فوج اور سویلینز آمنے سامنے؟... روزنِ دیوار سے ۔۔۔۔۔ عطاء الحق قاسمی
ایک سیاسی جماعت کے قائد ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے بارے میں غالباً سب سے پہلے میں نے ہی یہ آواز اٹھائی تھی کہ اس گند میں ہاتھ نہ ڈالا جائے اور میں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اگرچہ اب فوجی نہیں، ایک سیاسی جماعت کا قائد ہے اور دوبئی سے یہ اعلان کر کے واپس پاکستان آیا تھا کہ وہ خود پر دائر کردہ مقدمات کا سامنا کرے گا اور عدالت میں اپنا دفاع کرے گا، لیکن اس کے باوجود نہ عدالت اور نہ حکومت اس کا بال تک بیکا نہیں کر سکے گی، بلکہ ’’کیپٹل ٹاک‘‘ میں، میں نے اس ’’بے اصولی‘‘ یعنی اسے واپس دوبئی جانے دیا جائے کی توجیہہ سرگودھا سے ایک پرائیویٹ کار میں واپس لاہور آتے ہوئے ایک واقعہ کے حوالے سے ہی دی تھی، ہوا یوں تھا کہ اگلی سیٹ پر میں ڈرائیور کے ساتھ بیٹھا تھا اور پچھلی سیٹ پر احمد ندیم قاسمی اور ڈاکٹر سلیم اختر تشریف فرما تھے، ہم نہایت خوشگوار موڈ میں گپ شپ کر رہے تھے کہ اچانک میری نظر سامنے سے آنے والی دو بسوں پر پڑی جو اس تنگ سی سڑک پر ایک دوسرے سے ریس لگاتی ہوئی بالکل ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔ دوسری طرف ہمارا ڈرائیور بھی بلاخوف و خطر ان بسوں سے ٹکرانے کے لئے سیدھا ان کی طرف جا رہا تھا۔ جب میں نے دیکھا کہ خوفناک حادثے میں صرف چند سیکنڈ رہ گئے ہیں تو میں نے ڈرائیور کو کاندھوں سے جنجھوڑتے ہوئے چلا کر کہا ’’یہ کیا کر رہے ہو، گاڑی کچے پر اتارو!‘‘ چنانچہ اس نے ایک دم اسٹیئرنگ بائیں جانب موڑا جس سے اگرچہ ہماری گاڑی الٹتے الٹتے رہ گئی لیکن دو بسوں اور ایک گاڑی کو تصادم سے جو بیسیوں جانیں بلاوجہ ضائع ہونا تھیں وہ بچ گئیں۔ اس صورت حال پر ہم تینوں سکتے کی حالت میں آ گئے۔ چند لمحوں بعد جب ہوش آیا تو میں نے ڈرائیور سے پوچھا ’’تمہیں سامنے سے بسیں ریس لگاتی نظر نہیں آ رہی تھیں۔ ڈرائیور نے جواب دیا ’’جی بالکل نظر آ رہی تھیں‘‘ میں نے کہا ’’پھر تم سیدھا ان کی طرف کیوں جا رہے تھے ‘‘ اس سے پورے اطمینان سے جواب ’’جناب، میں صحیح جا رہا تھا۔ وہ غلط آ رہے تھے۔ یہ اصول کا معاملہ تھا!‘‘
میں نے اس وقت ہی ’’اصول‘‘ پر بے اصولی کو ترجیح دی تھی اور میں آج بھی جنرل (ر) پرویز مشرف کے معاملے میں ’’بے اصولی‘‘ دکھانے کے حق میں ہوں حالانکہ جانتا ہوں یہ شخص ناقابل معافی ہے، تاہم میرے آج کے کالم کا موضوع یہ نہیں بلکہ الیکٹرانک میڈیا کا وہ رویہ ہے جو مختلف ٹاک شوز میں سامنے آ رہا ہے، حاشا وکلا میں کسی کی نیت پر شک نہیں کر رہا کیونکہ جو اینکر یہ پروگرام کر رہے ہیں ان کی حب الوطنی اور جمہوریت دوستی شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ ٹاک شوز کا موضوع مشرف کی سزا ملنے پر فوج کا متوقع ردِ عمل ہے اور یہ پوچھا جاتا ہے کہ اس صورت میں فوج کیا کرے گی۔ یہ سوال ہمارے مخصوص حالات کی وجہ سے بالکل جائز ہے تاہم اس میں ایک SUGGESTIVE پہلو ہی آ جاتا ہے اور لاکھوں موجودہ اور سابق فوجی جو اس مسئلے کے حوالے سے ممکن ہے زیادہ حساس نہ ہوں، ان کی ’’فوجی انا‘‘ بھی جاگ اٹھنے کا اندیشہ بہرحال موجود ہے۔ جیسے جیسے پرویز مشرف کی قسمت کا فیصلہ قریب آ رہا ہے ویسے ویسے ان ٹاک شوز کی ’’مقدار‘‘ میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ بلکہ اب تو ’’غیر فوجی‘‘ بھی اس جہاد میں شریک ہو گئے ہیں جن میں ایچ ای سی کے سابق چیئرمین ڈاکٹر عطاء الرحمن بھی شامل ہیں، جنہوں نے اس ریٹائرڈ جرنیل کا پورا قصیدہ لکھ مارا ہے جو قومی مجرم ہے اور آئین پاکستان کی رو سے اس پر غداری کا مقدمہ چل رہا ہے۔ اس کے معاملے میں باامر مجبوری بے اصولی کا رویہ اپنانا ایک دوسری بات ہے اور اسے قوم کا ہیرو قرار دینا بھی میرے نزدیک ایک سنگین جرم ہے۔ اور یہ وہ جرم ہے جس کے ارتکاب کی جسارت تو کسی موجودہ یا سابق فوجی نے ہی نہیں کی۔
اس معاملے کا ایک پہلو اور بھی ہے اور وہ یہ کہ جب ہم ٹاک شوز میں کسی کے محض سابق فوجی ہونے کی بناء پر (بجا طور پر) اسے سزا دینے کے حوالے سے فوج کے متوقع ردِعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ تو یہ بات خود فوج کا امیج ہی خراب کرنے کے ضمن میں آتی ہے۔ عوام اس طرح کے بہت سے واقعات کے شاہد ہیں کہ کسی سیکنڈ لیفٹیننٹ کو کسی مارکیٹ میں کسی نازیبا رویئے پر اگر کوئی پولیس اہلکار اس کو تنبہ کرتا ہے یا پکڑ کر تھانے لے جاتا ہے، تو فوجیوں سے بھرا ہوا ایک ٹرک آتا ہے اور اس فوجی کو جو وردی میں بھی نہیں تھا، نہ صرف یہ کہ چھڑا کر لے جاتا ہے بلکہ پولیس افسروں کی پٹائی بھی کرتا ہے۔ اس طرح کے متعدد واقعات پہلے ہی عوام کو بے چین اور دل برداشتہ کئے ہوئے ہیں۔ اوپر سے جب ایک سیاسی لیڈر جو کبھی سابق فوجی تھا۔ یہ ایک عدالتی مقدمے میں بھی فوج کے متوقع اقدامات کا حوالہ درمیان میں آتا ہے تو ’’بلڈی سویلین‘‘ کو اپنی بے بسی اور فوج کی حاکمیت کا احساس پہلے سے کہیں زیادہ محسوس ہونے لگتا ہے، چنانچہ میرے نزدیک بہتر ہو گا کہ اس معاملے پر صرف عدالت میں بات ہو اور اس کی صرف کارروائی رپورٹ کی جائے۔ ٹاک شوز میں سویلینز اور فوج کو آمنے سامنے لا کھڑا کرنا کسی طور پر بھی ملک و قوم کے علاوہ خود فوج کے حق میں بھی بہتر نہیں ہے! یہ میری ایک عاجزانہ سی رائے ہے۔ اگر ممکن ہو تو اس پر ضرور غور فرمائیں!
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=163089
ایک سیاسی جماعت کے قائد ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے بارے میں غالباً سب سے پہلے میں نے ہی یہ آواز اٹھائی تھی کہ اس گند میں ہاتھ نہ ڈالا جائے اور میں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اگرچہ اب فوجی نہیں، ایک سیاسی جماعت کا قائد ہے اور دوبئی سے یہ اعلان کر کے واپس پاکستان آیا تھا کہ وہ خود پر دائر کردہ مقدمات کا سامنا کرے گا اور عدالت میں اپنا دفاع کرے گا، لیکن اس کے باوجود نہ عدالت اور نہ حکومت اس کا بال تک بیکا نہیں کر سکے گی، بلکہ ’’کیپٹل ٹاک‘‘ میں، میں نے اس ’’بے اصولی‘‘ یعنی اسے واپس دوبئی جانے دیا جائے کی توجیہہ سرگودھا سے ایک پرائیویٹ کار میں واپس لاہور آتے ہوئے ایک واقعہ کے حوالے سے ہی دی تھی، ہوا یوں تھا کہ اگلی سیٹ پر میں ڈرائیور کے ساتھ بیٹھا تھا اور پچھلی سیٹ پر احمد ندیم قاسمی اور ڈاکٹر سلیم اختر تشریف فرما تھے، ہم نہایت خوشگوار موڈ میں گپ شپ کر رہے تھے کہ اچانک میری نظر سامنے سے آنے والی دو بسوں پر پڑی جو اس تنگ سی سڑک پر ایک دوسرے سے ریس لگاتی ہوئی بالکل ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔ دوسری طرف ہمارا ڈرائیور بھی بلاخوف و خطر ان بسوں سے ٹکرانے کے لئے سیدھا ان کی طرف جا رہا تھا۔ جب میں نے دیکھا کہ خوفناک حادثے میں صرف چند سیکنڈ رہ گئے ہیں تو میں نے ڈرائیور کو کاندھوں سے جنجھوڑتے ہوئے چلا کر کہا ’’یہ کیا کر رہے ہو، گاڑی کچے پر اتارو!‘‘ چنانچہ اس نے ایک دم اسٹیئرنگ بائیں جانب موڑا جس سے اگرچہ ہماری گاڑی الٹتے الٹتے رہ گئی لیکن دو بسوں اور ایک گاڑی کو تصادم سے جو بیسیوں جانیں بلاوجہ ضائع ہونا تھیں وہ بچ گئیں۔ اس صورت حال پر ہم تینوں سکتے کی حالت میں آ گئے۔ چند لمحوں بعد جب ہوش آیا تو میں نے ڈرائیور سے پوچھا ’’تمہیں سامنے سے بسیں ریس لگاتی نظر نہیں آ رہی تھیں۔ ڈرائیور نے جواب دیا ’’جی بالکل نظر آ رہی تھیں‘‘ میں نے کہا ’’پھر تم سیدھا ان کی طرف کیوں جا رہے تھے ‘‘ اس سے پورے اطمینان سے جواب ’’جناب، میں صحیح جا رہا تھا۔ وہ غلط آ رہے تھے۔ یہ اصول کا معاملہ تھا!‘‘
میں نے اس وقت ہی ’’اصول‘‘ پر بے اصولی کو ترجیح دی تھی اور میں آج بھی جنرل (ر) پرویز مشرف کے معاملے میں ’’بے اصولی‘‘ دکھانے کے حق میں ہوں حالانکہ جانتا ہوں یہ شخص ناقابل معافی ہے، تاہم میرے آج کے کالم کا موضوع یہ نہیں بلکہ الیکٹرانک میڈیا کا وہ رویہ ہے جو مختلف ٹاک شوز میں سامنے آ رہا ہے، حاشا وکلا میں کسی کی نیت پر شک نہیں کر رہا کیونکہ جو اینکر یہ پروگرام کر رہے ہیں ان کی حب الوطنی اور جمہوریت دوستی شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ ٹاک شوز کا موضوع مشرف کی سزا ملنے پر فوج کا متوقع ردِ عمل ہے اور یہ پوچھا جاتا ہے کہ اس صورت میں فوج کیا کرے گی۔ یہ سوال ہمارے مخصوص حالات کی وجہ سے بالکل جائز ہے تاہم اس میں ایک SUGGESTIVE پہلو ہی آ جاتا ہے اور لاکھوں موجودہ اور سابق فوجی جو اس مسئلے کے حوالے سے ممکن ہے زیادہ حساس نہ ہوں، ان کی ’’فوجی انا‘‘ بھی جاگ اٹھنے کا اندیشہ بہرحال موجود ہے۔ جیسے جیسے پرویز مشرف کی قسمت کا فیصلہ قریب آ رہا ہے ویسے ویسے ان ٹاک شوز کی ’’مقدار‘‘ میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ بلکہ اب تو ’’غیر فوجی‘‘ بھی اس جہاد میں شریک ہو گئے ہیں جن میں ایچ ای سی کے سابق چیئرمین ڈاکٹر عطاء الرحمن بھی شامل ہیں، جنہوں نے اس ریٹائرڈ جرنیل کا پورا قصیدہ لکھ مارا ہے جو قومی مجرم ہے اور آئین پاکستان کی رو سے اس پر غداری کا مقدمہ چل رہا ہے۔ اس کے معاملے میں باامر مجبوری بے اصولی کا رویہ اپنانا ایک دوسری بات ہے اور اسے قوم کا ہیرو قرار دینا بھی میرے نزدیک ایک سنگین جرم ہے۔ اور یہ وہ جرم ہے جس کے ارتکاب کی جسارت تو کسی موجودہ یا سابق فوجی نے ہی نہیں کی۔
اس معاملے کا ایک پہلو اور بھی ہے اور وہ یہ کہ جب ہم ٹاک شوز میں کسی کے محض سابق فوجی ہونے کی بناء پر (بجا طور پر) اسے سزا دینے کے حوالے سے فوج کے متوقع ردِعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ تو یہ بات خود فوج کا امیج ہی خراب کرنے کے ضمن میں آتی ہے۔ عوام اس طرح کے بہت سے واقعات کے شاہد ہیں کہ کسی سیکنڈ لیفٹیننٹ کو کسی مارکیٹ میں کسی نازیبا رویئے پر اگر کوئی پولیس اہلکار اس کو تنبہ کرتا ہے یا پکڑ کر تھانے لے جاتا ہے، تو فوجیوں سے بھرا ہوا ایک ٹرک آتا ہے اور اس فوجی کو جو وردی میں بھی نہیں تھا، نہ صرف یہ کہ چھڑا کر لے جاتا ہے بلکہ پولیس افسروں کی پٹائی بھی کرتا ہے۔ اس طرح کے متعدد واقعات پہلے ہی عوام کو بے چین اور دل برداشتہ کئے ہوئے ہیں۔ اوپر سے جب ایک سیاسی لیڈر جو کبھی سابق فوجی تھا۔ یہ ایک عدالتی مقدمے میں بھی فوج کے متوقع اقدامات کا حوالہ درمیان میں آتا ہے تو ’’بلڈی سویلین‘‘ کو اپنی بے بسی اور فوج کی حاکمیت کا احساس پہلے سے کہیں زیادہ محسوس ہونے لگتا ہے، چنانچہ میرے نزدیک بہتر ہو گا کہ اس معاملے پر صرف عدالت میں بات ہو اور اس کی صرف کارروائی رپورٹ کی جائے۔ ٹاک شوز میں سویلینز اور فوج کو آمنے سامنے لا کھڑا کرنا کسی طور پر بھی ملک و قوم کے علاوہ خود فوج کے حق میں بھی بہتر نہیں ہے! یہ میری ایک عاجزانہ سی رائے ہے۔ اگر ممکن ہو تو اس پر ضرور غور فرمائیں!
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=163089