محمداحمد
لائبریرین
ہماری اس تحریر سے کافی لوگوں کو یہ شبہ ہوا کہ ہم نے شاید ایسے کسی مشاعرے کی بالمشافہ زیارت کی ہے۔ حالانکہ ہم کہہ چکے ہیں کہ یہ سب ہمارے شرارتی تصور کی کارستانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ محض وقت گزاری کے لئے ہم نے سُنی سُنائی رسی کا سانپ بنا لیا۔افسوس کہ ہم قدیم ہو کر بھی انڈے ٹماٹر والی روایت جتنے قدیم نہیں
ہم نے جب مشاعرے براہِ راست شریکِ محفل ہو کر سنے، تب تک انڈے ٹماٹروں کی جگہ ہوٹنگ نے لے لی تھی۔ ایک بار ساکنانِ شہرِ قائد کے عالمی مشاعرے میں ایک شاعرہ کو جب غزلوں پر داد نہ مل سکی تو انہوں نے قائدِ اعظم پر نظر سنانا شروع کردی ۔۔۔ لڑکے بالوں نے ملکی نغموں کی طرز پر ہاتھ اٹھا کر ہلانے شروع کردیے اور شاعرہ کا پارہ مزید چڑھ گیا ۔۔۔ تاہم وہ بھی دھن کی پکی تھیں ۔۔۔ جب تک اپنا کوٹۂ کلام پورا نہ کر لیا، مائیک نہیں چھوڑا
یہی مشاعراتی شاعر / شاعرہ کی حقیقی کامیابی ہے کہ دشمنوں کی پرواہ کیے بغیر اپنا کلام سناتا رہے۔