مشرق وسطیٰ میں مفادات کی سیاست

ابن جمال

محفلین
مشرق وسطی کی سیاست عرب بہار کے بعد اب''خزاں ''کاموسم جھیل رہی ہے۔یہ حالات اچانک پیداہوگئے یاپیداکئے گئے وہ کہنامشکل ہے لیکن مصر کی صورتحال یہی بتارہی ہے کہ ایمان والوں کی آزمائش ختم نہیں ہوئی اورابھی ان کوآتش نمرود میں مزید جلناہے۔ظلم وستم کی چکی میں مزید پسناہے اورجان ومال کی مزیدقربانیاں دینی ہے۔

اخوان المسلمون کاقیام دینی جذبہ کے ساتھ عمل میں آیاتھااوراس کے بانی حسن البناء شہید کا خواب یہ تھاکہ اخوان دین اوردنیا دونوں محاذ پر کامیابی حاصل کرے اورمسلمان مغرب کے محتاج نہ رہیں بلکہ ہرمعاملہ میں خود کفیل بنیں۔

جمال عبدالناصر اوربعد کی حکومتوں نے اخوان اوراس سے وابستہ افراد پر جس طرح ظلم وستم کا بازار گرم کیااس کی روداد پڑھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آنے لگتاہے کہ کیاکوئی ذرہ برابر ایمان کی رمق رکھنے والا اتنابھی سنگدل ہوسکتاہے کہ اپنے مسلمان بھائیوں پر اس حد تک ظلم کرے اورغیرملکی آقائوں کو خوش کرنے میں اس حدتک بڑھ جائے کہ ابلیس بھی شرمندہ ہوجائے۔ زینب الغزالی نے اپنے آپ بیتی میں جس طرح اپنے اوپر ہوئے ظلم وستم کی روداد قلم بند کی ہے اس کو پڑھ کر واقعتاًرونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ ایک خاتون کے ساتھ اتنادرندگی بھراسلوک !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!اوراس کا جرم کیاصرف اتناکہ وہ ملک میں سیکولر کے بجائے دینی نظام نافذ کرنے کی بات کرتی ہے۔پھر بات صرف زینب الغزالی کی ہی نہیں ہے بلکہ اخوان کے دیگر قائدین پر جوظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے اورزنداں میں ڈال کر ان کی آواز دبانے کی کوشش کی گئی اوربہتوں کو پھانسی کی سزادی گئی۔ سید قطب شہید کو جس طرح شہید کیاگیاوہ مصر کی فوجی حکومت کا ایک سیاہ باب ہے اورجمال عبدالناصر کے دوراستبداد کا بدترین عمل۔

اخوان نے حکومتی پابندیوں اورسرکاری بندشوں کے باوجود رفاہ عامہ اورخدمت خلق کا پروگرام جاری رکھا اوراسی کے ساتھ لوگوں کودین کی باتیں بتاتی رہی ۔ ان کو دین کی تعلیم وتربیت دیتی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ جب مصر کے حسنی مبارک کے خلاف عوام کا غصہ ابل پڑا اوران کو مجبورامصر کے اقتدار سے ہاتھ دھوناپڑا اوراس کے بعد آزادانہ انتخابات ہوئے تو اخوان المسلمون لوگوں کی سب سے بڑی پسند بن کر ابھری۔

ابھی اخوان المسلمون کوایک سال بھی نہ گزراتھاکہ اس کے خلاف بے ریش اورباریش دونوں طرح کے افراد نے سازش کرنی شروع کردی ۔ بے ریشوں کو خوف تھاکہ ان کے مراعات چھن جائیں گے اورباریش معالی الشیوخ کو خدشہ تھاکہ اخوان اپناسیاسی اسلام وہاں بھی نہ پہنچادیں اوران کے اقتدار کی بنیادیں نہ ہلادیں۔
اخوان المسلمون کے ابھرنے سے مصر میں سب سے زیادہ جن کو نقصان پہنچاتھاوہ دوریاستی محکمے تھے۔ ایک عدلیہ اوردوسرے فوج۔ فوجی حکومت فوجیوں کو ہرقسم کی مراعات دیتی ہے تاکہ فوج اس کے آئینی اورغیرآئینی تمام احکامات پر بلاچوں وچرا عمل کرے۔ دوسرے عدلیہ کے ججوں کو تمام سہولیات مہیاکی جاتی ہیں تاکہ فوجی حکومت کے ہراقدام کو وہ سند جواز عطاکرے۔ مصر میں بھی یہی دونوں طبقے پوری طرح عیش کررہے تھے ۔اخوان المسلمون کے ابھرنے کے ساتھ ہی ان دونوں طبقوں نے خطرہ کو محسوس کرلیااوراخوان کے خلاف سازشیں کرنی شروع کردیں۔

جنرل عبدالفتاح السیسی بے چین تھے کہ اخوان کوکس طرح گھر کا راستہ دکھایاجائے اس کیلئے انہوں نے مصر میں گرجاگھروں پر حملے اورکچھ واقعات کو بہانابنایا اورغیرمسلموں کو اپنے آلہ کار کے طورپر استعمال کیا۔اخوان کے اقتدار میں آنے سے غیرمسلم طبقہ نام نہاد خوف کا شکار تھے؟اوران کے خلاف کچھ حملوں نے ان کے شکوک وشبہات کو مزید تقویت پہنچائی۔ جب ان کوفوج سے شہہ ملی توانہوں نے ایک احتجاجی مہم کا آغاز کردیا۔اس تحریک کو ''تحریک تمرد''کانام دیاگیا۔

تحریک تمرد کو چونکہ فوج کی پوری حمایت حاصل تھی لہذا اس کو ہرقسم کی سہولیات مہیاکی گئیں اوردنیا کے سامنے یہ کہہ کر پیش کیاگیاکہ مرسی ناکام ہوچکے ہیں اوراب عوام ان کے خلاف نکل چکے ہیں۔ حالانکہ جمہوریت کا فائدہ ہی یہ ہے کہ اگرموجودہ صدر آپ کو منظورنہیں توپھر پانچ سال بعد ان کو رخصت کردیجئے۔ محض ایک سال میں مصر کے سیکولروں نے یہ فیصلہ کرلیاکہ مرسی ناکام ہوچکے ہیں حالانکہ ایک سال کسی بھی قیادت کوجانچنے کیلئے قطعاًناکافی ہے۔

فوج نے تحریک تمرد سے فائدہ اٹھاکر پھر سے اقتدار پر قبضہ کرلیااورپہلے تواخوانیوں کو اوربالخصوص صدرمرسی کو لالچ دینے کی کوشش کی گئی ،انجام وعواقب سے ڈرایاگیالیکن جب ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ ہوئی تواقتدار سے بے دخل کردیاگیا۔

اصل کھیل کیاہے؟
خلیجی ممالک:اخوان المسلمون کے اقتدار میں آنے کے بعد نہ صرف سعودی عرب بلکہ تمام خلیجی ممالک کے سربراہ خوف واندیشہ میں گھر گئے تھے کہ کہیں سیاسی اسلام ان کے شہر میں بھی دستک نہ دینے لگے اوران کے بھی اقتدار کے دن نہ گنے جانے لگیں؟

اسرائیل:اسرائیل کو خوف تھاکہ مرسی اہل فلسطین کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں اورکہیں حسنی مبارک کی غزہ اوراہل فلسطین پر عائد پابندیاں ختم نہ کردیں۔ مرسی نے اس سمت متعدد اقدامات بھی کئے تھے؟

امریکہ اوریوروپی ممالک:امریکہ اوریوروپی ممالک نے بھلے اخوان کے جمہوری طورپر برسراقتدارآنے پر ان کاخیرمقدم کیاتھالیکن یہ خیرمقدم نیم دل سے کیاگیاتھا۔ وہ بھی اخوان کے اسلامی پس منظر سے خوف زدہ تھے اوریہ بھی کہ مصر کے اسلامی اقتدار میں رنگنے کے بعد اسرائیل کی وہ سرحد جو مصر کو لگتی ہے غیرمحفوظ ہوجائے گی۔یہی وجہ ہے کہ فوجی بغاوت کو جان کیری نے ''جمہوریت کے تحفظ''کانام دیا۔ کوئی جان کیری سے پوچھے کہ اگر امریکی فوج کا سپہ سالار اقتدار پر قبضہ کرلے تووہ اسے کیاکہیں گے؟جمہوریت کا تحفظ یاپھربغاوت؟

مصری فوج:مصری فوج نہ صرف بڑے پیمانے پر تجارت کرتی ہے بلکہ اس کے بے پناہ فوائد بھی حاصل کرتی ہے۔ ان کو خوف تھاکہ جمہوریت میں ان کے یہ غیرقانونی کاروبار بند ہوجائیں گے اورایک جمہوری حکومت میں جس طرح تمام دیگر محکموں کی نگرانی ہوتی ہے کہیں ان کی بھی نگرانی نہ شروع ہوجائے ۔ویسے بھی جب فوج کو ایک مرتبہ اقتدار کا چسکہ لگ جاتا توبیرک میں واپس جانااس کیلئے بہت مشکل ہوجاتاہے۔

مصری عدلیہ:مصری عدلیہ کو حکومت سے سب سے زیادہ مراعات حاصل ہیں۔ ان کواپنے مراعات اورعیش وعشرت کی جس زندگی کے وہ عادی ہوچکے تھے وہ سب خطرے میں نظرآرہاتھایہی وجہ ہے کہ عدلیہ نے فوجی حکومت کا استقبال کیاہے اوراخوان المسلمون چاہے پابندی لگانے کا معاملہ ہو یاکچھ اوروہ فوجی حکومت کے ساتھ شانہ بشانہ رہی ہے ۔مصری عدلیہ کو کبھی توفیق نہ ہوئی اورنہ ہوگی کہ وہ مصری جرنل سے سوال کرے کہ جمہوری حکومت کا تختہ پلٹناآئین کی کس رو سے اورکس شق اورفعہ سے جائز ہے۔

مصر کے غیرمسلم:مصر میں عیسائیوں خصوصاقبطی عیسائیوں کی بہت بڑی تعداد ہے۔ یہ عام عیسائیوں سے تھوڑاالگ عقیدہ رکھتے ہیں اوران کا پوپ بھی الگ ہوتاہے۔مرسی کے صدر بننے کے بعد ان کو خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں ان کے مفادات کو خطرہ نہ ہوجائے ۔بہرحال ایک غیرمسلم ذہنیت سیکولر ازم کو اپنے لئے زیادہ محفوظ تصور کرتاہے۔انہوں نے بھی صدر مرسی کے خلاف محاذ کھول دیا۔واضح رہے کہ مصر کے قبطی عیسائی وہاں کے میڈیا پرچھائے ہوئے ہیں ۔انہوں نے تحریک تمرد کا بھرپور ساتھ دیا۔

سلفی نورپارٹی:جمہوری انتخاب میں یہ سلفی پارٹی دوسری بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ اولاتواخوان کے حلیف بنے مگر جب سعودی عرب کاچشم وابرو بدلاتویہ سلفی پارٹی بھی لادین تحریک تمرد کے ساتھ ہوگئی اوران کی حلیف بن گئی۔ اس کی وجہ سے مرسی کے مخالفین کو یہ کہنے کامزید موقع مل گیاکہ ان کے اسلام پسند حلیف بھی ان کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں۔

کل ملاکر یہ کہاجاسکتاہے کہ مرسی کو اندرونی اوربیرونی دونوں محاذ پر مخالفت کاسامناتھا۔انہوں نے مقدور بھر ان مخالفتوں کی مزاحمت کی لیکن جب باڑھ ہی کھیت چڑنے لگے توپھر کیاعلاج ۔ وہ فوج جس کو ملک کی سرحدوں کی حفاظت کیلئے رکھاجاتاہے وہی آئین کو توڑنے کاکام انجام دے اوربغاوت کرے تواس سے نپٹ پاناکسی بھی پارٹی کیلئے نہایت مشکل ہے۔
مرسی کے حامیوں پر جس ظالمانہ طریقے سے عبدالفتاح السیسی نے کارروائی کی ہے اس نے چنگیز اورہلاکو کے مظالم کی یاد تازہ کردی ہے۔ لیکن یہ واقعہ اس لئے زیادہ اذیت ناک ہے چنگیز اورہلاکو غیرمسلم تھے لیکن ایک کلمہ گوفوجی نے جس طرح اسلام پسندوں پر گولیاں چلائیں اوران کو بھیڑ بکڑی کی طرح شہید کیا۔ عہد حاضر میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اگراس کی کوئی مثال ملتی ہے تو وہ چین کے اسکوائر والے واقعہ میں جہاں فوجیوں پر حکومت نے ٹینک چڑھادی تھی یاپھر شام کے موجودہ ڈکیٹر اورظالم بشارالاسد کے عہدباپ حافظ اسد نے جب احتجاجیوں کو بے دریغ قتل کیاتھااوراحتجاج کی پاداش میں 30ہزار افراد کو فناکے گھاٹ اتاردیاتھا۔

مصری فوج کے اخوانیوں کے قتل عام پر جس طرح گلف میں برسراقتدار طبقہ نے خوشیاں منائیں اوربڑھ چڑھ کر مصری حکومت کی مدد کی۔ وہ ایک مثال ہے کہ جب حب جاہ دلوں میں جاگزیں ہوتاہے توپھر انسان کس حد تک گرسکتاہے ۔خلجی ممالک کے حکمرانوں نے صرف اتناہی نہیں کیابلکہ اپنے دولت پر پلنے والے اہل قلم کو اشارہ بھی کیاگیاکہ اخوانیوں پر تہمت تراشی کی جائے۔ ان کی کردارکشی کی جائے ان کو ظالم وغاصب ثابت کیاجائے۔ یعنی ظلم بھی اخوانیوں پر ہوا اورظالم بھی وہی قرارپائے۔

وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا
اس کے بعد تو مدنی سلفی حضرات کے تحریریں دھڑادھڑ شائع ہونے لگیں جس میں یہ ثابت کرنے کی پرزور مگر لایعنی کوشش کی گئی کہ اخوانی ایسے تھے ویسے۔ان سے قرآن وسنت کی خالص دعوت کو خطرہ تھا۔ابھی حال میں سرفراز فیضی نے عبدالمعید مدنی کا ایک مضمون نشر کیاہے پڑھئے اورسوچئے کہ قلم کو گروی رکھنے اورریال کے چند سکوں کے بدلے ضمیر بیچنے کا کتنااچھامظاہر ہ ہے؟

ابھی حال میں ایک مصری اخبار میں ایک کویتی مدیراحمد جاراللہ کی ایک تحریر شائع ہوئی ہے ''شکرالکم یااقباط مصر''
اے قبطیو تمہاراشکریہ
اس کے بعد مضمون میں اسی کااعادہ کیاگیاہے کہ اگراخوان مزید برسراقتدار رہتے توتمہاراملک تباہ ہوجاتا،تمہاری ترقی کی رفتار رک جاتی۔ ملک میں ہرجگہ قتل وغارت گری ہوتی تم نے بہت اچھاکیاکہ ان کو چلتاکردیا۔تمہاری فوج نے بہت اچھاکیاکہ اخوانیوں کو زنداں میں ڈھکیل دیا۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سب لکھنے کے بعدیہ خبیث مزید لکھتاہے کہ
جہاں تک رجب طیب ارگان کی بات ہے تواس پر توجہ مت دو وہ دل اورذہن سے اخوانی ہے اس کے بعد رجب طیب اردوگان کے خلاف زہرافشانی ہے کہ اس نے خود احتجاجیوں پر مظالم کئے ہیں لہذا اس کو مصری فوج کے خلاف بولنے کا حق نہیں ہے۔

کوئی ا س بے غیرت اورضمیرفروش احمدجاراللہ کویتی سے پوچھے کہ ترکی میںجوسلوک مظاہرین کے ساتھ کیاگیاکیاوہی سلوک اخوانیوں کے ساتھ کیاجارہاہے؟کیاترکی مظاہرین کے لیڈروں کو جیل میں اذیت دی جارہی ہے؟۔ کیامظاہرین کے لیڈران کی جیل سے لاشیں باہر آرہی ہیں؟۔ کیامظاہروں پرپابندی عائد کردی ہے؟۔مظاہروں میں حصہ لینے والوں کی جائیداد ضبط کرلی گئی ہے۔ کچھ توشرم اورغیرت اے احمدجاراللہ۔

مسئلہ صرف ایک احمدجاراللہ اورعبدالمعید مدنی کا نہیں ہے بلکہ ریال کے ٹکروں پر پلنے والے نہ جانے کتنے سینکڑوں اورہزاروں احمدجاراللہ اورعبدالمعید مدنی ہمارے سامنے ہیں۔ بے ریش بھی اورباریش بھی ۔جنہوں نے چند روپیوں کے عوض اپناضمیر بیچ دیاہے۔

یہ عجیب بات ہے کہ ہندوستان میں مرکزی جمعیت اہل حدیث، پاکستان کی مرکزی جمیعت اہل حدیث ہندوستان کے دیوبندی حضرات ،پاکستان کے دیوبندی حضرات سب اس مسئلہ پر خاموش ہیں کسی کے زبان قلم سے ایک لفظ نہیں نکل رہاہے کیونکہ جانتے ہیں کہ اگرانہوں نے کچھ لکھاتویہ بات سفارت خانہ نوٹ کرے گا اورپھر ان کے ریال ودینار کی درآمد بند ہوجائے گی؟

صرف ان دونوں کو ہی کیوں کہاجائے ،جماعت اسلامی جوخود کو اخوان کامماثل سمجھتی ہے اس نے بھی نہایت نرم لفظوں میں احتجاج کیاہے۔کیونکہ ان کی بھی مالی مجبوریاں ان کومجبورکررہی ہیں کہ وہ اس مسئلہ میں ایک حد سے آگے نہ جائیں۔

امریکی مظالم پر احتجاج کا طوفان برپاکرنے والو!کیوں تمہاری زبانیں آج مصری فوج کے مظالم پر بند ہیں ۔آج کیوں تم نے اپنے زبانوں کو تالے لگالئے ہیں۔ کس کی دولت کے رعب نے تمہاری زبانوں کو خاموش کردیاہے؟کچھ توبولو!
کل قیامت میں جب رب ذوالجلال پوچھے گاکہ ایک اسلام کا نام لیوا شہید کیاجارہاتھااوراس وقت تم نے نہ صرف اسے دل سے برانہ سمجھابلکہ زبان وقلم سے اس کی بھی تائید کی صرف چند سکوں کیلئے؟تواس وقت کیاجواب ہوگا؟یہی کہ ہمیں ایساکرنے کو فلاں فضیلة الشیخ اورفلاں معالی الشیخ نے کہاتھا اورفلاں سماحة الشیخ کا اشارہ ہواتھا۔


بات پھر مصر پر کرتاہوں۔ آج ہمیں سمجھایاجارہاہے اوربتایاجارہاہے کہ سعودی عرب شام کے صدربشارالاسد کے خلاف شام کے سنیوں کی مدد کررہاہے لہذاہمیں سعودی عرب کے اقدامات کی تائید کرنی چاہئے۔

لیکن کوئی ہمیں یہ توسمجھائے کہ مرسی جب بشارالاسد کے خلاف اسٹینڈ لے رہے تھے اورشام کی حکومت کے خلاف اقدامات کررہے تھے تواس وقت سعودی عرب نے مرسی کی حمایت کیوں نہ کی۔ اس کے بدلے جنرل عبدالفتاح السیسی کی حمایت کیوں کی جس نے شام کے معاملے پر خود کو لاتعلق رکھاہے؟

حقیقت وہی ہے جو میں نے پہلے ایک فورم پر لکھاتھاوراس سے کچھ شاہ نواز حضرات کے جذبات کو تکلیف پہنچی تھی کہ

مفادات کے حمام میں سب ننگے ہیں چاہے سعودی کے قرآن وسنت کے داعی شاہ ہوں،کویت کے امیر ہوں، ایران کے روحانی وخامنہ ای ہوں،شام کے بشارالاسد ہوں۔یہ لوگ اپنے مفادات کیلئے اپنے اقتدار کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہرایک نے اپنے چہرے پر نقاب ڈالی ہوئی ہے کسی نے قرآن وسنت کی ،کسی نے سیکولرازام کی، کسی نے کسی اورچیز کی۔ لیکن سب کے سب ننگے ہیں،قبائے انسانیت سے عاری اورجامہ بشریت سے خالی۔
 
بلکہ ریال کے ٹکروں پر پلنے والے نہ جانے کتنے سینکڑوں اورہزاروں احمدجاراللہ اورعبدالمعید مدنی ہمارے سامنے ہیں۔ بے ریش بھی اورباریش بھی ۔جنہوں نے چند روپیوں کے عوض اپناضمیر بیچ دیاہے۔

یہ عجیب بات ہے کہ ہندوستان میں مرکزی جمعیت اہل حدیث، پاکستان کی مرکزی جمیعت اہل حدیث ہندوستان کے دیوبندی حضرات ،پاکستان کے دیوبندی حضرات سب اس مسئلہ پر خاموش ہیں کسی کے زبان قلم سے ایک لفظ نہیں نکل رہاہے کیونکہ جانتے ہیں کہ اگرانہوں نے کچھ لکھاتویہ بات سفارت خانہ نوٹ کرے گا اورپھر ان کے ریال ودینار کی درآمد بند ہوجائے گی؟

صرف ان دونوں کو ہی کیوں کہاجائے ،جماعت اسلامی جوخود کو اخوان کامماثل سمجھتی ہے اس نے بھی نہایت نرم لفظوں میں احتجاج کیاہے۔کیونکہ ان کی بھی مالی مجبوریاں ان کومجبورکررہی ہیں کہ وہ اس مسئلہ میں ایک حد سے آگے نہ جائیں۔

امریکی مظالم پر احتجاج کا طوفان برپاکرنے والو!کیوں تمہاری زبانیں آج مصری فوج کے مظالم پر بند ہیں ۔آج کیوں تم نے اپنے زبانوں کو تالے لگالئے ہیں۔ کس کی دولت کے رعب نے تمہاری زبانوں کو خاموش کردیاہے؟کچھ توبولو!
کل قیامت میں جب رب ذوالجلال پوچھے گاکہ ایک اسلام کا نام لیوا شہید کیاجارہاتھااوراس وقت تم نے نہ صرف اسے دل سے برانہ سمجھابلکہ زبان وقلم سے اس کی بھی تائید کی صرف چند سکوں کیلئے؟تواس وقت کیاجواب ہوگا؟یہی کہ ہمیں ایساکرنے کو فلاں فضیلة الشیخ اورفلاں معالی الشیخ نے کہاتھا اورفلاں سماحة الشیخ کا اشارہ ہواتھا۔


بات پھر مصر پر کرتاہوں۔ آج ہمیں سمجھایاجارہاہے اوربتایاجارہاہے کہ سعودی عرب شام کے صدربشارالاسد کے خلاف شام کے سنیوں کی مدد کررہاہے لہذاہمیں سعودی عرب کے اقدامات کی تائید کرنی چاہئے۔

لیکن کوئی ہمیں یہ توسمجھائے کہ مرسی جب بشارالاسد کے خلاف اسٹینڈ لے رہے تھے اورشام کی حکومت کے خلاف اقدامات کررہے تھے تواس وقت سعودی عرب نے مرسی کی حمایت کیوں نہ کی۔ اس کے بدلے جنرل عبدالفتاح السیسی کی حمایت کیوں کی جس نے شام کے معاملے پر خود کو لاتعلق رکھاہے؟

حقیقت وہی ہے جو میں نے پہلے ایک فورم پر لکھاتھاوراس سے کچھ شاہ نواز حضرات کے جذبات کو تکلیف پہنچی تھی کہ

مفادات کے حمام میں سب ننگے ہیں چاہے سعودی کے قرآن وسنت کے داعی شاہ ہوں،کویت کے امیر ہوں، ایران کے روحانی وخامنہ ای ہوں،شام کے بشارالاسد ہوں۔یہ لوگ اپنے مفادات کیلئے اپنے اقتدار کیلئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہرایک نے اپنے چہرے پر نقاب ڈالی ہوئی ہے کسی نے قرآن وسنت کی ،کسی نے سیکولرازام کی، کسی نے کسی اورچیز کی۔ لیکن سب کے سب ننگے ہیں،قبائے انسانیت سے عاری اورجامہ بشریت سے خالی۔

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔۔۔
 
Top