مسیح موعود کون؟

قسیم حیدر

محفلین
پچھلی صدی عیسوی میں برصغیر میں مسلمانوں کو جن فتنوں کا سامنا کرنا پڑا ان میں جھوٹی نبوت کا فتنہ بہت بڑا تھا۔ نبوت کا دعوٰی کرنے والا صاحب نے اپنے آپ کو "مسیح موعود" قرار دیا یعنی وہ مسیح جن کی آمد کا مسلمان انتظار کر رہے ہیں۔ ذیل میں احادیث کی رورشنی میں اسی مسئلے پر بحث کی گئی ہے۔
’’مسیح مَو عُود‘‘ کی حقیقت‘‘
نئی نبوت کی طرف بلانے والے حضرات عام طور پر ناواقف مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ احادیث میں ’’مسیح موعود ‘‘ کے آنے کی خبر دی گئی ہے، اور مسیح نبی تھے ، اس لیے ان کے آنے سے ختم نبوت میں کوئی خرابی واقع نہیں ہوتی ، بلکہ ختمِ نبوت بھی برحق اور اس کے باوجود مسیح موعود کا آنا بھی برحق ۔
اسی سلسلے میں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ’’ مسیح موعود‘‘ سے مراد عیسیٰ ابن مریم نہیں ہیں۔ ان کا تو انتقال ہوچکا ۔ اب جس کے آنے کی خبرنبوت کے خلاف نہیں ہے۔
اس فریب کا پردہ چاک کرنے کے لیے ہم یہاں پورے حوالوں کے ساتھ وہ مستند روایات نقل کیے دیتے ہیں جو اس مسئلے کے متعلق حدیث کی معتبر ترین کتابوں میں پائی جاتی ہیں۔ اِ ن احدیث کو دیکھ کر ہر شخص خود معلوم کرسکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا تھا اور آج اس کو کیا بنایا جارہا ہے۔
احادیث درباب نزولِ عیسیٰ ابنِ مریم علیہ السّلام
(۱)عن ابی ھریر ۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والذی نفوی بیدہ لَیَوْ شِکَنَّ ان ینزل فِیکم ابن مریم حکمًا عد لًا فیکسر الصلیب و یقتل الخنزیر و یَضَعَ الحربَ و یُفیضَ المال حتیٰ لا یقبلِہ احد حتٰی تکون السجدہ الوا حدۃ خیرًا من الدّ نیا وما فیھا (بخاری کتاب احادیث الانبیاء، باب نزول عیسیٰ ابن مریم ۔مسلم ، باب بیان نزول عیسیٰ ۔ ترمذی ابواب الفتن، باب فی نزول عیسیٰ ۔ مسند احمد، کرویات ابو ہریرہؓ)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ضروراُتریں گے تمہارے درمیان ابن مریم حاکم عادل بن کر ، پھر وہ صلیب کو توڑ ڈالین گے، اور خنزیر کو ہلاک کردیں گے۔ ( صلیب کو توڑ ڈالنے اور خنزیر کو ہلاک کردینے کا مطلب یہ ہے کہ عیسائیت ایک الگ دین کی حیثیت سے ختم ہوجائے گی۔ دینِ عیسوی کی پوری عمارت اس عقیدے پر قائم ہے کہ اللہ نے اپنے اکلوتے بیٹے (یعنی حضرت عیسیٰ) کو صلیب پر ’’ لعنت ‘‘ کی موت دی جس سے وہ انسان کے گناہ کا کفارہ بن گیا۔ اور انبیاء کی امتوں کے درمیان عیسائیوں کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے صرف عقیدے کو لے کر اللہ کی پوری شریعت ردکردی حتّٰی کہ خنزیر پر تک کو حلال کرلیا جو تمام انبیاء کی شریعتوں میں حرام رہا ہے۔ پس جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آکر خود اعلان کر دیں گے کہ نہ میں اللہ کا بیٹا ہوں ، نہ میں نے صلیب پر جان دی، نہ میں کسی گناہ کا کفارہ بنا تو عیسائی عقیدے کے لیے سرے سے کوئی بنیاد ہی باقی نہ رہے گی۔ اسی طرح جب وہ بتائیں گے کہ میں نے تو نہ اپنے پیرووں کے لیے سُور حلال کیا تھا اور نہ ان کو شریعت کی پابندی سے آزاد ٹھیرایا تھا، تو عیسائیت کی دوسری امتیازی خصوصیت کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔) اور جنگ کا خاتمہ کردیں گے (دوسری روایت میں حرت کے بجائے جزیہ کا لفظ ہے ، یعنی جزیہ ختم کردیں گے۔) (دوسرے الفاظ میںاس کا مطلب یہ ہے کہ اُس وقت ملّتوں کے اختلافات ختم ہو کر سب لوگ ایک مِلّت اسلام میں شامل ہوجائیں گے اور اس طرح نہ جنگ ہوگی اور نہ کسی پر جزیہ عائد کیا جائے گا۔ ا سی بات پر آگے احادیث نمبر 5و 15 دلالت کررہی ہیں۔ )اور مال کی وہ کثرت ہوگی کہ اس ک قبول کرنے والا کوئی نہ رہے گا اور (حالت یہ ہو جائے گی کہ لوگوں کے نزدیک اللہ کے حضور) ایک سجدہ کرلینا دنیا و مافیہا سے بہتر ہوگا۔
(2)۔ایک اور روایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ میں ہے کہ لا تقوم السّا عۃ حتّٰی ینزل عیسٰی ابن مریم......قیامت قائم نہ ہوگی جب تک نازل نہ ہولیں عیسٰی ابن مریم..........اور اس کے بعد ہی مضمون ہے جو اوپر کی حدیث میں بیان ہوا ہے (بخاری ، کتاب المظالم، باب کسرالصلیب۔ ابن ماجہ ، کتاب الفتن، باب فتنتہ الدجال)
(3)۔ عن ابی ھریرۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال کیف انتم اذانزل ابن مریم فیکم وامامکم منکم۔ (بخاری، کتاب احادیث الانبیاء ، باب نزول عیسیٰ ۔ مسلم ، بیان نزول عیسیٰ ۔ مسند احمد ، مرویات ابی ہریرہؓ)
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیسے ہوگے تم جبکہ تمہارے درمیان ابن مریم اتریں گے اور تمہارا امام اس وقت خود تم میں سے ہوگا۔‘‘ (یعنی نماز میں حضرت عیسیٰ حضرت عیسیٰ امامت نہیں کرائیں گے بلکہ مسلمانوں کا جو امام پہلے سے ہوگا اسی کے پیچھے وہ نماز پڑھیں گے۔)
(4)۔ عن ابی حریرۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال ینزل عیسیٰ ابن مریم فیقتل الخنزیر و یمحواالصلیب و تجمع لہ الصلوٰۃ و یعطی المال حتی لا یقبل و یضع الخراج و ینزل الرَّوحاء فیحجّ منھا، او یعتمو، او یجمعھما (مسند احمد ، بسلسلہ ، مرویات ابی ہریرہؓ مسلم ، کتاب الحج ۔ باب جواز التمتُّع فی الحج والقرآن)
حضر ت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گیپھر وہ خنزیر کو قوتل کریں گے اور صلیب کو مٹادیں گے اور ان کے لیے نماز جمع کی جائے گی اور وہ اتنا مال تقویم کریں گے کہ اسے قبول کرنے والا کوئی نہ ہوگا اور وہ خراج ساقط کردیں گے اور رَوحائ(مدینہ سے 35 میل کے راصلے پر ایک مقام) کے مقام پر منزل کرکے وہاں سے حج یا عمرہ کریں گے ، یا دونوں کو جمع کریں گے( واضح رہے کہ اس زمانے میں جن صاحبکو مثیلِ مسیح قرار دیاگیا ہے انہوں نے اپنی زندگی میں نہ حج کیا اور نہ عمرہ) راوی کو شک ہے کہ حضوؐر نے ان میں سے کونسی بات فرمائی تھی۔ (5)۔
عن ابی ھریرۃ (بعد ذکر خروج الدجال) فبینما ھم یعدّوس للقتال یسوّون الصّفوف اذا اقیمت الصلوٰۃ فینزل عیسیٰ ؑ ابن مریم فامّھم فاذار اٰہ عدواللہ یذوب کما یذوب الملح فی الماء فلو ترکہ الانذاب حتٰی یھلک ولٰکن یقتلہ اللہ بیدہ فیریھم دمہ فی حربتہٖ( مشکوٰۃکتاب الفتن، باب الملاحم، بحوالہ مسلم)۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے (دجّال کے خروج کا ذکرکرنے کے بعد حضوؐر نے فرمایا)اس اثنا میں کہ مسلمان اس سے لڑنے کی تیاری کررہے ہوں گے، صفیں باندھ رہے ہوں گے اور نماز کے لیے تکبیراقامت کہی جاچکی ہوگی کہ عیسیٰ ابنِ مریم نازل ہوجائیں گے۔ اور نماز مین مسلمانوں کی امامت کریں گے۔ اور اللہ کادشمن (یعنی دجّال) ان کو دیکھتے ہی اس طرح گھلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام اس کو اُس کے حال پر چھوڑ دیں تو وہ آپ ہی گھل کر مر جائے۔ مگر اللہ اس کو اُن کے ہاتھ سے قتل کرائے گا اور وہ اپنے نیزے میںاُس کا خون مسلمانوں کو دکھائیں گے۔‘‘
(6)۔ عن ابی ھریرۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لیس بینی وبینہٗ نبی (یعنی عیسیٰ) وانہ نازل فاذارأیتموہ ماعر فوہ رجل مربو الی الحمر ۃ والبیاص، بین ممصرتین کان راسہ یقطروَان لم یصبہ بلل فیقاتل الناس علیالاسلام فیدق الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الجزیۃویھلک اللہ فی زمانہ الملل کلھا الاا لاسلام ویھلک المسیح الدجال فیمکث فی الارض اربعین سنۃ تم یتوفی فی صلی علیہ المسلمون۔(ابوداؤد ، کتاب الملاحم، باب خروج الدّجال۔ مُسند احمد مرویات ابو ہریرہؓ)
ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے اور اُن (یعنی عیسیٰ علیہ السلام)کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے۔ اوریہ کہ وہ اُترنے والے ہیں، پسجب تم ان کو دیکھو تو پہچان لینا ، وہ ایک میانہ قد آدمی ہیں ، رنگ مائل بسُرخی و سپیدی ہے، دوزرد رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہوں گے۔ ان کے سر کے بال ایسے ہوں گے گویا اب ان سے پانی ٹپکنے والا ہے، حالانکہ وہ بھیگے ہوئے نہ ہوں گے۔ وہ اسلام پرلوگوں سے جنگ کریں گے، صلیب کو پاش پاش کردیں گے، خنزیر کو قتل کردیں گے ، جزیہ ختم دیں گے، اور اللہ ان کے زمانے میں اسلام کے سوا تمام مِلّتوں کو مٹادے گا، اور وہ مسیح دجال کو ہلاک کردیں گے، اور زمین میں وہ چالیس سال ٹھیریں گے۔ پھر ان کا انتقال ہوجائے گا اور مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔‘‘ (7)۔
عن جابر بن عبداللہ قال سمعت روسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم.......فینزل عیسیٰ ابن مریم صلی اللہ علیہ وسلم فیقو ل امیر ھم تعل فصلِّ فیقول الا ان بعضکم علیٰ بعضامراء تکرمۃ اللہ ھٰذہ الامۃ۔ (مسلم، بیاننزول عیسیٰ ابن مریم۔ مُسند احمد بسلسلہ مرویات جابرؓ بن عبداللہ)
حضرت جابربن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سُنا کہ ....پھر عیسیٰ ابن مریم نازل ہوں گے۔ مسلمانوں کا امیر اُن سے کہے گا کہ آئے، آپ نماز پڑھائیے، مگر وہ کہیں گے کہ نہیں ، تم لوگ خود ہی ایک دوسرے کے امیر ہو۔( یعنی تمہارا امیر خود تم ہی میں سے ہونا چاہیے۔) یہ وہ اُس عزّت کا لحاظ کرتے ہوئے کہیں گے جوجواللہ نے اس اُمّت کو دی ہے۔‘‘
(8)۔ عن جابر بن عبداللہ (فی قصۃ ابن صیاد)فقال عمر بن الخطاب ائذن لی فاقتلہٗ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان یکن ھو فلست صاحبہ انما صاحبہ عیسیٰ ابن مریم علیہ الصلوٰۃ والسلام، و ان لا یکن فلیس لک ان تقتل رجلا من اھل العھد(مشکوٰۃ۔ کتاب الفتن، باب قصّۃ بن صیّاد ، بحوالہشرح السُّنہ بَغَوی)
جا بر بن عبداللہ (قصّۂ ابن صیّاد کے سلسلہ میں) روایت کرتے ہیں کہ پھر عمر بن خطاب نے عرض کیا، یا رسول اللہ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اسے قتل کردوں ۔ اس پرحضوؐر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ وہی شخص (یعنی دجال) ہے تو اس کے قتل کرنے والے تم نہیں ہو بلکہ اسے تو عیسیٰ بن مریم ہی قتل کریں گے۔ اور اگر یہ وہ شخص نہیں ہے تو تمہیں اہلِ عہد (یعنی ذمیوں) میں سے ایک آدمی کو قتل کردینے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘‘ (9)۔ عن جابر عبداللہ (فی قصہ الدجال) فاذاھم بعیسیٰ ابن مریم علیہ السلام فتقام الصلوٰۃ فیقال لہ تقدم یا روح اللہ فیقول لیتقدم امامکم فلیصلِّ بکم فاذاصلی صلوٰۃ الصبح خرجو االیہ، قال جحین یری انکذاب کما ینماث الملح فی الماء فیمشی الیہ فیقتلہٗ حتی ان الشجر والحجر ینادی یا روح اللہ ھٰذا الیھودیُّ ، فلا یترک ممن کان یتبعہ احداالاقتلہٗ ۔ (مسنداحمد ، بسلسلہ روایات جابر بن عبداللہ)
جابربن عبداللہ سے روایت ہے کہ (دجال کا قصہ بیان کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) اس وقت یکایک عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام مسلمانوں کے درمیان آجائیںگے ۔ پھر نماز کھڑی ہوگی اور ان سے کہا جائے گا کہ اے روح اللہ آگے بڑھئے ، مگر وہ کہیںکہ نہیں ، تمہارے امام ہی کو آگے بڑھنا چاہیے، وہی نماز پڑھائے۔ پھرصبح کی نماز سے فارغ ہوکر مسلمان دجال کے مقابلے پر نکلیں گے۔ فرمایا، جب وہ کذّاب حضرت عیسیٰ کو دیکھے گا تو گھلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے۔ پھر وہ اس کی طرف بڑھیں گے اور اسے قتل کردیں گے اور حالت یہ ہوکی کہ درخت اور پتھر پکار اٹھیں گے کہ اے روح اللہ یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے ۔ دجال کے پیرووں میں سے کوئی نہ بچے گا وہ (یعنی عیسیٰؑ ) قتل نہ کردیں۔ (10)٘۔
عن النواس بن سمعان ( فی قصۃ الدجّال) فبینما ھو کذٰلک اذ بعث اللہ المسیح بن مریم فینزل عندالمنارۃ البیضاء شرقی دمشق بین مھرو ذتین واضعًا کفیہ علیٰ اجنحہ ملکین اذاطاُ طأ راسہٗ قطرواذا رفعہ تحد رمنہ جمان کا للوٗلوٗ فلایحل لکافر یجد ریح نفسہ الامات و نفسہ ینتہی الیٰ حیث ینتہی طرفہ فیطلبہ حتیٰ
ید کہ ببابِلُدٍّ فیقتلہ۔(مسلم، ذکرالدجّال ۔ ا بو داوٗد، کتاب الملاحم، باب خروج الدجال ۔ ترمذی، ابو اب الفتن ، باب فتنۃ الدّجال۔ ابن ماجہ ، کتاب الفتن، باب فتنۃالدّجال )
حضرت نَاّس بن سَمْعان کلانی (قسۂ دجال بیان کرتے ہوئے ) راویت کرتے ہیں: اس اثناء میں کہ دجال یہ کچھ کررہا ہوگا، اللہ تعالیٰ مسیحؑ ابن مریم کو بھیج دے گااور وہ دمشق کے مشرقی حصے میں ، سفیدمینار کے پاس، زرد رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوئے، دو فرشتوں کے بازؤوں پر اپنے ہاتھ رکھے ہوئے اتریں گے۔جب وہ سر جھکائیں گے تو ایسا محسوس ہوگا کہ قطرے ٹپک رہے ہیں ، اور جب سر اٹھائیں گے توموتی کی طرح قطرے ڈھلکتے نظر آئیں گے۔ ان کے سانس کی ہو ا جس کافر تک پہنچے گے .......اور وہ ان کی حد نظر تک جائے گی ۔۔۔۔۔۔.......... وہ زندہ نہ بچے گا۔ پھر ابن مریم دجال کا پیچھا کریں گے اور لُدّ(واضھ رہیکہ لُدّ (Lyddu)فلسطین میں ریاست اسرائیل کے دارلسلطنت تل ابیب سے چند میل کے فاصلے پر واقع ہے اور یہودیوں نے وہان بہت بڑا ہوائی اڈہ بنا رکھا ہے۔) کے دروازے پر اسے جا پکڑیں گے اور قتل کردیں گے۔
(11)۔ عن عبداللہ بن عمر وقال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یخرج الدجال فی امتی فیمکث اربعین (لا ادری اربعین یومًا اواربعین شھرًا او ربعین عامًا)فیبعث اللہ عیسیٰ بن مریم کانہ عُروۃ بن مسعود فیطلبہ ثم یمکث الناس سبع سنین لیس بین اثنین عداوۃ(مسلم، ذکر الدجال)
عبداللہ بن عاص کہتے ہیں کہ رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دجال میری امت میں نکلے گا اور چالیس( میں نہیں جانتا چالیس دن یا چالیس مہینے یاچالیس سال) (یہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کا اپنا قول ہے) رہے گا ۔ پھر اللہ عیسیٰ ابن مریم کو بھیجے گا۔ ان کا حلیہ عُروہ بن مسعود (ایک صحابی) سے مشابہ ہوگا۔ وہ اس کا پیچھا کریں گے اور اسے ہلاک کردیں گے، پھر سات سال تک لوگ اس حال میں رہیں گے کہ دو آدمیوں کے درمیان بھی عداوت نہ ہوگی۔
(12)۔ عن حذیفۃ بن اسید الفاری قال اطلع النبی صلی اللہ علیہ وسلم علینا و نحن نتذاکر فقال ما تذکرون قالو انذ کر السّاعۃ قال انھالن تقوم حتیٰ ترون قبلھا عشراٰیات فذکر الدخان والدجال والدابۃ و طلوع الشمس من مغر بھا و نزول عیسیٰ ابن مریم ویاجوج و ماجوج و ثلثۃ خسوف، خسف بالمشرق و خسف بالمغرب، وخسف بجزیرۃ العرب ، و اٰ خر ذٰلک نار تخرج من الیمن تطرد الناس الیٰ محشر ھم(مسلم: کتاب الملاحم، باب امارات الساعہ)
حُذیفہ بن اسید الغفاری کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری مجلس میں تشریف لائے اور ہم آپس میں بات چیت کررہے تھے۔ آپ نے پوچھا کیا بات ہورہی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا ہم قیامت کا ذکر کررہے تھے۔ فرمایا وہ ہرگز قائم نہ ہوگی جب تک اس سے پہلے دس نشانیاں ظاہر نہ ہوجائیں ۔ پھر آپ نے وہ دس نشانیاں یہ بتائیں : (1) دُھواں،(2)دجال،(3) دابتہ الارض، (4) سورج کا مغرب سے طلوع ہونا(5) عیسیٰ ابنِ مریم کا نزول،(6)یاجوج و ماجوج، (7)تین بڑے خَسَف( زمین دھس جاناLandslide)، ایک مشرق میں، (8)دوسرا مغرب میں، (9) تیسرا جزیرۃ العرب میں، (10) سب سے آخر میں ایک زردست آگ جو یمن سے اٹھے گی اور لوگوں کو ہانکتی ہوئی محشر کی طرف لے جائے گی۔ (13)۔ عن ثوبان مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن النبی صلی اللہ وسلم عصابتان من امتی احرز ھما اللہ تعالیٰ من النار۔ عصابۃ تغزوالھند، وعصا بۃ تکون مع عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام (نسائی، کتاب الجہاد ۔ مسند احمد، بسلسلہ روایات ثُوبان)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ثوبان روایت کرتے ہیںکہ حضورؐ نے فرمایا’’ میری امت کے دو لشکر ایسے ہیں جن کو اللہ نے دوزخ کی آگ سے بچالیا۔ایک وہ لشکر جو ہندوستان پر حملہ کرے گا۔ دوسرا وہ جو عیسٰی ابن مریمؑ کے ساتھ ہوگا۔
(14)۔ عن مُجمِّع بن جاریۃ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول یقتل ابنُ مریم الدّجال بباب لُدّ( مسنداحمد ۔ترمذی ، ابواب الفتن )
مُجَمّع بن جاریتہ انصاری کہتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ابن مریم دجال کو لُدّ کے دروازے پر قتل کریں گے۔
(15)۔ عن ابی اُمامۃ الباھلی(فی حدیث طویل فی ذکر الد جال) فبینما اما مھم قد تقدم یصلّی بھم الصنح اذنز ل علیھم عیسیٰبن مریم فرجع ذٰلک الامام ینکص یمشی تھقریٰ لیتقدم عیسیٰ فیضع عیسیٰ یدہ بین کتفیہ تم یقول لہٗتقدم فصل فانھا لک اقیمت فیصلی بھم اما مھم فا ذا انصرف قال عیسیٰ علیہ السسلام افتحوا الباب فیفتح و وراء ہ الدجال ومعہ سبعون الفیھودی کلھم ذوسیف محلی وساج فاذانظر الیہ الدجال ذاب کما یذوب الملح فی الماء وینطلق ھا ربًا ویقول عیسیٰ ان لی جیک ضربۃلن تسبقنی بھا فیدرکہ عندباب الُّلدِّ الشرقی فیھزم اللہ الیھود..... وتملا الارض منالمسلم کما یملاالا ناء من الماء وتکون الکلمۃ واحدۃ فلا یعبد الا اللہ تعالیٰ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب فتنتہ الدجال)
ابو اُمامہ باہلی (ایک طویل حدیث میں دجال کا ذکر کرتے ہوئے ) روایت کرتے ہیں کہ عین اس وقت جب مسلمانوں کا امام صبح کی نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھ چکا ہوگا۔ عیسیٰ ابن مریم اُن پر اُتر آئیں گے۔امام پیچھے پلٹے گا تاکہ عیسیٰؑ آگے بڑھیں ، مگر عیسیٰ اس کے شانوں کے درمیان ہاتھ رکھ کر کہیں گے کہ نہیں تم ہی نماز پڑھاؤکیونکہ یہ تمہارے لیے ہی کھڑی ہوئی ہے ۔ چنانچہ وہی نماز پڑھائے گا۔ سلام پھیرنے کے بعد عیسیٰ علیہ السلام کہیں گے کہ دروازہ کھولو ن، چنانچہ وہ کھولا جائے گا۔ باہر دجال ۷۰ ہزار مسلح یہودیوں کے ساتھ موجود ہوگا۔ جوں ہی کہ عیسیٰ علیہ السلام پر اس کی نظر پڑے گی وہ اس طرح گھُلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں گُھلتا ہے اور سہ بھاگ نکلے گا۔ عیسیٰ کہیں گے میرے پاس تیرے لیے ایک ایسی ضرب ہے جس سے تو بچ کر نہ جا سکے گا پھر وہ اُسے لُدّ کے مشرقی دروازے پر لے جائیں گے اور اللہ یہودیوں کو ہرادے گا...... اور زمین مسلمانوں سے اس طرح بھر جائے گی جیسے برتن پانی سے بھر جائے۔ سب دنبا کا کلمہ ایک ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ ہوگی۔
(16)۔ عن عثمان بن انی العاص قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول .. ... وینزل عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام عند صلوۃ الفجر فیقول لہ امیرھم یاروح اللہ تقدم ، صلِّ، فیقول ھٰذہ الامۃ بعضھم امراء علیٰ فیتادم امیر ھم فیصلی، فاذا قضیٰ صلوٰتہٗ اخذ عیسیٰ حربتہٗ فیذھب نحوالدجال فاذایراہ الدجال ذاب کما یذوب الرصاس فیضع حربتہ بین شندوبتہ فیقتلہٗ وینھزم اصحابہ لیس یومعِذ شیء یواری منھم احداحتیٰ ان الشجر لیقول یا مومن ھٰذا کافرو یقول الحجر یا مومن ھٰذا کافر(مُسند احمد۔ طُبرانی۔ حاکم)
عثمان بن انی العاص کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے ....اور عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام فجر کی نماز کے وقت اُتر آئیں گے۔
مسلمانوں کا امیر ان سے کہے گا اے رُوح اللہ آپ نماز پڑھایئے۔ وہ جواب دیں گے کہ اس امت کے لوگ خود ہی ایک دوسرے پر امیر ہیں ۔ تب مسلمانوں کا امیر آگے بڑھ کر نماز پڑھائے گا ۔ پھر نماز سے فا رغ ہوکر عیسیٰ اپنا حربہ لے کر دجال کی طرف چلیں گے ۔ وہ جب ان کو دیکھیگا تو اس طرح پگھلے گا جیسے سیسہ پگھلتا ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام اپنے حرنے سے اس کو ہلاک کردیں گے اور اس کے ساتھی شکست کھا کر بھاگیں گے مگر کہیں انہیں چھپنے کو جگہ نہ ملے گی، حتیٰ کہ درخت پکاریں گے اے مومن ، یہ کافریہان موجودہے اور پتھر پکاریں گے کہ اے مومن، یہ کافر یہاں موجود ہے۔
(17)۔ عن سمرۃ بن جُنْدُب عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم(فی حدیث طویل) فیصبح فیھم عیسیٰ ابن مریم فیھزمہ اللہ وجنودہ حتیٰ ان اجذم الحائط واصل الشجر لینادی یا مومن ھٰذا کافر یستتربی فتعال اقتلہ۔
سَمُرہ جُندُب(ایک طویل حدیث میں)نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ، پھر صُبح کے وقت مسلمانوں کے درمیان عیسیٰ ابن مریم آجائیں گے اور اللہ دجال اور اس کے لشکروں کوشکست دے گا یہاں تک کہ دیواریں اور درختوں کی جڑیں پکار اٹھیں گی کہ اے مومن ، یہ کافر میرے پیچھے چھپا ہوا ہے، آ اور اسے قتل کر۔
(18) عن عمر ان بن حصین انّ رسول اللہ علیہ وسلم قال لا تزال طائفۃ من امتی علی الحق ظاھرین علیٰ من نوأ ھم حتیٰ یاتی امراللہ تبارک وتعالیٰ وینزل عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام۔ (مُسند احمد)
عمران بن حصین سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے فرمایا: میری اُمت میں ہمیشہ ایک گروہ ایسا موجود رہے گا جو حق پر قائم اور مخالفین پر بھاری ہوگا یہاں تک کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فیصلہ آجائے اور عیسیٰ ابنِ مریم علیہ السلام نازل ہوجائیں۔
(19)عن عائشۃؓ(فی قصۃ الدّجال) فینزل عیسیٰ علیہ السلام فیقتلہ ثم یمکث عیسیٰ علیہ السلام فی الارض اربعین سنۃ امامًا عادلًا حَکَمًا مُقسطًا ۔(مسند احمد)
حضرت عائشہؓ (دجال کے قصّے میں) روایت کرتی ہیں: پھر عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے اور دجال کو قتل کریں گے۔ اس کے بعد عیسیٰ علیہ السلام چالیس سال تک زمین میں ایک امامِ عادل اور حاکم منصف کی حیثیت سے رہیں گے۔‘‘
(20)۔ عن سفینۃ مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (فی قصۃالدجّال ) فینزل عیسیٰ الیہ السالم فیقتلہ اللہ تعالیٰ عند عقیۃ اُفیق۔(مسند احمد)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام سفینہ(دجال کے قصے میں)روایت کرتے ہیں: پھر عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے اور اللہ تعالیٰدجال کو اُفیق(اَفیق، جسے آج کل رفیق کہتے ہیں،شام اور اسرائیل کی سرحد پر موجودہ ریاست شام کا آخری شہر ہے۔ اس کے آگے مغرب کی جانب چند میل کے فاصلہ پر طَبَریہ ّ نامی جھیل ہے جس میں سے دریا ئے اُردُن نکلتا ہے، اور اس کے جنوب مغرب کی طرف پہاڑوں کے درمیان ایک نشیبی راستے کو عَقَبہْ اَفیق کی گھاٹی کہتے ہیں۔ ) کی گھاٹی کے قریب ہلاک کردے گا۔
(21)٘ عن حذیفۃ(فی ذکرالدجال ) فلما قاموایصلّون نزل عیسیٰ بن مریم امامہم فصلّی بھم فلما انصرف قال ھٰکذا مْر کوابینی وبین عدداللہ...........ویسلط اللہ علیھم المسلمین فیقتلو نھم حتیٰ ان الشجر ولحجرلینادی یا عبداللہ یا عبدالرحمٰن یا مسلم ھٰذالیھودی فقتلھم فیفنیھم اللہ تعالیٰ ویظھر المسلمون فیکسرون الصلیب ویقتلون الخنزیر ویضعون الجزیۃ(مستدرک حاکم ۔ مسلم میں بھی یہ روایت اختصار کے ساتھ آئی ہے۔ اور حافظ ابن حجرنے فتح الباری جلد6 ص، 25 میں اسے صحیح قرار دیا ہے)
حضرت حُذَیفہ بن یَمان (دجال کا ذکر کرتے ہوئے) بیان کرتے ہیں:’’ پھر جب مسلمان نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوں گے تو اُن کی آنکھوںکے سامنے عیسیٰ ابن مریم اتر آئیں گے اور وہ مسلمانوں کو نماز پڑھائیں گے پھر سلام پھیرنے کے بعد لوگوں سے کہیں گے کہ میرے اور اللہ کے اس دشمن کے درمیان سے ہٹ جاؤ ........اور اللہ دجال کے ساتھیوں پر مسلمانوں کو مسلط کردے گا اور مسلمان انھیں خوب ماریں گے یہاں تک کہ درخت اور پتھر پکار اٹھیں گے اے عبداللہ ، اے عبدالرحمٰن ، اے مسلمان، یہ رہا ایک یہودی، مار اسے۔ اس طرح اللہ ان کو فنا کردے گا اور مسلمان غالب ہوں گے اور صلیب توڑدیں گے، خنزیر کو قتل کردیںگے اور جزیہ ساقط کردیںگے۔ یہ جملہ 21 روایات ہیں جو 14 صحابیوں سے صحیح سندوں کے ساتھ حدیث کی معتبر ترین کتابوں میں وارد ہوئی ہیں۔ اگر چہ ان کے علاوہ دوسری بہت سی احادیث میں بھی یہ ذکر آیا ہے، لیکن طولِ کلام سے بچنے کے لیے ہم نے ان سب کو نقل نہیں کیا ہے بلکہ صرف وہ روایتیں لے لی ہیں جو سند کے لحاظ سے قوی تر ہیں۔
 

قسیم حیدر

محفلین
اِن احادیث سے کیا ثابت ہوتا ہے؟
جو شخص بھی ان احدیث کو پڑھے گا وہ خود دیکھ لے گا کہ ان میں کسی’’مسیح موعود ‘‘ یا ’’مثیلِ مسیح‘‘ یا ’’ بروزِ مسیح‘‘ کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ نہ ان میں اس امر کی کوئی گنجائش ہے کہ کوئی شخص اِس زمانے میں کسی ماں کے پیٹ اور کسی باپ کے نُطفے سے پیدا ہوکر یہ دعویٰ کردے کہ میں ہی وہ مسیح ہوں جس کے آنے کی سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشن گوئی فرمائی تھی۔ یہ تمام حدیثیں صاف اور صریح الفاظ میں اُن عیسیٰ علیہ السلام کے نازل ہونے کی خبر دے رہی ہیں جو اب سے دوہزار سال پہلے باپ کے بغیر حضرت مریم علیہا السلام کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ اس مقام پر یہ بحث چھیڑنا بالکل لا حاصل ہے کہ وہ وفات پاچکے ہیں یا زندہ کہیں موجود ہیں۔ بالفرض وہ وفات ہی پاچکے ہوں تو اللہ انہیں زندہ کرکے اُٹھا لانے پر قادر ہے( جو لوگ اس باست کا انکار کرتے ہیں انہیں سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 259 ملاحظہ فرمالینی چاہیے جس میں اللہ تعالیٰ صاف الفاظ میں فرماتا ہے کہ اس نے اپنے ایک بندے کو100 برس تک مُردہ رکھااور پھر زندہ کردیا فَاَمَاتَہُ مِائَۃَ عامٍ ثمَّ بَعَثَہہ۔ )،وگرنہ یہ بات بھی اللہ کی قدرت سے ہرگز بعید نہیں ہے کہ وہ اپنے کسی بندے کو اپنی کائنات میں کہیں ہزارہا سال تک زندہ رکھے اور جب چاہے دنیا میں واپس لے آئے ۔ بہر حال اگر کوئی شخص حدیث کومانتا ہو تو اُسے یہ ماننا پڑے گاکہ آنے والے وہی عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام ہوں گے۔ اور اگر کوئی شخص حدیث کو نہ مانتا ہو تو وہ سرے سے کسی آنے والے کی آمد کا قائل ہی نہیں ہوسکتا، کیونکہ آنے والے کی آمد کا عقیدہ احادیث کے سوا کسی اور چیز پر مبنی نہیں ہے۔ لیکن یہ ایک عجیب مذاق ہے کہ آنے والے کی آمد کا عقیدہ تولے لیا جائے احادیث سے اور پھر انہی احادیث کی اس تصریح کو نظر انداز کردیا جائے کہ وہ آنے والے عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام ہوں گے نہ کہ کوئی مثیلِ مسیح۔
دوسر ی بات جواتنی ہی وضاحت کے ساتھ ان احادیث سے ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کایہ دوبارہ نزول نبی مقرر ہوکر آنے والے شخص کی حیثیت سے نہیں ہوگا۔ نہ ان پر وحی نازل ہوگی، نہ وہ اللہ کی طرف سے کوئی نیایا کوئی نئے احکام لائیں گے، نہ وہ شریعت محمدی میں کوئی اضافہ یا کوئی کمی کریں گے، نہ ان کوتجدید دین کے لیے دنیامیں لایا جائے گا، نہ وہ آکر لوگوں کواپنے اوپرایمن لانے کی دعوت دیں گے، اورنہ و ہ اپنے ماننے والوں کی ایک الگ اُمت بنائیں گے( علماء اسلام نے اس مسئلے کوپوری وضاحت کے ساتھ بیان کردیاہے۔علامۂ تَفتازانی (722ھ۔792ھ) شرح عقائد نُسَفی میں لکھتے ہیں:
ثبت انہ اٰخرالنبیاء۔ ۔ ۔ فان قیل قد روی فی الحدیث نزول عیسی علیہ السلام بعدہ قلنا نعم لکنہ یتابع محمدعلیہ السلام لان شریعۃ قد نسخت لا یکون الیہ وحی ولا نصب احکام بل یکون خلیفۃ رسول اللہ علیہ السلام (طبع مصر، ص 135)
دوسری بات جو اتنی ہی وضاحت کے ساتھ ان احادیث سے ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کا یہ دوبارہ نزول نبی مقرر ہوکر آنے والے شخص کی حیثیت سے نہیں ہوگا۔ نہ ان پر وحی نازل ہوگی، نہ وہ اللہ کی طرف سے کوئی نیا پیغام یا نئے احکام لائیںگے، نہ وہ شریعتِ محمدی میں کوئی اضافہ یا کوئی کمی کریںگے، ان کو تجدید دین کے لیے دنیا میں لایاجائے گا، نہ وہ آکر لوگوں کو اپنے اوپر ایمان لانے کی دعوت دیںگے، اور نہ وہ اپنے ماننے والوں کو ایک الگ امت بنائیں گے۔ (علماء نے اس مسئلے کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کردیا ہے۔ علامہ تفتازانی (722ھ۔792ھ) شرح عقائد نسفی میں لکھتے ہیں: یہ ثابت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ ۔ ۔ اگر کہا جائے کہ آپ کے بعد عیسی علیہ السلام کے نزول کا ذکر احادیث میں آیا ہے، تو ہم کہیں گے کہ ہاں، آیا ہے، مگر وہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہوںگے، کیونکہ ان کی شریعت تو منسوخ ہوچکی ہے، اس لیے نہ ان کی طرف وحی ہوگی اور نہ وہ احکام مقرر کریںگے، بلکہ وہ رسول اللہ ﷺکے نائب کی حیثیت کام کریںگے۔ اور یہی بات علامہ آلوسی تفسیر روح المعانی میں کہتے ہیں:
ثمالہ علیہ السلام حین ینزل باق علی نبوتہ السابقۃ لم یعزل عنھا بحال لکنہ لا یتعبد بھالنسخھا نی حقہ وحق غیر ہ وتکلیفہ باحکام ہذا الشریعۃ اصلاً وفرعاً فلا یکون الیہ علیہ السلام وحی ولا نصب احکام بدیکون خلیفہ لرسول اللہ صلی اللہ لعیہ وسلم وحاکما من حکام ملتہ بین امتہ (جلد22۔ص32)
پھر، عیسی علیہ السلام جب نازل ہوں گے تو وہ اپنی سابق نبوت پر باقی ہوںگے، بہر حال اس سے معزول تونہ ہوجائیںگے، مگر وہ اپنی پچھلی شریعت کے پیرونہ ہوں گے کیونکہ وہ ان کے اور دوسرے سب لوگوں کے حق میں منسوخ ہوچکی ہے، اور اب وہ اصول اور فروغ مین اس شریعت کی پیروی پر تکلف ہوںگے، لہذا ان پر نہ اب وحی آئے گی اور نہ انہیں انہیں احکام مقرر کرنے کا اختیار ہوگا، بلکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب اور آپ کی امت میں ملت محمدیہ کے حاکموں میں سے ایک حاکم کی حیثیت سے کام کریںگے۔
امام رازی اس بات کو اور زیادہ وضاحت کے ساتھ اس طرح بیان کرتے ہیں:
انتہاء الانبیاء الی مبعث محمدصلی اللہ علیہ وسلم فعند مبعثہ انتھت تلک المدۃ لا یبعدان یصیر(ای عیسی ابن مریم) بعد نزولہ تبعاً لمحمدؐ (تفسیر کبیر، ج ۔3۔ص 343)
انبیاء کا دور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تک تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوگئے تو انبیاء کی آمد کا زمانہ ختم ہوگیا۔ اب یہ بات بعید از قیاس نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ نازل ہونے کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہوں گے۔ )
وہ صرف ایک کارخاص بھیجے جائیںگے، اور وہ یہ ہوگا کہ دجال کے تنے کا استیصال کردیں۔ اس غرض کے لیے وہ ایسے طریقے سے نال ہونگے کہ جن مسلمانوں کے درمیان ان کا نزول ہوگا، انہیں اس امر میں کوئی شک نہ رہے گا کہ یہ عیسیٰ ابن مریم ہی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشنگوئیوں کے مطابق ٹھیک وقت پر تشریف لائے ہیں۔ وہ آکر مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہوجائیںگے، جو بھی مسلمانوں کا امام اس وقت ہوگا سی کے پیچھے نماز پڑھیں گے (اگرچہ دو روایتوں (نمر5 و21) میں بیان کیاگیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نازل ہونے کے بعد پہلی نماز خود پڑھائیں گے، لیکن بیشتر اور قوی تر روایات (نمبر 3،7،15،14) یہی کہتی ہیں کہ وہ نماز میں امامت کرانے سے انکار کریں گے اور جو اس وقت مسلمانوں کا امام ہوگا اسی کو آگے بڑھائیںگے۔ اسی بات کو محدثین اور مفسرین نے بالاتفاق تسلیم کیاہے۔ ) اور جو بھی اس وقت مسلمانوں کا امیر ہوگا اسی کو آگے رکھیںگے ، تاکہ اس شبہ کی کوئی ادنیٰ سی گنجائش بھی نہ رہے کہ ہ اپنی سابق پیغمبرانہ حیثیت کی طرح اب پھر پیغمبری کے فرائض انجام دینے کے لیے واپس آئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کسی جماعت میں اگر اللہ کا پیغمبر موجود ہو تو نہ اس کا کوئی امام دوسرا شخص ہوسکتا ہے اور نہ امیر۔ پس جب وہ مسلمانوں کی جماعت میں آکر محض ایک فرد کی حیثیت سے شامل ہوںگے تو یہ گویا خود بخود اس امر کا اعلان ہوگا کہ وہ پیغمبر کی حیثیت سے تشریف نہیں لائے ہیں، اور اس بنا پر ان کی آد سے مہر نبوت کے ٹوٹنے کا قطعاً کوئی سوال پیدا نہ ہوگا۔
ان کا آنا بلا تشبیہ اسی نوعت کا ہوگا جیسے ایک صدر ریاست کے دور میں کوئی سابق صدر آئے اور وقت کے صدر کی ماتحتی میں مملکت کی کوئی خدمت انجام دے۔ ایک معمولی سمجھ بوجھ کا آدمی بھی یہ بات بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ ایک صدر کے دور میں کسی سابق صدر کے محض آجانے سے آئین نہیں ٹوٹتا۔ البتہ دونوں صورتوں میں آئین کی خلاف ورزی لازم آتی ہے۔ ایک یہ کہ سابق صدر آکر پھر سے فرائض صدارت سنبھالنے کی کوشش کرے۔ دوسرے یہ کہ کوئی شخص کی سابق صدارت کا بھی انکار کردے ، کیونکہ یہ ان تمام کاموں کے جواب کو چیلنج کرنے کا ہم معنی ہوگا جو ا سکے دور صدارت میں انجام پائے تھے۔ ان دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت بھی نہ تو بجائے خود سابق صدر کی آمد آینی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتی۔ یہی معاملہ حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کابھی ہے کہ ان کے محض آجانے سے ختم نبوت نہیں ٹوٹتی ۔ البتہ اگر وہ آکر پھر نبوت کا منصب سنبھال لیں اور فائض نبوت انجام دینے شروع کردیں، یا کوئی شخص ان کی سابق نبوت کابھی انکار کردے تو اس سے اللہ تعالیٰ کے آئین نبوت کی خلاف وری لازم آئے گی۔ احادیث نے پوری وضاحت کے ساتھ دونوں صورتوں کا سد باب کردیا ہے۔ ایک طرف وہ تصریح کرتی ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبوت نہیں ہے۔ اور دوسری طرف وہ خبر دیتی ہیں کہ عیسی ابن مریم علیہ السلام دوبارہ نازل ہوںگے۔ اس سے صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ ان کی یہ آمدثانی منصب نبوت کے فرائض انجام دینے کے لیے نہ ہوگی۔
اسی طرح ان کی آمدسے مسلمانوں کے اندر کفر وایمان کا بھی کوئی نیا سوال پیدا نہ ہوگا۔ ان کی سابقہ نبوت پر تو آج بھی اگر کوئی ایمان نہ لائے تو کافر ہوجائے۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم خود ان کی اس نبوت پر ایمان رکھتے تھے اور آپ کی ساری امت ابتداء سے ان کی مومت ہے۔ یہی حیثیت اس وقت بھی ہوگی۔ مسلمان کسی تازہ نبوت پر ایمان نہ لائیںگے بلکہ عیسی ابن مریم علیہ السلام کی سابقہ نبوت پر ہی ایمان رکھیں گے جس طرح آج رکھتے ہیں۔ یہ چیز نہ آج ختم نبوت کے خلاف ہے نہ اس وقت ہوگی
آخری بات جو ان احادیث سے، اور بکثرت دوسری احادیث سے بھی معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ دجال ، جس کے فتنہ عظیم کااستیصال کرنے کے لیے حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کو بھیجا جائے گا، یہودیوں میں سے ہوگا اور اپنے آپ کو ’’مسیح‘‘ کی حیثیت سے پیش کرے گا۔ اس معاملے کی حقیقت کوئی شخص نہیں سمجھ سکتا جب تک وہ یہودیوں کی تاریخ اور ان کے مذہبی تصورات سے واقف نہ ہو۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات جب نبی اسرائیل پے درپے تنزل کی حالت میں مبتلا ہوتے چلے گئے، یہاں تک کہ آخر کار بابل اور اسیریا کی سلطنتوں نے ان کو غلام بناکر زمین میں تتر بتر کردیا، تو انبیائے بنی اسرائیل نے ان کو خوشخبری دینی شروع کی کہ اللہ کی طرف سے ایک ’’مسیح ‘‘ آنے والاہے جو ان کو اس ذلت سے نجات دلائے گا۔ ان پیشینگوئیوں کی بنا پر یہودی ایک مسیح کی آمد کے متوقع تھے جو باداہ ہو، لڑکر ملک فتح کرے، بی اسرائیل کو ملک ملک سے اکر فلسطین میں جمع کردے، اور ان کی ایک زبردست قائم کردے۔ لیکن ان کی ان توقعات کے خلاف جب حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام اللہ کی طرف سے مسیح ہوکر آئے اور کوئی لشکر ساتھ نہ لائے تو یہودیوں نے ان کی مسیحیت تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور انہیں ہلاک کرنے کے درپے ہوگئے۔ اس وقت سے آج تک دنیا بھر کے یہودی اس مسیح موعود (Promised Messiah) کے منتظر ہیں جس کے آنے کی خوشخبریاں ان کو دی گئی تھیں۔ ان کا لٹریچر اس آنے والے دور کے سہانے خوابوں سے بھر اپڑا ہے۔ تلمود: اور ربیوں کے ادبیات میں اس کا جو نقشہ کھینچاگیا ہے۔ اس کی خیالی لذت کے سہارے صدیوں سے یہودی جی رہے ہیں اور یہ امید لئے بیٹھے ہیں کہ یہ مسیح موعود ایک زبردست جنگی و سیاسی لیڈر ہوگا جو دریائے نیل سے دریائے فرات تک کاعلاقہ (جسے یہودی اپنی میراث کا ملک سمجھتے ہیں) انہیں واپس دلائے گا، اور دنیا کے گوشے گوشے سے یہودیوں کو لاکر اس ملک میں پھر سے جمع کردے گا۔
اب اگر کوئی شخص مشرقی وسطیٰ کے حالات پر ایک نگاہ ڈالے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشینگوئیوں کے پس منظر میں ان کو دیکھے تو وہ فوراً یہ محسوس کرے گا کہ اس دجال اکبر کے ظہور کے لیے اسٹیج بالکل تیار ہوچکا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دی ہوئی خبروں کے مطابق یہودیوں کا ’’مسیح موعود‘‘ بن کر اٹھے گا۔ فلسطین کے بڑے حصے سے مسلمان بے دخل کیے جاچکے ہیں اور وہاں اسرائیل کے نام سے ایک یہودی ریاست قائم کردی گئی ہے۔ اس ریاست میں دنیا بھر کے یہودی کھیچ کھیچ کر چلے آرہے ہیں۔ امریکہ ، برطانیہ اور فرانس نے اس کو ایک زبردست جنگی طاقت بنادیا ہے۔ یہودی سرمائے کی بے پایاں امداد سے یہودی سائنس داں اور ماہرین فنون اس کو روز افزوں ترقی دیتے چلے جارہے ہیں،اور اس کی یہ طاقت گردو پیش کی مسلمان قوموں کے لیے ایک خطرہ عظیم بن گئی ہے۔ اس ریاست کے لیڈروں نے اپنی اس تمنا کو کچھ چھپاکر نہیں رکھا ہے کہ وہ اپنی ’’میراث کا ملک‘‘ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مستقبل کی یہودی سلطنت کا جو نقشہ وہ ایک مدت سے کھلم کھلا شائع کررہے ہیں اسے مقابل کے صفحے پر ملاحظہ فرمایئے۔ اس سے ظاہر ہو کہ وہ پورا شام، پورا لبنان پورا اردن اور تقریباً سارا عراق لینے کے علاوہ ترکی سے اسکندرون، مصر سے سینا اور ڈیلٹا کا علاقہ اور سعودی عرب سے بالائی حجاز ونجد کا علاقہ لینا چاہتے ہیں جس میں مدینہ منورہ بھی شامل ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے صاف محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ کسی عالمگیر جنگ کی ہڑبونگ سے فائدہ اٹھاکر وہ ان علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کریںگے اور ٹھیک اس موقع پر وہ دجال اکبر ان کا مسیح موعود بن کر اٹھے گا جس کے ظہور کی خبردینے ہی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اکتفا نہیں فرمایا ہے بلکہ یہ بھی بتادیا ہے کہ اس زمانے میں مسلمانوں پر مصائب کے ایسے پہاڑ ٹوٹیں گے کہ ایک دن ایک سال کے برابر محسوس ہوتا ہوگا۔ اسی بناء پر آپ فتنۂ دجال سے خود بھی اللہ کی پناہ مانگتے تھے اور اپنی امت کو بھی پناہ مانگنے کی تلقین فرماتے تھے۔
اس مسیح دجال کا مقابلہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کسی مثیل مسیح کو نہیں بلکہ اس اصل مسیح کو نازل فرمائے گا جسے دوہزار برس پہلے یہودیوں نے ماننے سے انکار کردیا تھا اور جسے وہ اپنی دانست میں صلیب پر چرھاکر ٹھکانے لگا چکے تھے۔ اس حقیقی مسیح کے نزول کی جگہ ہندوستان یا افریقہ یا امریکہ میں نہیں بلکہ دمشق میں ہوگی کیونکہ یہی مقام اس وقت عین محاذ جنگ پر ہوگا۔ براہ کرم دوسرے صفحے پر نقشہ ملاحظہ فرمائے۔ اس میں آپ دیکھیں گے کہ اسرائیل کی سرحد سے دمشق بمشکل 60،50 میل کے فاصلے پر ہے۔ پہلے جو احادیث ہم نقل کرآئے ہیں ان کا مضمون اگر آپ کو یاد ہے تو آپ کو یہ سمجھنے میں کوئی زحمت نہ ہوگی کہ مسیح دجال 70 ہزار یہودیوں کا لشکر لے کر شام میں گھسے گا اور دمشق کے سامنے جا پہنچے گا۔ ٹھیک اس ناک موقع پر دمشق کے مشرقی حصے میں ایک سفید مینار کے قریب حضرت عیسیؑ ابن مریم صبحدم نازل ہوںگے اور نماز فجر کے بعد مسمانوں کو اس کے مقابلے پر لے کر نکلیں گے۔ ان کے حملے سے دجال پسپاہوکر افیق کی گھاٹی سے (ملاحظہ ہو حدیث نمبر 21) اسرائیل کی طرف پلتے گا اور وہ اس کا تعاقب کریںگے۔ آخر کا لُد کے ہوائی اڈے پر پہنچ کر وہ ان کے ہاتھوں ماراجائے گا (حدیث نمبر 10،14،15) اس کے بعد یہودی چن چن کر قتل کیے جائیںگے اور ملت یہود کا خاتمہ ہوجائے گا (حدیث نمبر 9،15،21) عیسائیت بھی حضرت عیسیؑ کی طرف سے اظہار حقیقت ہوجانے کے بعد ختم ہوجائے گی۔(حدیث نمبر 1،2،4،6) اور تمام ملیتں ایک ہی ملت مسلمہ میں ضم ہوجائیں گی (حدیث نمبر6۔15)
یہ ہے وہ حقیقت جو کسی اشتباہ بغیر احادیث میں صاف نظر آتی ہے۔ اس کے بعد امر میں کیا شک باقی رہ جاتا ہے کہ ’’مسیح موعود‘‘ کے نام سے جو کاروبار ہمارے ملک میں پھیلایاگیا ہے وہ ایک جعل سازی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔
اس جعل سازی کا سب سے زیادہ مضحکہ انگیز پہلو یہ ہے کہ جو صاحب اپنے آپ کو ان پیشن گوئیوں کا مصداق قراردیتے ہیں انہوں نے خود ابن مریم بننے کے لیے یہ دلچسپ تاول فرمائی ہے:
’’اس نے (یعنی اللہ تعالیٰ نے) براہینِ احمدیہ کے تیسرے حصے میں میرا نام مریم رکھا۔ پھر جیسا کہ براہین احمدیہ سے ظاہر ہے، دوبرس تک صفت مریمیت میں میں نے پرورش پائی۔ ۔ ۔ پھر۔ ۔ ۔ مریم کی طرح عیسی کی روح مجھ سے نفخ کی گئی اور استعارے کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایاگیا،اور آخر کئی مہینے کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں، بذریعہ اس الہام کے جو سب سے آخر براہین احمدیہ کے حصہ چہارم میں درج ہے، مجھے مریم سے عیسیٰ بنادیاگیا۔ پس اس طور سے میں ابن مریم ٹھہرا۔‘‘ (کشتی نوح۔ ص 87،88،89)
یعنی پہلے مریم بنے، پھر خود ہی حاملہ ہوئے، پھر اپنے پیٹ سے آپ عیسیٰ ابن مریم بن کر تولد ہوگئے! اس کے بعد یہ مشکل پی آئی کہ عیسی ابن مریم کا نزول تو احادیث کی رو س دمشق میں ہوتا تھا جو کئی ہزار برس سے شام کا ایک مشہور و معروف مقام ہے اور آج بھی دنیا کے نقشے پر اسی نام سے موجود ہے۔ یہ مشکل ایک دوسری پر لطف تاول سے یوں رفع کی گئی:
’’واضح ہو کہ دمشق کے لفظ کی تعبیر میں میرے پر منجاب اللہ یہ ظاہر کیاگیا ہے کہ اس جگہ ایسے قصبے کا نام دمشق رکھاگیا ہے جس میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو یزیدی ابطع اور یزید پلید کی عادات اور خیالات کے پیرو ہیں۔ ۔ ۔ یہ قصبہ قادیان بوجہ اس کے کہ اکثر یزیدی الطبع لوگ اس میں سکونت رکھتے ہیں دمشق سے ایک مشابہت اور مناسبت رکھتا ہے ‘‘۔ (حاشیۂ ازالۂ اوہام ص 63۔73)
پھر ایک اور الجھن یہ باقی رہ گئی کہ احادیث کی روسے ابن مریم کو ایک سفید منارہ کے پاس اترنا تھا۔ چنانچہ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ مسیح صاحب نے آکر اپنا منارہ خود بنوالیا۔ اب اسے کون دیکھتا ہے کہ احادیث کی رو سے منارہ وہاں ابن مریم ؑ کے نزول سے پہلے موجود ہونا چاہئے تھا، اور یہاں وہ مسیح موعود صاحب کی تشریف آوری کے بعد تعمیر کیاگیا۔
آخری اور زبردست الجھن یہ تھی کہ احادیث کی رو سے تو عیسی ابن مریم کو لُد کے دروازے پر دجال کو قتل کرنا تھا۔ اس مشکل کو رفع کرنے کی فکر میں پہلے طرح طرح کی تاویلیں کی گئیں۔ کبھی تسلیم کیاگیا کہ لُدبیت المقدس کے دیہات میں سے ایک گاؤں کا نام ہے (ازالہ اوہام، شائع کردہ انجمن احمدیہ لاہور، تبقیطع خورد، صفحہ 220) پھر کہاگیا کہ ’’لُد ان لوگوں کو کہتے ہیں جو بے جا جھگڑا کرنے والے ہوں۔ ۔ ۔ جب دجال کے بیجا جھگڑے کمال تک پہنچ جائٰںگے تب مسیح موعود ظہور کرے گا اور اس کے تمام جھگڑوں کا خاتمہ کردے گا ‘‘ (ازالۂ اوہام ، صفحہ 730) لیکن جب اس سے بھی بات نہ بنی تو صاف کہہ دیاگیا کہ لُد سے مراد لدھیانہ ہے اور اس کے دروازے پر دجال کے قتل سے مراد ہے کہ اشرار کی مخالفت کے باوجود وہیں سب سے پہلے مرزا صاحب کے ہاتھ پر بعیت ہوئی (الہدیٰ ص 91)
ان تاویلات کو جوشخص بھی کھلی آنکھوں سے دیکھے گا اسے معلوم ہوجائے گا کہ یہ جھوٹے بہروپ (false impersonation) کا صریح ارتکاب ہے جو علی الاعلان کیاگیاہے۔
(تفہیم القرآن جلد چہارم، تفسیر سورہ الاحزاب اور ضمیمہ بسلسلہ حاشیہ نمبر77)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٭٭۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

ساجد

محفلین
قسیم حیدر صاحب ،
آپ نے جہاں جہاں ہندسے تحریر کئیے ہیں ، وہاں وہاں میرے کمپیوٹر پہ ، ڈبے بن کے آ رہے ہیں ۔ کبھی کبھی یہ مسئلہ قرآن پاک کی آیات کی عربی تحریر میں بھی آ جاتا ہے۔ اس کا کیا حل ہے؟
اگر منتظمین کرام بھی رہنمائی فرما دیں تو نوازش ہو گی۔ میں ونڈوز ایکس پی استعمال کرتا ہوں۔
 

زیک

مسافر
اردو ہندسوں کی سپورت مختلف فانٹس میں عجیب قسم کی ہے۔ اسی لئے میرا مشورہ یہ ہے کہ انگریزی اعداد استعمال کریں۔
 
Top