ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
احبابِ کرام ! چند سال پرانی ایک غزل آج نظر آئی تو جی چاہا کہ اسے آپ کے ذوق کی نظر کیا جائے۔ ان اشعار کا لہجہ آپ کو میرے عمومی لہجے سے ذرا مختلف محسوس ہوگا ۔ اپنی قابلِ قدر آرا سے نوازیے گا۔غزل پیشِ خدمت ہے!
گر قبول افتد زہے عز و شرف!
گر قبول افتد زہے عز و شرف!
٭٭٭
مشعلِ دل جلا کے لائے ہیں
ہم سندیسے ضیا کے لائے ہیں
جن سے اُمید تھی چراغوں کی
وہ تھپیڑے ہوا کے لائے ہیں
ایک دن یہ بھی چھین لے گا وقت
ہم جو لمحے چُرا کے لائے ہیں
چھوڑ کر جا چکا تھا میں خود کو
لوگ سمجھا بجھا کے لائے ہیں
بزمِ دنیا سے اور کیا ملتا
اپنے دل کو اٹھا کے لائے ہیں
۔ق۔
کرکے ناراض ہر خوشی کو ہم
تیرے غم کو منا کے لائے ہیں
کارگاہِ خیال و خواب سے ہم
ایک دنیا بنا کے لائے ہیں
اک شکستہ پرانے کاغذ پر
نقشِ تازہ سجا کے لائے ہیں
آگہی مرگئی تھی فاقوں سے
اُس کی میّت اٹھا کے لائے ہیں
سیم و زر کی فریب گاہوں سے
سنگِ عبرت اٹھاکے لائے ہیں
دن کو تسخیر کرنے نکلے تھے
شامِ غربت کما کے لائے ہیں
-
اتنی سفاک تھی انا کی جنگ
خود کو خود سے بچا کے لائے ہیں
اور کیا تھا ظہیؔر اپنے پاس
چند ٹکڑے انا کے لائے ہیں
٭٭٭
ظہیؔر احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۲۱ ء
مشعلِ دل جلا کے لائے ہیں
ہم سندیسے ضیا کے لائے ہیں
جن سے اُمید تھی چراغوں کی
وہ تھپیڑے ہوا کے لائے ہیں
ایک دن یہ بھی چھین لے گا وقت
ہم جو لمحے چُرا کے لائے ہیں
چھوڑ کر جا چکا تھا میں خود کو
لوگ سمجھا بجھا کے لائے ہیں
بزمِ دنیا سے اور کیا ملتا
اپنے دل کو اٹھا کے لائے ہیں
۔ق۔
کرکے ناراض ہر خوشی کو ہم
تیرے غم کو منا کے لائے ہیں
کارگاہِ خیال و خواب سے ہم
ایک دنیا بنا کے لائے ہیں
اک شکستہ پرانے کاغذ پر
نقشِ تازہ سجا کے لائے ہیں
آگہی مرگئی تھی فاقوں سے
اُس کی میّت اٹھا کے لائے ہیں
سیم و زر کی فریب گاہوں سے
سنگِ عبرت اٹھاکے لائے ہیں
دن کو تسخیر کرنے نکلے تھے
شامِ غربت کما کے لائے ہیں
-
اتنی سفاک تھی انا کی جنگ
خود کو خود سے بچا کے لائے ہیں
اور کیا تھا ظہیؔر اپنے پاس
چند ٹکڑے انا کے لائے ہیں
٭٭٭
ظہیؔر احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۲۱ ء