قصہ یہ نہیں ہے کہ کون آیا اور کون گیا ۔ مسئلہ یہ ہے کہ کسی کے اس طرح آنے اور جانے سے پوری قوم اور خطے میں جو مضمر اثرات رہ جاتے ہیں ۔ وہ قوم کئی نسلوں تک بھگتی رہتی ہے ۔ مشرف کے موجودہ اور سابقہ اقدامات کا ردعمل ظاہر ہونا شروع ہوگیا ہے ۔ اگر ایک سطحی تجزیہ کیا جائے تو مسقبل میں پاکستان کے اندورنی حالات ، سیاسی عدمِ استحکام اور معاشی ابتری کی بھرپور شکل پیش کر رہے ہیں ۔ جس کی ذمہ داری ہر لحاظ سے جنرل مشرف پر عائد کی جاسکتی ہے ۔ اسی صورتحال کے تناظر میں تاریخ کے اوراق پلٹیں ۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بہت سے ذمہ دار ہیں ۔اتنا بڑا کام کسی فردِ واحد کے بس کی بات نہیں ۔ لیکن تاریخ نے اس کا تنہا بوجھ جنرل یحییٰ خان پر ڈالا ۔ 1971 کے بعد بہت سے والدین نے اپنے بچوں کے نام ذوالفقار علی اور مجیب الرحمن تو رکھے لیکن شاید ہی کسی نے اپنے کسی بچے کا نام یحییٰ خان رکھا ہو ۔ مسئلہ نام میں نہیں ہے ، اس کی حامل ایک شخصیت میں ہے ۔ جس سے کسی نوعیت کی نسبت قوم کو گوارا نہیں ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ تاریخ نے اس جرم کے لیئے یحییٰ خان کا نام کیوں نامزد کیا ۔ ؟ اس سوال کا جواب کوئی مشکل نہیں ہے ۔ ایک اہم مرحلے پر قوم میں وحدت اور سیاسی استحکام پیدا کرنا یحییٰ خان کی ذمہ داری تھی ۔ وہ ملک کے سب سے منظم ادارے کے سربراہ تھے ۔ اور ساتھ ساتھ صدر کے منصب پر بھی فائز تھے ۔ جو کہ سیاسی اور آئینی اعتبار سے قومی وحدت کی علامت سمجھا جاتا ہے ۔ ان سے یہ ذمہ داری پوری نہیں کی گئی ۔ اور سیاسی حریف بن گئے ۔ چناچہ پھر یہ ہوا کہ وہ تاریخ کی عدالت میں اپنا مقدمہ ہار گئے ۔
میں نے جیسا پہلے کہا کہ اگر موجودہ صورتحال کا ایک سطحی جائزہ لیا جائے تو ہر ذی شعور اس بات کا ادراک کر سکتا ہے کہ ملک میں پھر وہی حالات درپیش ہیں ۔ جنرل پرویز مشرف اس ملک کے صدر بھی ہیں اور فوج کے سربراہ بھی ۔ ملک اس وقت عدمِ استحکام کا شکار ہے ۔ اس وقت ملک میں استحکام پیدا کرنا اور قوم کو منقسم ہونے سے بچانا ان کی ذمہ داری ہے ۔ اب تک کے شواہدات اور موجودہ آرڈینیس جیسے اقدامات سے یہ بات واضع ہے کہ ان کو اپنی ذمہ دار کا احساس نہیں ۔ انہوں نے بالخصوص 12 مئی کے واقعہ کے بعد خود کو قومی سیاست میں متنازعہ کردار اور سیاسی حرہف کے طور پر پیش کیا ۔ ملک کا صدر اور چیف آف آرمی اسٹاف ، بینظیر ، نواز شریف اور قاضی حسین احمد کی طرح ایک سیاسی متنازعہ شخصیت ہے ۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ آج کون ہے جسے ملک میں استحکام اور وحدت کی علامت قرار دیا جاسکے ۔ مشرف نے صرف مذہب کو دہشت گردی کا سبب قرار دے کر ملک کے بہت سے طبقوں میں انتشار پیدا کر دیا ہے ۔ اس وقت میں بڑھتی ہوئی بے چینی ، عدم استحکام اور تیزی سے منقسم ہوئی قوم مذہب کو چھوڑ کر اور کئی حوالوں سے انتہا پسندی کی طرف مائل ہے ۔ ڈر ہے کہ موجودہ آرڈیننس اس میں کہیں مذید شدت پیدا نہ کردے ۔