فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
جو تبصرہ نگار بدستور پرويز مشرف کوامريکی مہرہ يا پاکستان میں ہمارا "قابل ترجيح" ليڈر بنا کر پيش کرتے ہيں، انھيں چاہيے کہ اس ضمن ميں حقائق کا بغور جائزہ ليں۔
پرويز مشرف کے آرمی چيف بننے سے لے کر اقتدار کے ايوانوں تک ان کے سفر اور پھر موجودہ واقعات کے تسلسل ميں وہ تمام فيصلے شامل تھے جو پاکستانی سياست دانوں، حکومتی عہديداروں اور بيوروکريٹس نے خود کيے ہيں۔ اس کے علاوہ مختلف مواقعوں پر پاکستانی معاشرے کے مختلف طبقوں کی حمايت بھی ان کے ساتھ رہی۔
اگر تو آپ سازشی نظريات پر اس حد تک يقين رکھتے ہيں کہ يہ بے تکی منطق بھی تسليم کر ليں کہ پاکستان ميں سول سوسائٹی سميت ہر پاليسی ساز ادارہ اور فيصلہ کرنے والی ہرقوت ہمارے حکم کی منتظر رہتی ہے تو پھر تو آپ حق بجانب ہونے کا دعوی کر سکتے ہيں بصورت ديگر يہ ناقابل ترديد حقيقت تسليم کرنا ہو گی کہ مشرف دور اور اس سے وابستہ تمام فيصلے، خواہ وہ غلط ہوں يا درست، ان کے ليے آپ امريکہ کو مورد الزام نہيں ٹھہرا سکتے۔
اگر آپ تاريخ کے اوراق کا مطالعہ کريں تو شروع دن سے ہمارا موقف اور پوزيشن بالکل واضح رہی ہے۔
12 اکتوبر 1999 کو جب ايک "آمر" مشرف نے پاکستان ميں ايک جمہوری حکومت کا تختہ الٹايا تھا تو پاکستان کی تمام سياسی جماعتوں نے اس کی حمايت کی تھی۔ اس وقت يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی طرف سے يہ بيان جاری ہوا تھا۔
"ہم پاکستان ميں جمہوريت کی فوری بحالی کے خواہ ہيں ليکن ہم اس پوزيشن ميں نہيں ہيں کہ پاکستان ميں جمہوريت کی بحالی کے ليے کوئ غير آئينی قدم اٹھائيں۔"
اس بات سے قطع نظر کہ پاکستان ميں کن افراد يا سياسی جماعتوں کی حکومت رہی ہے، امريکہ نے کئ دہائيوں سے پاکستان کے ساتھ تعلقات بحال رکھے ہيں۔
911 کے حادثے کے بعد يہ بالکل درست ہے کہ امريکی حکومت کو افغانستان ميں ان دہشت گردوں کے خلاف کاروائ کے لیے حکومت پاکستان کے تعاون اور مدد کی ضرورت تھی جنھوں نے دنيا بھر ميں امريکی شہريوں کے خلاف جنگ کا آغاز کر ديا تھا۔ اس وقت پاکستان کے حکمران پرويز مشرف تھے۔ يہ ايک غير منطقی مفروضہ ہے کہ امريکہ کو افغانستان ميں کاروائ سے پہلے مشرف کو اقتدار سے ہٹانا چاہيے تھا۔
پرويز مشرف کو آرمی چيف مقرر کرنےسےلےکر صدر بنانے تک اور صدرکی حيثيت سےان کےاختيارات کی توثيق تک پاکستان کی تمام سياسی پارٹيوں اور ان کی قيادت نےاپنا بھرپور کردار ادا کيا ہےاسکے باوجود تمام سياسی جماعتوں کا يہ بيان ايک جذباتی بحث کا موجب تو بن سکتا ہے کہ مشرف امريکہ کی پشت پناہی کی وجہ سے برسراقتدار رہے، ليکن يہ حقیقت کے منافی ہے۔ ياد رہے کہ سال 2007 ميں مشرف کو امريکہ نے نہيں بلکہ قومی اسمبلی کے 57 فيصد ارکان نے ووٹ دے کر 5 سال کے لیے صدر منتخب کيا تھا۔
يہ فيصلہ بہرحال پاکستان کے عوام اور ان کے منتخب نمايندوں نے کرنا ہے کہ ملک ميں کس قسم کا حکومتی نظام نافذ کيا جائے۔ اس تناظر ميں کسی بھی قسم کی احتسابی يا عدالتی کاروائ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور امريکہ اس ميں کوئ مداخلت نہيں کرے گا۔
ان رپورٹوں ميں کوئ صداقت نہيں ہے کہ امريکی حکومت پاکستان ميں عدالتی عمل ميں کسی بھی قسم کا رخنہ ڈالنے کا ارداہ رکھتی ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
http://vidpk.com/83767/US-aid-in-Dairy-Projects/