مشورہْ سخن

الف عین

لائبریرین
کل اقبال بھائی (مصحف اقبال توصیفی) سے گفتگو میں تین اشعار پر مشورۂ سخن ہوا۔
پہلے ان کے اشعار

وہ مل جائے تو ہم ڈھونڈھیں گے خود کو
اسے ڈھونڈھا ہے اتنا، کھو گئے ہم
قسم لے لو ، ابھی جو گھر سے نکلے
تو کیسے اس گلی میں کھو گئے ہم
پھر ان خوابوں کی پیشانی کو چوما
پھر ان راتوں سے رخصت ہو گئے ہم

اب ان کا سوال تھا کہ
1۔ پہلے شعر کے پہلے مصرعے میں کیا لفظ ہو
وہ مل جائے تو پھر ڈھونڈھیں گے خود کو
وہ مل جائے تو اب ڈھونڈھیں گے خود کو
وہ مل جائے تو ہم ڈھونڈھیں گے خود کو

میرا مشورہ تھا۔۔۔ ’پھر‘ ہی بہتر ہے، تو فائنل شعر ہوا (اگر مزید تبدیلی کا موڈ نہ بنا اقبال بھائی کا تو۔۔۔)
وہ مل جائے تو پھر ڈھونڈھیں گے خود کو
اسے ڈھونڈھا ہے اتنا، کھو گئے ہم

2۔ دوسرے شعر میں دوسرے مصرع کا کوئی متبادل؟ اس لئے کہ ’اس گلی سے‘ کچھ روایتی ہو جاتا ہے۔ میرا بھی خیال تھا کہ اس سے معنی کی صرف وہی پرت رہتی ہے کہ کوچۂ جاناں میں۔۔ اگر اسے ’راستے‘ کر دیا جائے تو شعر زیادہ تہہ دار ہو جاتا ہے۔ تو اب فائنل شعر ہوا
قسم لے لو ، ابھی جو گھر سے نکلے
تو کیسے راستے میں کھو گئے ہم

3۔ تیسرے شعر کا پہلا مصرع
پھر ان خوابوں کی پیشانی کو چوما
کا ایک یہ روپ ہو سکتا ہے:
تو ہم نے اپنی آنکھیں بند کر لیں
یا
اب ہم نے اپنی آنکھیں بند کر لیں
یا
پھر ہم نے اپنی آنکھیں بند کر لیں

میرا خیال تھا کہ خوابوں کی پیشانیوں کا محل تھا۔ دونوں جگہ جمع لائی جائے، اگرچہ اقبال بھائی متفق نہیں تھے۔ لیکن دوسرا متبادل مصرع مجھے زیادہ پسند آیا تھا، لیکن ’اب ہم‘ اور ’پھر ہم‘ میں ’ہ‘ گر رہی تھی، "پرم" یا "ابم" تقطیع پو رہی تھی، صرف ’تو‘ وزن میں آ رہا تھا۔۔ لیکن میں نے مشورہ دہا کہ اسے "لو‘ سے بدل دیں تو کیسا رہے۔ اقبال بھائی کو بھی پسند آیا اور اب اس شعر کا نیا روپ ہے
لو ہم نے اپنی آنکھیں بند کر لیں
پھر ان راتوں سے رخصت ہو گئے ہم

احباب دیکھیں کہ شاعر کا فکری عمل اور دوسروں کا مشورہ کس طرح کام کرتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت خوبصورت اور پیداواری گفتگو رہی اعجاز صاحب، آپ کی اور توصیفی صاحب کی، دل خوش ہوا یہ روداد پڑھ کر :)

دوسرا شعر مجھے جی جان سے پسند آیا ہے، کیا خوبصورت شعر ہے، اور گلی سے راستے کے سفر نے بھی اس شعر کو بہت سی منزلیں طے کرا دی ہیں، واہ واہ واہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قسم لے لو ، ابھی جو گھر سے نکلے
تو کیسے راستے میں کھو گئے ہم
 

فرخ منظور

لائبریرین
اعجاز صاحب اچھی گفتگو رہی لیکن اگر راستے کی بجائے رہ گزر آجائے تو کیا وزن میں ہوگا؟
قسم لے لو ، ابھی جو گھر سے نکلے
تو کیسے رہگزر میں کھو گئے ہم
 

فرخ منظور

لائبریرین
قسم لے لو ، ابھی جو گھر سے نکلے
تو کیسے راستے میں کھو گئے ہم​

اس شعر میں شاعر کہنا کیا چاہ رہا ہے؟ :(

عمار میاں بہت خوبصورت شعر ہے۔ بس سمجھو جب ایسے اشعار بغیر سوچے آپ کی سمجھ میں آنے لگ گئے اسی دن آپ کی غزل میں بھی خیال کی وسعت پیدا ہوجائے گی۔ :)
 

الف عین

لائبریرین
اس دھاگے کو استقلال دے دوں..
رات ایک شعر وارد ہوا ہے، اس پر مشورہ درکار ہے
زمین عرفان صدیقی کی مشہور غزل کی ہے.
عرض کیا ہے:
ہم اہلِ کارِ موسیٰ کہاں تھے جو یوں کہیں
فرعون غرقِ موجِ بلا کیوں نہیں ہوا

میں پہلے مصرعے سے ذرا مطمئن نہیں ہوں، اضافتیں اگر نہ دی جائیں، تو لوگ اہلکار پڑھ سکتے ہیں.
احباب کسی متبادل مصرع کی صلاح دیں.
 

محمد وارث

لائبریرین
میرے خیال میں اعجاز صاحب آپ کو 'اہلِ کارِ موسی' والا خدشہ ہی اس مصرعہ کو برقرار رکھنے سے روک رہا ہے، جو کہ بہت حد تک ایک جائز خدشہ ہے وگرنہ مصرع اس حالت میں بھی بہت اچھا ہے!

باقی اصلاح والی بات پر فاروقی صاحب نے حرفِ آخر کہہ دیا، آپ کو خود ہی کوئی بہتر حل نکالنا ہوگا :)
 

محمد وارث

لائبریرین
بھئی، سب کی دیکھا دیکھی تعریف کرنی ہو تو میں بھی کردوں۔۔۔ مطلب تو بتائیں نا :(

عمار مطلب تو وہی ہے جو شعر کو پڑھ کر سب سے پہلے ذہن میں آتا ہے تو لیکن آخر اس کا بھی کیا مطلب ہے تو وہ یہ کہ اس شعر میں ایک 'اسکول آف تھاٹ' یا فلسفے کی ایک سلسلے مثالیت پسندی یا 'آئیڈیل ازم' کا ذکر ہے جن کے نزدیک ظاہری اور حواسِ خمسہ کی دنیا اصل دنیا نہیں ہے جیسا کہ مادیت پسند یا میڑیلیسٹ کہتے ہیں بلکہ ذہن کو مادے پر فوقیت حاصل ہے اور یہ جو دنیا کی بوقلمونیاں ہیں وہ مادے کی کارستانیاں نہیں بلکہ ذہن کی گلکاریاں ہیں۔ (ہزاروں سال سے یہ بحث جاری ہے کہ کون صحیح ہے اور کون غلط لیکن آج تک قطعیت سے کچھ ثابت نہیں ہو سکا۔)

خیر، مجھے تو کچھ ایسا ہی سمجھ آیا ہے یہ شعر :)
 

الف عین

لائبریرین
انیس، صلاح اور اصلاح میں فرق ہے نا!!! میں نے اس دھاگے کا نام ہی مشورہء سخن رکھ چھوڑا ہے۔ فورم نہ سہی، دوسرے شعراء حضرات بھی کبھی کبھی اپنے کسی مصرع پر مطمئن نہ ہوں تو یہاں مشورہ لے سکتے ہیں۔ اگر تم کچھ مشورہ دے دیتے تو کیا میرے استاد ہو جاتے؟ علم تو کبھی مکمل نہیں ہوتا اور انسان ہمہ وقت سیکھتا ہی رہتا ہے۔
شکریہ وارث۔ میرا خیال دونوں طرف تھا۔ اہلکار اور اہلِ کار کا فرق۔۔ اور کارِ موسوی بھی۔ لیکن مؤخر الذکر کی اتنی اہمیت نہیں دیتا!!
 

مغزل

محفلین
انیس، صلاح اور اصلاح میں فرق ہے نا!!! میں نے اس دھاگے کا نام ہی مشورہء سخن رکھ چھوڑا ہے۔ فورم نہ سہی، دوسرے شعراء حضرات بھی کبھی کبھی اپنے کسی مصرع پر مطمئن نہ ہوں تو یہاں مشورہ لے سکتے ہیں۔ اگر تم کچھ مشورہ دے دیتے تو کیا میرے استاد ہو جاتے؟ علم تو کبھی مکمل نہیں ہوتا اور انسان ہمہ وقت سیکھتا ہی رہتا ہے۔

سو فیصد اتفاق ، بابا جانی ویسے کہیں حجاب نظر آئے تو رہنے دیا جائے تو کیا قباحت ہے (کیا کہتے ہیں آپ ):battingeyelashes:
 

مغزل

محفلین
عمار مطلب تو وہی ہے جو شعر کو پڑھ کر سب سے پہلے ذہن میں آتا ہے تو لیکن آخر اس کا بھی کیا مطلب ہے تو وہ یہ کہ اس شعر میں ایک 'اسکول آف تھاٹ' یا فلسفے کی ایک سلسلے مثالیت پسندی یا 'آئیڈیل ازم' کا ذکر ہے جن کے نزدیک ظاہری اور حواسِ خمسہ کی دنیا اصل دنیا نہیں ہے جیسا کہ مادیت پسند یا میڑیلیسٹ کہتے ہیں بلکہ ذہن کو مادے پر فوقیت حاصل ہے اور یہ جو دنیا کی بوقلمونیاں ہیں وہ مادے کی کارستانیاں نہیں بلکہ ذہن کی گلکاریاں ہیں۔ (ہزاروں سال سے یہ بحث جاری ہے کہ کون صحیح ہے اور کون غلط لیکن آج تک قطعیت سے کچھ ثابت نہیں ہو سکا۔)

خیر، مجھے تو کچھ ایسا ہی سمجھ آیا ہے یہ شعر :)

بہت مفصل جواب ہے ،۔ وارث صاحب ، میں ایسے ہی مراسلات کی آپ سےتوقعات رکھتا ہوں کہ جبھی تو ’’ چھیڑ چھاڑ ‘‘ بھی ہوتی ہے ، جانے کیوں آپ عمومی رویے میں گریز برتتے ہیں ۔ جانے کیوں ؟
 

مغزل

محفلین
قسم لے لو ، ابھی جو گھر سے نکلے ----------تو کیسے راستے میں کھو گئے ہم

عمار صاحب۔
ضمیرِ موصولہ کا تخاطب جو کوئی بھی ہو،
اس کا کہنا ہے کہ جب ہم گھر سے ہی نہیں نکلے تو تم کیسے کہتے ہو کہ ہم کہیں راستے میں کھو گئے ہیں۔
اس سے زیادہ سہل ہم سے ممکن نہیں قسم لے لو بھائی۔۔(شعر زبان کا ہے یعنی زبان کا استعمال ہے )
والسلام
 

مغزل

محفلین
شکریہ راجہ جی ، بابا جانی دوبارہ نہیں آئے سو اس لڑی کو قم کہنے حاضر ہوا ہوں۔
 

مغزل

محفلین
ای میل مناسب ہے ، تاکہ ’’ رسید ‘‘ جاری کرسکوں ، اور میرے کھاتے میں محفوظ بھی رہے گی ، والسلام
 
Top