فاتح
لائبریرین
مشتاق یوسفی اور شامِ شعرِ یاراں کا معمہ
خرم سہیل
اس کتاب سے فائدہ تو بہت لوگوں کا ہوا، مگر نقصان صرف یوسفی صاحب کا ہوا جن کی پوری زندگی کی ساکھ ان لوگوں نے داؤ پر لگادی۔
اردو ادب کی تاریخ میں ہم ایسے کئی نام دیکھتے ہیں، جن کی شوخ اور شگفتہ تحریریں ہمیں گدگداتی ہیں۔ شفیق الرحمن، کرنل محمد خان اورابن انشا وہ چند نام ہیں، جن سے اردو ادب کے قارئین بخوبی واقف ہیں، لیکن عہد حاضر کا ایک مزاح نگار ایسا ہے جس کی شہرت صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ دنیا میں جہاں بھی اردو بولی اورلکھی جاتی ہے، وہاں ان کا نام شناسا ہے۔ یہ ہمارے عہد حاضر کے معروف مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی ہیں۔ ان کی چار کتابیں چراغ تلے، خاکم بدہن، زرگزشت، اورآبِ گم بے حد مقبول ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حال ہی میں ایک کتاب "شامِ شعرِ یاراں" شائع ہوئی، جس کو مشتاق احمد یوسفی کی پانچویں کتاب کہا گیا۔ اس بارے میں متضاد اور کسی حد تک منفی آرا سامنے آئیں۔
مثال کے طور پر برطانوی نشریاتی ادارے "بی بی سی اردوسروس" کے تبصرہ نگار ظفر سید کے مطابق "کتاب کیا ہے، طرح طرح کی الم غلم تحریریں جمع کر کے بھان متی کا کنبہ جوڑ رکھاہے۔ اگر کالموں کے کسی مجموعے کی تقریب رونمائی میں تقریر کی ہے، تو اسے بھی کتاب کی زینت بنا دیا ہے۔ کسی مرحوم کی یاد میں تاثرات پیش کیے، تو کتاب میں درج کرڈالے، سالانہ مجلس سادات امروہہ میں اظہار خیال کیا تو لگے ہاتھوں اسے بھی شامل کردیا اور پھر تکرار ایسی کہ خدا کی پناہ۔"
ڈان اخبار کے "بکس اینڈ آتھرز" میں حمیر اشتیاق نے بھی اس کتاب پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا "یوسفی ہونا کافی نہیں ہے۔" انہوں نے اس کتاب پر بات کرتے ہوئے مشتاق احمد یوسفی کو نپولین بونا پارٹ کے مشہور مقولے کے تناظر میں بیان کرتے ہوئے کہا "مشتاق احمد یوسفی ہر مرتبہ دیکھتے اور فتح کر لیتے ہیں، لیکن کیا اس کتاب کے بعد بھی وہ فاتح رہے؟ جواب ہے نہیں۔ مشتاق احمد یوسفی کا ادبی سفر ان کی چوتھی کتاب "آب گم" پر ختم ہوجاتا ہے اور یہ کیا عمدہ سفر ہے، یہ بہت ہی عمدہ سفر ہے۔"
اس موقع پر اگر دیکھا جائے کہ یوسفی صاحب کا اپنی تحریروں کے حوالے سے کیا رویہ رہا ہے، تو ہم یہ پائیں گے کہ ان کے ہاں اپنی تحریروں کو چھپوانے کی عجلت نہیں ہے۔ ان کے بارے میں ایک بات مشہور ہے جو وہ اکثر مواقع پر خود بھی کہا کرتے، کہ "مسودے کو لکھنے کے بعد کچھ عرصہ کے لیے رکھ دو اور پھر دوبارہ پڑھ کر دیکھو۔ اس کے بعد اگر چھپنے کے قابل ہے تو شائع کرواؤ۔" یہی برتاؤ اپنی تحریروں کے ساتھ کیا، اسی لیے ان کی آخری کتاب پچیس برس پہلے اشاعت پذیر ہوئی تھی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے، یوسفی صاحب کے نام پر جو کتاب "شام شعریاراں" شائع کی گئی ہے، وہ تو اس معیار پر پوری نہیں اترتی جس پر یوسفی صاحب کی دیگر چار کتابیں تخلیق ہوئی ہیں۔ پھر یہ سوال بھی ذہن میں گردش کرتا ہے کہ اگر پرانی تحریروں کو ہی جمع کر کے شائع کرنا تھا، تو اس کے لیے پچیس برس کا انتظار کیوں؟ "شام شعریاراں" کو پڑھنے کے بعد ان قارئین کے ذہن میں ایسے کئی اور سوالات پیدا ہوئے ہیں۔
یوسفی صاحب کی اس کتاب کو آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کے تعاون سے جہانگیر بکس لاہور نے شائع کیا۔ کراچی آرٹس کونسل کے سیکرٹری سید احمد شاہ اور انجمن ترقی اردو کی سیکرٹری فاطمہ حسن نے نہ صرف اس کتاب کو شائع کروانے کا اہتمام کیا، بلکہ تمام معاملات اپنی نگرانی میں مکمل کروائے۔ اس بات کا اعتراف انہوں نے ساتویں عالمی اردو کانفرنس میں اس کی تقریب رونمائی میں کیا تھا۔ یہ کتاب شائع ہوچکی ہے اور ابھی تک آنے والا ردِعمل کچھ اچھا نہیں ہے۔ ایسا کیسے اور کیوں ہوا؟
ایک جواب تو یہ ہے کہ اس کتاب کی اشاعت میں ایک بہت بنیادی علمی غلطی ہے۔ وہ یہ کہ مصنف کی تقریروں کو جمع کرنے کے بعد مرتب کی گئی کتاب کو مصنف کی تازہ تصنیف کے طور پر پیش کر دیا گیا۔ اس کتاب میں زیادہ تر وہ تقریریں ہیں، جوانہوں نے مختلف مواقع پر کیں۔ ان تقریروں یا تحریروں کو جنہیں اس کتاب کا حصہ بنایا گیا، مشتاق احمد یوسفی نے اتنا معیاری نہیں سمجھا تھا کہ وہ شائع ہوسکیں، لیکن کراچی آرٹس کونسل کی انتظامیہ کو نہ جانے بیٹھے بٹھائے کیا سوجھی کہ انہوں نے یوسفی صاحب کے اہلِ خانہ کی مدد سے ان کی اسٹڈی ٹیبل کے ڈسٹ بن کو کھنگال کر ایک کتاب بنا ڈالی۔ نہ اُن کی مرضی جانی اور نہ ہی ان کے اشاعت والے مقولے کو ذہن میں رکھا۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد فائدہ تو بہت سارے لوگوں کا ہوا، مگر نقصان میں صرف یوسفی صاحب رہے۔ ان کی پوری زندگی کی ساکھ ان لوگوں نے داؤ پر لگادی۔
یہ بھی ہوسکتا ہے، آپ کے ذہن میں یہ سوال بھی آئے کہ اگر یہ کتاب یوسفی صاحب کو دھوکہ دے کر چھاپی گئی ہے تو پھر یوسفی صاحب نے کوئی قانونی چارہ جوئی کیوں نہیں کی یا وہ اس کی تقریب رونمائی میں کیوں نہیں کچھ بولے؟ تو اس کا جواب بہت سادہ ہے۔ یوسفی صاحب اس تقریب میں کتاب پر کیا وہ ویسے ہی کچھ بھی نہیں بولے۔ ان کی طرف سے کتاب کی اشاعت کے متعلق تمام باتیں سید احمد شاہ اور فاطمہ حسن نے کہیں۔ یوسفی صاحب اب عمر کے اس حصے میں ہیں، جہاں قوت مدافعت ساتھ نہیں دیتی۔ یہ معمہ کبھی نہ سلجھتا، اگر اس تقریب سے چند دن پہلے یوسفی صاحب سے میری ملاقات نہ ہوتی اورمحفل کا موضوع یہ کتاب نہ ہوتی۔ اس ملاقات میں ہونے والی گفتگو کی آڈیو ریکارڈنگ بھی سنی جاسکتی ہے۔
کچھ یار دوستوں نے اس ادبی ڈاکے پر پردہ ڈالنے کی نیت سے یہ خبر بھی اڑائی کہ "یوسفی صاحب کو بھولنے کی بیماری ہوگئی ہے، ان کو بہت ساری باتیں یاد نہیں رہتیں۔" میں نے تو اس ملاقات میں ایسا کچھ محسوس نہیں کیا، اس محفل کی گفتگو میں نہ صرف وہ چاق وچوبند اور ہشاش بشاش تھے، بلکہ کلاسیکی شعرا کی شاعری پر بھی پرمغز گفتگو کر رہے تھے۔ اور اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ ان کی یادداشت اب ساتھ نہیں دے رہی، تو اخلاقی لحاظ سے تو یہ اور شرمناک بات ہے کہ اس شخص کے نام سے ایک کتاب شائع کردی جائے، جس نے وہ کتاب لکھی نہیں۔ اصولی طور پر تو جس نے اس کتاب کو مرتب کیا، اس کا نام دیا جاتا اور یہ بتایا جاتا کہ یہ تحریریں یوسفی صاحب کی اتنی پرانی تحریریں ہیں، توشاید کچھ بات بن جاتی۔ لیکن خوشامد اور مفاد پرستی کی ریوڑیاں بانٹنے والے یہ کیا جانیں۔
اردو ادب میں یوسفی صاحب کا بڑا مقام ہے۔ ایک مداح ہونے کے ناطے مجھے بھی ان کی نئی کتاب کے بارے میں اضطراب تھا۔ میں نے ملاقات میں اسی تجسس میں ان سے پوچھا 'سنا ہے آپ کی نئی کتاب آرہی ہے، جس کی بہت جلد تقریب بھی منعقد ہوگی۔' اس کا جواب یوسفی صاحب نے کچھ یوں دیا۔ "ہاں، میں نے بھی سنا ہے کہ اس کتاب کے حوالے سے کوئی تقریب ہورہی ہے، مگر میں اس میں جاؤں گا نہیں، اگر چلا بھی گیا تو کچھ بولوں گا نہیں، کیونکہ جاؤ تو پھر کہتے ہیں، صاحب کچھ بولیں بھی۔ اب کہیں جانے کو جی نہیں چاہتا، لیٹے لیٹے مزا آنے لگے تو سمجھو بڑھاپا آگیا۔"
اضطراب کے مارے میں نے ایک اور سوال پوچھا "آپ نے اس کتاب کامسودہ دیکھا؟ تو انہوں نے جواب دیا۔ "نہیں، میں نے نہیں دیکھا، مجھ سے کسی نے مشورہ نہیں کیا۔" پھر میں نے پوچھا، تو یہ کتاب کیسے تخلیق ہوئی؟ تو یوسفی صاحب کہنے لگے۔ "پندرہ بیس سال پہلے کے پرانے مضامین بکھرے پڑے تھے، وہ انہوں نے بچوں سے لے کر شائع کر دیے ہوں گے۔"
اب اس کے بعد کسی بات کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ "شام شعریاراں" مشتاق احمد یوسفی کی کتاب نہیں ہے، بلکہ ان کی تحریروں (وہ تحریریں جنہیں انہوں نے پچیس برس کے عرصے میں چھپوانے کے قابل نہیں سمجھا) پر مشتمل مرتب کردہ کتاب ہے۔ یوسفی صاحب کی چار کتابیں ہیں، جنہیں ان کی باقاعدہ تصنیف کہا جاسکتا ہے۔
کراچی میں قائم جہانگیر بکس کی شاخ سے رابطہ کیا گیا تو وہاں ان کے نمائندے"عثمان" نے ہم سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "اگر یہ کتاب یوسفی صاحب کے ساتھ دھوکہ دہی سے چھاپی گئی ہے، تو پھر یوسفی صاحب اس کتاب کی تقریب میں کیوں آئے اور اگر یہ کتاب ناقص متن پر مبنی ہوتی، تو اس قدر فروخت کیوں ہوتی۔" ان کے موقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں اس بات کی کوئی پشیمانی نہیں ہے۔ یوسفی صاحب کے اعتراض نہ کرنے کی وجوہات اوپر بتا چکا ہوں اور کتاب کا زیادہ فروخت ہونے کی وجہ یوسفی صاحب کی ساکھ ہے، جس کو انہوں نے نقصان پہنچایا۔ یہی وہ اعتبارتھا، جس کی وجہ سے قارئین نے یہ کتاب خریدی۔
"شامِ شعرِ یاراں" سے مشتاق احمد یوسفی کی ساکھ کو جو نقصان پہنچا، اس کا ذمہ دار کون کون ہے؟ جواب اسی تحریر میں درج ہے۔ یوسفی صاحب نے تواپنا موقف دے دیا،مگر یہ بات بہت پریشان کن ہے کہ بزرگ مشاہیر کی خدمات کا اعتراف اس طرح کیا جاتا ہے۔ ایسے رویے ہی معاشرتی زوال کا سبب بنتے ہیں۔ یہ تو ایک ادبی ڈاکہ ہے، جس کے حقائق سامنے آگئے، ورنہ یہاں کتنے مشاہیر ایسے ہیں، جن کے خون پسینے کی کمائی لوٹ لی گئی، مگر کسی نے ڈکار تک نہ لیا۔ یوسفی صاحب کی شان میں ہونے والی اس بے ادبی کے باوجود ہمیں اس بات کا مان ہے، ہم عہدِ یوسفی میں جیتے ہیں اوریوسفی صاحب پر ہمیں فخر ہے۔
حوالہ: http://www.dawnnews.tv/news/1015215/print/print
خرم سہیل
اس کتاب سے فائدہ تو بہت لوگوں کا ہوا، مگر نقصان صرف یوسفی صاحب کا ہوا جن کی پوری زندگی کی ساکھ ان لوگوں نے داؤ پر لگادی۔
اردو ادب کی تاریخ میں ہم ایسے کئی نام دیکھتے ہیں، جن کی شوخ اور شگفتہ تحریریں ہمیں گدگداتی ہیں۔ شفیق الرحمن، کرنل محمد خان اورابن انشا وہ چند نام ہیں، جن سے اردو ادب کے قارئین بخوبی واقف ہیں، لیکن عہد حاضر کا ایک مزاح نگار ایسا ہے جس کی شہرت صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ دنیا میں جہاں بھی اردو بولی اورلکھی جاتی ہے، وہاں ان کا نام شناسا ہے۔ یہ ہمارے عہد حاضر کے معروف مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی ہیں۔ ان کی چار کتابیں چراغ تلے، خاکم بدہن، زرگزشت، اورآبِ گم بے حد مقبول ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حال ہی میں ایک کتاب "شامِ شعرِ یاراں" شائع ہوئی، جس کو مشتاق احمد یوسفی کی پانچویں کتاب کہا گیا۔ اس بارے میں متضاد اور کسی حد تک منفی آرا سامنے آئیں۔
مثال کے طور پر برطانوی نشریاتی ادارے "بی بی سی اردوسروس" کے تبصرہ نگار ظفر سید کے مطابق "کتاب کیا ہے، طرح طرح کی الم غلم تحریریں جمع کر کے بھان متی کا کنبہ جوڑ رکھاہے۔ اگر کالموں کے کسی مجموعے کی تقریب رونمائی میں تقریر کی ہے، تو اسے بھی کتاب کی زینت بنا دیا ہے۔ کسی مرحوم کی یاد میں تاثرات پیش کیے، تو کتاب میں درج کرڈالے، سالانہ مجلس سادات امروہہ میں اظہار خیال کیا تو لگے ہاتھوں اسے بھی شامل کردیا اور پھر تکرار ایسی کہ خدا کی پناہ۔"
ڈان اخبار کے "بکس اینڈ آتھرز" میں حمیر اشتیاق نے بھی اس کتاب پرتبصرہ کرتے ہوئے کہا "یوسفی ہونا کافی نہیں ہے۔" انہوں نے اس کتاب پر بات کرتے ہوئے مشتاق احمد یوسفی کو نپولین بونا پارٹ کے مشہور مقولے کے تناظر میں بیان کرتے ہوئے کہا "مشتاق احمد یوسفی ہر مرتبہ دیکھتے اور فتح کر لیتے ہیں، لیکن کیا اس کتاب کے بعد بھی وہ فاتح رہے؟ جواب ہے نہیں۔ مشتاق احمد یوسفی کا ادبی سفر ان کی چوتھی کتاب "آب گم" پر ختم ہوجاتا ہے اور یہ کیا عمدہ سفر ہے، یہ بہت ہی عمدہ سفر ہے۔"
اس موقع پر اگر دیکھا جائے کہ یوسفی صاحب کا اپنی تحریروں کے حوالے سے کیا رویہ رہا ہے، تو ہم یہ پائیں گے کہ ان کے ہاں اپنی تحریروں کو چھپوانے کی عجلت نہیں ہے۔ ان کے بارے میں ایک بات مشہور ہے جو وہ اکثر مواقع پر خود بھی کہا کرتے، کہ "مسودے کو لکھنے کے بعد کچھ عرصہ کے لیے رکھ دو اور پھر دوبارہ پڑھ کر دیکھو۔ اس کے بعد اگر چھپنے کے قابل ہے تو شائع کرواؤ۔" یہی برتاؤ اپنی تحریروں کے ساتھ کیا، اسی لیے ان کی آخری کتاب پچیس برس پہلے اشاعت پذیر ہوئی تھی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے، یوسفی صاحب کے نام پر جو کتاب "شام شعریاراں" شائع کی گئی ہے، وہ تو اس معیار پر پوری نہیں اترتی جس پر یوسفی صاحب کی دیگر چار کتابیں تخلیق ہوئی ہیں۔ پھر یہ سوال بھی ذہن میں گردش کرتا ہے کہ اگر پرانی تحریروں کو ہی جمع کر کے شائع کرنا تھا، تو اس کے لیے پچیس برس کا انتظار کیوں؟ "شام شعریاراں" کو پڑھنے کے بعد ان قارئین کے ذہن میں ایسے کئی اور سوالات پیدا ہوئے ہیں۔
یوسفی صاحب کی اس کتاب کو آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کے تعاون سے جہانگیر بکس لاہور نے شائع کیا۔ کراچی آرٹس کونسل کے سیکرٹری سید احمد شاہ اور انجمن ترقی اردو کی سیکرٹری فاطمہ حسن نے نہ صرف اس کتاب کو شائع کروانے کا اہتمام کیا، بلکہ تمام معاملات اپنی نگرانی میں مکمل کروائے۔ اس بات کا اعتراف انہوں نے ساتویں عالمی اردو کانفرنس میں اس کی تقریب رونمائی میں کیا تھا۔ یہ کتاب شائع ہوچکی ہے اور ابھی تک آنے والا ردِعمل کچھ اچھا نہیں ہے۔ ایسا کیسے اور کیوں ہوا؟
ایک جواب تو یہ ہے کہ اس کتاب کی اشاعت میں ایک بہت بنیادی علمی غلطی ہے۔ وہ یہ کہ مصنف کی تقریروں کو جمع کرنے کے بعد مرتب کی گئی کتاب کو مصنف کی تازہ تصنیف کے طور پر پیش کر دیا گیا۔ اس کتاب میں زیادہ تر وہ تقریریں ہیں، جوانہوں نے مختلف مواقع پر کیں۔ ان تقریروں یا تحریروں کو جنہیں اس کتاب کا حصہ بنایا گیا، مشتاق احمد یوسفی نے اتنا معیاری نہیں سمجھا تھا کہ وہ شائع ہوسکیں، لیکن کراچی آرٹس کونسل کی انتظامیہ کو نہ جانے بیٹھے بٹھائے کیا سوجھی کہ انہوں نے یوسفی صاحب کے اہلِ خانہ کی مدد سے ان کی اسٹڈی ٹیبل کے ڈسٹ بن کو کھنگال کر ایک کتاب بنا ڈالی۔ نہ اُن کی مرضی جانی اور نہ ہی ان کے اشاعت والے مقولے کو ذہن میں رکھا۔ اس کتاب کی اشاعت کے بعد فائدہ تو بہت سارے لوگوں کا ہوا، مگر نقصان میں صرف یوسفی صاحب رہے۔ ان کی پوری زندگی کی ساکھ ان لوگوں نے داؤ پر لگادی۔
یہ بھی ہوسکتا ہے، آپ کے ذہن میں یہ سوال بھی آئے کہ اگر یہ کتاب یوسفی صاحب کو دھوکہ دے کر چھاپی گئی ہے تو پھر یوسفی صاحب نے کوئی قانونی چارہ جوئی کیوں نہیں کی یا وہ اس کی تقریب رونمائی میں کیوں نہیں کچھ بولے؟ تو اس کا جواب بہت سادہ ہے۔ یوسفی صاحب اس تقریب میں کتاب پر کیا وہ ویسے ہی کچھ بھی نہیں بولے۔ ان کی طرف سے کتاب کی اشاعت کے متعلق تمام باتیں سید احمد شاہ اور فاطمہ حسن نے کہیں۔ یوسفی صاحب اب عمر کے اس حصے میں ہیں، جہاں قوت مدافعت ساتھ نہیں دیتی۔ یہ معمہ کبھی نہ سلجھتا، اگر اس تقریب سے چند دن پہلے یوسفی صاحب سے میری ملاقات نہ ہوتی اورمحفل کا موضوع یہ کتاب نہ ہوتی۔ اس ملاقات میں ہونے والی گفتگو کی آڈیو ریکارڈنگ بھی سنی جاسکتی ہے۔
کچھ یار دوستوں نے اس ادبی ڈاکے پر پردہ ڈالنے کی نیت سے یہ خبر بھی اڑائی کہ "یوسفی صاحب کو بھولنے کی بیماری ہوگئی ہے، ان کو بہت ساری باتیں یاد نہیں رہتیں۔" میں نے تو اس ملاقات میں ایسا کچھ محسوس نہیں کیا، اس محفل کی گفتگو میں نہ صرف وہ چاق وچوبند اور ہشاش بشاش تھے، بلکہ کلاسیکی شعرا کی شاعری پر بھی پرمغز گفتگو کر رہے تھے۔ اور اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ ان کی یادداشت اب ساتھ نہیں دے رہی، تو اخلاقی لحاظ سے تو یہ اور شرمناک بات ہے کہ اس شخص کے نام سے ایک کتاب شائع کردی جائے، جس نے وہ کتاب لکھی نہیں۔ اصولی طور پر تو جس نے اس کتاب کو مرتب کیا، اس کا نام دیا جاتا اور یہ بتایا جاتا کہ یہ تحریریں یوسفی صاحب کی اتنی پرانی تحریریں ہیں، توشاید کچھ بات بن جاتی۔ لیکن خوشامد اور مفاد پرستی کی ریوڑیاں بانٹنے والے یہ کیا جانیں۔
اردو ادب میں یوسفی صاحب کا بڑا مقام ہے۔ ایک مداح ہونے کے ناطے مجھے بھی ان کی نئی کتاب کے بارے میں اضطراب تھا۔ میں نے ملاقات میں اسی تجسس میں ان سے پوچھا 'سنا ہے آپ کی نئی کتاب آرہی ہے، جس کی بہت جلد تقریب بھی منعقد ہوگی۔' اس کا جواب یوسفی صاحب نے کچھ یوں دیا۔ "ہاں، میں نے بھی سنا ہے کہ اس کتاب کے حوالے سے کوئی تقریب ہورہی ہے، مگر میں اس میں جاؤں گا نہیں، اگر چلا بھی گیا تو کچھ بولوں گا نہیں، کیونکہ جاؤ تو پھر کہتے ہیں، صاحب کچھ بولیں بھی۔ اب کہیں جانے کو جی نہیں چاہتا، لیٹے لیٹے مزا آنے لگے تو سمجھو بڑھاپا آگیا۔"
اضطراب کے مارے میں نے ایک اور سوال پوچھا "آپ نے اس کتاب کامسودہ دیکھا؟ تو انہوں نے جواب دیا۔ "نہیں، میں نے نہیں دیکھا، مجھ سے کسی نے مشورہ نہیں کیا۔" پھر میں نے پوچھا، تو یہ کتاب کیسے تخلیق ہوئی؟ تو یوسفی صاحب کہنے لگے۔ "پندرہ بیس سال پہلے کے پرانے مضامین بکھرے پڑے تھے، وہ انہوں نے بچوں سے لے کر شائع کر دیے ہوں گے۔"
اب اس کے بعد کسی بات کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ "شام شعریاراں" مشتاق احمد یوسفی کی کتاب نہیں ہے، بلکہ ان کی تحریروں (وہ تحریریں جنہیں انہوں نے پچیس برس کے عرصے میں چھپوانے کے قابل نہیں سمجھا) پر مشتمل مرتب کردہ کتاب ہے۔ یوسفی صاحب کی چار کتابیں ہیں، جنہیں ان کی باقاعدہ تصنیف کہا جاسکتا ہے۔
کراچی میں قائم جہانگیر بکس کی شاخ سے رابطہ کیا گیا تو وہاں ان کے نمائندے"عثمان" نے ہم سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "اگر یہ کتاب یوسفی صاحب کے ساتھ دھوکہ دہی سے چھاپی گئی ہے، تو پھر یوسفی صاحب اس کتاب کی تقریب میں کیوں آئے اور اگر یہ کتاب ناقص متن پر مبنی ہوتی، تو اس قدر فروخت کیوں ہوتی۔" ان کے موقف سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں اس بات کی کوئی پشیمانی نہیں ہے۔ یوسفی صاحب کے اعتراض نہ کرنے کی وجوہات اوپر بتا چکا ہوں اور کتاب کا زیادہ فروخت ہونے کی وجہ یوسفی صاحب کی ساکھ ہے، جس کو انہوں نے نقصان پہنچایا۔ یہی وہ اعتبارتھا، جس کی وجہ سے قارئین نے یہ کتاب خریدی۔
"شامِ شعرِ یاراں" سے مشتاق احمد یوسفی کی ساکھ کو جو نقصان پہنچا، اس کا ذمہ دار کون کون ہے؟ جواب اسی تحریر میں درج ہے۔ یوسفی صاحب نے تواپنا موقف دے دیا،مگر یہ بات بہت پریشان کن ہے کہ بزرگ مشاہیر کی خدمات کا اعتراف اس طرح کیا جاتا ہے۔ ایسے رویے ہی معاشرتی زوال کا سبب بنتے ہیں۔ یہ تو ایک ادبی ڈاکہ ہے، جس کے حقائق سامنے آگئے، ورنہ یہاں کتنے مشاہیر ایسے ہیں، جن کے خون پسینے کی کمائی لوٹ لی گئی، مگر کسی نے ڈکار تک نہ لیا۔ یوسفی صاحب کی شان میں ہونے والی اس بے ادبی کے باوجود ہمیں اس بات کا مان ہے، ہم عہدِ یوسفی میں جیتے ہیں اوریوسفی صاحب پر ہمیں فخر ہے۔
حوالہ: http://www.dawnnews.tv/news/1015215/print/print
آخری تدوین: