مشتاق احمد یوسفی کی نئی کتاب - شامِ شعرِ یاراں

صائمہ شاہ

محفلین
یہ لیجیے ہمارے دربار کی تصویر:)
10432556_10152419002432117_1806801737567400419_n.jpg

دائیں سے بائیں: محمد امین ، فاتح ، مہدی نقوی حجاز
آمریت کا دور چل رہا تھا کیا ؟ درباریوں کی حالت خاصی نازک لگ رہی ہے :terror:
 

الف عین

لائبریرین
اوپر کے مباحثے سے قطعِ نظر۔۔۔
کل ما بدولت نے اسلامی بک فئر کا جائزہ لیا۔ وہاں کچھ ادبی کتابیں بھی تھیں۔ پاکستانی کتابیں بھی تھیں جو ہندوستانی کتابوں کی بہ نسبت دوگنی یا اور زیادہ مہنگی تھیں (مثال کے طور پر احسن البیان بڑے سائز کی پاکستانی سٹال میں 950 روپئے کی تھی، بغیر کسی ڈسکاؤنت کے۔ جب کہ ہمدوستانی اڈیشن ساڑھے چار سو میں تھا)
بہر حال ہندوستانی سٹالس میں دو جگہ شام شعر یاراں بھی دکھائی دی۔ ایم آر پبلیکیشنز دہلی کی چھپی ہوئی کتاب اصل قیمت چار سو روپئے تھی۔ اور 15٪ ڈسکاؤنٹ کے بعد 340 روپیوں میں ہم نے خرید ہی لی۔ ھالانکہ اس سے مایوسی تو پہلے ہی ہو گئی تھی، لیکن بہرحال اخبار کی خبربھی کم از کم مشتاق احمد یوسفی کے قلم سے ہو تو کچھ تو لطف آتا ہی ہے۔ اس لئے یوسفی کے نام سے خرید لی ہے کہ ہم بھی ’صاحب شام شعر یاراں ‘ہو جائیں۔
 

محمد امین

لائبریرین
اوپر کے مباحثے سے قطعِ نظر۔۔۔
کل ما بدولت نے اسلامی بک فئر کا جائزہ لیا۔ وہاں کچھ ادبی کتابیں بھی تھیں۔ پاکستانی کتابیں بھی تھیں جو ہندوستانی کتابوں کی بہ نسبت دوگنی یا اور زیادہ مہنگی تھیں (مثال کے طور پر احسن البیان بڑے سائز کی پاکستانی سٹال میں 950 روپئے کی تھی، بغیر کسی ڈسکاؤنت کے۔ جب کہ ہمدوستانی اڈیشن ساڑھے چار سو میں تھا)
بہر حال ہندوستانی سٹالس میں دو جگہ شام شعر یاراں بھی دکھائی دی۔ ایم آر پبلیکیشنز دہلی کی چھپی ہوئی کتاب اصل قیمت چار سو روپئے تھی۔ اور 15٪ ڈسکاؤنٹ کے بعد 340 روپیوں میں ہم نے خرید ہی لی۔ ھالانکہ اس سے مایوسی تو پہلے ہی ہو گئی تھی، لیکن بہرحال اخبار کی خبربھی کم از کم مشتاق احمد یوسفی کے قلم سے ہو تو کچھ تو لطف آتا ہی ہے۔ اس لئے یوسفی کے نام سے خرید لی ہے کہ ہم بھی ’صاحب شام شعر یاراں ‘ہو جائیں۔

پاکستانی روپے کی قدر ہندوستانی روپے سے کم ہے۔ لیکن پھر بھی ہندوستانی کتب یہاں کے مقابلے میں سستی ہوتی ہیں۔۔۔
 

فاتح

لائبریرین
اوپر کے مباحثے سے قطعِ نظر۔۔۔
کل ما بدولت نے اسلامی بک فئر کا جائزہ لیا۔ وہاں کچھ ادبی کتابیں بھی تھیں۔ پاکستانی کتابیں بھی تھیں جو ہندوستانی کتابوں کی بہ نسبت دوگنی یا اور زیادہ مہنگی تھیں (مثال کے طور پر احسن البیان بڑے سائز کی پاکستانی سٹال میں 950 روپئے کی تھی، بغیر کسی ڈسکاؤنت کے۔ جب کہ ہمدوستانی اڈیشن ساڑھے چار سو میں تھا)
بہر حال ہندوستانی سٹالس میں دو جگہ شام شعر یاراں بھی دکھائی دی۔ ایم آر پبلیکیشنز دہلی کی چھپی ہوئی کتاب اصل قیمت چار سو روپئے تھی۔ اور 15٪ ڈسکاؤنٹ کے بعد 340 روپیوں میں ہم نے خرید ہی لی۔ ھالانکہ اس سے مایوسی تو پہلے ہی ہو گئی تھی، لیکن بہرحال اخبار کی خبربھی کم از کم مشتاق احمد یوسفی کے قلم سے ہو تو کچھ تو لطف آتا ہی ہے۔ اس لئے یوسفی کے نام سے خرید لی ہے کہ ہم بھی ’صاحب شام شعر یاراں ‘ہو جائیں۔
پاکستانی روپے کی قدر ہندوستانی روپے سے کم ہے۔ لیکن پھر بھی ہندوستانی کتب یہاں کے مقابلے میں سستی ہوتی ہیں۔۔۔
دراصل پاکستانی کتابوں میں کاغذ معیاری استعمال کیا جاتا ہے، اتنا معیاری کہ سموسے یا پکوڑے ڈال کے کھائیں تو گھی اور چٹنی کاغذ میں سے بہتی نہیں ہے۔
 

فیصل حسن

محفلین
اوپر کے مباحثے سے قطعِ نظر۔۔۔
کل ما بدولت نے اسلامی بک فئر کا جائزہ لیا۔ وہاں کچھ ادبی کتابیں بھی تھیں۔ پاکستانی کتابیں بھی تھیں جو ہندوستانی کتابوں کی بہ نسبت دوگنی یا اور زیادہ مہنگی تھیں (مثال کے طور پر احسن البیان بڑے سائز کی پاکستانی سٹال میں 950 روپئے کی تھی، بغیر کسی ڈسکاؤنت کے۔ جب کہ ہمدوستانی اڈیشن ساڑھے چار سو میں تھا)
بہر حال ہندوستانی سٹالس میں دو جگہ شام شعر یاراں بھی دکھائی دی۔ ایم آر پبلیکیشنز دہلی کی چھپی ہوئی کتاب اصل قیمت چار سو روپئے تھی۔ اور 15٪ ڈسکاؤنٹ کے بعد 340 روپیوں میں ہم نے خرید ہی لی۔ ھالانکہ اس سے مایوسی تو پہلے ہی ہو گئی تھی، لیکن بہرحال اخبار کی خبربھی کم از کم مشتاق احمد یوسفی کے قلم سے ہو تو کچھ تو لطف آتا ہی ہے۔ اس لئے یوسفی کے نام سے خرید لی ہے کہ ہم بھی ’صاحب شام شعر یاراں ‘ہو جائیں۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں بھی پوری دنیا کی طرح بعض کتب کے کئی طرح کے اڈیشن شائع ہوتے ہیں مجلد، غیر مجلد، سفید آفسٹ کاغذ پر یا لبنانی باریک اور بہت عمدہ کاغذ پر یا نیوز پیپر پر وغیرہ وغیرہ اور قیمت کا تعین بھی اسی اعتبار سے ہوتا ہے۔
 

محمد امین

لائبریرین
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں بھی پوری دنیا کی طرح بعض کتب کے کئی طرح کے اڈیشن شائع ہوتے ہیں مجلد، غیر مجلد، سفید آفسٹ کاغذ پر یا لبنانی باریک اور بہت عمدہ کاغذ پر یا نیوز پیپر پر وغیرہ وغیرہ اور قیمت کا تعین بھی اسی اعتبار سے ہوتا ہے۔

ایسا صرف پائیریٹڈ کتب میں ہوتا ہے۔۔۔۔ یہاں تو کتب پڑھنے والے ہی نہیں ہیں تو کئی طرح کے ایڈیشنز والی بات سمجھ نہیں آئی۔۔۔
 

عثمان

محفلین
ایسا صرف پائیریٹڈ کتب میں ہوتا ہے۔۔۔۔ یہاں تو کتب پڑھنے والے ہی نہیں ہیں تو کئی طرح کے ایڈیشنز والی بات سمجھ نہیں آئی۔۔۔
یہاں کاغذ پر چھپنے والی کتاب کے عموما دو ایڈیشن ہوتے ہیں۔ ایک ہارڈ کور جو پہلے آتا ہے اور مہنگا ہوتا ہے۔ دوسرا پیپر بیک جو کچھ عرصہ بعد آتا ہے اور ہارڈ کور کے مقابلے میں سستا ہوتا ہے۔
 

محمد امین

لائبریرین
یہاں کاغذ پر چھپنے والی کتاب کے عموما دو ایڈیشن ہوتے ہیں۔ ایک ہارڈ کور جو پہلے آتا ہے اور مہنگا ہوتا ہے۔ دوسرا پیپر بیک جو کچھ عرصہ بعد آتا ہے اور ہارڈ کور کے مقابلے میں سستا ہوتا ہے۔

میں پاکستان کی بات کر رہا تھا۔۔۔ آپ غالبا کینیڈا کی بات کر رہے ہیں۔۔
 

الف عین

لائبریرین
یہاں ہندوستان میں بھی اکثر دو اڈیشن ہوتے ہیں۔ شام شعر یاراں کا جو ایڈیشن میں نے لیا وہ لائبریری اڈیشن ہی ہے، مجلد یا ہارڈ کور۔ یہاں پیپر بیکس کتب کم ہی نظر آتیہ ہیں اردو میں
 
بجھی بجھی ’شامِ شعریاراں‘
ظفر سید
بی بی سی ڈاٹ کام

مشتاق احمد یوسفی کی ربع صدی کے وقفے کے بعد آنے والی نئی کتاب’شامِ شعریاراں‘کا اردو حلقوں میں بڑی شدت سے انتظار کیا گیا۔

کتاب آنے سے پہلے سب سوچتے تھے کہ اس میں یوسفی صاحب کو شاید ’آبِ گم‘ کے فلک بوس معیار کو ایک بار پھر چھونے میں مشکل پیش آئے گی۔ لیکن دلِ خوش فہم کے ایک گوشے میں ایک کرن یہ بھی پنپتی رہی کہ 25 سال بعد کتاب لا رہے ہیں تو کیا پتہ، اس میں کچھ چمتکار دکھا ہی دیں۔

ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ یوسفی صاحب کے اندر کا نقاد بہت سخت ہے، جب تک تحریر خود ان کے کڑے پیمانے پر سولہ آنے نہ اترے، اسے دن کی ہوا نہیں لگنے دیتے۔ ان کا مسودے کو پانچ سات سال تک ’پال میں رکھنے‘ والا فقرہ تو ویسے ہی بڑا مشہور ہے۔

کچھ امیدیں اس وجہ سے بھی بندھیں کہ حضرت افتخار عارف نے کراچی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ یوسفی صاحب نے گذشتہ عشروں میں سات سات سو صفحے کے دو سفرنامے، چار سو صفحے کا ایک ناول اور پتہ نہیں کیا کیا لکھ رکھا ہے، لیکن وہ انھیں شائع نہیں کروا رہے کہ ایک آدھ آنچ کی کسر ہے۔

بالآخر دکانوں کے چکر لگا لگا کر کتاب ہاتھ آئی تو پڑھ کر امیدوں کے محل زمین پر آ رہے۔

shaam-e-sher412_zps236899a4.jpg




کتاب کیا ہے، طرح طرح کی الم غلم تحریریں جمع کر کے بھان متی کا کنبہ جوڑ رکھا ہے۔ اگر کالموں کے کسی مجموعے کی تقریبِ رونمائی میں تقریر کی ہے تو اسے بھی کتاب کی زینت بنا دیا ہے، کسی مرحوم کی یاد میں تاثرات پیش کیے تو کتاب میں درج کر ڈالے، سالانہ مجلسِ ساداتِ امروہہ میں اظہارِ خیال کیا تو لگے ہاتھوں اسے بھی شامل کر دیا۔

اور پھر تکرار ایسی کہ خدا کی پناہ۔ کئی ایسی باتیں جو نصف صدی سے دوسری کتابوں میں کہتے چلے آئے تھے، انھی الفاظ میں اسی انداز سے یہاں بھی دہرا دیں۔ یہی نہیں بلکہ خود اسی کتاب کے مضامین میں بھی جگہ جگہ کسی ایسے پہاڑ کی سیر کا سماں ملتا ہے جہاں ایک بار صدا بلند کرنے کے بعد تادیر اس کی بازگشت ادھر ادھر سے گونج کر سماعت سے ٹکراتی رہتی ہے۔

مثلاً مضمون ’سدِ سمندری‘ میں (صفحہ 238) پر یہ مصرع درج ہے: ’مزاحِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقریریں۔‘ یہ مصرع اسی سیاق و سباق کے ساتھ ’ضمیر واحد متبسم‘ (صفحہ 288) پر بھی موجود ہے۔

انڈس ویلی سکول آف آرٹ اینڈ آرکیٹیکچر کے جلسۂ عطائے اسناد میں اردو اور انگریزی کے بارے میں جو باتیں کیں، عین مین وہی فرمودات دو سال اور 40 صفحے بعد یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز کے جلسے میں بھی دہرا دیے۔

اسی طرح ’مہرِ دونیم‘ میں لکھا گیا مصرع ’روز اک تازہ قصیدہ نئی تشبیب کے ساتھ‘ صرف چھ صفحوں کے بعد ’چادر، چاند بی بی اور کالم بھر چاندنی‘ میں بھی پایا جاتا ہے۔


چند ’یوسفی پارے‘
  • میرا تعلق تو اس بھولی بھالی نسل سے رہا ہے جو خلوصِ دل سے سمجھتی ہے کہ بچے بزرگوں کی دعا سے پیدا ہوتے ہیں۔
  • الحمداللہ بھری جوانی میں بھی ہمارا حال اور حلیہ ایسا نہیں رہا کہ کسی خاتون کے ایمان میں خلل واقع ہو۔
  • اسلام آباد درحقیقت جنت کا نمونہ ہے ۔۔۔ یہاں جو بھی آتا ہے حضرت آدم کی طرح نکالا جاتا ہے۔
  • کرنل محمد خان سے: ’کرنل صاحب، سفرنامے میں نازنینوں کی تعداد آپ کی ذاتی ضرورت سے کیں زیادہ ہے، آخر بچارے مقامی گوروں کا بھی حقِ بدچلنی بنتا ہے۔‘
  • پرانا مقدمے باز آدھا وکیل ہوتا ہے اور دائم المرض آدمی پورا عطائی۔
  • طوطے سے مستقبل کا حال پوچھنے کا فائدہ یہ ہے کہ ہمیشہ ایک اور نیک فال نکالتا ہے، جس کا سبب یہ کہ دماغ کی بجائے چونچ سے کام لیتا ہے۔
  • (جنرل ضیا الحق اپنی تقریروں میں) چنگیزی طرزِ ادا سے مزاح کا ناس مار دیتے تھے، کیوں کہ مزاح ان کے مزاح، منصب، مونچھ، سری جیسی ابلواں آنکھوں اور وردی سے لگا نہیں کھاتا تھا۔

اس کے علاوہ وہ انداز جس نے گذشتہ نصف صدی سے یوسفی کو یوسفی بنایا ہوا ہے، اس کتاب میں ماند نظر آتا ہے۔ اور اس کی وجہ صاف ظاہر ہے، مجلسی گفتگو، تہنیتی اجلاسوں اور تعزیتی محافل میں وہ بات کہاں آ سکتی ہے جو جم کر کسی ایک موضوع پر پوری توجہ مرکوز کر کے لکھی جانے والی کتاب میں ہو سکتی ہے۔

کتاب میں 21 مضامین شامل کیے گئے ہیں جن میں فیض احمد فیض، افتخار عارف، بشریٰ رحمٰن، شان الحق حقی، ضمیر جعفری، الطاف گوہر وغیرہم پر لکھی گئی تحریریں شامل ہیں۔ لیکن تقریباً سبھی مضامین میں یوسفی جگہ جگہ نہ صرف ’اپنا ہی قطعِ کلام‘ کرتے ہوئے بات کہیں سے کہیں پہنچا دیتے ہیں، بلکہ کئی دفعہ تو قطعِ کلام کا بھی قطعِ کلام کر دیتے ہیں اور ہانپتا کانپتا قاری ڈور کا سرا ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہار جاتا ہے۔

لیکن اس سب باتوں کے باوجود کہیں کہیں سے وہی پرانا انداز اس طرح جھلکتا ہے کہ آس پاس کو چکاچوند کر کے رکھ دیتا ہے، اور قاری سب کچھ بھلا کر ’یوسفی آخر یوسفی ہے‘ کہہ اٹھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

بڑی تقطیع کے 437 صفحات پر مشتمل کتاب کا حاصلِ کتاب سب سے پہلا مضمون ہے: ’قائداعظم فوجداری عدالت میں بحیثیتِ وکیلِ صفائی۔‘ عنوان کے نیچے وضاحت کی گئی ہے کہ یہ دراصل ’پسِ زرگزشت کا ایک بابِ خواب تمثال‘ ہے۔

قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مضمون شاید ’زرگزشت‘ ہی کے زمانے میں لکھا گیا تھا جو کسی وجہ سے اُس کتاب کا حصہ نہ بن سکا۔ مضمون سے واضح ہوتا ہے کہ اگر اسے پھیلا دیا جاتا تو یہ زرگزشت کا ’پریکویل‘ بن سکتا تھا۔

اس میں مصنف نے آگرہ میں اپنے زمانۂ طالب علمی کا نقشہ کھینچا ہے جہاں انھیں قائداعظم محمد علی جناح کو بہت قریب سے، بلکہ ایک مقدمے کے دوران بھرپور ’ایکشن‘ میں دیکھنے کا موقع ملا۔

اسی طرح ایک اور مضمون ’یارِ طرح دار‘ میں انھوں نے علی گڑھ یونیورسٹی میں بِتائے گئے دنوں کا احوال بیان کیا ہے، جو ایک بار پھر لطف سے خالی نہیں۔

کاش یوسفی صاحب اسی دور کے بارے میں جم کے لکھتے تو اردو نثر کی دنیا کتنی ثروت مند ہو جاتی۔

فی الحال تو یہ کتاب یوسفی صاحب کے تبرک کے طور پر ہی پڑھی جا سکتی ہے۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
میں نے بھی تبرک کے طور پر ہی خریدی تھی!!
ویسے ظفر سید کا یہ مضمون یاتبصرہ پہلے بھی پوسٹ ہو چکا ہے
 
ڈان بکس اینڈ آتھرز میں حمیر اشتیاق کے تبصرے کا اردو ترجمہ حاضر ہے۔

یوسفی شہکار !!!۔۔۔ شاید نہیں۔
اردو ترجمہ محمد خلیل الرحمٰن​


ہر مرتبہ جب لفظوں کے جادوگر، مشتاق احمد یوسفی نے کوئی نئی کتاب لکھی، ’ وہ آئے ، انہوں نے دیکھا اور انہوں نے فتح کیا ‘ سا معاملہ رہا۔ اب کی بار اس مشہور مقولے کے آخری حصے میں کچھ تبدیلی کرنی پڑے گی۔ وہ یقینا آئے اور انہوں نے دیکھا، لیکن فتح کیا؟ نہیں؛ وہ ناکام رہے۔ اگر کسی اور فانی انسان کی بات ہوتی، تو اس جملے میں ’بری طرح‘ کا لاحقہ بھی ضرور لگایا جاسکتا تھا، لیکن یوسفی صاحب کے معاملے میں ایساکرنا صریح گستاخی کے زمرے میں آئے گا۔ ایک ایسے شخص کی جانب سے جو یوسفی صاحب کا گرویدہ ہے۔

shaam-e-sher412_zps236899a4.jpg



کسی کے ذہن میں کوئی ایسا گمان نہ ہونا چاہیے کہ اس کتاب کو یوسفی معیار سے پرکھتے ہوئے ناکام قرار دیا جارہا ہے، وہی اعلیٰ و ارفع معیار جو ان کی پچھلی چار کتابوں ( جنہوں نے اپنی اشاعت کے پچاس سالوں میں تقریبا اتنی ہی مرتبہ چھپنے کا اعزاز حاصل کیا) کی شہرہ آفاق کامیابی کا مرہونِ منت ہے۔ عام طور پر جس قسم کا مواد قاری کے لیے ان دنوں وافر مقدار میں مہیا ہے، اسے دیکھتے ہوئے، یوسفی صاحب کی کتاب گویا صحیفہٗ آسمانی ہے۔ واقعتاً۔ ختمہ۔

یوسفی صاحب نے ۱۹۹۰ میں افقِ ادب پر جلوہ افروز ہونے والی کتاب ’ آبِ گم‘ کی اشاعت سے جو چوٹی سر کی تھی، اس نے فوراً انہیں مزاح نگاروں کی صف سے نکال کر اس اعلیٰ مقام پر لا کھڑا کیا تھا جو صف اول کے نثر نگاروں کا خاصہ ہے۔

یہی نہیں بلکہ اس تخلیق نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر لا کھڑا کیا تھا۔


تقریبا ً ربع صدی انتظار کرنے کے بعد پڑھنے والوں کی توقعات بہت زیادہ تھیں۔ اتنی ہی بلند جتنی اب تک ’سحر یوسفی ‘ نے ان کی کتابوں کو پہنچا دیا تھا۔ سب سے پہلے تو یہی توقع تھی کہ وہ اپنی پچھلی کتاب ’ آبِ گم‘ کے پانچ باقی ماندہ ابواب کو شائع کروائیں گے ، جن کا تذکرہ ’آبِ گم‘ کے ابتدائیے میں کیا گیا تھا۔ یہ اشارہ ہی دلوں کی دھڑکنیں تیز کرنے کے لیے کافی تھا کہ استادِ فن اپنی پٹاری سے ایک اور فن پارہ نکالنے والے ہیں۔یہ ہوا بھی، جو آرٹس کاؤنسل میں منعقدہ اردو کانفرنس میں اس کتاب کی رونمائی کے موقعے پر شائقین کے ہجوم سے ظاہر تھا۔ جس انداز سے اس کتاب کو پزیرائی ملی اس نے ہاتھوں ہاتھ بکنے والی کتابوں کو ایک سخت امتحان میں ضرور ڈال دیا۔ شیلف سے اس کتاب کے نسخے منٹوں میں غائب ہوتے رہے۔ یہ یوسفی صاحب کا جادو تھا۔ زیادہ صحیح یوں ہوگا کہ یہ وہ یوسفی فسوں تھا ،جو ان کی پچھلی کوششوں کی کامیابی سے پیدا ہوا تھا۔

ان کا لکھا اچھا ہی ہونا چاہیے۔ اس لیے بھی کہ وہ خود اپنے لکھے ہر لفظ کے بارے میں بہت محتاط ہیں۔ الحمد پبلیکیشن کے طارق حمید کو دئیے گئے ایک انٹر ویو سے اس بات کا اندازہ ہوگا۔


سوال: ہم سمجھتے ہیں کہ زر گزشت کا دوسرا حصہ تقریباً مکمل ہے۔ پھر آب ِ گم کے وہ پانچ چھوٹے ہوئے ابواب بھی ہیں جن کا آپ تذکرہ کرچکے ہیں۔ اس سارے مواد کا کیا ہوا؟

یوسفی: میں انہیں نہیں چھپواؤں گا۔ یہ مواد اب میرے لیے کوئی کشش نہیں رکھتا۔

سوال: لیکن آپ کے پڑھنے والوں کے لیے تو ہے؟

یوسفی: پڑھنے والوں کو کیا چاہیے ، یہ میرا مسئلہ نہیں۔ میری فکر صرف یہ ہوتی ہے کہ مجھے کیا اچھا لگتا ہے اور میں کس قسم کا مواد چھپوانا چاہتا ہوں ۔ اگر پڑھنے والوں کو یہی پسند آجائے تو میں اسے اپنی خوش قسمتی سمجھوں گا، اگر انہیں پسند نہ آئے تو میں اس صورت حال میں بھی گزارا کرلوں گا۔

ان کی اس قسم کی گفتگو کے بعد پڑھنے والوں کی بلند توقعات پر انہیں کون موردِ الزام ٹھہرا سکتا ہے۔بد قسمتی سے اس مرتبہ یوسفی صاحب کو بقول خود ان کے اس صورتِ حال میں گزارا کرنا ہوگا۔ اور یہ ایک افسوس ناک صورتحال ہوگی۔

شامِ شعرِ یاراں سے پہلے کی اس تمام جوش وجذبہ اور شور شرابہ ہی اصل اس مایوس کن صورت حال ی اصل وجہ بنی ۔پبلشر اور یوسفی صاحب کی قربت کا دعویٰ کرنے والے اگر اس کتاب کو ان کی تقریروں اور متفرق تحریروں کے مجموعے کے طور پر متعارف کرواتے تو شاید یہ زیادہ بہتر ہوتا۔


زبان سے کہے ہوئے الفاظ کا انداز یقیناً لکھے ہوئے مواد سے خاصا مختلف ہوتا ہے۔ اور اگر اول الذکر قسم کے مواد کو آخر الذکر مواد کہہ کر بغیر کسی تعارف کے پیش کیا جائے تو اس بات سے ایک بے خبر قاری یقیناً مایوسی کا شکار ہوسکتا ہے۔


ایسا نہیں ہے کہ یوسفی صاحب کو اس فرق کا علم نہیں تھا۔ اوپر متذکرہ انٹرویو میں یوسفی صاحب نے یہ بھی کہا، ’’ میں اپنے آپ کو وہ لکھنے پر مجبور نہیں کرسکتا جو میرے قاری چاہتے ہیں۔ میرا لکھا ہوا مواد میری تقریروں سے لازمی مختلف ہوتا ہے اور اسے تقریر میں ڈھالنے اور حاضرین کی خواہشات کے مطابق بنا نے کے لیے کافی تبدیلی لانی پڑتی ہے۔

اس کے باوجود بھی یوسفی صاحب نے اپنی تقریروں اورمختلف النوع محفلوں میں سنائے ہوئے مضامین کو چھاپنے کا ارادہ کیا ۔ یہ محفلیں میڈیکل کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں ، بزنس گریجوئٹس ، کتاب کی رونمائی میں شامل حضرات سے لے کر پشارو کی مختلف نجی محفلیں تھیں۔ نتیجتاً کتاب بے ترتیب و بے ربط گھڑے ہوئے مضامین کا مجموعہ بن گئی۔

جاری
 
Top