مشرف غداری کیس کا فیصلہ روکنے کی حکومتی درخواست سماعت کیلیے مقرر

جاسم محمد

محفلین
مشرف غداری کیس کا فیصلہ روکنے کی حکومتی درخواست سماعت کیلیے مقرر
ویب ڈیسک پير 25 نومبر 2019
1894369-pervezmusharraf-1574679422-417-640x480.jpg

خصوصی عدالت کا غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کرنے کا حکم نامہ معطل کیا جائے، درخواست ۔ فوٹو:فائل

اسلام آباد: ہائی کورٹ نے حکومت کی درخواست پر سابق صدر پرویز مشرف غداری کیس کا فیصلہ روکنے کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیدیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کا فیصلہ روکنے کے لیے حکومت کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کے لیے لارجر بنچ تشکیل دیدیا ہے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ درخواست پر کل سماعت کرے گا، جسٹس عامرفاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی بھی بینچ کا حصہ ہوں گے۔

حکومت نے سابق صدر و آرمی چیف پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کا فیصلہ روکنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، وزارت داخلہ کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ پرویز مشرف کو صفائی کا موقع ملنے تک خصوصی عدالت کو کارروائی سے روکا جائے اور خصوصی عدالت کا غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کرنے کا حکم نامہ بھی معطل کیا جائے۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ نئی پراسیکیوشن ٹیم تعینات کرنے تک خصوصی عدالت کو کارروائی سے روکا جائے۔

واضح رہے کہ خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ 19 نومبر کو محفوظ کیا تھا جو 28 نومبر کو سنایا جائے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
پرویز مشرف بچاؤ مہم: پابند سلاسل جمہوریت کی آخری ہچکی
26/11/2019 سید مجاہد علی

اب بھی اگر کوئی شبہ موجود ہے تو اسے دور ہوجانا چاہئے۔ سب کے لئے مساوی قانون نافذ کرنے کا مطالبہ کرنے والی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے درخواست کی ہے کہ سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کی سماعت کر نے والی خصوصی عدالت کو اس مقدمہ میں فیصلہ جاری کرنے سے روکا جائے۔

وزارت داخلہ کو خصوصی عدالت کے حق فیصلہ کو چیلنج کرنے کا خیال اس فیصلہ کا اعلان ہونے سے دو روز پہلے آیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر ہونے والی وزارت داخلہ کی اپیل سے چند گھنٹے پہلے سابق فوجی حکمران کے وکیلوں نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی تھی جس میں اسی قسم کی درخواست کی گئی تھی۔ لاہور ہائی کورٹ کے ججوں نے پرویز مشرف کی سکونت اور اس معاملہ میں سپریم کورٹ کی مداخلت کے بارے میں سوال اٹھاتے ہوئے وکلا سے یہ واضح کرنے کے لئے کہا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کس اختیار کے تحت اس درخواست پر غور کرسکتی ہے۔ یہ سماعت منگل تک کے لئے ملتوی کردی گئی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی وزارت داخلہ کی درخواست پر منگل کو ہی سماعت کا فیصلہ کیا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی ہائی کورٹ اگر اس حوالے سے حکم امتناعی جاری کردیتی ہے تو حسب اعلان خصوصی عدالت جمعرات کو اس اہم مقدمہ پر اپنے فیصلہ کا اعلان نہیں کرسکے گی۔

یہ واضح ہونا چاہئے کہ حکومت کی بےچینی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب وزیر اعظم سے لے کر ان کی کابینہ کے سارے وزیر نواز شریف کی ملک سے روانگی کو ملک میں قانونی عدم مساوات کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔ اسی پس منظر میں وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتہ کے شروع میں چیف جسٹس سے اپیل کی تھی کہ وہ اس عدم مساوات کو ختم کرتے ہوئے عدلیہ پر عوام کا اعتبار بحال کریں۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے البتہ ایک پبلک میٹنگ میں ہی عدلیہ پر وزیر اعظم کی حرف زنی کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ نواز شریف کو ملک سے باہر بھیجنے کا فیصلہ وزیر اعظم نے کیا ہے، عدالت کو اس کا ذمہ دار قرار نہ دیا جائے۔ انہوں نے عدالت کی خود مختاری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہی عدالت ملک کے دو وزرائے اعظم کو معزول کر چکی ہے اور اب ایک سابق آرمی چیف کے خلاف فیصلہ آنے والا ہے۔ عدالتیں صرف قانون کو بالا دست مانتی ہیں۔ اس دو ٹوک گفتگو سے یہ قیاس کیا جانے لگا تھا کہ پرویز مشرف کو خصوصی عدالت کے محفوظ فیصلہ میں آئین شکنی کا مرتکب نہ قرار دیا جائے۔

یہ سمجھنا غلط نہیں ہوگا کہ پرویز مشرف کے علاوہ وزارت داخلہ کی طرف سے دائر ہونے والی درخواستوں کا مقصد اسی ناگوار صورت حال سے محفوظ رہنے کی کوشش کرنا ہے۔ لیکن سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں ملکی آئین سے انحراف کرنے والے ایک سابق فوجی جنرل کے غیر آئینی اقدامات کا فیصلہ ہونا ہے تو ایک جمہوری حکومت کو اس پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟ کیا عمران خان اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ ملک کے معاملات آئین کے مطابق طے پائیں اور فوج اپنی صوابدید کے مطابق آئین پامال کرنے کی روایت ترک کر دے۔ اگر کوئی پاکستانی عدالت اس بارے میں واضح حکم جاری کردے گی تو اس سے مستقبل میں سیاست میں فوجی مداخلت کا اندیشہ ٹل جائے گا۔ دوسرے یہ واضح ہوجائے گا کہ ماضی میں جب جب فوج کے سربراہان نے آئین معطل، منسوخ یا پامال کیا تھا وہ درحقیقت سنگین غداری کا اقدام تھا۔

تاہم عدالتوں کی مجبوریوں اور سیاسی انتظام کے نقص کی وجہ سے ایوب خان سے لے کر ضیاالحق تک کسی کے خلاف آئین سے غداری کا کوئی مقدمہ نہ قائم ہوسکا اور نہ ہی اس پر حتمی عدالتی فیصلہ کی نوبت آئی۔ پرویز مشرف نے بھی اکتوبر 1999 میں آئینی طریقہ کار کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جس طرح ایک منتخب حکومت کو چلتا کیا تھا، اس اقدام کی بھی سپریم کورٹ نے تائید کی اور بعد ازاں فوجی حکمران کے زیر نگرانی قائم ہونے والی نام نہاد پارلیمنٹ سے اس کی توثیق کرواتے ہوئے آئین سے کھلواڑ کو عین جائز اور درست قرار دیا گیا۔

فوجی طاقت کے غرور میں 2007 میں پرویز مشرف نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو برطرف کرنے کی کوشش کی۔ عدلیہ بحالی تحریک کی وجہ سے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو برطرف کرنے کی کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ البتہ پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 کو ایک پی سی او کے ذریعے آئین معطل کرنے، ایمرجنسی نافذ کرنے اور اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کو اس پی سی او کے تحت حلف لینے کا پابند کرنے کا حکم جاری کیا۔ سپریم کورٹ پر فوج کے دھاوا بولنے سے پہلے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ایک 7 رکنی بنچ کی صدارت کرتے ہوئے اس صدارتی حکمنامہ کو معطل کر دیا اور تمام فوجی و سول اہلکاروں کو حکم دیا کہ ان احکامات پر عمل نہ کیا جائے۔ البتہ یہ ایمرجنسی پرویز مشرف نے ہی 15 دسمبر 2007 کو ختم کی۔

نواز شریف نے 2013 میں وزیر اعظم بننے کے بعد پرویز مشرف کے اس غیر آئینی اقدام کے خلاف آئین کی شق 6 کے تحت مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقدمہ کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت متعدد زیر و بم سے گزرنے اور کئی سربراہان کی تبدیلی کے بعد، اب حتمی نتیجہ تک پہنچ چکی ہے۔ یہ فیصلہ 28 نومبر کو سنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس وقت خصوصی عدالت کے سربراہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس وقار احمد سیٹھ ہیں۔ جسٹس سیٹھ کو خود مختار جج کی شہرت حاصل ہے۔ انہوں نے فوجی عدالتوں کے فیصلوں کو تبدیل کرنے کے علاوہ حراستی مراکز کے بارے میں صدارتی آرڈی ننس کو بھی کالعدم قرار دیا تھا۔ اس فیصلہ کے خلاف پہلے سپریم کورٹ سے حکم امتناعی حاصل کیا گیا تھا تاہم اب چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالت عظمی کا ایک بنچ اس معاملہ کی سماعت کررہا ہے۔ حکومت پاکستان نے عالمی عدالت انصاف میں یہ ثابت کرنے کے لئے کہ ملک کی عدلیہ فوجی عدالتوں کے فیصلوں کو تبدیل کرسکتی ہے، بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کیس میں جسٹس وقار سیٹھ کے فیصلوں کا حوالہ بھی دیا تھا۔ اب اسی خود مختار جج کے ممکنہ فیصلہ کا خوف حکومت کے ایوانوں اور طاقت کے مراکز میں محسوس کیا جا رہا ہے۔

وزارت داخلہ کی طرف سے پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کے مقدمہ کا فیصلہ رکوانے کی کوشش ایک ایسی حکومت کی جانب سے کی جا رہی ہے جو سب کو قانون کے سامنے یکساں طور سے جواب دہ بنانے کی بات کرتی ہے۔ وزیر اعظم نے نواز شریف کے معاملہ میں بار بار یہ کہا کہ اس ملک میں دولتمندوں اور غریبوں کے لئے الگ الگ قانون ہیں۔ لیکن اب ان کی حکومت اس بات کی تصدیق کر رہی ہے کہ یہ تفریق دولت کی بنیاد پر نہ بھی موجود ہو پھر بھی ملک کا قانون عسکری اداروں سے وابستہ افراد تک رسائی حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس مقصد کی تکمیل کے لئے تحریک انصاف کی حکومت اب خود اتمام حجت کر رہی ہے۔

پرویز مشرف مارچ 2016 میں علاج کے بہانے ملک سے باہر چلے گئے تھے لیکن وہ عدالت کی بار بار تاکید کے باوجود مقدمات کا سامنا کرنے کے لئے وطن واپس نہیں آئے۔ خصوصی عدالت نے انہیں بھگوڑا قرار دینے کے بعد ان کی غیر حاضری میں مقدمہ کی سماعت مکمل کی تاہم تحریک انصاف کی حکومت نے 23 اکتوبر کو اس مقدمہ میں استغاثہ کی ٹیم کو برطرف کردیا اور مقدمہ کی پیروی کے لئے نئے وکلا مقرر کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ دوسری طرف خصوصی عدالت نے قرار دیا کہ استغاثہ ٹیم برطرفی سے قبل دلائل مکمل کر چکی تھی، اس لئے عدالت کے پاس اس معاملہ کا فیصلہ کرنے کے لئے مناسب بنیاد موجود ہے۔ اب وزارت داخلہ نے ہائی کورٹ میں اسی نکتہ کی بنیاد پر اپیل دائر کی ہے کہ استغاثہ ٹیم کو 23 اکتوبر کو فارغ کردیا گیا تھا اس لئے اس ٹیم کی طرف سے 24 اکتوبر کو پیش کئے جانے والے دلائل غیر قانونی اقدام کہلائیں گے۔ وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ استغاثہ کا مؤقف جانے بغیر اور ملزم کو اپنی صفائی کا موقع دیے بغیر خصوصی عدالت کا کوئی فیصلہ ناانصافی پر مبنی اور غیر قانونی ہوگا۔

دلچسپ بات ہے کہ یہ اپیل دائر کرنے والی وزارت داخلہ کے سربراہ اس وقت بریگیڈئیر اعجاز شاہ ہیں جو پرویز مشرف کے معتمدین میں شامل ہوتے ہیں اور اب تحریک انصاف کی حکومت میں سابق فوجی آمر کے خلاف عدالتی فیصلہ رکوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پرویز مشرف مارچ 2016 میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کی خواہش کے مطابق ملک سے نکلنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ پہلے سپریم کورٹ نے ان کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا پھر اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے فوری طور سے پرویز مشرف کو ملک سے باہر بھیجنے کو یقینی بنایا تاکہ آئین شکنی کے مقدمہ میں فوج کو کسی غیر متوقع شرمندگی سے بچایا جا سکے۔ اب وہی کوشش تحریک انصاف کی حکومت کر رہی ہے۔ اس وقت عمران خان کی حکومت کو قانونی مساوات اور کمزور و طاقت ور کو یکساں طور سے جواب دہ بنانے کے دعوے فراموش ہو چکے ہیں۔

یہ سمجھنا دشوار نہیں ہونا چاہئے کہ پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ فوجی قیادت کی مرضی کی خلاف چلانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ دوسرے عوامل کے علاوہ نواز شریف کا یہ فیصلہ بھی ان کی سیاسی و قانونی مشکلات کا سبب بنا تھا۔ نواز شریف کی حکومت کو 2014 کے دھرنے میں غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس دھرنا کا سہرا عمران خان اپنے سر باندھتے ہیں اور خود کو دھرنا ایکسپرٹ کہلوا کر خوش ہوتے ہیں لیکن وہ آج تک اس امپائر کا نام نہیں بتا سکے جس کی انگلی کے اشارے پر وہ دھرنا کنٹینر پر اچھلتے رہے تھے۔ نواز شریف فوج کو للکارنے اور آئین کی پاسداری کے جرم میں بالآخر پاناما کیس میں معزول کئے گئے اور عدالت نے قرار دیا کہ آئین کی شقات کے تحت وہ ’صادق و امین‘ نہیں رہے۔ لیکن ان کی بنائی ہوئی خصوصی عدالت کو تمام رکاوٹوں کے باوجود ختم نہ کیا جا سکا۔ اب اس کا راستہ کاٹنے کی سر توڑ کوشش کی جا رہی ہے۔

خصوصی عدالت جو بھی فیصلہ صادر کرنے والی ہے، اس کا براہ راست منتخب حکومت کی صحت پر کوئی اثر مرتب نہیں ہو گا لیکن یوں لگتا ہے کہ یہ حکومت ایک ایسی کٹھ پتلی بن چکی ہے جو درپردہ اشاروں پر تھرکتے ہوئے، اپنی حرکتوں کے نتائج سے بے خبر ہوتی ہے۔ اب اس امر میں کوئی شبہ باقی نہیں کہ اس وقت ملک میں کس کی حکومت ہے یا عمران خان کس طاقتور دیو کے سحر کے اسیر ہیں۔ پرویز مشرف کو بچانے کے لئے عمران حکومت کا یہ اقدام ملک میں جمہوری ڈھونگ کے چہرے کا نقاب سرکانے کے لئے کافی ہے۔ جو سیاست دان اقتدار کے لئے اپنی آزادی کو گروی رکھتے ہوئے اس حد تک جا سکتا ہے، وہ عوام کے مسائل سمجھنے یا جمہوری سفر میں ان کی قیادت کرنے کا اہل نہیں ہو سکتا۔
 

جاسم محمد

محفلین
غداری کیس فیصلہ روکنے کی درخواست؛ عدالت نے مشرف کے وکیل کو دلائل سے روک دیا
ویب ڈیسک 4 گھنٹے پہلے
1895556-musharraf-1574756570-318-640x480.jpg

پرویز مشرف اشتہاری ہیں اور عدالت نے کہا تھا مشرف پیش نہ ہوئے تو حق دفاع ختم ہو جائے گا، چیف جسٹس اطہر من اللہ فوٹو: فائل

اسلام آباد: غداری کیس فیصلہ روکنے کی درخواست پر سماعت کے دوران عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل کو دلائل سے روک دیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس میں وزارت داخلہ کی خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روکنے کی درخواست پرسماعت ہوئی، اس موقع پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کی پٹیشن دیکھی صرف ایک متعلقہ پیرا گراف ہے، وزارت قانون سے مکمل ریکارڈ ساتھ لے کر آئیں۔

اس دوران پرویز مشرف کے وکیل نے عدالت کے سامنے بولنے کی کوشش کی تاہم عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل کو دلائل سے روک دیا، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ ہم آپ کو بطور متاثرہ فریق نہیں سن سکتے، پرویز مشرف اشتہاری ہیں، آپ پیش نہیں ہوسکتے، عدالت نے کہا تھا مشرف پیش نہ ہوئے تو حق دفاع ختم ہو جائے گا۔

عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل ساڑھے بارہ بجے تک ملتوی کرتے ہوئے سیکرٹری وزارت قانون و انصاف کو متعلقہ ریکارڈ سمیت پیش ہونے کا حکم دیا، اس کے علاہ سنگین غداری کیس کے لیے مجاز شکایت کنندہ اور خصوصی عدالت کی تشکیل کا ریکارڈ بھی طلب کرلیا۔

مشرف غداری کیس فیصلہ روکنے کی حکومتی درخواست؛

گزشتہ روز حکومت نے سابق صدر و آرمی چیف پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کا فیصلہ روکنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، وزارت داخلہ کی جانب سے دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ پرویز مشرف کو صفائی کا موقع ملنے تک خصوصی عدالت کو کارروائی سے روکا جائے اور خصوصی عدالت کا غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کرنے کا حکم نامہ بھی معطل کیا جائے۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ نئی پراسیکیوشن ٹیم تعینات کرنے تک خصوصی عدالت کو کارروائی سے روکا جائے۔

غداری کیس فیصلہ محفوظ؛

19 نومبر کو خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جو 28 نومبر کو سنایا جائے گا۔

مشرف غداری کیس پس منظر؛
سابق صدر و آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 کو ملک میں ہنگامی حالت نافذ کرتے ہوئے آئین معطل کردیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 2013 میں برسراقتدار آنے کے بعد پرویز مشرف پر مقدمہ چلانے کے لیے خصوصی عدالت میں درخواست دائر کی۔ پرویز مشرف کے خلاف ماورائے آئین اقدامات کے الزام میں آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
 
سب کے لئے مساوی قانون نافذ کرنے کا مطالبہ کرنے والی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے درخواست کی ہے کہ سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کی سماعت کر نے والی خصوصی عدالت کو اس مقدمہ میں فیصلہ جاری کرنے سے روکا جائے۔

لاہور میں شادمان چوک میں ایک درخت ہے، جہاں بھگت سنگھ کو غداری کے جرم میں لٹکایا گیا تھا۔ کیا وہ درخت مناسب رہے گا ٓایس ایسے شہری کے لئے جس نے بائیس درجے کا ملازم ہونے کے باوجود، گولی بندوق کے بل پر منتخب حکومت کا صفایا کیا؟ پاکستان کی منتخب حکومت کی بزور قوت برطرفی کا جرم کیا معمولی ہے؟ ٓ

اگر یہ جرم معمولی ہے تو افغانستان کی حکومت، بھارت کی حکومت، ایران کی حکومت نے پاکستان پر حملے کرکے ، کیا جرم کیا ؟ ان کو سزا دینے کے لئے ٓاتنی بڑی فوج۔

برسر عام پھانسی ، اس درخت پر ، جس پر بھگت سنگھ کو لٹکا یا گیا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
لاہور میں شادمان چوک میں ایک درخت ہے، جہاں بھگت سنگھ کو غداری کے جرم میں لٹکایا گیا تھا۔ کیا وہ درخت مناسب رہے گا ٓایس ایسے شہری کے لئے جس نے بائیس درجے کا ملازم ہونے کے باوجود، گولی بندوق کے بل پر منتخب حکومت کا صفایا کیا؟ پاکستان کی منتخب حکومت کی بزور قوت برطرفی کا جرم کیا معمولی ہے؟ ٓ

اگر یہ جرم معمولی ہے تو افغانستان کی حکومت، بھارت کی حکومت، ایران کی حکومت نے پاکستان پر حملے کرکے ، کیا جرم کیا ؟ ان کو سزا دینے کے لئے ٓاتنی بڑی فوج۔

برسر عام پھانسی ، اس درخت پر ، جس پر بھگت سنگھ کو لٹکا یا گیا تھا۔
بھائی یہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ اب سزائے موت رکوانے کیلئے عدالت سجا لی گئی ہے۔

غداری کیس: سزائے موت پر عملدرآمد روکنے کیلیے دائر درخواست سماعت کیلئے مقرر
211781_7161352_updates.jpg

لاہور ہائیکورٹ میں دائر درخواست 85 صفحات پر مشمل ہے: فائل فوٹو سابق صدر

لاہور: سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں سزائے موت پر عمل درآمد رکوانے کے لیے لاہور ہائیکورٹ میں دائر درخواست سماعت کے لئے مقرر کرلی گئی۔

گزشتہ ماہ پرویز مشرف کی جانب سے خصوصی عدالت کے سزائے موت کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے متفرق درخواست دائرکی گئی تھی جو 85 صفحات پر مشتمل تھی جس میں 6 قانونی نکات اٹھائےگئے تھے۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ سابق آرمی چیف پرویز مشرف پر سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کی تشکیل کی منظوری وفاقی کابینہ سے نہیں لی گئی اور نہ ہی انہیں دفاع کا موقع دیا گیا۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کے 342 کے بیان کے بغیر ٹرائل مکمل نہیں ہوسکتا تھا اور نہ ہی آئین کی معطلی بغاوت کے زمرے میں آتی ہے۔

پرویز مشرف کے وکیل نے مزید مؤقف اپنایا کہ 2010 میں ترمیم کی گئی ہے اس حساب سے پہلے آئین کی معطلی غداری نہیں۔

درخواستگزار نے استدعا کی کہ پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کا سزائے موت دینےکا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔

اب سزائے موت پر عمل درآمد رکوانے کے لیے لاہور ہائیکورٹ میں دائر درخواست پر سماعت مقرر کر لی گئی ہے جس کی سماعت جسٹس مظاہر نقوی کی سربراہی میں فل بینچ کل 9 جنوری سے کرے گا۔

پرویز مشرف کو سزائے موت کا حکم

اسلام آباد کی خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ نے 17 دسمبر 2019 کو پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنائی تھی۔ بینچ کے دو اراکین نے فیصلے کی حمایت جب کہ ایک رکن نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے پرویز مشرف کو بری کیا تھا۔

خصوصی عدالت نے اپنے فیصلے میں پرویز مشرف کو بیرون ملک بھگانے والے تمام سہولت کاروں کو بھی قانون کےکٹہرے میں لا نے کا حکم دیا اور فیصلے میں اپنی رائے دیتے ہوئے جسٹس وقار سیٹھ نے پیرا 66 میں لکھا ہے کہ پھانسی سے قبل پرویز مشرف فوت ہوجائیں تو لاش کو ڈی چوک پر لاکر 3 دن تک لٹکایا جائے۔
 
Top