مشتاق احمد یوسفی کی ربع صدی کے وقفے کے بعد آنے والی نئی کتاب’شامِ شعریاراں‘کا اردو حلقوں میں بڑی شدت سے انتظار کیا گیا۔
کتاب آنے سے پہلے سب سوچتے تھے کہ اس میں یوسفی صاحب کو شاید ’آبِ گم‘ کے فلک بوس معیار کو ایک بار پھر چھونے میں مشکل پیش آئے گی۔ لیکن دلِ خوش فہم کے ایک گوشے میں ایک کرن یہ بھی پنپتی رہی کہ 25 سال بعد کتاب لا رہے ہیں تو کیا پتہ، اس میں کچھ چمتکار دکھا ہی دیں۔
ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ یوسفی صاحب کے اندر کا نقاد بہت سخت ہے، جب تک تحریر خود ان کے کڑے پیمانے پر سولہ آنے نہ اترے، اسے دن کی ہوا نہیں لگنے دیتے۔ ان کا مسودے کو پانچ سات سال تک ’پال میں رکھنے‘ والا فقرہ تو ویسے ہی بڑا مشہور ہے۔
کچھ امیدیں اس وجہ سے بھی بندھیں کہ حضرت افتخار عارف نے کراچی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ یوسفی صاحب نے گذشتہ عشروں میں سات سات سو صفحے کے دو سفرنامے، چار سو صفحے کا ایک ناول اور پتہ نہیں کیا کیا لکھ رکھا ہے، لیکن وہ انھیں شائع نہیں کروا رہے کہ ایک آدھ آنچ کی کسر ہے۔
بالآخر دکانوں کے چکر لگا لگا کر کتاب ہاتھ آئی تو پڑھ کر امیدوں کے محل زمین پر آ رہے۔
کتاب کیا ہے، طرح طرح کی الم غلم تحریریں جمع کر کے بھان متی کا کنبہ جوڑ رکھا ہے۔ اگر کالموں کے کسی مجموعے کی تقریبِ رونمائی میں تقریر کی ہے تو اسے بھی کتاب کی زینت بنا دیا ہے، کسی مرحوم کی یاد میں تاثرات پیش کیے تو کتاب میں درج کر ڈالے، سالانہ مجلسِ ساداتِ امروہہ میں اظہارِ خیال کیا تو لگے ہاتھوں اسے بھی شامل کر دیا۔
اور پھر تکرار ایسی کہ خدا کی پناہ۔ کئی ایسی باتیں جو نصف صدی سے دوسری کتابوں میں کہتے چلے آئے تھے، انھی الفاظ میں اسی انداز سے یہاں بھی دہرا دیں۔ یہی نہیں بلکہ خود اسی کتاب کے مضامین میں بھی جگہ جگہ کسی ایسے پہاڑ کی سیر کا سماں ملتا ہے جہاں ایک بار صدا بلند کرنے کے بعد تادیر اس کی بازگشت ادھر ادھر سے گونج کر سماعت سے ٹکراتی رہتی ہے۔
مثلاً مضمون ’سدِ سمندری‘ میں (صفحہ 23
پر یہ مصرع درج ہے: ’مزاحِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقریریں۔‘ یہ مصرع اسی سیاق و سباق کے ساتھ ’ضمیر واحد متبسم‘ (صفحہ 28
پر بھی موجود ہے۔
انڈس ویلی سکول آف آرٹ اینڈ آرکیٹیکچر کے جلسۂ عطائے اسناد میں اردو اور انگریزی کے بارے میں جو باتیں کیں، عین مین وہی فرمودات دو سال اور 40 صفحے بعد یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز کے جلسے میں بھی دہرا دیے۔
اسی طرح ’مہرِ دونیم‘ میں لکھا گیا مصرع ’روز اک تازہ قصیدہ نئی تشبیب کے ساتھ‘ صرف چھ صفحوں کے بعد ’چادر، چاند بی بی اور کالم بھر چاندنی‘ میں بھی پایا جاتا ہے۔
چند ’یوسفی پارے‘
- میرا تعلق تو اس بھولی بھالی نسل سے رہا ہے جو خلوصِ دل سے سمجھتی ہے کہ بچے بزرگوں کی دعا سے پیدا ہوتے ہیں۔
- الحمداللہ بھری جوانی میں بھی ہمارا حال اور حلیہ ایسا نہیں رہا کہ کسی خاتون کے ایمان میں خلل واقع ہو۔
- اسلام آباد درحقیقت جنت کا نمونہ ہے ۔۔۔ یہاں جو بھی آتا ہے حضرت آدم کی طرح نکالا جاتا ہے۔
- کرنل محمد خان سے: ’کرنل صاحب، سفرنامے میں نازنینوں کی تعداد آپ کی ذاتی ضرورت سے کیں زیادہ ہے، آخر بچارے مقامی گوروں کا بھی حقِ بدچلنی بنتا ہے۔‘
- پرانا مقدمے باز آدھا وکیل ہوتا ہے اور دائم المرض آدمی پورا عطائی۔
- طوطے سے مستقبل کا حال پوچھنے کا فائدہ یہ ہے کہ ہمیشہ ایک اور نیک فال نکالتا ہے، جس کا سبب یہ کہ دماغ کی بجائے چونچ سے کام لیتا ہے۔
- (جنرل ضیا الحق اپنی تقریروں میں) چنگیزی طرزِ ادا سے مزاح کا ناس مار دیتے تھے، کیوں کہ مزاح ان کے مزاح، منصب، مونچھ، سری جیسی ابلواں آنکھوں اور وردی سے لگا نہیں کھاتا تھا۔
اس کے علاوہ وہ انداز جس نے گذشتہ نصف صدی سے یوسفی کو یوسفی بنایا ہوا ہے، اس کتاب میں ماند نظر آتا ہے۔ اور اس کی وجہ صاف ظاہر ہے، مجلسی گفتگو، تہنیتی اجلاسوں اور تعزیتی محافل میں وہ بات کہاں آ سکتی ہے جو جم کر کسی ایک موضوع پر پوری توجہ مرکوز کر کے لکھی جانے والی کتاب میں ہو سکتی ہے۔
کتاب میں 21 مضامین شامل کیے گئے ہیں جن میں فیض احمد فیض، افتخار عارف، بشریٰ رحمٰن، شان الحق حقی، ضمیر جعفری، الطاف گوہر وغیرہم پر لکھی گئی تحریریں شامل ہیں۔ لیکن تقریباً سبھی مضامین میں یوسفی جگہ جگہ نہ صرف ’اپنا ہی قطعِ کلام‘ کرتے ہوئے بات کہیں سے کہیں پہنچا دیتے ہیں، بلکہ کئی دفعہ تو قطعِ کلام کا بھی قطعِ کلام کر دیتے ہیں اور ہانپتا کانپتا قاری ڈور کا سرا ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہار جاتا ہے۔
لیکن اس سب باتوں کے باوجود کہیں کہیں سے وہی پرانا انداز اس طرح جھلکتا ہے کہ آس پاس کو چکاچوند کر کے رکھ دیتا ہے، اور قاری سب کچھ بھلا کر ’یوسفی آخر یوسفی ہے‘ کہہ اٹھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
بڑی تقطیع کے 437 صفحات پر مشتمل کتاب کا حاصلِ کتاب سب سے پہلا مضمون ہے: ’قائداعظم فوجداری عدالت میں بحیثیتِ وکیلِ صفائی۔‘ عنوان کے نیچے وضاحت کی گئی ہے کہ یہ دراصل ’پسِ زرگزشت کا ایک بابِ خواب تمثال‘ ہے۔
قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مضمون شاید ’زرگزشت‘ ہی کے زمانے میں لکھا گیا تھا جو کسی وجہ سے اُس کتاب کا حصہ نہ بن سکا۔ مضمون سے واضح ہوتا ہے کہ اگر اسے پھیلا دیا جاتا تو یہ زرگزشت کا ’پریکویل‘ بن سکتا تھا۔
اس میں مصنف نے آگرہ میں اپنے زمانۂ طالب علمی کا نقشہ کھینچا ہے جہاں انھیں قائداعظم محمد علی جناح کو بہت قریب سے، بلکہ ایک مقدمے کے دوران بھرپور ’ایکشن‘ میں دیکھنے کا موقع ملا۔
اسی طرح ایک اور مضمون ’یارِ طرح دار‘ میں انھوں نے علی گڑھ یونیورسٹی میں بِتائے گئے دنوں کا احوال بیان کیا ہے، جو ایک بار پھر لطف سے خالی نہیں۔
کاش یوسفی صاحب اسی دور کے بارے میں جم کے لکھتے تو اردو نثر کی دنیا کتنی ثروت مند ہو جاتی۔
فی الحال تو یہ کتاب یوسفی صاحب کے تبرک کے طور پر ہی پڑھی جا سکتی ہے۔