محمد تابش صدیقی
منتظم
مشاعروں کی بدلتی ہوئی تہذیب اور منتظمینِ مشاعرہ کے فکری معیار کے نام
روایتوں کی بدلنے لگی فضا ایسی
مشاعرے میں اب آئے گی، شاعرہ ایسی
جو اپنے حسن میں یکتا ہو فن میں کچی ہو
پچاس سال کی ہو، دیکھنے میں بچی ہو
دراز زلف ہو ، آنکھیں بڑی بڑی اس کی
زباں پٹاخہ ہو، باتیں ہوں پھلجھڑی اس کی
ذرا سی نیک ہو تھوڑی سی بد تمیز ہو وہ
سماعتوں کی نہیں، دیکھنے کی چیز ہو وہ
ردیف چست ہو اور قافیے ہوں تنگ اس کے
مشاعرے میں جھلکتے ہوں انگ انگ اس کے
جو زوجیت میں سماجی شعور رکھتی ہو
مشاعروں سے وہ، شوہر کو دور رکھتی ہو
جو شاعری سے مبرا ہو، بحر سے آزاد
نثار اس کے تبسم پہ ہو، ہر اک استاد
جو روندتی ہو تخیل کو اپنے پاؤں تلے
لہک لہک کے سنائے غزل چلے نہ چلے
بجائے شعر، ترنم زمیں پہ دے مارے
نگاهِ ناز کو جو سامعیں پہ دے مارے
ترنم ایسا کہ چیخے تو نرخرہ اٹھ جائے
غزل سنائے تو صدرِ مشاعرہ اٹھ جائے
اساتذہ کے تغزل کی شمع گل ہو جائے
وہ ایسی ماہ جبیں ہو کہ ہال فل ہو جائے
جو سامعین میں بیٹھے ہوئے ہوں کچھ حاجی
وہ سارے مل کے کہیں اور اک غزل باجی
مشاعرے کو اگر وہ قبول ہو جائے
تو منتظم کا بھی پیسہ وصول ہو جائے
تو کیا ہوا وہ حسینہ ادب صفات نہیں
وہ شعر خود نہیں کہتی ہو، کوئی بات نہیں
٭٭٭
خالد عرفان
مشاعرے میں اب آئے گی، شاعرہ ایسی
جو اپنے حسن میں یکتا ہو فن میں کچی ہو
پچاس سال کی ہو، دیکھنے میں بچی ہو
دراز زلف ہو ، آنکھیں بڑی بڑی اس کی
زباں پٹاخہ ہو، باتیں ہوں پھلجھڑی اس کی
ذرا سی نیک ہو تھوڑی سی بد تمیز ہو وہ
سماعتوں کی نہیں، دیکھنے کی چیز ہو وہ
ردیف چست ہو اور قافیے ہوں تنگ اس کے
مشاعرے میں جھلکتے ہوں انگ انگ اس کے
جو زوجیت میں سماجی شعور رکھتی ہو
مشاعروں سے وہ، شوہر کو دور رکھتی ہو
جو شاعری سے مبرا ہو، بحر سے آزاد
نثار اس کے تبسم پہ ہو، ہر اک استاد
جو روندتی ہو تخیل کو اپنے پاؤں تلے
لہک لہک کے سنائے غزل چلے نہ چلے
بجائے شعر، ترنم زمیں پہ دے مارے
نگاهِ ناز کو جو سامعیں پہ دے مارے
ترنم ایسا کہ چیخے تو نرخرہ اٹھ جائے
غزل سنائے تو صدرِ مشاعرہ اٹھ جائے
اساتذہ کے تغزل کی شمع گل ہو جائے
وہ ایسی ماہ جبیں ہو کہ ہال فل ہو جائے
جو سامعین میں بیٹھے ہوئے ہوں کچھ حاجی
وہ سارے مل کے کہیں اور اک غزل باجی
مشاعرے کو اگر وہ قبول ہو جائے
تو منتظم کا بھی پیسہ وصول ہو جائے
تو کیا ہوا وہ حسینہ ادب صفات نہیں
وہ شعر خود نہیں کہتی ہو، کوئی بات نہیں
٭٭٭
خالد عرفان