کہ اون کے موٹے کپڑے پہنا کرتے تھے تو انہیں صوفی کے نام سے پکارا جانے لگا۔
اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ (صوفی ) صوفیا سے ماخوذ ہے اور یونانی زبان میں اس کا معنی " حکمت " ہے نہ کہ جیسا کہ بعض یہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ الصفاء سے ماخوذ ہے ، کیونکہ اگر الصفاء کی طرف نسبت کی جائے تو صفائ کہا جائے گا نہ کہ صوفی ۔

اس نئے نام اور اس فرقہ نے مسلمانوں میں تفرقہ اور زیاد ہ کردیا ہے ، اور اس فرقہ کے پہلے صوفی حضرات بعد میں آنے والوں سے مختلف ہیں بعد میں آنےوالوں کے اندر بدعات کا بہت زیادہ عمل دخل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ شرک اصغر اور شرک اکبر بھی پیدا ہو چکا ہے ، ان کی بدعات ایسی ہیں جن سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بچنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا :

( تم نئے نئے کا موں سے بچو کیونکہ ہر نیا کام بدعت اور ہر بدعت گمراہی ہے ) سنن ترمذی ، امام ترمذی نے اسے حسن صحیح کہاہے۔

ذیل میں ہم صوفیوں کے اعتقادات اور ان کے دینی طریقوں اور قرآن وسنت پر مبنی اسلا م کا مقارنہ اور موازنہ پیش کرتے ہیں :

صوفی حضرات : کے مختلف طریقے اور سلسلے ہیں ، مثلا تیجانیہ ، نقشبندیہ ، شاذلیہ ، قادریہ ، رفاعیہ ،اور اس کے علاوہ دوسرے سلسلے جن پر چلنے والے یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ ہی حق پر ہیں ان کے علاوہ کو‎ئ اور حق پر نہیں ، حالانکہ اسلام تفرقہ بازی سے منع کرتا ہے ، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

{ اور تم مشرکوں میں سے نہ بنو ان لوگوں میں سے جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور خود بھی گروہ گروہ ہو گئے ، ہر گروہ اس چيز پر جو اس کے پاس ہے وہ اس میں مگن اور اس پر خوش ہے } الروم ( 31- 32 )

صوفی حضرات : نے اللہ تعالی کے علاوہ انبیاء اور اولیاء زندہ اور مردہ کی عبادت کرنی شروع کردی ، اور وہ انہیں پکارتے ہوئے اس طرح کہتے ہیں ( یا جیلانی ، یا رفاعی ، یا رسول اللہ مدد ، اور یہ بھی کہتے ہیں ، یا رسول اللہ آپ پر ہی بھروسہ ہے ) ۔

اور اللہ تبارک وتعالی اس سے منع فرماتا ہے کہ اس کے علاوہ کسی اور کو ایسی چیز میں پکارا جائے جس پر وہ قادر نہیں بلکہ یہ اسے شرک شمار کیا ہے ۔

جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ اور اللہ تعالی کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت مت کرو جو آپ کو کوئ نفع نہ دے سکے اور نہ ہی کوئ نقصان اور ضرر پنچا سکے ، پھر اگر آپ نے ایسا کیا تو تم اس حالت میں ظلم کرنے والوں میں سے ہو جاؤ گے } یونس ( 106 )

اور صوفی حضرات : کا یہ اعتقاد ہے کہ کچھ قطب اور ابدال اور اولیاء ہیں جنہیں اللہ تعالی نے معاملات اور کچھ امور سپرد کئے ہیں جن میں وہ تصرف کر تے ہيں ۔

اوراللہ تعالی نےتو مشرکوں کے جواب کوبیان کرتے ہوئے یہ فرمایاہے :

{ اور معاملات کی تدبیر کون کرتا ہے ؟ تو وہ ضرور یہ کہیں گے کہ اللہ تعالی ہی کرتا ہے } یونس ( 31 )

تو مشرکین عرب کو ان صوفیوں سے اللہ تعالی کی زیادہ معرفت تھی ۔

اورصوفی حضرات مصائب میں غیراللہ کی طرف جاتے اور ان سے مدد طلب کرتے ہیں ۔

لیکن اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

{ اوراگر اللہ تعالی تجھے کوئ تکلیف پہنچائے تو اللہ تعالی کے علاوہ کوئ بھی اسےدور کرنے والا نہیں ، اور اگرتجھے اللہ تعالی کوئ نفع دینا چاہے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے } الانعام ( 17 )

بعض صوفی حضرات وحدۃ الوجود کا عقیدہ رکھتے ہیں ، تو ان کے ہان خالق اور مخلوق نہیں بلکہ سب مخلوق اور سب الہ ہیں ۔

صوفی حضرات : زندگی میں زھد اور اسباب کو حاصل نہ کرنے اور جھاد کو ترک کرنے کی دعوت دیتے ہیں ۔

لیکن اللہ تبارک وتعالی کافرمان ہے :

{ اور جوکچھ اللہ تعالی نے آپ کودے رکھاہے اس میں آخرت کے گھر کی بھی تلاش رکھ ، اور اپنے دنیوی حصے کو نہ بھول } القصص (77 ) اور اللہ رب العزت کا فرمان ہے : { اور تم ان کے مقابلے کے لئے اپنی طاقت کے مطابق قوت تیار کرو } الانفال ( 60 )

صوفی حضرات : اپنے مشائخ کو احسان کے درجہ پر فائز کرتے ہیں اور اپنے مریدوں سے ان کا مطالبہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کا ذکر کرتے وقت اپنے شیخ کا تصور کریں حتی کہ نماز میں بھی شیخ کا تصور ہونا چاہئے ، حتی کہ ان میں سے بعض تونما ز پڑہتے وقت شیخ تصویر اپنے آگے رکھتے تھے ۔

حالانکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ( احسان یہ ہے کہ عبادت ایسے کرو گویا کہ اللہ تعالی کو دیکھ رہے ہو، اگر آپ اللہ تعالی کونہیں دیکھ رہے تو اللہ تعالی تمہیں دیکھ رہا ہے ) صحیح مسلم ۔

صوفی حضرات : رقص وسرور اور گانے بجانے اور موسیقی اور اونچی آواز سے ذکرکو جائز قرار دیتے ہیں ۔

اور اللہ تعالی کا فرمان تو یہ ہے کہ :

{ ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالی کا ذکر کیا آتا ہے تو ان کے دل دھل جاتے ہیں } الانفال ( 3 )

پھر آپ ان کو دیکھیں گے وہ صرف لفظ جلالہ ( اللہ اللہ اللہ ) کا ذکر کرتے ہیں جو کہ بدعت اور ایسی کلام ہے جو کہ شرعی معنی کے لحاظ سے غیر مفید ہے ، بلکہ وہ تو اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ صرف ( اھ ، اھ ) اور یا پھر ( ہو ، ہو ، ہو ) کرنا شروع کردیتے ہیں ۔

اور اسلام مصادر کتاب وسنت میں تو یہ ہے کہ بندہ رب ایسے کلام سے یاد اور اس کا ذکر کرے جو کہ صحیح اور مفید ہو جس پر اسے اجروثواب سے نوازا جائے ، مثلا سبحان اللہ ، الحمد للہ ، لاالہ الا اللہ ، اللہ اکبر ، اوراس طرح کے دوسرے اذکار ۔

صوفی حضرات : مجالس ذکر میں عورتوں اور بچوں کے نام سے غزلیں اور اشعار گاتے اور پڑھتے ہیں اور اس میں باربار عشق و محبت اور خواہشات کی باتیں ایسے دہراتے ہیں گویا کہ وہ رقص وسرور کی مجلس میں ہوں ، اور پھر وہ مجلس کے اندر تالیوں اور چیخوں کی گونج میں شراب کا ذکر کرتے ہیں اور یہ سب کچھ مشرکین کی عادات وعبادات میں سے ہے ۔

اللہ تعالی کا اس کے متعلق فرمان ہے :

{ اور ان کی نماز کعبہ کے پاس صرف یہ تھی کہ سیٹیاں بجانا اور تالیاں بجانا } الانفال ( 35 )

مکاء سیٹی بجانا اور تصدیۃ تالی بجانے کو کہتے ہیں ۔

اور بعض صوفی اپنے آپ کو لوہے کی سیخ مارتے اور یہ پکارتے ہيں (یاجداہ) تو اس طرح شیطان آکر اس کی مدد کرتا ہے کیونکہ اس نے غیراللہ کو پکارا ، اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

{ اور جو شخص رحمن کی یاد سے غافل ہو جائے ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں وہی اس کا ساتھی رہتا ہے } الزخرف ( 36 )

صوفی حضرات : کشف اور علم غیب کا دعوی کرتے ہیں اور قرآن کریم ان کے اس دعوی کی تکذیب کرتا ہے ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کے فرمان کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :

{ کہہ دیجئے کہ آسمان وزمین والوں میں سے اللہ تعالی کے علاوہ کوئ بھی غیب کا علم نہیں جانتا } النمل ( 65 )

صوفی حضرات : کا گمان ہے کہ اللہ تعالی نے دنیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پیدا کی ہے ، اور قرآن کریم ان کی تکذیب کرتے ہوئے کہتا ہے :

{ میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے } الذاریات ( 56 )

اور اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا یہ فرمایا ہے :

{ آپ اس وقت تک اپنے رب کی عبادت کرتے رہيں یہاں تک کہ آپ کو موت آجائے } الحجر ( 99 )

صوفی حضرات : اللہ تعالی کو دنیا میں دیکھنے کا گمان کرتے ہیں اور قرآن مجید ان کی تکذیب کرتا ہے جیسا کہ موسی علیہ السلام کی زبان سے کہا گیا { اےمیرے رب ! مجھے اپنا دیدار کردیجئے کہ میں آپ کو ایک نظر دیکھ لوں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا تم مجھ کو ہر گز نہیں دیکھ سکتے } الاعراف ( 143 )

صوفی حضرات : کا گمان یہ ہے کہ وہ بیداری کی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ کے بغیر علم ڈاریکٹ اللہ تعالی سے حاصل کرتے ہیں ، تو کیا وہ صحابہ کرام سے بھی افضل ہیں ؟۔

صوفی حضرات : اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ کے بغیرڈاریکٹ اللہ تعالی سے علم حاصل کرتے ہیں اور کہتے ہیں : میرے دل نے میرے رب سے بیان کیا ۔

صوفی حضرات : میلاد مناتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام کے نام سے مجلسیں قائم کرتے ہیں ، اور ان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی مخالفت کرتے ہوئے شرکیہ ذکر اور قصیدے اور اشعار پڑھتے ہیں جن میں صریح شرک ہوتا ہے ۔

تو کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر ، عمر اور عثمان اور علی رضي اللہ تعالی عنہم اور آئمہ اربعہ وغیرہ نے میلاد منایا تو ان کیا ان کی عبادت اور علم زیادہ صحیح ہے یا کہ صوفیوں کا ؟

صوفی حضرات : قبروں کا طواف یا ان کا تبرک حاصل کرنے کے لئے سفر کرتے اور ان پر جانور ذبح کرتے ہیں جوکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی صریحا مخالفت ہے ۔ فرمان نبوی ہے :

( صرف تین مسجدوں کی طرف سفر کیا جائے مسجد حرام ، اور میری یہ مسجد ، اور مسجد اقصی ) صحیح بخاری و صحیح مسلم ۔

صوفی حضرات : اپنے مشائخ کے بارہ میں بہت ہی متعصب ہیں اگرچہ وہ اللہ تعالی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت ہی کیوں نہ کریں ، اور اللہ تعالی کا تو فرمان یہ ہے : { اے ایمان والو ! اللہ تعالی اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو } الحجرات ( 2 )

صوفی حضرات : استخارہ کے لئے طلسم اور حروف استعمال کرتے اور تعویذ گنڈا وغیرہ کرتے ہیں ۔

صوفی حضرات : وہ درود جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں نہیں پڑھتے بلکہ ایسے بناوٹی درود پڑھتے ہیں جس میں صریح تبرک اور شرک پایا جاتا ہے جس پر اللہ تعالی کی رضا حاصل نہیں ہوتی ۔

اوررہا یہ سوال کہ کیا صوفیوں کے مشائخ کا رابطہ ہے تو یہ صحیح ہے ان کا رابطہ شیطان سے ہے نہ کہ اللہ تعالی سے ۔

تو وہ ایک دوسرے کے دل میں چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے ہیں تاکہ انہیں دھوکہ میں ڈالیں اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بہت سے شیطان پیدا کئے تھے کچھ آدمی اور کچھ جن ، جن میں سے بعض بعض کو چکنی چپڑي باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے تھے تا کہ ان کو دھوکہ میں ڈال دیں اوراگر اللہ تعالی چاہتا تو یہ ایسے کام نہ کرتے } الانعام ( 112 )

اور اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

{ اور بیشک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں ڈالتے ہیں } الانعام (121)

اور اللہ سبحانہ وتعالی کے فرمان کا ترجمہ ہے :

{ کیا میں تمہیں بتا‎ؤں کہ شیطان کس پر اتر تے ہیں وہ ہر ایک جھوٹے گنہگار پر اترتے ہیں } الشعراء ( 221 - 222 )

تو یہ وہ حقیقی رابطہ جو ان کے درمیا ن ہوتا ہے نہ کہ وہ رابطہ جو وہ گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی سے رابطہ جو کہ بہتان اور جھوٹ ہے اور اللہ تعالی اس سے منزہ اور بلند وبالا ہے ۔ دیکھیں معجم البدع ( 346 - 359 )

اور صوفیوں کے بعض مشائخ کا اپنے مریدوں کی نظروں سے اوجھل ہونا بھی اسی رابطہ کا نتیجہ ہے جو کہ شیطان کے ساتھ ہوتا ہے ، حتی کہ بعض اوقات وہ شیطان انہیں دور دراز جگہ پر لے جاتے ہیں اور پھر اسی دن یا رات کو واپس لے آتے ہیں تا کہ ان کے مریدوں کو گمراہ کیا جاسکے ۔

تواسی لئے یہ عظیم قاعدہ ہے کہ ہم خارق عادات کاموں سے اشخاص کا وزن نہیں کرتے بلکہ ان کا وزن کتاب وسنت کے قرب اور اس پر التزام کرنے کے ساتھ ہوگا ، اور اللہ تعالی کے اولیاء کے لئے یہ شرط نہیں کہ ان کے ھاتھ پر خارق عادت کام ہو بلکہ وہ تو اللہ تعالی کی عبادت اس طریقے پر کرتے ہیں جو کہ مشروع ہے نہ کہ بدعات کو رواج دے کر ۔

اولیاء اللہ تو وہ ہیں جو کہ حدیث قدسی میں ذکر کئے گئے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے روایت کیا ہے ۔

ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یقینا اللہ تعالی نے فرمایا ہے : ( جس نے میرے ولی سے دشمنی کی میری اس کے ساتھ جنگ ہے اور جو میرا بندا کسی چيز کے ساتھ میرا قرب حاصل کرتا ہے تو وہ مجھے اس چيزسے زیادہ پسند ہے جو میں نے اس پر فرض کیا ہے اور جو بندہ نوافل کے ساتھ میرا قرب حاصل کرتا ہے تو میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہو ں تو اس کا کان ہوتا ہوں جس سے وہ سنتا اور اس کی بصر ہوتا ہوں جس سے وہ دیکھتا اور اس کا ھاتھ ہوتا ہوں جس سے وہ پکڑتا اور اس کی ٹانگ ہو تا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ، اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے عطا کرتا ہوں اور اگر میری پناہ میں آتا ہے تو میں اسے پناہ دیتاہوں ) ۔

اور اللہ تبارک وتعالی توفیق بخشنے والا اور صحیح راہ پر چلانے والا ہے ۔

واللہ تعالی اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد
محترم آپ نے ایک نجدی عالم کا فتوی کاپی پیسٹ کر دیا، صاحب فتوی کو یہ بھی معلوم نہیں،کہ تصوف کیا ہے ،وہ بھی آپ کیطرح سنی سنائی پر چلنے والے ہیں۔
امام تیمیہ رحمہ اللہ نے کبھی نہیں کہا کہ وہ صوفی بزرگ تھے کبھی تصوف کی تعلیم نہیں دی، بلکہ وہ مجدد تھے اور تمام تر غلط باتوں کا شدت سے انکار کیا جو مسلمانوں نے یہود و نصارا سے اپنالئے تھے اسی وجہ کچھ بہت سے فرقے والے امام تیمیہ رحمہ اللہ کو غلط القاب دیتے ہیں۔ ان فرقوں کا میں نام لینا نہیں چاہتا
لیکن ان میں کچھ تصوف عقیدہ رکھنے والے پیر بھی ہیں۔
کچھ پیر تو اے ار وائی میں اسطرح پائے گئے کہ اپنے غلط بیانی میں اتنے آگے چلے گئے اپنے مریدوں سے کہہ رہے تھے کہ خانہ کعبہ کی طواف کے دوران
وہاں کے علماء کرام کو برا بھلا کہو،، دیگر یہ اس نے کہا کہ میں ان کے پیچھے نماز نہیں پڑتا بس ڈرامہ کرتا ہوں اور اپنی نماز پہلے پڑھ لیتا ہوں۔
انتھی۔
بھائی آپ کے سامنے ابن تیمیہ ٌ کا فتوی رکھا،آپ ایک نجدی الشیخ محمد صالح المنجد کو لے آئے،اور ابن تیمیہ فرماتے ہیں
" ترجمعہ :۔ یعنی ایک جماعت نے مطلق صوفیاء اور تصوف کی برائی کی ہے ،اور انکے بارے میں کہا ہے کہ یہ بدعتیوں کا طبقہ ہے جو اہل سنت سے خارج ہے،اور ایک جماعت نے صوفیاء کے بارے میں غلو سے کام لیا ہے اور انبیاء علیہ اسلام کے بعد انکو سب سے افضل قرار دیا ہے اور یہ دونوں باتیں مذموم ہیں درست بات یہ ہے کہ صوفیاء اللہ کی اطاعت کے مسلئہ میں مجتہد ہیں،جیسے دوسرے اہل اطاعت اجتہاد کرنے والے ہوتے ہیں اسلیئے صوفیاء میں مقربین اور سابقین کا درجہ حاصل کرنے والے بھی ہیں،اور ان میں مقتصدین کا بھی طبقہ ہے جو اہل یمین میں سے ہیں اور اس طبقہ صوفیاء میں سے بعض ظالم اور اپنے رب کے نافرمان بھی ہیں۔( فتاوٰی ابن تیمیہ جلد11 صفحہ 18 بحوالہ کیا ابن تیمیہ علماء اہلسنت میں سے ہیں صحفہ 12)
یہاں ابن تیمہٌ نے صوفیاء کے متعلق اظہار خیال کرنے والوں دو طبقوں کا ذکر کیا ہے،آپ اپنے اور اپنے الشیخ محمد صالح المنجدکا فیصلہ کر لے کہ آپکا شمار ابن تیمہٌ کے نزدیک کیا ہے۔اور جو اصل بات ہے وہ بھی آپ نے بتا دی ہے۔
بھائی اگر آپ نے تصوف پر اعترضات کرنے ہیں تو کاپی پیسیٹ کے بجائے کوئی ذاتی تحقیق ہے تو پیش کریں۔اور بنیادی بوتوں پر بات کریں۔اور اس مراسلے کی روشنی میں تصوف کو لے کر چلے
برکات نبوت
 
کیا صوفیوں کے مشائخ کا اللہ تعالی کے ساتھ رابطہ ہے
اسلام میں صوفیوں کا کیا درجہ اور مکان ہے ؟
اور یہ قول کہاں تک صحیح ہے کہ کچھ عبادت گزار اور اولیاء اللہ تعالی سے رابطہ رکھتے ہیں ، اور بعض لوگ اس کا اعتقاد رکھتے ہیں اور یہ کہ یہ دنیا میں مختلف جگہ اور ادیان میں اس کا ثبوت ملتا ہے ۔
جو لوگ صوفی ہونے یا صوفیوں کے پیروکار ہونے کا دعوی کرتے ہیں ان کی ر‎ؤیت کیسے ممکن ہے ؟
اور کیا نماز اور اللہ تعالی کا ذکر اللہ سبحانہ وتعالی سے رابطہ کی ایک قسم نہیں ؟


الحمد للہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے دور میں صوفیت نام کی کوئ چيز نہیں پائ جاتی تھی ، حتی کہ زاھد لوگوں کا ایک گروہ پیدا ہوا جو کہ اون کے موٹے کپڑے پہنا کرتے تھے تو انہیں صوفی کے نام سے پکارا جانے لگا۔
اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ (صوفی ) صوفیا سے ماخوذ ہے اور یونانی زبان میں اس کا معنی " حکمت " ہے نہ کہ جیسا کہ بعض یہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ الصفاء سے ماخوذ ہے ، کیونکہ اگر الصفاء کی طرف نسبت کی جائے تو صفائ کہا جائے گا نہ کہ صوفی ۔

اس نئے نام اور اس فرقہ نے مسلمانوں میں تفرقہ اور زیاد ہ کردیا ہے ، اور اس فرقہ کے پہلے صوفی حضرات بعد میں آنے والوں سے مختلف ہیں بعد میں آنےوالوں کے اندر بدعات کا بہت زیادہ عمل دخل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ شرک اصغر اور شرک اکبر بھی پیدا ہو چکا ہے ، ان کی بدعات ایسی ہیں جن سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بچنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا :

( تم نئے نئے کا موں سے بچو کیونکہ ہر نیا کام بدعت اور ہر بدعت گمراہی ہے ) سنن ترمذی ، امام ترمذی نے اسے حسن صحیح کہاہے۔

ذیل میں ہم صوفیوں کے اعتقادات اور ان کے دینی طریقوں اور قرآن وسنت پر مبنی اسلا م کا مقارنہ اور موازنہ پیش کرتے ہیں :

صوفی حضرات : کے مختلف طریقے اور سلسلے ہیں ، مثلا تیجانیہ ، نقشبندیہ ، شاذلیہ ، قادریہ ، رفاعیہ ،اور اس کے علاوہ دوسرے سلسلے جن پر چلنے والے یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ ہی حق پر ہیں ان کے علاوہ کو‎ئ اور حق پر نہیں ، حالانکہ اسلام تفرقہ بازی سے منع کرتا ہے ، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

{ اور تم مشرکوں میں سے نہ بنو ان لوگوں میں سے جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور خود بھی گروہ گروہ ہو گئے ، ہر گروہ اس چيز پر جو اس کے پاس ہے وہ اس میں مگن اور اس پر خوش ہے } الروم ( 31- 32 )

صوفی حضرات : نے اللہ تعالی کے علاوہ انبیاء اور اولیاء زندہ اور مردہ کی عبادت کرنی شروع کردی ، اور وہ انہیں پکارتے ہوئے اس طرح کہتے ہیں ( یا جیلانی ، یا رفاعی ، یا رسول اللہ مدد ، اور یہ بھی کہتے ہیں ، یا رسول اللہ آپ پر ہی بھروسہ ہے ) ۔

اور اللہ تبارک وتعالی اس سے منع فرماتا ہے کہ اس کے علاوہ کسی اور کو ایسی چیز میں پکارا جائے جس پر وہ قادر نہیں بلکہ یہ اسے شرک شمار کیا ہے ۔

جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ اور اللہ تعالی کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت مت کرو جو آپ کو کوئ نفع نہ دے سکے اور نہ ہی کوئ نقصان اور ضرر پنچا سکے ، پھر اگر آپ نے ایسا کیا تو تم اس حالت میں ظلم کرنے والوں میں سے ہو جاؤ گے } یونس ( 106 )

اور صوفی حضرات : کا یہ اعتقاد ہے کہ کچھ قطب اور ابدال اور اولیاء ہیں جنہیں اللہ تعالی نے معاملات اور کچھ امور سپرد کئے ہیں جن میں وہ تصرف کر تے ہيں ۔

اوراللہ تعالی نےتو مشرکوں کے جواب کوبیان کرتے ہوئے یہ فرمایاہے :

{ اور معاملات کی تدبیر کون کرتا ہے ؟ تو وہ ضرور یہ کہیں گے کہ اللہ تعالی ہی کرتا ہے } یونس ( 31 )

تو مشرکین عرب کو ان صوفیوں سے اللہ تعالی کی زیادہ معرفت تھی ۔

اورصوفی حضرات مصائب میں غیراللہ کی طرف جاتے اور ان سے مدد طلب کرتے ہیں ۔

لیکن اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

{ اوراگر اللہ تعالی تجھے کوئ تکلیف پہنچائے تو اللہ تعالی کے علاوہ کوئ بھی اسےدور کرنے والا نہیں ، اور اگرتجھے اللہ تعالی کوئ نفع دینا چاہے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے } الانعام ( 17 )

بعض صوفی حضرات وحدۃ الوجود کا عقیدہ رکھتے ہیں ، تو ان کے ہان خالق اور مخلوق نہیں بلکہ سب مخلوق اور سب الہ ہیں ۔

صوفی حضرات : زندگی میں زھد اور اسباب کو حاصل نہ کرنے اور جھاد کو ترک کرنے کی دعوت دیتے ہیں ۔

لیکن اللہ تبارک وتعالی کافرمان ہے :

{ اور جوکچھ اللہ تعالی نے آپ کودے رکھاہے اس میں آخرت کے گھر کی بھی تلاش رکھ ، اور اپنے دنیوی حصے کو نہ بھول } القصص (77 ) اور اللہ رب العزت کا فرمان ہے : { اور تم ان کے مقابلے کے لئے اپنی طاقت کے مطابق قوت تیار کرو } الانفال ( 60 )

صوفی حضرات : اپنے مشائخ کو احسان کے درجہ پر فائز کرتے ہیں اور اپنے مریدوں سے ان کا مطالبہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کا ذکر کرتے وقت اپنے شیخ کا تصور کریں حتی کہ نماز میں بھی شیخ کا تصور ہونا چاہئے ، حتی کہ ان میں سے بعض تونما ز پڑہتے وقت شیخ تصویر اپنے آگے رکھتے تھے ۔

حالانکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ( احسان یہ ہے کہ عبادت ایسے کرو گویا کہ اللہ تعالی کو دیکھ رہے ہو، اگر آپ اللہ تعالی کونہیں دیکھ رہے تو اللہ تعالی تمہیں دیکھ رہا ہے ) صحیح مسلم ۔

صوفی حضرات : رقص وسرور اور گانے بجانے اور موسیقی اور اونچی آواز سے ذکرکو جائز قرار دیتے ہیں ۔

اور اللہ تعالی کا فرمان تو یہ ہے کہ :

{ ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالی کا ذکر کیا آتا ہے تو ان کے دل دھل جاتے ہیں } الانفال ( 3 )

پھر آپ ان کو دیکھیں گے وہ صرف لفظ جلالہ ( اللہ اللہ اللہ ) کا ذکر کرتے ہیں جو کہ بدعت اور ایسی کلام ہے جو کہ شرعی معنی کے لحاظ سے غیر مفید ہے ، بلکہ وہ تو اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ صرف ( اھ ، اھ ) اور یا پھر ( ہو ، ہو ، ہو ) کرنا شروع کردیتے ہیں ۔

اور اسلام مصادر کتاب وسنت میں تو یہ ہے کہ بندہ رب ایسے کلام سے یاد اور اس کا ذکر کرے جو کہ صحیح اور مفید ہو جس پر اسے اجروثواب سے نوازا جائے ، مثلا سبحان اللہ ، الحمد للہ ، لاالہ الا اللہ ، اللہ اکبر ، اوراس طرح کے دوسرے اذکار ۔

صوفی حضرات : مجالس ذکر میں عورتوں اور بچوں کے نام سے غزلیں اور اشعار گاتے اور پڑھتے ہیں اور اس میں باربار عشق و محبت اور خواہشات کی باتیں ایسے دہراتے ہیں گویا کہ وہ رقص وسرور کی مجلس میں ہوں ، اور پھر وہ مجلس کے اندر تالیوں اور چیخوں کی گونج میں شراب کا ذکر کرتے ہیں اور یہ سب کچھ مشرکین کی عادات وعبادات میں سے ہے ۔

اللہ تعالی کا اس کے متعلق فرمان ہے :

{ اور ان کی نماز کعبہ کے پاس صرف یہ تھی کہ سیٹیاں بجانا اور تالیاں بجانا } الانفال ( 35 )

مکاء سیٹی بجانا اور تصدیۃ تالی بجانے کو کہتے ہیں ۔

اور بعض صوفی اپنے آپ کو لوہے کی سیخ مارتے اور یہ پکارتے ہيں (یاجداہ) تو اس طرح شیطان آکر اس کی مدد کرتا ہے کیونکہ اس نے غیراللہ کو پکارا ، اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

{ اور جو شخص رحمن کی یاد سے غافل ہو جائے ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں وہی اس کا ساتھی رہتا ہے } الزخرف ( 36 )

صوفی حضرات : کشف اور علم غیب کا دعوی کرتے ہیں اور قرآن کریم ان کے اس دعوی کی تکذیب کرتا ہے ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کے فرمان کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :

{ کہہ دیجئے کہ آسمان وزمین والوں میں سے اللہ تعالی کے علاوہ کوئ بھی غیب کا علم نہیں جانتا } النمل ( 65 )

صوفی حضرات : کا گمان ہے کہ اللہ تعالی نے دنیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پیدا کی ہے ، اور قرآن کریم ان کی تکذیب کرتے ہوئے کہتا ہے :

{ میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے } الذاریات ( 56 )

اور اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا یہ فرمایا ہے :

{ آپ اس وقت تک اپنے رب کی عبادت کرتے رہيں یہاں تک کہ آپ کو موت آجائے } الحجر ( 99 )

صوفی حضرات : اللہ تعالی کو دنیا میں دیکھنے کا گمان کرتے ہیں اور قرآن مجید ان کی تکذیب کرتا ہے جیسا کہ موسی علیہ السلام کی زبان سے کہا گیا { اےمیرے رب ! مجھے اپنا دیدار کردیجئے کہ میں آپ کو ایک نظر دیکھ لوں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا تم مجھ کو ہر گز نہیں دیکھ سکتے } الاعراف ( 143 )

صوفی حضرات : کا گمان یہ ہے کہ وہ بیداری کی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ کے بغیر علم ڈاریکٹ اللہ تعالی سے حاصل کرتے ہیں ، تو کیا وہ صحابہ کرام سے بھی افضل ہیں ؟۔

صوفی حضرات : اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ کے بغیرڈاریکٹ اللہ تعالی سے علم حاصل کرتے ہیں اور کہتے ہیں : میرے دل نے میرے رب سے بیان کیا ۔

صوفی حضرات : میلاد مناتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام کے نام سے مجلسیں قائم کرتے ہیں ، اور ان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی مخالفت کرتے ہوئے شرکیہ ذکر اور قصیدے اور اشعار پڑھتے ہیں جن میں صریح شرک ہوتا ہے ۔

تو کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر ، عمر اور عثمان اور علی رضي اللہ تعالی عنہم اور آئمہ اربعہ وغیرہ نے میلاد منایا تو ان کیا ان کی عبادت اور علم زیادہ صحیح ہے یا کہ صوفیوں کا ؟

صوفی حضرات : قبروں کا طواف یا ان کا تبرک حاصل کرنے کے لئے سفر کرتے اور ان پر جانور ذبح کرتے ہیں جوکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی صریحا مخالفت ہے ۔ فرمان نبوی ہے :

( صرف تین مسجدوں کی طرف سفر کیا جائے مسجد حرام ، اور میری یہ مسجد ، اور مسجد اقصی ) صحیح بخاری و صحیح مسلم ۔

صوفی حضرات : اپنے مشائخ کے بارہ میں بہت ہی متعصب ہیں اگرچہ وہ اللہ تعالی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت ہی کیوں نہ کریں ، اور اللہ تعالی کا تو فرمان یہ ہے : { اے ایمان والو ! اللہ تعالی اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو } الحجرات ( 2 )

صوفی حضرات : استخارہ کے لئے طلسم اور حروف استعمال کرتے اور تعویذ گنڈا وغیرہ کرتے ہیں ۔

صوفی حضرات : وہ درود جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں نہیں پڑھتے بلکہ ایسے بناوٹی درود پڑھتے ہیں جس میں صریح تبرک اور شرک پایا جاتا ہے جس پر اللہ تعالی کی رضا حاصل نہیں ہوتی ۔

اوررہا یہ سوال کہ کیا صوفیوں کے مشائخ کا رابطہ ہے تو یہ صحیح ہے ان کا رابطہ شیطان سے ہے نہ کہ اللہ تعالی سے ۔

تو وہ ایک دوسرے کے دل میں چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے ہیں تاکہ انہیں دھوکہ میں ڈالیں اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

{ اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بہت سے شیطان پیدا کئے تھے کچھ آدمی اور کچھ جن ، جن میں سے بعض بعض کو چکنی چپڑي باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے تھے تا کہ ان کو دھوکہ میں ڈال دیں اوراگر اللہ تعالی چاہتا تو یہ ایسے کام نہ کرتے } الانعام ( 112 )

اور اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

{ اور بیشک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں ڈالتے ہیں } الانعام (121)

اور اللہ سبحانہ وتعالی کے فرمان کا ترجمہ ہے :

{ کیا میں تمہیں بتا‎ؤں کہ شیطان کس پر اتر تے ہیں وہ ہر ایک جھوٹے گنہگار پر اترتے ہیں } الشعراء ( 221 - 222 )

تو یہ وہ حقیقی رابطہ جو ان کے درمیا ن ہوتا ہے نہ کہ وہ رابطہ جو وہ گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی سے رابطہ جو کہ بہتان اور جھوٹ ہے اور اللہ تعالی اس سے منزہ اور بلند وبالا ہے ۔ دیکھیں معجم البدع ( 346 - 359 )

اور صوفیوں کے بعض مشائخ کا اپنے مریدوں کی نظروں سے اوجھل ہونا بھی اسی رابطہ کا نتیجہ ہے جو کہ شیطان کے ساتھ ہوتا ہے ، حتی کہ بعض اوقات وہ شیطان انہیں دور دراز جگہ پر لے جاتے ہیں اور پھر اسی دن یا رات کو واپس لے آتے ہیں تا کہ ان کے مریدوں کو گمراہ کیا جاسکے ۔

تواسی لئے یہ عظیم قاعدہ ہے کہ ہم خارق عادات کاموں سے اشخاص کا وزن نہیں کرتے بلکہ ان کا وزن کتاب وسنت کے قرب اور اس پر التزام کرنے کے ساتھ ہوگا ، اور اللہ تعالی کے اولیاء کے لئے یہ شرط نہیں کہ ان کے ھاتھ پر خارق عادت کام ہو بلکہ وہ تو اللہ تعالی کی عبادت اس طریقے پر کرتے ہیں جو کہ مشروع ہے نہ کہ بدعات کو رواج دے کر ۔

اولیاء اللہ تو وہ ہیں جو کہ حدیث قدسی میں ذکر کئے گئے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے روایت کیا ہے ۔

ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یقینا اللہ تعالی نے فرمایا ہے : ( جس نے میرے ولی سے دشمنی کی میری اس کے ساتھ جنگ ہے اور جو میرا بندا کسی چيز کے ساتھ میرا قرب حاصل کرتا ہے تو وہ مجھے اس چيزسے زیادہ پسند ہے جو میں نے اس پر فرض کیا ہے اور جو بندہ نوافل کے ساتھ میرا قرب حاصل کرتا ہے تو میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہو ں تو اس کا کان ہوتا ہوں جس سے وہ سنتا اور اس کی بصر ہوتا ہوں جس سے وہ دیکھتا اور اس کا ھاتھ ہوتا ہوں جس سے وہ پکڑتا اور اس کی ٹانگ ہو تا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ، اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے عطا کرتا ہوں اور اگر میری پناہ میں آتا ہے تو میں اسے پناہ دیتاہوں ) ۔

اور اللہ تبارک وتعالی توفیق بخشنے والا اور صحیح راہ پر چلانے والا ہے ۔

واللہ تعالی اعلم .

الشیخ محمد صالح المنجد
اوپر آپ نے جتنے دلائل دئے آخر میں صحیح بخاری کی روایت درج کرکے خود ہی ان کا رد بھی فرمادیا
اللہ کی ولی کی شان جو آپ نے بیان فرمائی اس کا نتیجہ یہ ظاہر ہوتا ہے ،

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں اولیاء اللہ کا کان ہوتا ہوں جس سے وہ سنتا اور اس کی بصر ہوتا ہوں جس سے وہ دیکھتا اور اس کا ھاتھ ہوتا ہوں جس سے وہ پکڑتا اور اس کی ٹانگ ہو تا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ،

جب اللہ تعالیٰ اولیاء اللہ کے کان ہوتا ہے تو پھر کیا دور کی آواز اور کیا قریب کی آواز اولیاء اللہ یہ سب آوازیں سن لیتے ہیں اللہ کی عطاء سے

جب اللہ تعالیٰ اولیاء اللہ کی آنکھیں ہوتا ہے تو کیا زمین کی سطح اور کیا تحت سریٰ کیا آسمان کیا لوح قلم سب ان کی نگاہ میں ہوتا ہے اللہ کی عطاء سے

جب اللہ تعالیٰ اولیاء اللہ کے ہاتھ ہوتا ہے تو کیا قریب و بعید وہ ہر جگہ تصرف کرتے ہیں اللہ کی عطاء سے

جب اللہ تعالیٰ اولیاء اللہ کے پاؤں ہوتا ہے تو پھر ایک آن میں ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرنا کیا بڑی بات اللہ کی عطاء سے
والسلام
 

x boy

محفلین
اوپر آپ نے جتنے دلائل دئے آخر میں صحیح بخاری کی روایت درج کرکے خود ہی ان کا رد بھی فرمادیا
اللہ کی ولی کی شان جو آپ نے بیان فرمائی اس کا نتیجہ یہ ظاہر ہوتا ہے ،

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں اولیاء اللہ کا کان ہوتا ہوں جس سے وہ سنتا اور اس کی بصر ہوتا ہوں جس سے وہ دیکھتا اور اس کا ھاتھ ہوتا ہوں جس سے وہ پکڑتا اور اس کی ٹانگ ہو تا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ،

جب اللہ تعالیٰ اولیاء اللہ کے کان ہوتا ہے تو پھر کیا دور کی آواز اور کیا قریب کی آواز اولیاء اللہ یہ سب آوازیں سن لیتے ہیں اللہ کی عطاء سے

جب اللہ تعالیٰ اولیاء اللہ کی آنکھیں ہوتا ہے تو کیا زمین کی سطح اور کیا تحت سریٰ کیا آسمان کیا لوح قلم سب ان کی نگاہ میں ہوتا ہے اللہ کی عطاء سے

جب اللہ تعالیٰ اولیاء اللہ کے ہاتھ ہوتا ہے تو کیا قریب و بعید وہ ہر جگہ تصرف کرتے ہیں اللہ کی عطاء سے

جب اللہ تعالیٰ اولیاء اللہ کے پاؤں ہوتا ہے تو پھر ایک آن میں ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرنا کیا بڑی بات اللہ کی عطاء سے
والسلام

پھر اس حدیث میں صوفیت کہاں سے آگئی ،،اولیاء اللہ کا ذکر ہے وہ آپ بھی ہوسکتے ہیں اس محفل کا ہر شخص ہوسکتا،
بہت سے ہندوؤں میں ہے کہ وہ لوگ بنواس جاتے ہیں یعنی اپنی ذندگی کو دنیا کے لوگوں سے ہٹ کرجنگل بیابان میں چلے جاتے ہیں
اور صوفی عمل میں اسطرح کی یکسانیت پائی جاتی ہے
 
Top