کاشفی
محفلین
غزل
(خواجہ محمد الرؤ ف عشرت لکھنوی)
مسیح بن کے کوئی معجزہ دکھا دینا
جگر کا درد ہو کم جس سے وہ دوا دینا
کہیں گی دیکھ کے تم کو بہشت میں حوریں
ہمیں بھی موہنی صورت ذرا دکھا دینا
فراقِ یار میں لذت نہیں ہے جینے کی
پلا کے زہر مجھے شام سے سُلا دینا
خدا غریب کی سنتا ہے غیب سے فریاد
بہت ہے ہاتھ دعا کے لئے اُٹھا دینا
وہ فاتحہ کو جو آئے کہا یہ شوخی نے
چراغ قبر ذرا ہاتھ سے بجھا دینا
جو کوہ طور پہ موسٰی کو آئی تھی آواز
وہی صدا دم رُخصت مجھے سنا دینا
یہ کہہ کے قتل سے میرے اُٹھائے ہاتھ اُس نے
کہ بے قصور کو لازم نہیں سزا دینا
کہیں نہ حشر میں بھی دیدد سے رہوں محروم
کیا ہے وعدہ تو صورت ہمیں دکھا دینا
سنیں وہ یا نہ سنیں اختیار ہے ان کو
ہمیں حقیقتِ دل فرض ہے سنا دینا
نہیں ہے کوچہ الفت مقام آسایش
یہ بات حضرت عِشرت کو بھی سنا دینا
(خواجہ محمد الرؤ ف عشرت لکھنوی)
مسیح بن کے کوئی معجزہ دکھا دینا
جگر کا درد ہو کم جس سے وہ دوا دینا
کہیں گی دیکھ کے تم کو بہشت میں حوریں
ہمیں بھی موہنی صورت ذرا دکھا دینا
فراقِ یار میں لذت نہیں ہے جینے کی
پلا کے زہر مجھے شام سے سُلا دینا
خدا غریب کی سنتا ہے غیب سے فریاد
بہت ہے ہاتھ دعا کے لئے اُٹھا دینا
وہ فاتحہ کو جو آئے کہا یہ شوخی نے
چراغ قبر ذرا ہاتھ سے بجھا دینا
جو کوہ طور پہ موسٰی کو آئی تھی آواز
وہی صدا دم رُخصت مجھے سنا دینا
یہ کہہ کے قتل سے میرے اُٹھائے ہاتھ اُس نے
کہ بے قصور کو لازم نہیں سزا دینا
کہیں نہ حشر میں بھی دیدد سے رہوں محروم
کیا ہے وعدہ تو صورت ہمیں دکھا دینا
سنیں وہ یا نہ سنیں اختیار ہے ان کو
ہمیں حقیقتِ دل فرض ہے سنا دینا
نہیں ہے کوچہ الفت مقام آسایش
یہ بات حضرت عِشرت کو بھی سنا دینا