مشن کرونا،

سال 2021 : مشن کرونا امیدوں سے زیادہ کامیاب رہا، دسمبر 2020 میں بل گیٹس فاونڈیشن کی بنائی گئی ویکسین پوری دنیا کے بچے بچے کو لگا دی گئی اوراسکی چپ مکمل ایکٹویٹ ہو چکی ہیں۔

فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ واشنگٹن میں بیٹھے بل گیٹس نے امریکی صدر کو جو کہ سر جھکا کے کھڑا تھا کو اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا جس پر ٹرمپ غصے سے پھنکارا لیکن ہنستے ہوئے بل گیٹس نے اپنی گھڑی کا ایک بٹن دبایا اور ٹرمپ ایک روبوٹ کی طرح چلتا ہوا گیٹس کے قدموں میں گر گیا ٹرمپ کی تکلیف شکل سے عیاں تھی کپکپاتے ہونٹوں کے ساتھ وہ بولا تم بے ہم کو تو غلام بنا لیا تم دنیا کو بھی غلام بنا لو لیکن مجاہدوں کی ایک قوم پاکستان میں موجود ہے جو کبھی بھی تمہارے مکروہ عزائم کو کامیاب نہ ہونے دے گی۔

یہ سن کر گیٹس آپے سے باہر ہو گیا اور اس نے آرنلڈ کو بلا کر ٹرمپ کی *تونڑی* لگوائی اور تکبرانہ لہجے میں ٹرمپ کو بڑی سکرین کی طرف دیکھنے کا کہا جس پر پاکستان کا نقشہ نظر آ رہا تھا۔


بل گیٹس نے اپنے لیپ ٹاپ کے چند بٹن دبائے تو ونڈو ہینگ ہو گئی اس نے فورس ری سٹارٹ کیا اور دوبارہ نقشہ سامنے آنے لگا اس نے گوگل نیویگیشن کی مدد سے پاکستان میں بنی لاہور وزیر اعلی ہاوس کا ایڈریس ڈالا اور سکرین پر عثمان بزدار نظر آنے لگے جو اس وقت صوفے پر آلتی پالتی مار کر امب چوپ رہے تھے۔ بل گیٹس نے چند بٹن ٹائپ کرنے کے بعد اپنی گھڑی پر ایک بٹن دبایا ، لیکن یہ کیا عثمان بزدار پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ امب ہی چوپتے رہے یہ منظر دیکھ کر ٹرمپ مسکرایا جبکہ بل گیٹس کی ہوائیاں اڑنے لگیں۔

اس نے فورا بنی گالہ کا ایڈریس ٹائپ کیا جہاں اس وقت کپتان اپنے کتے کو جپھی ڈال کر جوگرز پہن کر بیڈ پر رالیں ٹپکاتے سوئے پڑے تھے ان سے کچھ فاصلے پر شاید نمک کی تھیلی بھی موجود تھی بل گیٹس نے وہی بٹن ٹائپ کیے اور گھڑی کا بٹن دبایا لیکن نتیجہ وہی پھر اچانک ایک کونے سے مراد سعید برآمد ہوا جس کے پیچھے فواد چوہدری بھی ہنستا ہوا سکرین پر نمودار ہوا یہ دونوں سکرین کی طرف دیکھ کر ہنس رہے تھے کہ انکی آواز سے کپتان بھی جاگ گیا اس سے قبل کہ بل گیٹس کو کچھ سمجھ آتا پیچھے سے صابر شاکر بھی چچ چچ کی آواز نکالتے ہوئے برآمد ہوئے یہ منظر دیکھ کر بل گیٹس گھبرا گیا اور سکرین بند کر دی۔

سر کو تھامے وہ پریشان بیٹھا تھا اور اسی حالت میں اس نے مارک زنگر برگر کو فون ملایا اور ہیلو کی آواز سنتے ہی مارک نے کہا *گیٹس پاکستان نے ہمارا منصوبہ ناکام کر دیا* گیٹس ہکلاتے ہوئے بولا لیکن کیسے ؟ تو مارک نے جواب دیا یہ سب حقیقت ٹی وی کا کیا دھرا ہے اس نے ہمارا منصوبہ یو ٹیوب چینل پر بے نقاب کر دیا تھا جس کے بعد پاکستانی ہوشیار ہو گئے تھے اور جب ویکسین وہاں پہنچی تو فواد چوہدری نے ویکسین میں سے چپ نکال کر ویکسین کو پاک کر دیا۔

بل گیٹس آنکھیں ملنے لگا اور پوچھا کہ وہ ویکسین کی نکالی گئی چپ کہاں ہے لیکن دوسری جانب سے کوئی جواب نہ آیا بل گیٹس گھبرائی آواز میں ہیلو ہیلو بولنے لگا لیکن کوئی رسپانس نہیں کہ اچانک اس کے سر میں درد اٹھی اور اسنے محسوس کیا وہ اپنی مرضی کے بغیر زمین پر سر جھکائے بیٹھ گیا ہے اسکو پیچھے سے ہنسنے کی آواز آئی اسے ٹیبل کے شیشے پر ایک عکس نظر آیا *او مائی گاڈ تم؟* ۔۔۔ بل گیٹس چیخا۔۔۔


سامنے جھیل والا ڈاکٹر ہنستا جا رہا تھا اس نے فون پر کسی کو جواب دیا *جاب ڈن* اوور اینڈ آؤٹ، آگے سے جواب آیا *گڈ جاب جوان* اور دوسری طرف فاتحانہ قہقہے بلند ہوئے جن کی آواز آبپارہ چوک تک سنی گئی۔

۔۔۔۔

ٹویٹر سے کاپی شدہ
 

جاسم محمد

محفلین

سیما علی

لائبریرین
QUOTE="عبدالقیوم چوہدری, post: 2243945, member: 7743"]سال 2021 : مشن کرونا امیدوں سے زیادہ کامیاب رہا، دسمبر 2020 میں بل گیٹس فاونڈیشن کی بنائی گئی ویکسین پوری دنیا کے بچے بچے کو لگا دی گئی اوراسکی چپ مکمل ایکٹویٹ ہو چکی ہیں۔

فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ واشنگٹن میں بیٹھے بل گیٹس نے امریکی صدر کو جو کہ سر جھکا کے کھڑا تھا کو اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا جس پر ٹرمپ غصے سے پھنکارا لیکن ہنستے ہوئے بل گیٹس نے اپنی گھڑی کا ایک بٹن دبایا اور ٹرمپ ایک روبوٹ کی طرح چلتا ہوا گیٹس کے قدموں میں گر گیا ٹرمپ کی تکلیف شکل سے عیاں تھی کپکپاتے ہونٹوں کے ساتھ وہ بولا تم بے ہم کو تو غلام بنا لیا تم دنیا کو بھی غلام بنا لو لیکن مجاہدوں کی ایک قوم پاکستان میں موجود ہے جو کبھی بھی تمہارے مکروہ عزائم کو کامیاب نہ ہونے دے گی۔

یہ سن کر گیٹس آپے سے باہر ہو گیا اور اس نے آرنلڈ کو بلا کر ٹرمپ کی *تونڑی* لگوائی اور تکبرانہ لہجے میں ٹرمپ کو بڑی سکرین کی طرف دیکھنے کا کہا جس پر پاکستان کا نقشہ نظر آ رہا تھا۔


بل گیٹس نے اپنے لیپ ٹاپ کے چند بٹن دبائے تو ونڈو ہینگ ہو گئی اس نے فورس ری سٹارٹ کیا اور دوبارہ نقشہ سامنے آنے لگا اس نے گوگل نیویگیشن کی مدد سے پاکستان میں بنی لاہور وزیر اعلی ہاوس کا ایڈریس ڈالا اور سکرین پر عثمان بزدار نظر آنے لگے جو اس وقت صوفے پر آلتی پالتی مار کر امب چوپ رہے تھے۔ بل گیٹس نے چند بٹن ٹائپ کرنے کے بعد اپنی گھڑی پر ایک بٹن دبایا ، لیکن یہ کیا عثمان بزدار پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ امب ہی چوپتے رہے یہ منظر دیکھ کر ٹرمپ مسکرایا جبکہ بل گیٹس کی ہوائیاں اڑنے لگیں۔

اس نے فورا بنی گالہ کا ایڈریس ٹائپ کیا جہاں اس وقت کپتان اپنے کتے کو جپھی ڈال کر جوگرز پہن کر بیڈ پر رالیں ٹپکاتے سوئے پڑے تھے ان سے کچھ فاصلے پر شاید نمک کی تھیلی بھی موجود تھی بل گیٹس نے وہی بٹن ٹائپ کیے اور گھڑی کا بٹن دبایا لیکن نتیجہ وہی پھر اچانک ایک کونے سے مراد سعید برآمد ہوا جس کے پیچھے فواد چوہدری بھی ہنستا ہوا سکرین پر نمودار ہوا یہ دونوں سکرین کی طرف دیکھ کر ہنس رہے تھے کہ انکی آواز سے کپتان بھی جاگ گیا اس سے قبل کہ بل گیٹس کو کچھ سمجھ آتا پیچھے سے صابر شاکر بھی چچ چچ کی آواز نکالتے ہوئے برآمد ہوئے یہ منظر دیکھ کر بل گیٹس گھبرا گیا اور سکرین بند کر دی۔

سر کو تھامے وہ پریشان بیٹھا تھا اور اسی حالت میں اس نے مارک زنگر برگر کو فون ملایا اور ہیلو کی آواز سنتے ہی مارک نے کہا *گیٹس پاکستان نے ہمارا منصوبہ ناکام کر دیا* گیٹس ہکلاتے ہوئے بولا لیکن کیسے ؟ تو مارک نے جواب دیا یہ سب حقیقت ٹی وی کا کیا دھرا ہے اس نے ہمارا منصوبہ یو ٹیوب چینل پر بے نقاب کر دیا تھا جس کے بعد پاکستانی ہوشیار ہو گئے تھے اور جب ویکسین وہاں پہنچی تو فواد چوہدری نے ویکسین میں سے چپ نکال کر ویکسین کو پاک کر دیا۔

بل گیٹس آنکھیں ملنے لگا اور پوچھا کہ وہ ویکسین کی نکالی گئی چپ کہاں ہے لیکن دوسری جانب سے کوئی جواب نہ آیا بل گیٹس گھبرائی آواز میں ہیلو ہیلو بولنے لگا لیکن کوئی رسپانس نہیں کہ اچانک اس کے سر میں درد اٹھی اور اسنے محسوس کیا وہ اپنی مرضی کے بغیر زمین پر سر جھکائے بیٹھ گیا ہے اسکو پیچھے سے ہنسنے کی آواز آئی اسے ٹیبل کے شیشے پر ایک عکس نظر آیا *او مائی گاڈ تم؟* ۔۔۔ بل گیٹس چیخا۔۔۔


سامنے جھیل والا ڈاکٹر ہنستا جا رہا تھا اس نے فون پر کسی کو جواب دیا *جاب ڈن* اوور اینڈ آؤٹ، آگے سے جواب آیا *گڈ جاب جوان* اور دوسری طرف فاتحانہ قہقہے بلند ہوئے جن کی آواز آبپارہ چوک تک سنی گئی۔
۔۔۔۔
ٹویٹر سے کاپی شدہ[/QUOTE]
چوہدری صاحب!!
“عثمان بزدار نظر آنے لگے جو اس وقت صوفے پر آلتی پالتی مار کر امب چوپ رہے تھے۔ “
بہت اعلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔:laughing3::laughing3:
 

سیما علی

لائبریرین

مشن امپاسیبل سیون: کریو کو بچانے کے لیے 'وائرس فری ویلیج' بنانے کا فیصلہ

وائس آف امریکہ
جون 05, 2020

سلور اسکرین پر دشمن کے چھکے چھڑانے والے ہالی وڈ اداکار ٹام کروز حقیقی زندگی میں 'کرونا وائرس فری ویلیج' بسانے جا رہے ہیں یعنی ایک ایسا گاؤں جو کرونا وائرس سے پوری طرح محفوظ ہو گا۔


ٹام کروز برطانیہ کی کاؤنٹی آکسفرڈ شائر میں وائرس فری ویلیج بسانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

یہ گاؤں عارضی ہو گا اور اسے بسانے کا مقصد ان کی فلمی سیریز 'مشن امپاسیبل' کی ساتویں فلم کے عملے اور اداکاروں کو مہلک وبا سے محفوظ رکھنا ہے تاکہ ستمبر سے 'مشن امپاسیبل سیون' کی شوٹنگ کا آغاز ہو سکے۔

فلم کا تمام عملہ اور کاسٹ فلم کی تکمیل تک اسی عارضی گاؤں میں قیام کریں گے۔

ٹام کروز 'مشن امپاسیبل' سیریز کے ہیرو ہونے کے ساتھ ساتھ پروڈیوسر بھی ہیں جو یہ 'کرونا فری ویلیج' برطانوی رائل ایئر فورس کی ایک متروکہ اراضی پر تعمیر کریں گے۔

725126ED-994B-4EEA-931F-38795C15491A_w1080_h608_s.jpg

کرونا وائرس کی وبا کے زور پکڑنے کے بعد دیگر ٹی وی شوز اور فلموں کی طرح 'مشن امپاسیبل سیون' کی شوٹنگ بھی روک دی گئی تھی۔ فلم کی شوٹنگ اٹلی میں ہونا تھی لیکن اٹلی کے کرونا وائرس سے بری طرح متاثر ہونے کے بعد فلم کی شوٹنگ برطانیہ منتقل کر دی گئی تھی۔

ٹام کروز کا 'کرونا فری گاؤں' تعمیر کرنے کا منصوبہ دراصل فلم کی شوٹنگ کو دوبارہ معمول پر لانے کی کوشش ہے۔

عارضی ویلیج میں کاسٹ کو وی آئی پی انداز میں ٹریٹ کیا جائے گا جس سے فلم کی لاگت اور اخراجات میں اضافہ ہوجائے گا۔ لیکن چوں کہ وبا کے باعث ہوٹلز بھی بند ہیں اس لیے یہ ویلیج ہوٹلز کا متبادل ثابت ہو گا اور ہوٹلنگ کی مد میں مختص بجٹ یہاں استعمال کیا جاسکے گا۔

871C3FBE-9375-4276-9527-CC2EC071025B_w1080_h608_s.jpg

فلم سے وابستہ مختلف شخصیات کا کہنا ہے کہ فلم کی شوٹنگ میں بہت زیادہ تاخیر ہو چکی ہے اور مزید تاخیر ناقابلِ برداشت ہو جائے گی۔

یاد رہے کہ مشن امپاسیبل سیریز کی ساتویں فلم کی ریلیز 30 جولائی 2021 کو شیڈول تھی لیکن تاخیر کے سبب اب یہ فلم 19 نومبر 2021 کو ریلیز ہو سکے گی۔

ٹام کروز کے علاوہ 'مشن امپاسیبل 7' کی کاسٹ میں سائمن پیگ، ایلک بالڈون، ونیزا کربی اور ریبیکا فرگوسن شامل ہیں۔

ٹام کروز نے گزشتہ ماہ امریکی خلائی ادارے 'ناسا' کے ساتھ مل کر ایک فلم خلا میں شوٹ کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔
 
آخری تدوین:
مشن امپاسیبل سیون: کریو کو بچانے کے لیے 'وائرس فری ویلیج' بنانے کا فیصلہ
وائس آف امریکہ
جون 05, 2020

سلور اسکرین پر دشمن کے چھکے چھڑانے والے ہالی وڈ اداکار ٹام کروز حقیقی زندگی میں 'کرونا وائرس فری ویلیج' بسانے جا رہے ہیں یعنی ایک ایسا گاؤں جو کرونا وائرس سے پوری طرح محفوظ ہو گا۔


ٹام کروز برطانیہ کی کاؤنٹی آکسفرڈ شائر میں وائرس فری ویلیج بسانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

یہ گاؤں عارضی ہو گا اور اسے بسانے کا مقصد ان کی فلمی سیریز 'مشن امپاسیبل' کی ساتویں فلم کے عملے اور اداکاروں کو مہلک وبا سے محفوظ رکھنا ہے تاکہ ستمبر سے 'مشن امپاسیبل سیون' کی شوٹنگ کا آغاز ہو سکے۔

فلم کا تمام عملہ اور کاسٹ فلم کی تکمیل تک اسی عارضی گاؤں میں قیام کریں گے۔

ٹام کروز 'مشن امپاسیبل' سیریز کے ہیرو ہونے کے ساتھ ساتھ پروڈیوسر بھی ہیں جو یہ 'کرونا فری ویلیج' برطانوی رائل ایئر فورس کی ایک متروکہ اراضی پر تعمیر کریں گے۔

725126ED-994B-4EEA-931F-38795C15491A_w1080_h608_s.jpg

کرونا وائرس کی وبا کے زور پکڑنے کے بعد دیگر ٹی وی شوز اور فلموں کی طرح 'مشن امپاسیبل سیون' کی شوٹنگ بھی روک دی گئی تھی۔ فلم کی شوٹنگ اٹلی میں ہونا تھی لیکن اٹلی کے کرونا وائرس سے بری طرح متاثر ہونے کے بعد فلم کی شوٹنگ برطانیہ منتقل کر دی گئی تھی۔

ٹام کروز کا 'کرونا فری گاؤں' تعمیر کرنے کا منصوبہ دراصل فلم کی شوٹنگ کو دوبارہ معمول پر لانے کی کوشش ہے۔

عارضی ویلیج میں کاسٹ کو وی آئی پی انداز میں ٹریٹ کیا جائے گا جس سے فلم کی لاگت اور اخراجات میں اضافہ ہوجائے گا۔ لیکن چوں کہ وبا کے باعث ہوٹلز بھی بند ہیں اس لیے یہ ویلیج ہوٹلز کا متبادل ثابت ہو گا اور ہوٹلنگ کی مد میں مختص بجٹ یہاں استعمال کیا جاسکے گا۔

871C3FBE-9375-4276-9527-CC2EC071025B_w1080_h608_s.jpg

فلم سے وابستہ مختلف شخصیات کا کہنا ہے کہ فلم کی شوٹنگ میں بہت زیادہ تاخیر ہو چکی ہے اور مزید تاخیر ناقابلِ برداشت ہو جائے گی۔

یاد رہے کہ مشن امپاسیبل سیریز کی ساتویں فلم کی ریلیز 30 جولائی 2021 کو شیڈول تھی لیکن تاخیر کے سبب اب یہ فلم 19 نومبر 2021 کو ریلیز ہو سکے گی۔

ٹام کروز کے علاوہ 'مشن امپاسیبل 7' کی کاسٹ میں سائمن پیگ، ایلک بالڈون، ونیزا کربی اور ریبیکا فرگوسن شامل ہیں۔

ٹام کروز نے گزشتہ ماہ امریکی خلائی ادارے 'ناسا' کے ساتھ مل کر ایک فلم خلا میں شوٹ کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔
مشن امپاسبل بھی اچھی سیریز ہے۔ لیکن میں ڈبل او سیون کی نئی فلم کا منتظر ہوں۔
 

سیما علی

لائبریرین
مشن امپاسبل بھی اچھی سیریز ہے۔ لیکن میں ڈبل او سیون کی نئی فلم کا منتظر ہوں۔
سر یہ مجھ سے دوبار لکھ گئی مگر بار بار کوشش کے باوجود تدوین نہ ہو اسکی کہیں غلطی ہو مجھ سے کیو نکہ ہم پرانے لوگ آئی ٹی کے اس طرح ماہر نہی جسطرح بچے ماہر ہیں۔۔۔۔۔۔
 
سر یہ مجھ سے دوبار لکھ گئی مگر بار بار کوشش کے باوجود تدوین نہ ہو اسکی کہیں غلطی ہو مجھ سے کیو نکہ ہم پرانے لوگ آئی ٹی کے اس طرح ماہر نہی جسطرح بچے ماہر ہیں۔۔۔۔۔۔
ایسے مراسلوں کے لیے مراسلے کے آخر میں موجود ٬رپورٹ٬ کا آپشن استعمال کریں۔ مدیران گرامی انھیں ڈیلیٹ کر دیں گے۔

آپ کے دوہرے مراسلے رپورٹ کر دئیے ہیں، امید ہے کہ جلد ہٹا دئیے جائیں گے۔
 

سیما علی

لائبریرین
ایسے مراسلوں کے لیے مراسلے کے آخر میں موجود ٬رپورٹ٬ کا آپشن استعمال کریں۔ مدیران گرامی انھیں ڈیلیٹ کر دیں گے۔

آپ کے دوہرے مراسلے رپورٹ کر دئیے ہیں، امید ہے کہ جلد ہٹا دئیے جائیں گے۔
چوہدری صاحب !!!!
عین نوازش آپ لوگوں سے روز کچھ سیکھتی ہوں جزاک اللہ:flower::flower::flower::flower::flower:
 

سیما علی

لائبریرین
کھایا پیا چین نے، ہاتھ پوری دنیا دھو رہی ہے'
مارچ 31, 2020
004913CA-B887-4EB1-B59F-3ABC4D712D7E_w1080_h608_s.jpg


دنیا بھر میں کرونا وائرس کا پھیلاؤ خوف اور پریشانی کا سبب بن رہا ہے. لیکن، سوشل میڈیا کے جگت باز کسی صورت باز آںے کو تیار نہیں۔

وائرس کے جنم دن سے اب تک مسلسل لطیفے گھڑے جا رہے ہیں، طنز کے تیروں کی برسات ہو رہی ہے اور جملے چست کیے جا رہے ہیں۔ لاک ڈاؤن نے اس سلسلے کو نیا رخ دے کر مہمیز کیا ہے۔ شاعر بھی کسی سے پیچھے نہیں جو صورت حالات پر شعر سنا رہے ہیں اور داد پرواز تخیل پا رہے ہیں۔

رکھا نہ کرونا نے کسی اک کا بھرم بھی
مے خانہ بھی خالی ہے، کلیسا بھی، حرم بھی
ایک صاحب نے اچھا شکوہ کیا:

'کھایا پیا چین نے، ہاتھ پوری دنیا دھو رہی ہے'۔

غالباً کسی کمپیوٹر انجینئر نے سب سے پہلے خدا کو اس جانب متوجہ کیا تھا:
ڈئیر گاڈ، پلیز ان انسٹال 2020 اینڈ ری انسٹال اٹ،
اٹ ہیز اے وائرس'۔

یعنی، اے خدائے بزرگ و برتر، اے دو جہاں کے مالک، اے پالن ہار، اس سال کو اپنے ڈیسک ٹاپ کی ہارڈ ڈسک سے ڈیلیٹ کرکے دوبارہ چالو کر۔ اس میں وائرس گھس آیا ہے۔ یہ سارا کام خراب کردے گا۔ پوری ہارڈ ڈسک، گویا کے یہ زمین تباہ ہوجائے گی۔ پتا نہیں کہ اینٹی وائرس بننے میں کتنا وقت لگے گا۔

لاک ڈاؤن ہوا تو سب کو الطاف حسین کی یاد آئی۔ کسی نے کہا کہ حکومت کی بار بار ہدایت کے باوجود کراچی بند نہیں ہو رہا۔ بھائی کا فون کھلا ہوتا تو پانچ منٹ میں بند کرادیتے۔

کسی نے الطاف حسین کی تصویر لگائی اور لکھا، پروموٹنگ ورک فرام ہوم سنس 1992 گویا یاد دلایا کہ وہ سنہ 1992 سے دور گھر میں بیٹھ کر خدمات انجام دے رہے تھے۔

میمز یعنی جگتیں لگائی جارہی ہوں تو سندھ کے محترم وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کو کون بھول سکتا ہے۔ کم بخت جگت باز ہر اچھے برے وقت میں ان کا نام لے کر لطیفے سناتے رہتے ہیں۔

ایک ستم ظریف نے ان کی تصویر کے ساتھ لکھا: 'کرونا وائرس اگر تافتان سے پھیل رہا ہے تو لوگوں کو چاہیے کہ شیرمال کھائیں'۔

دوسرے نے تجویز دی: 'سکول بند نہ کرو، بس روزانہ صبح گھنٹی مت بجایا کرو۔ کرونا کو کیا پتا کہ سکول کھلا ہے یا بند ہے'۔

8D7FCE48-AF18-45BA-8D01-8CEE1B559454_cx0_cy4_cw100_w1080_h608_s.jpg

جملے چپکانے والے پرانی تصویریں ڈھونڈ کر نئے فقرے کس رہے ہیں۔ کرونا وائرس کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ ڈوبی تو کسی نے ایک ننھے بچے کا فوٹو چھاپا جو لباس سے بے نیاز سڑک پر کہیں جا رہا تھا۔ ساتھ کیپشن لکھا: 'اسٹاک مارکیٹ سے گھر جاتے ہوئے'۔
ایک صاحب کو وہ شخص یاد آیا جس کے کان غیر معمولی طور پر لمبے ہیں۔ انھوں نے لکھا: 'چار دن گھر میں بند ہو کر بیوی کی باتیں سننے کے بعد'۔

کسی فلم بین نے بولی ووڈ کے ولن امرش پوری کی خوفناک تصویر لگائی اور لکھا: 'بیوٹی پارلر بند ہونے سے خواتین کا کیا حال ہوگیا!'

لوگ لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھر میں پڑے پڑے بور ہو رہے ہیں۔ اس عالم میں بھی شاہکار جملے تخلیق کیے جارہے ہیں:

'جلدی سے سو جاؤ، صبح اٹھ کر آرام بھی کرنا ہے'۔
'گھر ٹرین جیسا لگنے لگا ہے، واش روم جاؤ اور پھر واپس آکر سیٹ پر بیٹھ جاؤ۔
باہر نکلو تو کرونا، گھر میں رہو تو یہ کرو نا، وہ کرو نا'۔
کئی لوگوں کو فرصت ملی تو انھوں نے خوب تحقیق کی اور سوشل میڈیا کے دوستوں کو اس میں شریک بھی کیا:

پنکھے کے پر میں نو اسکرو ہوتے ہیں

ٹک بسکٹ میں 31 سوراخ ہوتے ہیں

فل ٹونٹی کھول کر لوٹا بھرنے میں 12 سیکنڈ لگتے ہیں
پنکھا آف کرو تو اسے رکنے میں ایک منٹ پانچ سیکنڈ لگتے ہیں

بیڈروم سے ڈائننگ روم تک کا فاصلہ 25 قدم ہے

دائیں طرف لیٹ کر سونے سے نیند جلدی آتی ہے

لاک ڈاؤن میں گھر سے نکلنے پر پابندی ہے۔ لیکن لوگوں کو اشیائے ضرورت حاصل کرنے کے لیے نکلنا پڑتا ہے۔ پولیس سے ملاقات ہوجائے تو وہ خوب خاطر تواضع کرتی ہے۔ کوئی اس مہمان نوازی سے مستفید ہوکر لوٹا تو یہ شعر ساتھ لایا:

'ایک ہی صف میں مرغا بن گئے محمود و ایاز

نہ کوئی دہی لاسکا، نہ کوئی آلو پیاز'

جن دوستوں کو ستاروں کا حال جاننے کا شوق ہے، ان کے لیے ایک ستارہ شناس نے ہفتے نہیں، پورے مہینے کا حال لکھ دیا ہے:
برج اسد: گھر پر رہیں گے
برج سنبلہ: گھر پر رہیں گے
برج میزان: گھر پر رہیں گے


یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ لطیفے گھڑے جا رہے ہوں تو لوگ اپنی حکومت کو بھول جائیں۔ چنانچہ صولت پاشا صاحب نے فرمایا:
'قیامت کے دن سب نجات طلب کر رہے ہوں گے اور ہماری حکومت چندے کے لیے اوورسیز پاکستانیوں کو ڈھونڈ رہی ہوگی'
ایک مفتی صاحب نے پتا نہیں کرونا وائرس پر طنز کیا یا کسی اور پر:

'کرونا تو ایسے تباہی مچا رہا ہے جیسے بائیس سال جدوجہد کے بعد آیا ہو'

اور معلوم نہیں یہ کس تاریخ داں کا جملہ ہے کہ:

'اس سے پہلے صرف اسلام اتنی تیزی سے پھیلا تھا'

آخر میں ادریس بابر کا شعر جو عالمگیر وبا کے دور میں بھی ہجر کا رونا رو رہے ہیں:

ٹینشن سے مرے گا نہ کرونے سے مرے گا
اک شخص ترے پاس نہ ہونے سے مرے گا
 
کھایا پیا چین نے، ہاتھ پوری دنیا دھو رہی ہے'
مارچ 31, 2020
004913CA-B887-4EB1-B59F-3ABC4D712D7E_w1080_h608_s.jpg


دنیا بھر میں کرونا وائرس کا پھیلاؤ خوف اور پریشانی کا سبب بن رہا ہے. لیکن، سوشل میڈیا کے جگت باز کسی صورت باز آںے کو تیار نہیں۔

وائرس کے جنم دن سے اب تک مسلسل لطیفے گھڑے جا رہے ہیں، طنز کے تیروں کی برسات ہو رہی ہے اور جملے چست کیے جا رہے ہیں۔ لاک ڈاؤن نے اس سلسلے کو نیا رخ دے کر مہمیز کیا ہے۔ شاعر بھی کسی سے پیچھے نہیں جو صورت حالات پر شعر سنا رہے ہیں اور داد پرواز تخیل پا رہے ہیں۔

رکھا نہ کرونا نے کسی اک کا بھرم بھی
مے خانہ بھی خالی ہے، کلیسا بھی، حرم بھی
ایک صاحب نے اچھا شکوہ کیا:

'کھایا پیا چین نے، ہاتھ پوری دنیا دھو رہی ہے'۔

غالباً کسی کمپیوٹر انجینئر نے سب سے پہلے خدا کو اس جانب متوجہ کیا تھا:
ڈئیر گاڈ، پلیز ان انسٹال 2020 اینڈ ری انسٹال اٹ،
اٹ ہیز اے وائرس'۔

یعنی، اے خدائے بزرگ و برتر، اے دو جہاں کے مالک، اے پالن ہار، اس سال کو اپنے ڈیسک ٹاپ کی ہارڈ ڈسک سے ڈیلیٹ کرکے دوبارہ چالو کر۔ اس میں وائرس گھس آیا ہے۔ یہ سارا کام خراب کردے گا۔ پوری ہارڈ ڈسک، گویا کے یہ زمین تباہ ہوجائے گی۔ پتا نہیں کہ اینٹی وائرس بننے میں کتنا وقت لگے گا۔

لاک ڈاؤن ہوا تو سب کو الطاف حسین کی یاد آئی۔ کسی نے کہا کہ حکومت کی بار بار ہدایت کے باوجود کراچی بند نہیں ہو رہا۔ بھائی کا فون کھلا ہوتا تو پانچ منٹ میں بند کرادیتے۔

کسی نے الطاف حسین کی تصویر لگائی اور لکھا، پروموٹنگ ورک فرام ہوم سنس 1992 گویا یاد دلایا کہ وہ سنہ 1992 سے دور گھر میں بیٹھ کر خدمات انجام دے رہے تھے۔

میمز یعنی جگتیں لگائی جارہی ہوں تو سندھ کے محترم وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کو کون بھول سکتا ہے۔ کم بخت جگت باز ہر اچھے برے وقت میں ان کا نام لے کر لطیفے سناتے رہتے ہیں۔

ایک ستم ظریف نے ان کی تصویر کے ساتھ لکھا: 'کرونا وائرس اگر تافتان سے پھیل رہا ہے تو لوگوں کو چاہیے کہ شیرمال کھائیں'۔

دوسرے نے تجویز دی: 'سکول بند نہ کرو، بس روزانہ صبح گھنٹی مت بجایا کرو۔ کرونا کو کیا پتا کہ سکول کھلا ہے یا بند ہے'۔

8D7FCE48-AF18-45BA-8D01-8CEE1B559454_cx0_cy4_cw100_w1080_h608_s.jpg

جملے چپکانے والے پرانی تصویریں ڈھونڈ کر نئے فقرے کس رہے ہیں۔ کرونا وائرس کی وجہ سے اسٹاک مارکیٹ ڈوبی تو کسی نے ایک ننھے بچے کا فوٹو چھاپا جو لباس سے بے نیاز سڑک پر کہیں جا رہا تھا۔ ساتھ کیپشن لکھا: 'اسٹاک مارکیٹ سے گھر جاتے ہوئے'۔
ایک صاحب کو وہ شخص یاد آیا جس کے کان غیر معمولی طور پر لمبے ہیں۔ انھوں نے لکھا: 'چار دن گھر میں بند ہو کر بیوی کی باتیں سننے کے بعد'۔

کسی فلم بین نے بولی ووڈ کے ولن امرش پوری کی خوفناک تصویر لگائی اور لکھا: 'بیوٹی پارلر بند ہونے سے خواتین کا کیا حال ہوگیا!'

لوگ لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھر میں پڑے پڑے بور ہو رہے ہیں۔ اس عالم میں بھی شاہکار جملے تخلیق کیے جارہے ہیں:

'جلدی سے سو جاؤ، صبح اٹھ کر آرام بھی کرنا ہے'۔
'گھر ٹرین جیسا لگنے لگا ہے، واش روم جاؤ اور پھر واپس آکر سیٹ پر بیٹھ جاؤ۔
باہر نکلو تو کرونا، گھر میں رہو تو یہ کرو نا، وہ کرو نا'۔
کئی لوگوں کو فرصت ملی تو انھوں نے خوب تحقیق کی اور سوشل میڈیا کے دوستوں کو اس میں شریک بھی کیا:

پنکھے کے پر میں نو اسکرو ہوتے ہیں

ٹک بسکٹ میں 31 سوراخ ہوتے ہیں

فل ٹونٹی کھول کر لوٹا بھرنے میں 12 سیکنڈ لگتے ہیں
پنکھا آف کرو تو اسے رکنے میں ایک منٹ پانچ سیکنڈ لگتے ہیں

بیڈروم سے ڈائننگ روم تک کا فاصلہ 25 قدم ہے

دائیں طرف لیٹ کر سونے سے نیند جلدی آتی ہے

لاک ڈاؤن میں گھر سے نکلنے پر پابندی ہے۔ لیکن لوگوں کو اشیائے ضرورت حاصل کرنے کے لیے نکلنا پڑتا ہے۔ پولیس سے ملاقات ہوجائے تو وہ خوب خاطر تواضع کرتی ہے۔ کوئی اس مہمان نوازی سے مستفید ہوکر لوٹا تو یہ شعر ساتھ لایا:

'ایک ہی صف میں مرغا بن گئے محمود و ایاز

نہ کوئی دہی لاسکا، نہ کوئی آلو پیاز'

جن دوستوں کو ستاروں کا حال جاننے کا شوق ہے، ان کے لیے ایک ستارہ شناس نے ہفتے نہیں، پورے مہینے کا حال لکھ دیا ہے:
برج اسد: گھر پر رہیں گے
برج سنبلہ: گھر پر رہیں گے
برج میزان: گھر پر رہیں گے


یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ لطیفے گھڑے جا رہے ہوں تو لوگ اپنی حکومت کو بھول جائیں۔ چنانچہ صولت پاشا صاحب نے فرمایا:
'قیامت کے دن سب نجات طلب کر رہے ہوں گے اور ہماری حکومت چندے کے لیے اوورسیز پاکستانیوں کو ڈھونڈ رہی ہوگی'
ایک مفتی صاحب نے پتا نہیں کرونا وائرس پر طنز کیا یا کسی اور پر:

'کرونا تو ایسے تباہی مچا رہا ہے جیسے بائیس سال جدوجہد کے بعد آیا ہو'

اور معلوم نہیں یہ کس تاریخ داں کا جملہ ہے کہ:

'اس سے پہلے صرف اسلام اتنی تیزی سے پھیلا تھا'

آخر میں ادریس بابر کا شعر جو عالمگیر وبا کے دور میں بھی ہجر کا رونا رو رہے ہیں:

ٹینشن سے مرے گا نہ کرونے سے مرے گا
اک شخص ترے پاس نہ ہونے سے مرے گا
گو 80, 85 فیصد میمز وقتاً فوقتاً نظر سے گزرتے رہی ہیں لیکن دوبارہ سے پڑھ کر مزا آیا۔ عمدہ۔
 

سیما علی

لائبریرین
کورونا کہانی، اپنی زبانی - کشور ناہید
Saturday, 04 Jul, 4.35 pm

تو ہوا یوں کہ میں اور فوزیہ سعید لوک ورثہ میں، میری سالگرہ کا کیک کاٹنے کیلئے گئے۔ کورونا ہمیں دیکھتے ہی حملہ آور ہو گیا اور ٹیسٹ کرانے پر ثابت ہوا کہ ہم کورونا کا شکار ہو چکے ہیں اور اب الگ الگ کمروں میں پندرہ دن کے لئے اپنے اپنے گھر میں مقید ہونا تھا۔ ایسا تو سب کورونا مریضوں کے ساتھ ہوتا ہی ہے مگر ہمارے ساتھ جو عجیب منظر نامہ ہوا، وہ کہانی طلسم ہوشربا سے کم نہیں ہے۔ میں نے دفتر سے اسسٹنٹ کو بلایا کہ یہ کالم لو اور جنگ کو بھیج دو۔ اس نے فوراً کہا اس کو آپ کا کورونا والا ہاتھ لگا ہوا ہے، میں نہیں پکڑوں گا۔ اب میں نے افسر ہونے کے زعم میں باس کو فون کرکے شکایت کی انہوں نے التجا کی کہ آپ کے ہاتھ کے لکھے کو پکڑنے سے صرف ایک بندہ نہیں پورا دفتر بیمار ہو جائے گا، اس لیے معاف فرمائیے۔ اب میں خود دوائیاں لینے گئی۔ جب پیسے دینے لگی، کیشئر نے کہا ''میں چمٹے سے پکڑ کر آپ کے نوٹ لے سکتا ہوں، کیونکہ آپ کو پرانا جانتا ہوں، ورنہ ہم سب کو بھی کورونا ہو جائے گا"۔

اب میں اور فوزیہ اپنے اپنے کمروں میں مقید تھے اور قیدیوں کی طرح کھڑکی بجاکر ہمیں چائے اور کھانا پکڑا دیا جاتا رہا۔ اب ایک اور پُرلطف داستان۔ جب ڈائلسس والے ٹیسٹ کرنے اپنے یونیفارم اور آلات کے ساتھ میرے فلیٹ میں آئے تو سارے فلیٹوں کی کھڑکیوں سے سب ایسے دیکھنے لگے کہ جیسے کوئی بندر کا تماشا ہو رہا ہے۔ جب ٹیسٹ کرنے کے بعد وہ واپس گئے تو سارے فلیٹ والے فون کرکے پوچھتے رہے کہ واقعی آپا کو کورونا ہو گیا ہے۔ بس وہ دن اور آج کا اٹھارہواں دن کہ جب ٹیسٹ کرنے والے دوبارہ آئے اور مطمئن گئے تو گارڈ، ہر فلیٹ والے نے بڑھ کر پوچھا ''اب کورونا تو نہیں ہے''۔

یہ منظر نامہ بتاتا ہے کہ لوگ کورونا سے کس قدر ڈرے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود کہ روز ایک نہ ایک سیکٹر میں لاک ڈاؤن ہو رہا ہے۔ واقعی بداحتیاطی کے باعث ہی کورونا پھیلتا رہا ہے۔ اس ڈرامائی تشکیل کو سنانے کا مطلب یہ بھی تھا کہ ڈرنا واقعی نہیں چاہئے، البتہ لڑنا چاہئے۔ مگر میں تو اتنا لڑی کہ معلوم نہیں ڈاکٹر زینت کی دوائیوں کے باعث میں دن اور رات میں زیادہ وقت سوتی رہی۔ لوگوں نے ڈرایا تھا کہ بخار ہوگا جسم میں درد ہوگا، سانس مشکل سے آئے گا۔ میں ان سب ڈراؤنے حملوں سے ڈرتی رہی اور وہ سب شاید مجھ سے ڈرتے رہے۔ بہرحال 18دن کی قید بامشقت گزار کر اور بے پناہ سوپ، افتخار عارف کے بھیجے ہوئے بےشمار فروٹ زبردستی کھاتی رہی۔ ہر روز کسی نہ کسی دوست کے گھر سے سوپ آجاتا، یخنی آجاتی، ناپسند ہونے کے باوجود دوستوں کی محبت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے زبردستی پیتی رہی۔ ہر روز میری ڈاکٹر زینت اس قدر تفصیل سے چیک کرتی رہی اور ثمر من اللہ میرا ٹمپریچر صبح شام چیک کرتی رہی۔ سارے دوستوں کو مطمئن کرنے کیلئے، حمید شاہد، طاہرہ عبداللہ اور صنوبر کی ڈیوٹی لگی تھی کہ ساری دنیا کے فون ہر لمحہ آرہے تھے۔ میں بھی کیسی ڈھیٹ ہوں کورونا کو بھگا دیا اور اب آپ سے مخاطب ہوں۔

فوزیہ سعید نے کورونا کے باوجود، سارے دوستوں کو زوم پر اکٹھا کیا۔ مزے مزے کی میرے بارے میں گفتگو کی۔ کیک کاٹا اور یوں سر پر ٹھہری ہوئی بلا کو ٹالا۔ اس سارے ماحول اور لوگوں کے رویے سے یہ اندازہ ہوا کہ لوگ کورونا سے لڑ نہیں بلکہ ڈر رہے ہیں۔ سب لوگوں نے گھروں میں کام کرنے والی عورتوں کو آنے سے روک دیا ہے۔ یہ احتیاط نہیں، واقعی ڈر ہے۔ کورونا والے شخص سے تو خیر ہاتھ نہیں ملانا چاہئے کہ کسی دوسرے سے ہاتھ ملانا احتیاطاً منع ہے مگر ایک ہاتھ سے نوٹ پکڑنا، مضمون پکڑنا، یہ ساری باتیں احتیاط کے ضمن میں نہیں بلکہ خوف کے ضمن میں آتی ہیں۔ ہم لوگوں نے اچھوت اور کورونا کو ایک کر دیا ہے۔ میرے علم میں ہے کہ والد کے مرنے پر اولاد قبر میں اتارنے سے ڈرتی ہے۔ اگر ہر ایک کا دن مقرر ہے تو پھر یہ خوف کیوں؟ کیا زندگی رشتوں سے زیادہ عزیز ہے؟ ادھر ملک بھر میں سینکڑوں لوگ کورونا سے مر رہے ہیں۔ اُدھر بجٹ پاس کرانے کے لئے اس سادہ وزیراعظم کی جانب سے ووٹ لینے کے لئے ڈنر کا اہتمام کیا جا رہا ہے، دوسری طرف ناراض گروپ، اپنے مرغن کھانے کھا رہا ہے۔ خیر یہ تو کوئی نئی بات نہیں۔ ہر سال یونہی ہوتا ہے۔ مگر کیا ہی اچھا ہوکہ روسی صدر پیوٹن کی طرح اپنے دورِ حکومت کو 30برس تک بڑھا دیں، ناراض اور مخالف گروپ کا کام تو ہے ہی رولا ڈالنا۔ وہ اپنے کام پر لگے رہیں۔ بازار میں چینی 140 روپے ملتی رہے۔ آخر چینی کھانا چھوڑ دیں گے۔

کورونا کے باعث دو اہم تبدیلیاں آئی ہیں۔ ایک تو جارج فلائیڈ کے بے رحمانہ قتل اور وہ بھی سفید فام پولیس کی سفاکی سے، جسے دنیا بھر نے دیکھا۔ دنیا کے ہر ملک (سوائے برصغیر) نے 18دن تک شدید مظاہرے کیے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا بھر کی بیوٹی کریم کمپنی والوں نے رنگ گورا کرنے کی اصطلاح قطعی ختم کر دی ہے۔ اخباروں سے لیکر مضامین تک میں کالے گورے کی تخصیص ختم کر دی گئی ہے۔

دنیا میں ویسے ایک تحریک چلی ہے کہ کورونا کے باعث چونکہ 6ماہ تک ڈیزائنرز کے کپڑے نہیں فروخت ہوئے۔ زیادہ تر خواتین نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ نئے کپڑے نہیں خریدیں گی۔ پچھلے سال کے کپڑوں کو کہیں بلاک پرنٹنگ کرا کر، کہیں کچھ کپڑوں کو نئے جوڑ لگوا کر رلی جیسے ڈیزائن بنا لیں گی۔ ہماری ڈیزائنرز کی دکانیں بھی کم قیمت پر کپڑے فروخت کرکے، خسارے کو پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ کاش ہماری خواتین بھی سگھڑ پن کرکے پرانے کپڑوں کو نیا بنا لیں۔ میری خوش فہمی کی بھی کوئی حد نہیں۔

(بہ شکریہ روزنامہ جنگ)



 

سیما علی

لائبریرین
کورونا برگر کے بعد پیش ہے کورونا کیک
ویب ڈیسک

April 05, 2020



217878_7554511_updates.jpg

فوٹو: بشکریہ فرانس 24
خطرناک عالمی وبا کورونا وائرس سے بچاؤ اور اس کی روک تھام اور آگاہی کے لیے دنیا بھر میں اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

کورونا وائرس سے متعلق آگاہی کے لیے دنیا بھر میں انوکھے اور عجیب و غریب واقعات بھی دیکھنے میں آ رہے ہیں جو سب کی توجہ کا مرکز بن رہے ہیں۔

چند روز قبل کورونا وائرس کے خوف کو دور کرنے کے لیے ویتنام کے ایک شیف نے صارفین کو انوکھی پیشکش کی تھی جس میں انہوں نے کورونا وائرس کی مائیکرو اسکوپک تصویر کی طرح کا برگر بنایا تھا۔


'کورونا برگر' کھاکر وائرس کا ڈر بھگائیں


اب ایک اور نئی چیز دیکھنے میں آئی ہے، فلسطین سے تعلق رکھنے والے ایاد ابو رزاق نامی شیف نے لوگوں کو "کورونا کیک" کی پیشکش کرنے کا سوچا۔

جی ہاں! فلسطین کے شہر غزہ کی بیکری کے سربراہ خان یونس نے "کورونا کیک" بنایا جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک خاتون نے نیلے رنگ کا فیس ماسک پہن رکھا ہے۔

"کورونا کیک" پر فیس ماسک کے ساتھ بنی خاتون اس بات کی نشاندہی کر رہی ہیں کہ کورونا وائرس سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اور سماجی دوری اختیار کرنا کتنا ضروری ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق بیکری کی جانب سے سب سے پہلے سوشل میڈیا پر اس کیک کا ڈیزائن شیئر کیا گیا جس کے بعد اب بے شمار لوگوں کی جانب سے اس کیک کے لیے آرڈر دیئے جا رہے ہیں۔
اس حوالے سے شیف ابو رزاق جنہوں نے اس کیک کا آئیڈیا پیش کیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ روز بروز اس کیک کو خریدنے والے صارفین کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
انہوں نے زور دیتے ہوئےکہا کہ ہم اس وائرس کے خطرے کو کم تو نہیں کر سکتے لیکن ہم اس حوالے سے لوگوں کو سماجی دوری اختیار کرنے کا شعور ضرور فراہم کر سکتے ہیں۔
ابو رزاق نے مزید کہا کہ ہمارا اسٹاف مکمل حفاظتی اقدامات کے ساتھ کیک کی تیاری کرتا ہے۔


خیال رہے کہ غزہ میں اس وقت کورونا وائرس سے متاثرہ 12 افراد کی تصدیق کی جاچکی ہے جنہیں مکمل آئسولیشن میں رکھا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
چور کورونا کے حفاظتی لباس میں آئے اور سونا لُوٹ کر چلتے بنے
دنیا- ہوم پیج
منگل 7 جولائی 2020 15:34
819876-34656443.jpg


سنار کا کہنا ہے کہ چوروں نے 78 تولے سونا لُوٹا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
چور عموماً جب چوری کرنے آتے ہیں تو کپڑے وغیرہ سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیتے ہیں تاکہ اُن کی شناخت نہ ہوسکے، لیکن انڈیا میں چوروں نے اب ایک نیا طریقہ واردات ڈھونڈ لیا ہے۔
انڈین نیوز چینل این ڈی ٹی وی کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ ریاست مہاراشٹر کے ستارہ ضلع میں چوروں نے کورونا وائرس کی وبا سے بچاؤ کے لیے بنائے گئے حفاظتی لباس پہن کر سنار کی دکان لُوٹی اور 780 گرام سونا چوری کر کے چلے گئے۔
پولیس نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کر لی ہے جس میں چوروں کو شو کیس اور الماریوں سے سونے کے زیورات چراتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
پولیس نے دکان کے مالک کی درخواست کے بعد مقدمہ درج کر لیا ہے۔ مالک کا کہنا ہے کہ چوروں نے 78 تولے سونا لُوٹا ہے
ے

انڈیا سے آئے روز انوکھی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ تین روز قبل مہاراشٹر ہی کے شہر پُونے میں ایک شخص نے کورونا سے بچاؤ کے لیے تقریباً تین لاکھ انڈین روپے کا ماسک بنوایا۔
انڈین نیوز ایجنسی اے این آئی اور این ڈی ٹی وی کے مطابق شنکر کرادے کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک باریک ماسک ہے جس کے اندر چھوٹے چھوٹے سوراخ ہیں تاکہ سانس آسانی سے لیا جا سکے۔‘


2019-01-31t051450z_1_lynxnpef0u085_rtroptp_3_iraq-crisis_1550146671023_1562380686695.jpg

پولیس نے دکان کے مالک کی درخواست کے بعد مقدمہ درج کر لیا ہے (فوٹو: روئٹرز)




 

سیما علی

لائبریرین
کورونا کہانی، اپنی زبانی - کشور ناہید

ہفتہ 4 جولائی 2020

تو ہوا یوں کہ میں اور فوزیہ سعید لوک ورثہ میں، میری سالگرہ کا کیک کاٹنے کیلئے گئے۔ کورونا ہمیں دیکھتے ہی حملہ آور ہو گیا اور ٹیسٹ کرانے پر ثابت ہوا کہ ہم کورونا کا شکار ہو چکے ہیں اور اب الگ الگ کمروں میں پندرہ دن کے لئے اپنے اپنے گھر میں مقید ہونا تھا۔ ایسا تو سب کورونا مریضوں کے ساتھ ہوتا ہی ہے مگر ہمارے ساتھ جو عجیب منظر نامہ ہوا، وہ کہانی طلسم ہوشربا سے کم نہیں ہے۔ میں نے دفتر سے اسسٹنٹ کو بلایا کہ یہ کالم لو اور جنگ کو بھیج دو۔ اس نے فوراً کہا اس کو آپ کا کورونا والا ہاتھ لگا ہوا ہے، میں نہیں پکڑوں گا۔ اب میں نے افسر ہونے کے زعم میں باس کو فون کرکے شکایت کی انہوں نے التجا ک کی نببکہ آپ کے ہاتھ کے لکھے کو پکڑنے سے صرف ایک بندہ نہیں پورا دفتر بیمار ہو جائے گا، اس لیے معاف فرمائیے۔ اب میں خود دوائیاں لینے گئی۔ جب پیسے دینے لگی، کیشئر نے کہا ''میں چمٹے سے پکڑ کر آپ کے نوٹ لے سکتا ہوں، کیونکہ آپ کو پرانا جانتا ہوں، ی ہم سب کو بھی کورونا ہو جائے گا"۔
اب میں اور فوزیہ اپنے اپنے کمروں میں مقید تھے اور قیدیوں کی طرح کھڑکی بجاکر ہمیں چائے اور کھانا پکڑا دیا جاتا رہا۔ اب ایک اور پُرلطف داستان۔ جب ڈائلسس والے ٹیسٹ کرنے اپنے یونیفارم اور آلات کے ساتھ میرے فلیٹ میں آئے تو سارے فلیٹوں کی کھڑکیوں سے سب ایسے دیکھنے لگے کہ جیسے کوئی بندر کا تماشا ہو رہا ہے۔ جب ٹیسٹ کرنے کے بعد وہ واپس گئے تو سارے فلیٹ والے فون کرکے پوچھتے رہے کہ واقعی آپا کو کورونا ہو گیا ہے۔ بس وہ دن اور آج کا اٹھارہواں دن کہ جب ٹیسٹ کرنے والے دوبارہ آئے اور مطمئن گئے تو گارڈ، ہر فلیٹ والے نے بڑھ کر پوچھا ''اب کورونا تو نہیں ہے''۔
یہ منظر نامہ بتاتا ہے کہ لوگ کورونا سے کس قدر ڈرے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود کہ روز ایک نہ ایک سیکٹر میں لاک ڈاؤن ہو رہا ہے۔ واقعی بداحتیاطی کے باعث ہی کورونا پھیلتا رہا ہے۔ اس ڈرامائی تشکیل کو سنانے کا مطلب یہ بھی تھا کہ ڈرنا واقعی نہیں چاہئے، البتہ لڑنا چاہئے۔ مگر میں تو اتنا لڑی کہ معلوم نہیں ڈاکٹر زینت کی دوائیوں کے باعث میں دن اور رات میں زیادہ وقت سوتی رہی۔ لوگوں نے ڈرایا تھا کہ بخار ہوگا جسم میں درد ہوگا، سانس مشکل سے آئے گا۔ میں ان سب ڈراؤنے حملوں سے ڈرتی رہی اور وہ سب شاید مجھ سے ڈرتے رہے۔ بہرحال 18دن کی قید بامشقت گزار کر اور بے پناہ سوپ، افتخار عارف کے بھیجے ہوئے بےشمار فروٹ زبردستی کھاتی رہی۔ ہر روز کسی نہ کسی دوست کے گھر سے سوپ آجاتا، یخنی آجاتی، ناپسند ہونے کے باوجود دوستوں کی محبت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے زبردستی پیتی رہی۔ ہر روز میری ڈاکٹر زینت اس قدر تفصیل سے چیک کرتی رہی اور ثمر من اللہ میرا ٹمپریچر صبح شام چیک کرتی رہی۔ سارے دوستوں کو مطمئن کرنے کیلئے، حمید شاہد، طاہرہ عبداللہ اور صنوبر کی ڈیوٹی لگی تھی کہ ساری دنیا کے فون ہر لمحہ آرہے تھے۔ میں بھی کیسی ڈھیٹ ہوں کورونا کو بھگا دیا اور اب آپ سے مخاطب ہوں۔
فوزیہ سعید نے کورونا کے باوجود، سارے دوستوں کو زوم پر اکٹھا کیا۔ مزے مزے کی میرے بارے میں گفتگو کی۔ کیک کاٹا اور یوں سر پر ٹھہری ہوئی بلا کو ٹالا۔ اس سارے ماحول اور لوگوں کے رویے سے یہ اندازہ ہوا کہ لوگ کورونا سے لڑ نہیں بلکہ ڈر رہے ہیں۔ سب لوگوں نے گھروں میں کام کرنے والی عورتوں کو آنے سے روک دیا ہے۔ یہ احتیاط نہیں، واقعی ڈر ہے۔ کورونا والے شخص سے تو خیر ہاتھ نہیں ملانا چاہئے کہ کسی دوسرے سے ہاتھ ملانا احتیاطاً منع ہے مگر ایک ہاتھ سے نوٹ پکڑنا، مضمون پکڑنا، یہ ساری باتیں احتیاط کے ضمن میں نہیں بلکہ خوف کے ضمن میں آتی ہیں۔ ہم لوگوں نے اچھوت اور کورونا کو ایک کر دیا ہے۔ میرے علم میں ہے کہ والد کے مرنے پر اولاد قبر میں اتارنے سے ڈرتی ہے۔ اگر ہر ایک کا دن مقرر ہے تو پھر یہ خوف کیوں؟ کیا زندگی رشتوں سے زیادہ عزیز ہے؟ ادھر ملک بھر میں سینکڑوں لوگ کورونا سے مر رہے ہیں۔ اُدھر بجٹ پاس کرانے کے لئے اس سادہ وزیراعظم کی جانب سے ووٹ لینے کے لئے ڈنر کا اہتمام کیا جا رہا ہے، دوسری طرف ناراض گروپ، اپنے مرغن کھانے کھا رہا ہے۔ خیر یہ تو کوئی نئی بات نہیں۔ ہر سال یونہی ہوتا ہے۔ مگر کیا ہی اچھا ہوکہ روسی صدر پیوٹن کی طرح اپنے دورِ حکومت کو 30برس تک بڑھا دیں، ناراض اور مخالف گروپ کا کام تو ہے ہی رولا ڈالنا۔ وہ اپنے کام پر لگے رہیں۔ بازار میں چینی 140 روپے ملتی رہے۔ آخر چینی کھانا چھوڑ دیں گے۔
کورونا کے باعث دو اہم تبدیلیاں آئی ہیں۔ ایک تو جارج فلائیڈ کے بے رحمانہ قتل اور وہ بھی سفید فام پولیس کی سفاکی سے، جسے دنیا بھر نے دیکھا۔ دنیا کے ہر ملک (سوائے برصغیر) نے 18دن تک شدید مظاہرے کیے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا بھر کی بیوٹی کریم کمپنی والوں نے رنگ گورا کرنے کی اصطلاح قطعی ختم کر دی ہے۔ اخباروں سے لیکر مضامین تک میں کالے گورے کی تخصیص ختم کر دی گئی ہے۔
دنیا میں ویسے ایک تحریک چلی ہے کہ کورونا کے باعث چونکہ 6ماہ تک ڈیزائنرز کے کپڑے نہیں فروخت ہوئے۔ زیادہ تر خواتین نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ نئے کپڑے نہیں خریدیں گی۔ پچھلے سال کے کپڑوں کو کہیں بلاک پرنٹنگ کرا کر، کہیں کچھ کپڑوں کو نئے جوڑ لگوا کر رلی جیسے ڈیزائن بنا لیں گی۔ ہماری ڈیزائنرز کی دکانیں بھی کم قیمت پر کپڑے فروخت کرکے، خسارے کو پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ کاش ہماری خواتین بھی سگھڑ پن کرکے پرانے کپڑوں کو نیا بنا لیں۔ میری خوش فہمی کی بھی کوئی حد نہیں۔
(
تو ہوا یوں کہ میں اور فوزیہ سعید لوک ورثہ میں، میری سالگرہ کا کیک کاٹنے کیلئے گئے۔ کورونا ہمیں دیکھتے ہی حملہ آور ہو گیا اور ٹیسٹ کرانے پر ثابت ہوا کہ ہم کورونا کا شکار ہو چکے ہیں اور اب الگ الگ کمروں میں پندرہ دن کے لئے اپنے اپنے گھر میں مقید ہونا تھا۔ ایسا تو سب کورونا مریضوں کے ساتھ ہوتا ہی ہے مگر ہمارے ساتھ جو عجیب منظر نامہ ہوا، وہ کہانی طلسم ہوشربا سے کم نہیں ہے۔ میں نے دفتر سے اسسٹنٹ کو بلایا کہ یہ کالم لو اور جنگ کو بھیج دو۔ اس نے فوراً کہا اس کو آپ کا کورونا والا ہاتھ لگا ہوا ہے، میں نہیں پکڑوں گا۔ اب میں نے افسر ہونے کے زعم میں باس کو فون کرکے شکایت کی انہوں نے التجا ک کی نببکہ آپ کے ہاتھ کے لکھے کو پکڑنے سے صرف ایک بندہ نہیں پورا دفتر بیمار ہو جائے گا، اس لیے معاف فرمائیے۔ اب میں خود دوائیاں لینے گئی۔ جب پیسے دینے لگی، کیشئر نے کہا ''میں چمٹے سے پکڑ کر آپ کے نوٹ لے سکتا ہوں، کیونکہ آپ کو پرانا جانتا ہوں، ی ہم سب کو بھی کورونا ہو جائے گا"۔
اب میں اور فوزیہ اپنے اپنے کمروں میں مقید تھے اور قیدیوں کی طرح کھڑکی بجاکر ہمیں چائے اور کھانا پکڑا دیا جاتا رہا۔ اب ایک اور پُرلطف داستان۔ جب ڈائلسس والے ٹیسٹ کرنے اپنے یونیفارم اور آلات کے ساتھ میرے فلیٹ میں آئے تو سارے فلیٹوں کی کھڑکیوں سے سب ایسے دیکھنے لگے کہ جیسے کوئی بندر کا تماشا ہو رہا ہے۔ جب ٹیسٹ کرنے کے بعد وہ واپس گئے تو سارے فلیٹ والے فون کرکے پوچھتے رہے کہ واقعی آپا کو کورونا ہو گیا ہے۔ بس وہ دن اور آج کا اٹھارہواں دن کہ جب ٹیسٹ کرنے والے دوبارہ آئے اور مطمئن گئے تو گارڈ، ہر فلیٹ والے نے بڑھ کر پوچھا ''اب کورونا تو نہیں ہے''۔
یہ منظر نامہ بتاتا ہے کہ لوگ کورونا سے کس قدر ڈرے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود کہ روز ایک نہ ایک سیکٹر میں لاک ڈاؤن ہو رہا ہے۔ واقعی بداحتیاطی کے باعث ہی کورونا پھیلتا رہا ہے۔ اس ڈرامائی تشکیل کو سنانے کا مطلب یہ بھی تھا کہ ڈرنا واقعی نہیں چاہئے، البتہ لڑنا چاہئے۔ مگر میں تو اتنا لڑی کہ معلوم نہیں ڈاکٹر زینت کی دوائیوں کے باعث میں دن اور رات میں زیادہ وقت سوتی رہی۔ لوگوں نے ڈرایا تھا کہ بخار ہوگا جسم میں درد ہوگا، سانس مشکل سے آئے گا۔ میں ان سب ڈراؤنے حملوں سے ڈرتی رہی اور وہ سب شاید مجھ سے ڈرتے رہے۔ بہرحال 18دن کی قید بامشقت گزار کر اور بے پناہ سوپ، افتخار عارف کے بھیجے ہوئے بےشمار فروٹ زبردستی کھاتی رہی۔ ہر روز کسی نہ کسی دوست کے گھر سے سوپ آجاتا، یخنی آجاتی، ناپسند ہونے کے باوجود دوستوں کی محبت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے زبردستی پیتی رہی۔ ہر روز میری ڈاکٹر زینت اس قدر تفصیل سے چیک کرتی رہی اور ثمر من اللہ میرا ٹمپریچر صبح شام چیک کرتی رہی۔ سارے دوستوں کو مطمئن کرنے کیلئے، حمید شاہد، طاہرہ عبداللہ اور صنوبر کی ڈیوٹی لگی تھی کہ ساری دنیا کے فون ہر لمحہ آرہے تھے۔ میں بھی کیسی ڈھیٹ ہوں کورونا کو بھگا دیا اور اب آپ سے مخاطب ہوں۔
فوزیہ سعید نے کورونا کے باوجود، سارے دوستوں کو زوم پر اکٹھا کیا۔ مزے مزے کی میرے بارے میں گفتگو کی۔ کیک کاٹا اور یوں سر پر ٹھہری ہوئی بلا کو ٹالا۔ اس سارے ماحول اور لوگوں کے رویے سے یہ اندازہ ہوا کہ لوگ کورونا سے لڑ نہیں بلکہ ڈر رہے ہیں۔ سب لوگوں نے گھروں میں کام کرنے والی عورتوں کو آنے سے روک دیا ہے۔ یہ احتیاط نہیں، واقعی ڈر ہے۔ کورونا والے شخص سے تو خیر ہاتھ نہیں ملانا چاہئے کہ کسی دوسرے سے ہاتھ ملانا احتیاطاً منع ہے مگر ایک ہاتھ سے نوٹ پکڑنا، مضمون پکڑنا، یہ ساری باتیں احتیاط کے ضمن میں نہیں بلکہ خوف کے ضمن میں آتی ہیں۔ ہم لوگوں نے اچھوت اور کورونا کو ایک کر دیا ہے۔ میرے علم میں ہے کہ والد کے مرنے پر اولاد قبر میں اتارنے سے ڈرتی ہے۔ اگر ہر ایک کا دن مقرر ہے تو پھر یہ خوف کیوں؟ کیا زندگی رشتوں سے زیادہ عزیز ہے؟ ادھر ملک بھر میں سینکڑوں لوگ کورونا سے مر رہے ہیں۔ اُدھر بجٹ پاس کرانے کے لئے اس سادہ وزیراعظم کی جانب سے ووٹ لینے کے لئے ڈنر کا اہتمام کیا جا رہا ہے، دوسری طرف ناراض گروپ، اپنے مرغن کھانے کھا رہا ہے۔ خیر یہ تو کوئی نئی بات نہیں۔ ہر سال یونہی ہوتا ہے۔ مگر کیا ہی اچھا ہوکہ روسی صدر پیوٹن کی طرح اپنے دورِ حکومت کو 30برس تک بڑھا دیں، ناراض اور مخالف گروپ کا کام تو ہے ہی رولا ڈالنا۔ وہ اپنے کام پر لگے رہیں۔ بازار میں چینی 140 روپے ملتی رہے۔ آخر چینی کھانا چھوڑ دیں گے۔
کورونا کے باعث دو اہم تبدیلیاں آئی ہیں۔ ایک تو جارج فلائیڈ کے بے رحمانہ قتل اور وہ بھی سفید فام پولیس کی سفاکی سے، جسے دنیا بھر نے دیکھا۔ دنیا کے ہر ملک (سوائے برصغیر) نے 18دن تک شدید مظاہرے کیے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا بھر کی بیوٹی کریم کمپنی والوں نے رنگ گورا کرنے کی اصطلاح قطعی ختم کر دی ہے۔ اخباروں سے لیکر مضامین تک میں کالے گورے کی تخصیص ختم کر دی گئی ہے۔
دنیا میں ویسے ایک تحریک چلی ہے کہ کورونا کے باعث چونکہ 6ماہ تک ڈیزائنرز کے کپڑے نہیں فروخت ہوئے۔ زیادہ تر خواتین نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ نئے کپڑے نہیں خریدیں گی۔ پچھلے سال کے کپڑوں کو کہیں بلاک پرنٹنگ کرا کر، کہیں کچھ کپڑوں کو نئے جوڑ لگوا کر رلی جیسے ڈیزائن بنا لیں گی۔ ہماری ڈیزائنرز کی دکانیں بھی کم قیمت پر کپڑے فروخت کرکے، خسارے کو پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ کاش ہماری خواتین بھی سگھڑ پن کرکے پرانے کپڑوں کو نیا بنا لیں۔ میری خوش فہمی کی بھی کوئی حد نہیں۔
(بہ شکریہ روزنامہ جنگ)
 
Top